بس اس وقت اس کی حالت دیکھنے کے لائق تھی، یوں لگتا تھا جیسے کسی نے اس کے قدم زمین میں گاڑ دئیے ہیں۔ وہ بالکل ساکت ہو گیا ، ایسا معلوم ہوتا تھا گویا اس کا خون کسی نے نچوڑ لیا ہو، وہ ڈر کے مارے ہل بھی نہیں رہا تھا ، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ مکڑی ہلتے ہی ڈنک مار دے !
“بولو۔۔۔ اب کیا کہتے ہو، میرے اشارے پر یہ مکڑی تمہارے ڈنک مار سکتی ہے، اس کی چالاکی بھی تم نے دیکھ لی کہ یہ کتنی پھرتیلی ہے ، تمہارے چھ کارتوس بے کار گئے” چینی لڑکے نے ان دونوں کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا۔ بھیروں تو جیسے گونگا بن گیا تھا ۔ اس چھوٹے سے چینی لڑکے کی غیر معمولی طاقت کا اندازہ اسے اب ہوا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ کسی معمولی آدمی سے اس کی ٹکر نہیں ہے بلکہ ہوانگ ہو سے مقابلہ کرنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہے، ادھر میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ اگر یہ لڑکا بھی ہماری پارٹی میں شامل ہو جائے تو کتنا اچھا رہے گا ۔ ممکن ہے اس کی پالتو مکڑی ہمیں کبھی کوئی کام دے جائے ، میں نے جب جان سے یہ مشورہ کیا تو وہ بولا۔
“خاموش رہو ، اور ان کے کسی معاملے میں دخل مت دو۔ ”
“دفینہ مل جانے کے بعد میں تمہیں صرف چوتھائی حصہ دوں گا۔ ” ہوانگ ہو نے بھیروں سے کہا:
“بولو، کیا تمہیں یہ سودا منظور ہے؟ ”
بھیروں سر جھکا کر کچھ دیر سوچتا رہا، آخر بولا:
“ہاں مجھے منظور ہے ۔ ”
“اور اگلا چوتھائی ان لوگوں کو جنہیں تم نے گرفتار کر رکھا ہے ۔ ”
“مجھے یہ بھی منظور ہے” بھیروں نے آہستہ سے کہا مگر اچانک یہ بات سن کر جان نے جلدی سے کہا۔
“نہیں، نہیں، ہمیں کوئی خزانہ نہیں چاہئے ۔ ”
“تم نے دیکھا ان شریف لوگوں نے کیا کہا؟ ”
ہوانگ ہو نے تعریفی نظروں سے جان کو دیکھتے ہوئے کہا:
“جن لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ خزانے اور دفینے کتنی مصیبت اور پریشانی لاتے ہیں وہ انہیں پسند نہیں کرتے ، خیر یہ تو میری مرضی ہے کہ میں کس کو کیا دوں ، میں چاہوں تو اکیلا ہی اس خزانے تک پہنچ سکتا ہوں، مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ وہ کس جگہ دبا ہوا ہے ، میری مکڑی مجھے اس مقام کا پتہ بتا دے گی، میں تم سے وہ جگہ کھدواؤں گا جو کنوئیں جیسی ہے ، جنوبی ہند کے ان مقامی لوگوں کی زبان میں پما کنوئیں کو اور کوٹی پہاڑ کو کہتے ہیں ۔ وہ پہاڑ ایک کنوئیں جیسا ہے ۔ تم دیکھ ہی لو گے ۔ اب مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تمہیں معلوم ہے کہ شہنشاہ چی ای تھاؤ نے اتنی دور آ کر اپنا خزانہ پماکوٹی پر کیوں دبایا؟ ”
