“وجیہہ بیٹا واپسی کب تک ہوگی؟” وجیہہ کے والد یوسف صاحب نے اسٹول چہرے کے گرد اوڑھتی وجیہہ سے سوال کیا۔
“بابا پانچ بج جائینگے آتے آتے۔ آپ پریشان مت ہونا۔” وہ انہیں پیارکرتی سفھاء کو آواز دیتی کمرے کی طرف بڑھی۔ سفھاء تیار ہو چکی تھی۔ اس نے سکھ کا سانس لیا اور وہ یوسف صاحب کو خدا حافظ کر کے یونیورسٹی آگئیں۔ یونیورسٹی میں عجیب گہماگہمی تھی۔ سفھاء اپنی شال وجیہہ کے ہاتھ میں تھما کر اپنے دوستوں کو ڈھونڈنے چلی گئی اور وجیہہ موبائل پر سعدیہ کا نمبر ڈائل کرتی آڈیٹوریم کی طرف بڑھ گئی۔
پارٹی کے پروگرامز کی تیاریوں میں ساریہ اور احد کی اچھی خاصی دوستی ہو چکی تھی۔
” ہاں بھئی لوگوں کو نئے دوست جو مل گئے ہیں اب ہمیں کیوں پوچھے گا کوئی۔” وجیہہ ساریہ کو اکیلے کھڑے دیکھ کر اس کی طرف بڑھی جو کوئی پیپر پڑھ رہی تھی۔
“جی نہیں میں سر سے بات کررہی تھی ڈرامہ کے حوالے سے ابھی ابھی جان چھوٹی ہے ان سے۔” ساریہ اسکے گلے لگتے ہوئے بولی۔
“واہ بھئی بڑا پیار ہے دونوں دوستوں میں۔” احد نہ جانے کہاں سے آ دھمکا تھا۔
“کیوں تم کیوں جل رہے ہو” ساریہ نے منہ بنایا جس پر احد نے اسے ناراضگی سے دیکھا۔
“تم شال لائی ہو مطلب آج عبایا اتارو گی۔ چلو جلدی سے عبایا اتارو۔” ساریہ کو وجیہہ کی ڈریسنگ دیکھنے کی جلدی تھی۔
“یہ میری نہیں سفھاء کی ہے۔ جلدی میں اس نے مجھے دیدی۔ وجیہہ نے اسے گھورا۔
“اتار دو ناں یار۔” ساریہ بضد تھی۔(احد نے گہری نظروں سے ساریہ کو دیکھا جو دن بدن اس کے دل کی قریب ہوتی جارہی تھی) بلآخر وجیہہ کو ماننا پڑا۔ وہ عبایا اتارنے کلاس میں چلی آئی۔ فراک کا دوپٹہ اس نے اسٹول کی طرح بنایا ہوا تھا اور سر پر سیٹ تھا اور کالی گھٹنوں تک آتی فراک پر سفید کام ہوا تھا۔ جب وہ شال اوڑھ رہی تھی تو اس کی نظر کلاس کے ایک لڑکے پر پڑی جو بڑے انہماک سے اسے گھور رہا تھا۔ وہ غصے میں پیر پٹختی عبایا ہاتھ میں لیے کلاس سے باہر نکل آئی اور اس کے جانے کے کافی دیر بعد وہ لڑکا ہوش میں آیا۔ وہ بابا کو میسج ٹائپ کرتی آڈیٹوریم کی طرف بڑھی۔ جہاں اسے اسٹیج کے پاس ساریہ اور احد باتیں کرتے دکھائی دئیے کرتی۔ ساریہ کے اشارہ پر وہ وہیں چلی آئی۔
“واہ چڑیل تم تو پیاری لگ رہی ہو۔” ساریہ نے تعریف کی تو احد نے بھی تائید کی وہ مسکرا دی۔ دور سے کال پر بات کرتا وھاج ان تینوں کو دیکھ چکا تھا۔ وہ وجیہہ کو دیکھ کر مہبوت رہ گیا تھا۔ اس نے وجیہہ کو پہلی بار بغیر عبائے کے دیکھا تھا۔ وہ اسٹیج پر نہیں جانا چاہتا تھا۔ اس لیے آڈیٹوریم میں ہی بیٹھ گیا۔ جب احد نے اسے اشارے سے بلایا تو وہ نہ چاہتے ہوئے بھی ان کی طرف چلا آیا۔ وجیہہ کو نظرانداز کرنا اب ضروری ہوگیا تھا۔ وہ خود کو اس کے سحر میں جکڑنا نہیں چاہتا تھا۔
