(Last Updated On: )
عجیب ہم سفر تھے ساری عمر اجنبی رہے
شراکت اور ایسی ہر شریک دُور بھی رہے
وہ خار زار میں کو غم نہیں ہے دھوپ چھاؤں کا
وہ اتنے خوش نصیب ان کے نیچے چاندنی رہے
وہ رہ گزار جس کا ربط شاہرہ سے کچھ نہیں
وہ تا ابد اسی طرح سے کس لئے بچھی رہے
تو آئے تو شَبوں کا جاگتا نشاط کار ہو
ہر ایک پَل کے صحن میں انوکھی دھوم بھی رہے
تو آئے تو شباب ایک نغمہ جمیل ہو
حیات چونک اُٹھے، لہو میں برق ناچتی رہے
مرے سیاہ و سرخ کی اسے خبر ہے اس قدر
مزہ کچھ اور ہو جو ہم نفس سے دشمنی رہے
عجیب پیاس ہے کہ چیختی پھرے گلی گلی !
ہوا کنواری ساری ساری رات جاگتی رہے
سنا مَیں اسلمؔ آپ کچھ تقدسِ جمال کی
سُنا ہے ساری رات اس کے ساتھ آپ بھی رہے
٭٭٭