خوف کے باعث اس نے اپنا مونہہ چھپا لیا۔ میں کیا بتاؤں کہ کیسا برا وقت تھا اچانک مجھے پیچھے سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ یہ جان اور جیک تھے جو ہماری چیخیں سن کر جاگ گئے تھے اور ہماری طرف آ رہے تھے۔ قریب آتے ہی انہوں نے ایک ساتھ گھبرا کر پوچھا۔
“کیا ہوا۔ کیا بات ہے؟ یہ کیسی چیخیں تھیں؟”
اور پھر انہیں بھی وہ حیرت ناک حقیقت معلوم ہو گئی جس کی وجہ سے میں خوف زدہ تھا۔ دھند چونکہ نظر نہ آتی تھی اور آسمان صاف تھا۔ اس لئے انہوں نے بھی جہاز کے کٹہرے سے نیچے جھک کر دیکھا اور پھر فورًا ہی گھبرا کر پیچھے ہٹ گئے۔ جان میں یہی ایک خوبی تھی کہ جب وہ خطرے کو سامنے دیکھ لیتا تھا تو پریشان بالکل نہ ہوتا تھا۔ ہاں خطرے سے پہلے اس کی پریشانی کی کچھ انتہا نہ ہوتی تھی۔!
“اب کیا ہو گا؟” جیک نے مری ہوئی آواز میں کہا۔
جان نے کچھ جواب نہ دیا۔ بس خاموشی سے کچھ سوچنے لگا۔ دیکھئے میں بھی کتنا بے وقوف ہوں کہ اب تک آپ کو وہ بات ہی نہیں بتائی جس کے باعث ہم چاروں گبھرا گئے تھے۔ مگر اسی سے آپ میری گبھراہٹ اور بےچینی کا اندازہ کر سکتے ہیں کہ کئی سال کے بعد جب اپنی یہ عجیب داستان لکھتے ہوئے میں اتنا بوکھلا گیا ہوں تو اس وقت میرا کیا حشر ہوا ہو گا؟
بات دراصل بڑی حیرت انگیز ہے اور شاید کوئی اس کا یقین نہ کرے گا۔ ہمارا جہاز اس وقت ایک کافی اونچے پہاڑ کی چوٹی پر ٹکا ہوا تھا اور چوٹی پر قدرتی طور پر رکھی ہوئی دو بڑی اور مضبوط چٹانوں نے اسے سہارا دے رکھا تھا، اگر وہ چٹانیں نہ ہوتیں تو وہ کبھی کا تقریبًا پانچ سو فٹ کی گہرائی میں جا گرا ہوتا۔ دوسرے الفاظ میں یوں سمجھئے کہ اس وقت ہم جزیرے کی سطح سے اندازاً ۵۰۰ فٹ بلند ایک پہاڑ کی چوٹی پر اپنے جہاز سمیت کھڑے تھے۔ ہم سے بہت دور، اور بہت نیچے نیلا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ نہ دھند تھی اور نہ کچھ اور۔ دور دور تک زمین ہی زمین تھی۔ درخت تھے، چٹانیں تھیں، نوکیلے پتھر تھے، مگر سب عجیب و غریب تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ چیزیں قدرتی نہیں ہیں بلکہ کسی نے آرام سے بیٹھ کر بنائی ہیں۔ درختوں، پتھروں اور چٹانوں پر کاہی جمی ہوئی تھی اور زمیں پر ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ دکھائی دیتی تھی۔ یہ تھا وہ عجیب و غریب جزیرہ! اور یہ تھی وہ نرالی زمین جس کی تلاش میں ہم سرگرداں تھے۔
“آخر یہ کس طرح ممکن ہے؟” جیک نے ہلکی آواز میں کہا۔ میں نے اس کے لہجے کی کپکپاہٹ صاف طور پر محسوس کی۔
“ممکن تو ہے۔ یعنی جو کچھ ہم دیکھ رہے ہیں حقیقت ہی ہے۔”
