’’نہیں بھائی۔ میں نہیں مانتی۔ میں افسانہ لکھ رہی ہوں یا الجبرے کا سوال حل کر رہی ہوں جو آپ مجھے فارمولے پر فارمولاسکھانے سمجھانے پر تلے ہیں۔
شروع کی لائن پٹاخہ ہونی چاہیے، پھر زینہ زینہ کہانی آگے بڑھے، کردار محدود ہوں، جزئیات پر زیادہ ارتکاز نہ ہو، تلمیحات، استعارات، تشبیہات و علامات کا محتاط استعمال ہو۔ متشابہات سے گریز ہو۔ وحدت تاثر مجروح نہ ہو پائے۔ غیر ضروری طوالت سے اجتناب کیا جائے اور پنچ لائن پر آخری دھماکا ہونا چاہیے۔ جو قاری کے پڑ خچے اُڑا دے۔
لاحول ولاقوۃ! آپ کے فارمولے پر چل کر بھٹّے کے سانچے سے ایک سی اینٹیں تو تھاپ تھاپ کر ڈھیر لگا سکتی ہوں لیکن آزاد، طرح دار اور میری مکمل تشفی اور قاری تک تسکین آور ترسیل پر قادر شاہکار تخلیق نہیں کر سکتی۔
مجھے کیا پڑھاتے ہیں۔ میں نے کوئی رقم پکڑی ہے بے چہرہ پابند تحریریں پیدا کرنے کی فیکٹری لگانے کی۔ میں جانوں اور میری تخلیق۔ بس قاری کی اہمیت ہے۔ لیکن سچ بتاؤں تو قاری بھی بعد میں آتا ہے۔ پہلے تو میں خود ہوں۔ میری ذات ہے۔ میرا درُون ہے۔
پھر مجھے اپنے جیسے کچھ دیوانے تو مل ہی جائیں گے جو پڑھ کر مزہ لیں گے۔ کچھ جاننے والے ہیں جو منتظر ہوتے ہیں کہ کچھ آڑھا ترچھا لکھِوں تو اُنہیں رابطے کا بہانہ ملے۔ میری انا کی تسکین کا بہت سامان ہو جائے گا۔ شہرت مجھے کچھ خاص متاثر نہیں کرتی۔ دادا پردادا، باپ بھائی بہن سب معاشرہ میں جانے بوجھے لوگ ہیں۔ میری اپنی پہچان کے علاوہ اُن کا نام پیسہ اور شہرت بالواسطہ میرا بھی تعارف ہے۔ سو میری فکر کم کر دیں اور مجھے وہ لکھنے دیں جو میں لکھنا چاہتی ہوں۔ وہ نہیں جو آپ یا آپ کے قواعد مجھ سے لکھوانا چاہتے ہیں۔۔۔‘‘
توبہ توبہ! دھُواں نکال دیا۔ کیا آفت کی پرکالہ ہے؟ پروں پر پانی نہیں پڑنے دیتی۔ مرعوب ہی نہیں ہوتی۔ ذرا نہیں ڈرتی۔ ڈھیٹ کہیں کی۔ مسلمہ اصولوں کو چیلنج کرتی ہے۔ مصدقہ روایات کو ٹھکراتی ہے۔ زعما کو خاطر میں نہیں لاتی۔ ناقدین سے متاثر ہے نہ مبصرین کی قدر دان۔ عجب ڈھیٹ پن ہے۔ کیا بیہودہ اَنا پرستی ہے۔ کیا بے کار کی ضد ہے۔ خیر دیکھتے ہیں۔ کچھ کوشش اور کرتے ہیں۔
’’دیکھو نرمین۔ یہاں بھائی نہیں بھئی مستعمل ہے۔ دونوں کی باطنی تفہیم میں بعد الطرفین ہے۔ بہرحال تُم کون سا ماننے والی ہو۔
کوئی بھی تحریر جب شہود پاتی ہے تو کسی نہ کسی طور کسی قاعدے قرینے ہی کے زیر نظم ہو گی نا۔ مادر پدر آزاد بے ڈھنگی بے ترتیب لفظی لکیروں کو کوئی کیا جانے گا۔ اب اگر افسانہ لکھو اور اُس میں افسانویت کی کمی ہو تو کیا افسانہ ہو گا!‘‘