“نہیں۔۔ ہمیں نہیں معلوم” آفت سنگھ اور بھیروں ے ایک ساتھ جواب دیا۔
“شہنشاہ چی ای تھاؤ جب معمولی آدمی تھا تو اس نے مہاتما بدھ کو ماننا چھوڑ دیا۔ اتفاق سے اسی زمانے میں اسے عروج ہوا اور وہ بادشاہ بن گیا ۔ وہ یہ سمجھا کہ بھگوان کوئی چیز نہیں ، خدا کا کوئی وجود نہیں جو کچھ بھی ہوں میں ہوں، یہ تمام دولت میں نے اپنے ہی بل بوتے پر حاصل کی ہے۔ بس اس کا یہ سوچنا تھا کہ اسی دن اس کا زوال شروع ہو گیا ، اسے کسی نے چین میں رہنے نہیں دیا۔ بغاوت ہو گئی اور وہ بھاگ کر یہاں آ گیا۔ اس نے ایک عقل مندی یہ کی کہ جس جگہ بھی گیا اپنی نشانیاں چھوڑتا گیا، جب وہ مر گیا تو اس کی انہیں نشانیوں سے اس کے وارثوں کو اس کا پتہ چلا ۔ میں اس کا جائز وارث ہوں ، اور مجھے یہ معلوم ہے کہ اس نے اپنا خزانہ پماکوٹی کی چوٹی پر دبا دیا تھا ۔ بس میں وہ خزانہ لینے آیا ہوں اور جیسا کہ میں نے تم سے کہا ہے کہ تم خزانہ کھودنے میں میری مدد کرو گے ۔ بولو منظور ہے؟ ”
“منظور ہے، مجھے ہر بات منظور ہے” بھیروں گڑگڑا کر بولا:
“مگر۔۔۔ مگر بھگوان کے لئے اس مکڑی کو تو ہٹاؤ۔ ”
ہوانگ ہو نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور مکڑی بھیروں کے شانے پر سے کود کر اس کی ہتھیلی پر جا بیٹھی ۔ یہ بڑا عجیب و غریب لڑکا تھا ، سچ تو یہ ہے کہ وہ تقریباً میری ہی عمرکا تھا ۔ مگر میں اس سے ڈرنے لگا ، مجھے اس کی مکڑی سے بھی خوف محسوس ہونے لگا تھا، بعد میں جان ہم سے مشورہ کرنے لگا ۔ اس کا خیال تھا کہ ہمیں لڑکے کا ساتھ تو دینا چاہئے مگر خزانے کے سلسلے میں کوئی لالچ نہیں ظاہر کرنا چاہئے ، اگر خزانے کا ایک چوتھائی حصہ ہمیں مل گیا تو اسے ہم قبول کر لیں گے ، اگر نہیں ملا تو ہم اصرار بھی نہیں کریں گے ، کیوں کہ ایک بے حد قیمتی اور نایاب خزانے کو ہم پچھلے کھنڈرات میں چھوڑ آئے ہیں، وہ خزانہ ہوانگ ہو والے خزانے سے بہت بڑا ہے ، اور ہمارے لیے وہی کافی ہے ۔
وہ رات اسی مقام پر بسر ہوئی اور ہوانگ ہو کی مکڑی رات بھر اس کا پہرہ دیتی رہی ، اور صبح کے وقت اس نے مکڑی کو دوبارہ سیپ میں بند کرلیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ بھیروں اور آفت سنگھ اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے بھاگنے یا لڑکے کو مار ڈالنے کی ذرا بھی کوشش نہیں کی ، سورج ابھی پوری طرح نکلا بھی نہیں تھا کہ ہمارا قافلہ سب ساز و سامان کے ساتھ پما کوٹی کی طرف روانہ ہو گیا، ہم دیکھ بھال کر آگے قدم بڑھانے لگے، جنگل میں ایک عجیب قسم کی بو پھیلی ہوئی تھی ، اور چاروں سمت ایک پراسرار اور گہرا سناٹا حاوی تھا ، دل خواہ مخواہ تیزی سے سینوں میں دھڑک رہے تھے، ہم جتنا آگے بڑھتے، جھاڑیاں گھنی ہوتی جاتیں اور گنجان جنگل کو دیکھ کر سب کا کلیجہ منہ کو آ رہا تھا ۔ صرف ہوانگ ہو ہی تھا جو بڑی ہمت اور ہوشیاری سے آگے بڑھ رہا تھا ۔ رہے ہم تو ہم تو اس وقت ان تینوں کے رحم و کرم پر تھے، جو وہ چاہتے وہی ہو رہا تھا، جان کا مشورہ تھا کہ ہمیں بھاگنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے، کیونکہ اس کے خیال میں یہی ہمارے حق میں بہتر تھا۔
چار گھنٹے کے بعد ہم پما کوٹی کے دامن میں کھڑے تھے ، یہ پہاڑ بالکل سیدھا تھا، ہوانگ ہو کے حکم پر آفت سنگھ نے اس پر چڑھنے کی بار بار کوشش کی مگر ہر مرتبہ پھسل کر نیچے آ رہا۔ آخر جان کے کہنے پر میں نے اسے مضبوط رسی سامان میں سے نکال کر دی ، رسی کی مدد سے جیک چند ہی منٹ میں اوپر پہنچ گیا اور پھر ایک ایک کر کے ہم رسی کو پکڑ کر اوپر چڑھنے میں کامیاب ہو گئے۔ میں نے دیکھا کہ پہاڑ کی چوٹی بہت خطرناک نظر آتی تھی، اس چوٹی پر صرف ایک درخت تھا بالکل سوکھا ہوا درخت جس کی ٹہنیاں یوں لگتی تھی جیسے موت کے لمبے لمبے ہاتھ ہوں جو اب لپکے اور تب لپکے، درخت کے نیچے ایک انسانی ڈھانچہ پڑا ہوا تھا ، اسے دیکھ کر یہ جگہ دوزخ کا ایک سنسان کونہ دکھائی دیتی تھی۔ ہمارے دل بری طرح دھڑک رہے تھے ، اور ہاتھ پیروں کا دم سا نکلا ہوا تھا ۔ سب کے چہروں پر وحشت برس رہی تھی ، یوں لگتا تھا جیسے ابھی کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔
“یہی وہ جگہ ہے جہاں لازوال دولت کسی اجنبی مسافر کی برسوں سے راہ تک رہی ہے۔ ”
ہوانگ ہو نے کہنا شروع کیا:
“اسی مقام پر کہیں نہ کہیں بے شمار دولت دفن ہے ، جو صرف قسمت والوں ہی کو ملا کرتی ہے، یا پھر ان لوگوں کو ملتی ہے جن کے دل صاف ہوتے ہیں ، نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہوتا ۔ یاد رکھو، یہ بہت مقدس جگہ ہے، شہنشاہ تھاؤ نے مرنے سے پہلے مہاتما بدھ سے توبہ کی تھی اور مرتے وقت اسے مہاتما کے درشن بھی ہوئے تھے ، بس میں نے بہت باتیں کر لیں ، اب فوراً دو کدالیں لے کر تم دونوں کھدائی شرو ع کر دو۔”
آخری فقرے اس نے بھیروں اور آفت سنگھ کو مخاطب کر کے کہے، مرتے کیا نہ کرتے ، دونوں نے کدالیں زمین پر بجانی شرو ع کر دیں۔ خزانہ پانے کی خوشی میں دونوں کا خوف غائب ہو چکا تھا ، اور بھیروں کی نگاہوں میں پھر پہلے جیسی شیطانی چمک پیدا ہو گئی تھی ، آفت سنگھ کا تو بس نہ چلتا تھا ، کہ ایک سیکنڈ میں گڑھے کی مٹی اٹھا کر باہر پھینک دے۔ دونوں کے جسم پسینے سے بھیگ چکے تھے ۔ اور وہ برابر زمین کھودے جا رہے تھے ، آدھ گھنٹے کی جاں توڑ محنت کے بعد آخر کار ایک ایسا صندوق نظر آیا جس پر چینی نقش و نگار بنے ہوئے تھے ، اسے دیکھتے ہی ان تینوں میں یکایک زبردست جوش پیدا ہو گیا البتہ جان اور جیک بالکل بے تعلق خاموش کھڑے رہے، کبڑے کی آنکھوں میں بھی حرص نظر آنے لگی، رہا میں تو میں آپ سے سچ کہتا ہوں مجھے ایسے خزانوں سے ذرہ برابر بھی دلچسپی نہیں تھی۔
بھیروں اور آفت سنگھ نے ہوانگ ہو سے کہا کہ وہ صندوق کا ڈھکنا خود اٹھائے اور دیکھے کہ اس میں کیا ہے ۔ یہ سن کر لڑکا رسی کی مدد سے سنبھل سنبھل کر گڑھے میں اترا۔ یہ گڑھا کھد جانے کے بعد تقریباً پندرہ فٹ کا ہو گیا تھا ،جب وہ نیچے پہنچا تو ہم نے بھی اس کنوئیں میں جھانکا۔ میں نے دیکھا کہ ہوانگ ہو ڈھکنا اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے، بھیروں اور آفت سنگھ خاموش کھڑے تھے ، اچانک میں نے دیکھا کہ بھیروں کا کدال والا ہاتھ اوپر اٹھ رہا تھا ، ہوانگ ہو کو جھکے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں نفرت پیدا ہو گئی اور پھر اس نے کدال پوری قوت سے اٹھا کر لڑکے کی کمر میں پیوست کر دی ، وہ ایک زبردست چیخ مار کر پیچھے کی طرف گرا اور ایسا کرتے وقت صندوق کا ڈھکنا کھول گیا ، ہم نے اوپر سے دیکھا کہ صندوق میں شہنشاہ چی ای تھاؤ کے بیش قیمت کپڑے نظر آ رہے تھے ۔ بھیروں نے مرتے ہوئے لڑکے کی کوئی پرواہ نہ کی بلکہ دونوں ہاتھوں سے اس نے صندوق کا سامان باہر نکالنا شروع کر دیا ۔ ہوانگ ہو ادھ کھلی آنکھوں سے اس کی یہ حرکت دیکھ رہا تھا ، خزانہ تو کیا صندوق میں سے ایک چھوٹا سا سکہ بھی برآمد نہیں ہوا ۔ البتہ چینی زبان میں لکھی ہوئی ایک کاغذ پر چند سطریں ضرور نکلیں ، بھیروں ڈاکو اپنی ناکامی سے پاگل ہو گیا تھا ، اس نے مرتے ہوئے لڑکے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور بولا:
” او بےوقوف بتا یہ کیا لکھا ہے؟ بعد میں آسانی سے مر لیجیو۔ ”
“ہوانگ ہو مسکرایا، اس نے وہ تحریر پڑھی اور اٹک اٹک کر جو کچھ بتایا وہ میں نیچے لکھتا ہوں، اس نے کہا:
” یہی تو وہ دس خزانے ہیں جن کی ہر انسان کو تلاش رہتی ہے ، سنو خزانے کا پہلا انمول موتی یہ ہے کہ ہمیشہ بزرگوں کا ادب کرو، دوسرا یہ کہ کسی کو حقیر نہ سمجھو، تیسرا یہ کہ کمزوروں کا خیال رکھو ، اور ان پر ہاتھ نہ اٹھاؤ، چوتھا یہ کہ دولت سے دور رہو، یہ انسان کو اپنوں سے دور کر دیتی ہے، پھر پانچواں یہ کہ سب کے ساتھ بھلائی کرو، چھٹا یہ کہ مصیبت میں خدا کو یاد کرو ۔ ساتواں یہ کہ عبادت کرو ، یہ برائیوں سے دور رکھتی ہے ۔ آٹھواں خزانہ یہ کہ چھوٹوں سے محبت کرو، نواں یہ کہ لالچ سے دل نہ بھرو اور دسواں خزانہ یہ کہ اپنی موت کو ہمیشہ یاد رکھو۔ ”