جان نے ایک لمبا سانس لینے کے بعد کہا “اور میں تمہیں بتاتا ہوں کہ یہ سب کیسے ہوا۔ دراصل بات یہ ہے کہ ہمیں حساب لگانے میں غلطی ہو گئی اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ جزیرہ کل رات ہی کو سمندر میں سے نمودار ہو جائے گا تو اس کی نوبت ہی نہ آتی۔ دھند کے باعث ہمیں چاند بھی نظر نہ آیا تاکہ اس کو دیکھ کر ہی کچھ پتہ چلتا۔ جب ہم رات کو آرام کی نیند سو گئے تو جزیرہ بڑی آہستگی سے ابھرنا شروع ہوا اور ہمیں اس کا علم ہی نہ ہو سکا۔ بدقسمتی سے ہمارا جہاز اس جزیرے کے ایک اونچے پہاڑ کی چوٹی سے ٹکرایا تھا۔ پہلے ہم سمجھے تھے کہ وہ کوئی چٹان ہے، لیکن اب پتہ چلتا ہے کہ اس پہاڑ کی چوٹی تھی، جب جزیرہ ابھرا تو پہاڑ بھی اونچا ہوا، پہاڑ کے ساتھ ہی ہم بھی بلند ہوتے گئے اور اب اس حالت میں ہیں جو ہمارے سامنے ہے۔ یعنی جزیرے کی زمین سے تقریباً پانچ سو فٹ بلند۔”
“میں بھی یہی سمجھا تھا۔ آپ نے بالکل ٹھیک بات نوٹ کی۔” جیک نے آہستہ سے کہا۔ “مگر اب کیا ہو؟”
“اب سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ اترنے کو تو ہم اس پہاڑ سے نیچے اتر سکتے ہیں۔ مگر جہاز کا کیا ہو گا۔؟ اسے کس طرح اتارا جائے گا۔ یہ بڑی ٹیڑھی کھیر ہے۔ اور اس کے لئے سب کو ہی سوچنا چاہئے۔” جان نے جواب دیا۔ بڑی دیر تک ہم خاموشی سے اس مسئلے پر غور کرتے رہے کہ جہاز کو اتنی بلندی سے کس طرح زمین پر اتارا جائے۔ جب کوئی حل سجھائی نہ دیا تو جان نے کہا۔
“جہاز کو تو یہیں چھوڑو اور خود نیچے اترنے کی کوشش کرو۔ ہمیں ابھی تک یہ بالکل معلوم نہیں کہ اس جزیرے میں آبادی بھی ہے یا نہیں! لیکن پھر بھی یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اپنی حفاظت کے ساتھ ساتھ ہم جہاز کی بھی حفاظت کریں کیوں کہ یہی ہماری واپسی کا سب سے بڑا سہارا ہے۔ اس کی حفاظت اس طرح ہو سکتی ہے کہ ہم اسے دوسروں کی نظر سے چھپائیں۔ اس مقصد کے لئے میں نے ایک طریقہ سوچ لیا ہے۔ پہاڑ کی اس چوٹی پر اگے ہوئے درختوں کی بڑی بڑی ٹہنیوں کو کاٹ کر، جہاز ان سے ڈھک دیں تاکہ وہ کسی کو نظر نہ آئے۔”
جان کی یہ بات ہمیں بے حد پسند آئی۔ جلدی جلدی ہم نے درختوں کی ٹہنیاں کاٹیں اور پھر جہاز کو ان ٹہنیوں کے پتوں سے بالکل ایسے ڈھک دیا کہ دور سے وہ کسی کو نظر نہیں آ سکتا تھا۔ اس کے بعد ضروری سامان، ہتھیار، اور دوسری چیزیں لے کر ہم چاروں موٹے موٹے رسوں کی مدد سے نیچے اترنے لگے۔ پہاڑ پر بہت زیادہ کاہی جمی ہوئی تھی۔ قدم بار بار پھسل رہے تھی، اگر ہم چاروں کی کمر سے رسے نہ بندھے ہوتے تو ہم میں سے کوئی نہ کوئی یقیناً اتنی بلندی سے ضرور نیچے گر پڑتا۔ ایک ایک قدم جما جما کر رکھتے ہوئے آخرکار ہم بڑی مشکل سے نیچے اتر آئے۔ زمیں پر قدم رکھتے ہی احساس ہوا کہ زمین پر دلدل سی ہے۔ ساتھ ہی اس دلدل پر عجیب قسم کی گھاس اگی ہوئی تھی۔ پورے جزیرے میں صرف ایک ہی رنگ نظر آتا تھا۔ سبز، ہر چیز سبز رنگ کی تھی اور اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ ہر جگہ کاہی جمی ہوئی تھی! جزیرے میں صبح کے وقت بھی بہت گرمی تھی۔ زمین سے لگاتار ہلکی سی بھاپ اٹھ رہی تھی۔ جس جگہ بھی قدم رکھتے معلوم ہوتا کہ ہلکے گرم توے پر پاؤں پڑ گیا ہے ایسا لگتا تھا جیسے اس جزیرے کے نیچے آگ دہک رہی ہے۔ ہر سمت ایک ہیبت سی چھائی ہوئی نظر آتی تھی۔ نہ تو کوئی جانور دکھائی دیتا تھا اور نہ کوئی پرندہ۔ زندگی کے ذرا سے بھی آثار نہ تھے۔ یوں لگتا تھا کہ یہ جزیرہ درحقیقت کسی دوسری دنیا سے آیا ہے۔ ہماری دنیا کا نہیں ہے۔ کیوں کہ پہاڑ اور چٹانیں عجیب طرح کی تھیں اور درخت بھی ہماری دنیا جیسے نہ تھے۔ بس یوں سمجھئے کہ جیسے ہم خوابوں کے جزیرے میں آ گئے تھے۔
سب سے حیرت انگیز چیز جو ہمیں کچھ دیر بعد نظر آئی وہ یہ تھی کہ دور دور سے سمندری پرندے اس جزیرے کی طرف آتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید میری نظر کا دھوکا ہے۔ یہ پرندے یوں ہی اس طرف آ رہے ہیں اور شاید جزیرے کے اوپر سے اڑ کر دوسری طرف نکل جائیں گے۔ مگر جب میں نے چاروں سمت گھوم کر دیکھا تو حیرت کے مارے گنگ ہو کر رہ گیا۔ چھوٹے بڑے ہر قسم کے پرندے اس جزیرے ہی کی طرف تیزی سے آ رہے تھے۔ جب میں نے جان کو یہ بات بتائی تو اسے بھی بہت تعجب ہوا۔ خدا جانے کیا آفت آنے والی تھی! اس لئے ہم احتیاطً جلدی سے چند جھاڑیوں کے پیچھے چھپ گئے۔ پرندے آہستہ آہستہ قریب آتے جا رہے تھے۔ تعداد میں وہ اتنے زیادہ تھے کہ جب وہ جزیرے کے اوپر آ گئے تو سورج کی روشنی مدھم پڑ گئی۔ جزیرے کے اوپر آتے ہیں انہوں نے نیچے اترنا شروع کیا اور پھر تیزی سے چٹانوں پر لگی ہوئی وہ کاہی کھانے لگے، جس کی عجیب سی بو ہمارے دماغ تک کو سڑائے دے رہی تھی۔ ہمیں یہ دیکھ کر بہت تعجب ہوا، مگر اس سے بھی زیادہ تعجب اس وقت ہوا جب ہم نے دیکھا کہ پرندے وہ کاہی کھا کر یکایک اپنا توازن کھو بیٹھے۔ وہ اب اس طرح اڑ رہے تھے جیسے کوئی زخمی پرندہ اڑتا ہے، ڈانواں ڈول! یعنی کبھی ادھر کبھی اُدھر۔ کئی تو جلدی سے دلدلی زمین پر جا کر بیٹھ گئے اور ایک بڑی تعداد بڑی مشکل سے درختوں کی ٹہنیوں پر اڑ کر بیٹھ گئی۔ بیٹھنے کے بعد بھی وہ ٹہنیوں پر اس طرح ڈول رہے تھے جیسے کہ انہوں نے افیون کھا لی ہو اور ان پر نشہ طاری ہو گیا ہو! میں نے یہ بھی دیکھا کہ ان میں سے بیش تر تو ہلنے جلنے سے اس حد تک معذور ہو گئے تھے کہ اگر کوئی دوسرا پرندہ کسی کے برابر میں آ کر بیٹھنے کی کوشش کرتا تو پہلا اسے جگہ ہی نہ دے دیتا تھا اور نتیجہ کے طور پر آنے والا پرندہ لہراتا ہوا درخت سے نیچے جا گرتا اور دوبارہ اٹھنے کی کوشش نہ کرتا!
