(Last Updated On: )
حسن عباس رضاؔ
عجیب کارِ زیاں پر لگا دیا تُو نے
تماشہ گر تھا ، تماشا بنا دیا تُو نے
میں عین خواب میں تجھ سے مُکرنے والا تھا
مجھے خبر ہی نہیں ، کب جگا دیا تُو نے
ابھی تو رات کی اندھی گلی کے وسط میں تھا
کہاں پہ لا کے بجھایا مِرا دِیا تُو نے
گریز پا مِرا ہمزاد مجھ سے تھا ، لیکن
اُسے تو اب مِرا دشمن بنا دیا تُو نے
پلٹ کے آنا بھی چاہوں تو آ نہیں سکتا
یہ کن ہواؤں کے رُخ پر اُڑا دیا تُو نے
سوال یہ نہیں ، میں نے تجھے بُھلایا کیوں؟
سوال یہ ہے ، مجھے کیوں بُھلا دیا تُو نے
میں ذات سے انکار کر بھی سکتا ہوں
گر اب کے بھی نہ مجھے آسرا دیا تُو نے
مِرے فراق میں شاید تجھے بھی ہو احساس
کہ میں وہ لعل تھا ، جس کو گنوا دیا تُو نے