ہوانگ ہو نے اتنا کہنے کے بعد بڑی مشکل سے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے اپنی سیپ نکالی اور اس کا ڈھکنا کھول دیا۔ ایسا کرتے ہی مکڑی تو آزاد ہو گئی مگر ہوانگ ہو ہمیشہ کے لیے موت کی قید میں جا بسا۔ مجھے اس چینی لڑکے پر ترس آ رہا تھا۔ اس غریب کو بھی کیا معلوم تھا کہ خزانہ دراصل دس انمول ہدایتیں ہوں گی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہدایات درحقیقت سمجھدار انسان کے لیے خزانے سے کسی طرح کم نہ تھیں۔ اچانک ایک بھیانک چیخ اس کنویں میں گونجی اور اس چیخ کے بعد دوسری چیخ۔ ہم نے جلدی سے جھانک کر دیکھا تو بھیروں اور آفت سنگھ کے جسم پانی بن کر بہہ رہے تھے ۔ مکڑی نے ہوانگ ہو کا انتقام لے لیا تھا۔
اور اب ہمارا بھی اس مقام پر کھڑے رہنے سے کوئی فائدہ نہ تھا ، لہذا ہم نیچے اترنے لگے، پماکوٹی پہاڑ سے اترنے کے بعد ہم واپس اسی مقام پر یعنی پالام کوٹہ گئے ، جہاں پر بھیروں نے ہمیں گرفتار کیا تھا ۔ جان نے یہ طے کیا کہ ہم ایک دن وہاں گزاریں اور پھر اپنے اس سفر پر روانہ ہوں جس کے لئے ہم بمبئی سے روانہ ہوئے تھے۔
سفر ۔۔۔۔ سفر ۔۔۔۔۔ ہر وقت کا سفر!
۔۔۔۔۔۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اب اس سفر سے عاجز آ گیا تھا ، میری جگہ کوئی اور ہوتا تو کبھی کا اپنی جان چھڑا کر بھاگ چکا ہوتا۔ مگر ایک تو نئے نئے واقعات میں حصہ لینے کا شوق اور دوسرے میرا عہد۔ اس لئے میں مجبور تھا کہ سفر میں ساتھ رہوں ۔ راستے میں کیا ہوا؟ رات بھر ہم کس طرح چلتے رہے، کیا کیا مشکلات پیش آئیں؟ میرے خیال میں مجھے یہ سب آپ کو بتانے ضرورت نہیں، کیوں کہ میں بے کار سی باتوں سے اپنی اس داستان کو بلا وجہ لمبا نہیں کرنا چاہتا ۔ بس مختصراً یوں سمجھ لیجئے، ہم رات کے چار بجے کے قریب ماہی گیروں کی ایک بستی میں پہنچ گئے ۔
یہ سب لوگ بالکل ننگ دھڑنگ تھے اور ان کا رنگ بھی بالکل کالا تھا ، زبان ایسی بولتے تھے جو کم از کم میرے لئے عجیب تھی ۔ خدا جانے ملیالم تھی تامل تھی یا کیا۔ بہرحال جان ،جسے دعویٰ تھا کہ دنیا کی بہت سی زبانیں سمجھ سکتا ہے ، اس زبان کو بالکل نہیں جانتا تھا ۔ بستی والے پہلے تو ہمیں پاگل سمجھ کر بھاگ گئے ۔ مگر جب ہم نے اشاروں سے انہیں قریب بلایا تو ڈرتے ڈرتے پاس آئے ، ایسا لگتا تھا جیسے وہ ہمیں ڈاکو سمجھ رہے ہوں ، کیوں کہ بندوق دیکھ کر ہر کوئی یہی سوچ سکتا تھا۔ ممکن ہے کہ بھیروں اور آفت سنگھ نے کبھی ان لوگوں کو پریشان کیا ہو ، اسی لئے وہ ہم سے ڈر گئے تھے ۔ بڑی مشکل سے ہم نے انہیں سمجھایا کہ ہمیں کپڑے چاہئیں۔ ایک بوڑھا ماہی گیر ہمیں اپنے ساتھ لے کر بستی کے اندر گیا اور پھر ہمیں ایک جھونپڑی کے اندر چلنے کا اشارہ کیا۔