یہ حالت دیکھ کر جان نے کہا “خدا جانے یہ کیا ماجرا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ پرندوں کو کیا ہو گیا ہے؟”
“٘میرا خیال ہے ہم کسی طلسمی ہوش ربا میں پھنس گئے ہیں!” میں نے آہستہ سے کہا۔
“شاید اس کاہی میں ہی یہ خاصیت معلوم ہوتی ہے کہ وہ پرندوں کو بے بس کر دیتی ہے۔” جیک نے اپنی رائے ظاہر کی۔
“سوال یہ ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے؟” جان نے کہا “کیا یہ سب کچھ ہماری وجہ سے ہو رہا ہے کہ ہم ان پرندوں کو اٹھا کر لے آئیں اور بھون کر کھا لیں یا پھر یہ کسی خاص طاقت کا کرشمہ ہے!”
“خدا ہی بہتر جانتا ہے۔” میں نے چاروں طرف نظر دوڑاتے ہوئے جواب دیا کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ میرا دماغ بھی اس سوال کا جواب دینے سے قاصر تھا۔۔۔ پرندے برابر اڑتے ہوئے آ رہے تھے اور کاہی کھا کھا کر مفلوج ہو رہے تھی۔ ہم حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے کہ شاید اب کچھ ہو۔ مگر کچھ نہیں، پرندوں کے شور کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ دل کہہ رہا تھا کہ کوئی بہت ہی خوف ناک واقعہ پیش آنے والا ہے، مگر ہوتا کچھ نہ تھا۔ ایسی حالت میں انسان کو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ جب طوفان کے آثار ہوتے ہیں تو جی چاہتا ہے کہ طوفان آ کر جلد سے جلد گزر جائے، مگر ایسا نہیں ہو رہا تھا۔ ہم لوگ ایک عجیب کشمکش میں گرفتار تھے اور چاہتے تھے کہ جو کچھ ہوتا ہے جلد سے جلد ہو جائے۔ یہی سوچتے سوچتے کہ شاید اب کوئی بات ہو شاید کوئی نئی بات معلوم ہو۔ دوپہر ہو گئی، دوپہر سے شام اور شام سے پھر رات! رات ہوتے ہی ہمیں اپنے سانس سینے میں گھٹتے ہوئے محسوس ہوئے۔ عجیب جگہ اندھیرا ہیبت ناک خاموشی، درختوں کی ٹہنیوں پر اونگھتے ہوئے پرندے، دور سے آنے والی سمندر کی خوف ناک سائیں سائیں۔۔۔! میں کیا بتاؤں کہ اس وقت ہماری کیا حالت تھی؟ خوف اتنا تھا کہ اگر پتہ بھی کھڑکتا تو ہم چوکنے ہو جاتے۔ اب جب وہ وقت یاد کرتا ہوں تو ہنسی آ جاتی ہے کیوں کہ ایک بار جب میں نے اندھیرے میں ملاح کا شانہ پکڑ کر کچھ کہنا چاہا تو وہ ایک ڈراؤنی چیخ مار کر اچھل پڑا۔ اس کی چیخ بار بار پہاڑیوں اور چٹانوں میں گونجتی رہی اور ہم احمقوں کی طرح باری باری جس طرف سے آواز آتی اس طرف دیکھتے رہے۔ مزے کی بات یہ کہ جزیرے میں اب صرف پرندوں کے پر پھڑپھڑانے کا ہلکا سا شور تھا اور ویسے ہر طرف ہو کا عالم تھا۔۔۔!