’’مُعاف فرمائیے گا سر!‘‘
وُہ تُندی اور تلخی سے بولی۔
’’افسانویت کی کمی تو آپ یوں فرما رہے ہیں جیسے پتھالوجسٹ کی رپورٹ دیکھ کر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وٹامن بی کی کمی ہے، یا یہ کہ ہیموگلوبن کی کمی ہے۔ جانے دیں سر۔ دِل کی بات کی۔ دِل سے بات کی۔ اگلے کے دِل کو لگی۔ سیدھی ٹھاہ کر کے۔ سحر چھا گیا۔ رُوح تک سرشار ہو گئی۔ اور کسے کہتے ہیں ترسیل اور تفہیم آپ نقاد لوگ؟
کیوں گن گن کر حرف لفظ اور سطریں لکھیں۔ تسلیم کہ زبان کی اغلاط نہیں ہونی چاہئیں۔ تو بس ٹھیک ہے نا۔ ایک دن ایک بہت مستند اور نابغۂ روزگار شاعر فرمانے لگے کہ علامت کے بغیر شاعری بے معنی ہے۔ ورنہ تو بندہ سیدھے سدھار کہہ دے کہ
’’مجھے تُم سے محبت ہے !‘‘
میرا جی چاہا کہ عرض کروں، کہ میرے نزدیک تو یہ بہت اعلیٰ شاعری ہے۔
’’مجھے تُم سے محبت ہے‘‘۔
میں تو اس مصرعے یا جملے کو جتنا پڑھتی جاتی ہوں میرے اندر گھُستا جاتا ہے۔ میری رُوح تک کو مَس کرتا ہے۔ تو پھر اس سے بڑا شعر کیا ہو گا۔ نثری نظم یا نظم کہہ لیں۔ نثر پارہ کہہ لیں عروضی مصرع کہہ لیں۔ میرا تو کام بن گیا نا۔ بس میں خوش میرا قاری خوش۔ اللہ اللہ خیر سلّا۔ میں نے گلقند ڈالنی ہے قواعد کی۔‘‘
’’اب ایسا بھی نہیں۔ ایسا ادب کسی شمار قطار میں نہیں آئے گا۔ ادب ہی نہیں ہو گا سرے سے۔ جو لکھنا ہے لکھو جس نے پڑھنا ہے پڑھے۔ اصناف سُخن میں نہیں آئے گا کسی طور۔ بس یاوہ گوئی ہو گی۔‘‘
میں نے ایک اور پانسہ پھینکا۔
’’نہ کریں سر جی! وُہ بھول گئے آپ جو کسی نے کہا تھا کہ کینوس، تختہ سیاہ یا کاغذ پر کسی نا سمجھ کی لگائی ایک لکیر بھی با معنی اور کارآمد تخلیق ہے۔ وہ جو کسی نے اپنے تئیں فالتو لکھ کر پھینک دیا اور اُس کے مرنے کے بعد لوگوں نے جھاڑ پونچھ کر چھپوا کر شاہکار تخلیق قرار دیا۔ کیا پتا میری، آج کی، آپ کے بقول، یاوہ گوئیاں کل کے شاہکار ہوں۔ جہت ساز ہوں۔ میرا اٹکل پچو لکھا سٹریم آف کانشئیسنس کی اگلی قسم نکلے یا کسی انجانی نئی صنف کی بنیاد ہو۔ نُقطۂ آغاز ہو۔ گھسے پٹے لگے بندھے معیار اور قواعد عام اور معمولی اذہان کے لیے حدود متعین کرتے ہوں گے۔
غیر معمولی اور حدود شکن اذہان کو ان معمولی بندوبستی قواعد کو قطعی خاطر میں نہیں لانا چاہیے۔
ع گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی
’’ارے بھئی یہ مرزا غالب نے کہا تو تھا لیکن خود بھی اس سے منکر اور تائب ہو گئے تھے۔ تفہیم کا بندوبست کیا تو قبول عام ٹھہرے‘‘۔
میں نے کوشش جاری رکھی۔۔۔
٭٭٭