جھونپڑی کے اندر ایک بہت ہی بوڑھا شخص ناریل کی چٹائی پر بیٹھا ہوا تاڑی پی رہا تھا۔ ہمیں دیکھ کر وہ جلدی سے کھڑا ہو گیا ۔ پیشتر اس کے کہ ماہی گیر اس سے کچھ کہتا ، کبڑے چیتن نے آگے بڑھ کر ایک عجیب زبان میں اس سے باتیں شروع کر دیں۔ ہمیں بڑی حیرت ہوئی اور ساتھ ہی یہ تشویش بھی کہ خدا جانے یہ کم بخت اس اجنبی سے کیا کہہ دے؟ بڑی مشکل کا سامنا تھا ۔ ہم ان لوگوں کی ایک بات نہ سمجھ سکتے تھے اور وہ آپس میں برابر باتیں کئے جا رہے تھے۔ ڈر یہ تھا کہ کہیں کبڑا انہیں اپنا ہمدرد نہ بنالے ۔ اگر ایسا ہوگیا تو پھر ہم کہیں کے نہ رہیں گے ۔ کافی دیر تک باتیں کرتے رہنے کے بعد بوڑھا ہم سے مخاطب ہوا ، پہلے تو اس نے ہم سب کو اوپر سے نیچے تک بڑے غور سے دیکھا ، اور پھر جان سے انگریزی میں بولا۔
“آپ کا ساتھی کہہ رہا ہے کہ آپ کو سمندر میں کسی نامعلوم جزیرے پر جانا ہے اور اس کے لئے آپ کو کسی اسٹیمر یا کشتی کی ضرورت ہے؟”
بوڑھے کی زبان سے انگریزی سن کر ہم بہت خوش ہوئے اور ساتھ ہی یہ سوچ کر اطمینان بھی ہوا کہ کبڑا ابھی تک ہمارا وفادار ہے کیوں کہ اگر وفادار نہ ہوتا تو ہمیں پھنسانے کا اس کے لئے یہ بہترین موقع تھا۔ جان نے آگے بڑھ کر کہا۔
“جی ہاں ، ہمیں اسٹیمر یا کشی کی سخت ضرورت ہے ۔ کیا مل سکے گی؟”
“مل جائے گی ، مگر سمندری پولیس آپ کو ضرور پریشان کرے گی۔۔۔” بوڑھے نے کہا۔
“آپ اس کی فکر مت کیجئے ، پاسپورٹ کے علاوہ میرے پاس حکومت ہند کا خاص اجازت نامہ بھی موجود ہے ۔”
“بس تو پھر ایک تیز رفتار بادبانی جہاز چار ملاحوں کے ساتھ آپ کو مل سکتا ہے ۔ یہ ہماری بستی کا جہاز ہے آپ کو ضرورت ہے تو آپ لے لیجئے اور اس کی قیمت دے دیجئے۔”
مختصر یہ کہ سب باتیں مکمل طور پر طے ہو جانے پر وہ چھوٹا سا جہاز ہم نے خرید لیا ۔ پروگرام یہ تھا کہ ہم لوگ صبح کو روانہ ہو جائیں گے ۔ اب شام ہو رہی تھی اس لئے اب ہم نے آرام کرنے کی ٹھانی ، تاکہ صبح کو سمندری سفر کے لئے تازہ دم ہو جائیں ۔ سب ضروری کام کرنے کے بعد جب ہم آرام کرنے کے لئے لیٹے تو میں دل ہی دل میں کبڑے کے بارے میں سوچتا رہا ۔مانا کہ اب وہ شریف بن گیا تھا اور اب ہمیں اس سے کوئی خطرہ بھی نہیں تھا، لیکن جو شخص ایک بار اپنے بھیانک روپ میں میرے سامنے آ چکا ہو، کیا پھر کبھی وہ دوبارہ ویسا ہی روپ اختیار نہیں کر سکتا ! میرا دل بار بار گواہی دیتا تھا کہ یہ شخص ابھی تک خطرناک ہے اور ہمیں اس سے ہر وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