جھاڑیوں کے پیچھے آخر، ہم کب تک چھپے رہتے۔ لہذا اس جگہ سے نکل کر چھپتے چھپاتے آہستہ آہستہ ایک بہت بڑی چٹان کے نیچے جا پہنچے۔ جان نے ٹارچ جلا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ چٹان کے نیچے ایک کافی بڑا اور لمبا غار ہے۔ غار کے اندر روشنی ڈالنے سے پتہ چلا کہ وہ اتنا بڑا ہے کہ ہم چاروں اس میں آرام سے رات گزار سکتے ہیں۔ جیک سب سے پہلے اس کے اندر داخل ہوا اور پھر ہم تینوں بھی ایک ایک کر کے اندر آ گئے۔ جان نے روشنی ہر طرف ڈالنے کے بعد اطمینان کر لیا اور پھر بولا۔
“رات بسر کرنے کے لئے یہ جگہ بہت اچھی ہے۔ کیوں کہ یہاں ہم ہر طرح کے خطرے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔”
“مگر غار کا یہ مونہہ تو کھلا ہی رہے گا!” جیک نے جلدی سے کہا۔
“غار کے برابر ہی باہر ایک بہت بڑا پتھر پڑا ہوا ہے۔ اسے غار کے مونہہ پر لگا دو۔ ملاح سے کہو کہ وہ اس کام میں تمہاری مدد کرے۔” جان نے جواب دیا اور پھر جیک اور ملاح نے مل کر فوراً یہ کام کر دیا۔
میں خاموشی سے غار کا مونہہ پتھر سے بند ہوتے دیکھتا رہا۔ لیکن اچانک مجھے ایک بات سوجھی۔ اور میں نے جان سے کہا۔
“مگر سب سے بڑے دو خطرے تو ابھی اور بھی باقی ہیں۔ ان سے بچنے کی بھی تو ترکیب سوچئے۔ یعنی پہلی تو وہ خوف ناک مکھی، چلئے مان لیا کہ اس سے بچنے کے لئے ہم غار میں چھپ گئے ہیں اور غار کے مونہہ پر پتھر بھی رکھ دیا ہے مگر یہ پتھر ہمیں نقصان بھی تو پہنچا سکتا ہے۔ ہمیں جزیرہ کی زمین تو اب نظر آتی ہی نہیں۔ باہر کا حصہ سب چھپ گیا۔ لہذا فرض کر لیجئے کہ راتوں رات اگر یہ جزیرہ سمندر میں غرق ہو گیا تو پھر۔۔۔ پھر ہم کیا کریں گے۔؟”
“اتنا خطرہ تو ہمیں مول لینا ہی پڑے گا فیروز!” جان نے کہنا شروع کیا، “اول تو جزیرہ رات کو غرق ہو گا نہیں اور فرض کر لیا جائے کہ ہو بھی جاتا ہے تو پھر ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہو گا کہ ہم پتھر ہٹا کر تیرتے ہوئے اس پہاڑ کی چوٹی پر پہنچنے کی کوشش کریں جس پر ہمارا جہاز ٹکا ہوا ہے۔”
بات بالکل ٹھیک تھی۔ واقعی اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ بھی نہیں تھا۔ زمین صاف کرنے کے بعد ہم اسی حالت میں ننگے بدن لیٹ گئے زمین گیلی تھی مگر ہم لوگوں نے اتنی تکلیفیں اٹھائی تھیں کہ اب کوئی سی بھی تکلیف نظر میں نہ جچتی تھی۔ نیند بری طرح آ رہی تھی۔ اس لئے وہ گیلی زمین بھی ہمیں اس وقت مخمل کا فرش معلوم ہوئی۔ لیٹتے ہی فوراً سب کی آنکھ لگ گئی۔ خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم کتنی دیر سوئے؟ میں اپنے بارے میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ مشکل سے دو گھنٹے ہی سویا ہوں گا کہ اچانک ایک پراسرار سرسراہٹ سن کر میری آنکھ کھل گئی۔ گھبرا کر میں نے ادھر ادھر دیکھا۔
حالاں کہ غار میں گھپ اندھیرا تھا۔ مگر اس اندھیرے میں بھی مجھے غار سے باہر ایک تیز روشنی نظر آئی۔ روشنی کبھی تیز ہو جاتی اور کبھی آہستہ آہستہ ہلکی ہوتے ہوتے ختم ہو جاتی۔ پھر تیز ہوتی اور پھر ہلکی۔ اس کے ساتھ ہی ایک عجیب آواز۔ ایسی آواز جسے میں الفاظ میں کسی بھی صورت سے بیان نہیں کر سکتا، مجھے سنائی دے رہی تھی۔ یوں سمجھئے کہ مٹی کے تیل سے جلنے والے اسٹو میں سے جس قسم کا سراٹا نکلتا ہے۔ بس ہو بہو ویسی ہی آواز تھی ساتھ ہی مجھے یوں محسوس ہوا جیسے غار سے باہر طوفان آیا ہوا ہے۔ درختوں کے پتوں کے آپس میں ٹکرانے سے جو شور پیدا ہوتا ہے، اسی قسم کا تیز شور سنائی دے رہا تھا اور اس کے علاوہ کسی چیز کے گھسٹ کر چلنے کی آواز بھی آ رہی تھی۔ دھڑکتے دل کو قابو میں کئے اور سانس روکے ہوئے میں وہ آوازیں سن رہا تھا۔ اتنی ہمت بھی نہ تھی کہ جان یا جیک میں سے کسی کو جگا لوں۔ خوف اتنا تھا کہ شاید ہی کبھی زندگی میں دل میں اتنا خوف پیدا ہوا ہو۔۔۔! سہمی ہوئی نظروں سے بس میں اسی سمت دیکھے جا رہا تھا جہاں وہ روشنی جل اور بجھ رہی تھی۔ بڑی دیر تک میں اسی طرح لرزتا اور کانپتا رہا اور پھر اچانک ایک تیز سیٹی مجھے سنائی دی۔ بڑی تیز اور ہیبت ناک! بالکل ایسی جیسی کہ آج کل ہماری ریلوں کے انجن کی سیٹی ہوتی ہے۔ اس آواز کو سنتے ہی میں اچھل پڑا اور میں نے جلدی سے جان کے سرہانے سے ٹارچ اٹھا کر جلا لی۔ اچانک وہی آواز پھر آئی۔ اب کے وہ اتنی تیز تھی کہ جان بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور مجھے جاگتے ہوئے دیکھ کر پوچھنے لگا۔
“کیوں فیروز کیا بات ہے کیوں جاگ رہے ہو۔ یہ آواز کیسی تھی؟”
آواز پھر آئی۔ مگر اس بار وہ کافی دور سنائی دیتی تھی۔ جان کی آواز سن کر جیک اور ملاح بھی جاگ گئے تھے اور پھٹی پھٹی نظروں سے ہم دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ میرے قلم میں طاقت نہیں کہ اپنی اس وقت کی حالت کو ٹھیک طرح لکھ سکوں۔ بلاوجہ میں اپنا ڈر ظاہر کر کے آپ سب کو جو میری آپ بیتی پڑھ رہے ہیں، خوف زدہ نہیں کرنا چاہتا۔ یوں سمجھئے کہ ہم چاروں دم سادھے خاموش بیٹھے رہے حتی کہ پو پھٹنے لگی اور اب وہ عجیب سی آوازیں وہ سراٹا اور شور سب ختم ہو گیا۔ سب طرف ایک سکون سا چھایا ہوا محسوس ہوتا تھا۔ جان نے غار کے دروازے کے پاس جا کر ایک جھری میں سے باہر جھانکا اور جب اسے اطمینان ہو گیا کہ باہر کوئی خطرہ نہیں ہے تو ہم سے کہا کہ پتھر ہٹا کر اب ہمیں اس غار سے باہر نکلنا چاہئے۔
پتھر ہٹایا گیا اور پھر ہم دبے پاؤں باہر آئے۔ سورج سمندر کے اندر سے نکل رہا تھا مگر ہوا میں تپش ابھی سے تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کہیں قریب ہی کوئی بھٹی سلگ رہی ہے۔ اوپر نیچے ہر طرف دیکھتے اور کسی انجانے خطرے کی بو سونگھتے ہوئے ہم غار سے کچھ دور آگے بڑھ گئے اور پھر ہم نے وہ چیز دیکھی جس سے ہماری عقلیں دنگ ہو گئیں۔ کسی بھی درخت کی ٹہنی پر یا زمین پر اب کوئی سا بھی پرندہ نظر نہ آتا تھا۔ اگر آتا بھی تو جلا ہوا۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی نے آگ پر بھونا ہو! اس کے علاوہ جن ٹہنیوں پر پرندے بیٹھے ہوئے تھے وہ بھی اب بالکل کوئلہ بن گئی تھیں۔ آس پاس کی گھاس اور جھاڑیاں سب کی سب جلی ہوئی تھیں اور حالت یہ تھی کہ ابھی تک ان میں سے دھواں نکل رہا تھا۔ جیسے ہی میری نظر نیچے زمین پر پڑی، خوف کی وجہ سے ایک سنسنی سی دوڑ گئی۔ زمین پر دس گز کی دوری پر دو بڑے بڑے سے گڑھے نظر آ رہے تھے۔ قریب جا کر دیکھنے سے معلوم ہوا کہ وہ گڑھے کم از کم تین فٹ گہرے ہیں۔ میری عقل تو یہ سمجھنے سے قاصر تھی کہ آخر راتوں رات یہ گڑھے زمین میں کس طرح پیدا ہو گئے؟ شاخیں کس طرح جل گئیں اور پرندے غائب ہو گئے۔ میں جان سے اس کا سبب پوچھنے ہی والا تھا کہ اس نے خود کہنا شروع کر دیا۔