“اسلام علیکم۔” وہ موبائل پر کچھ ٹائپ کرنے لگا۔ تینوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔ وہ وجیہہ کو مکمل اگنور کر کے ساریہ کا حال احوال پوچھنے لگا۔ وجیہہ کو لگا وہ فضول میں وہاں کھڑی ہے۔
“میں ذرا ایک کام کر کے آتی ہوں۔” وجیہہ ساریہ سے مجاطب تھی۔ وھاج نے بیزار سا منہ بنایا۔ احد نے تاسف سے وھاج کو دیکھا۔ ان دونوں کے درمیان کوئی لڑائی نہیں تھی مگر نہ جانے کیوں وھاج نے اس کے ساتھ ایسا رویہ رکھا ہوا تھا۔ ویسے تو وہ یونیورسٹی کی لڑکی سے ہی اتنا ہی روڈ تھا لیکن وجیہہ کو نہ جانے اپنی بے عزتی کیوں محسوس ہورہی تھی۔
“رکو وجی میں بھی چلتی ہوں۔ احد سر بلائیں تو میسج کردینا مجھے۔” وہ احد کو ہدایت دیتی وجیہہ کی طرف بڑھ گئی جو کام کا کہہ کر وہاں رکی نہیں تھی۔
“ہونہہ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں سمجھتی کیا ہے خود کو حور پری ہے ناں بڑی۔” وھاج کو غصہ آیا تو فضول بول گیا۔ احد کو یقین نہیں آیا یہ وھاج نے کہا ہے۔
“اوہ! تو وجیہہ خود کو کچھ سمجھتی ہے؟ مجھے لگا تم سمجھتے ہو۔ اس دن جب تم نے اسے پہلی بار دیکھا تھا اور دیکھتے ہی چلے گئے تھے غیر ارادی طور پر ہی سہی حالانکہ تم ایک اچھے لڑکے ہو اور لڑکیوں کو تاڑنا تو دور کی بات تم نظر اٹھا کر دیکھنا بھی غلط سمجھتے ہو اب جب تم سے وہ ہوگیا کہ تم اسے دیکھتے رہ گئے تو تمہیں شرمندگی نے آگھیرا اور تم نے اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کیلئے اپنا رویہ اس سے انتہائی سخت کر لیا کس طرح تم اسے اگنور کر رہے تھے۔ تم نے ساریہ کی تعریف کی ہے میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اسکی بھی کرتے پر اسکا حال احوال پوچھ لیتے۔ صرف یہ ثابت کرنے کے لیے کہ تم برے لڑکے نہیں تم اپنا رویہ اس سے ضرورت سے زیادہ سخت رکھے ہوئے ہو اور مجھے یقین ہے وہ تمہیں غلط نہیں سوچتی ہوگی۔ بہت اچھی لڑکی ہے شاید تمہاری نیت میں کھوٹ ہے جو تم اس طرح اسے روڈ ہو۔” احد نے اچھی خاصی لمبی تقریر کردی تھی۔
” میری نیت میں کوئی کھوٹ نہیں۔ مجھے غلط نہ سمجھے بس اسی لیے میں اسے نظر انداز کرتا ہوں۔” وھاج نے وضاحت دی۔
“سر بلا رہے ہیں بعد میں ملتے ہیں۔ تم سوچنا ضرور اس بارے میں لڑکیاں چاہے کتنی ہی بہادر یا برداشت کرنے والی ہوجائیں لیکن وہ کسی سے نفرت بلاوجہ نہیں سکتیں۔ اور تمہارا رویہ ایسا ہی ہے جیسے تم اس سے نفرت کرتے ہو۔ لڑکیاں بہت حساس ہوتی ہیں اور وجیہہ بھی ایک لڑکی ہے۔” احد اس کے شانے تھپکاتا آگے بڑھ گیا اور ساریہ کو کال ملانے لگا۔ وھاج کچھ دیر وہیں کھڑا رہا پھر آڈیٹوریم کی سیٹوں کی طرف بڑھ گیا جہاں اسٹوڈنس آنا شروع ہوچکے تھے۔
“چلو وجیہہ پروگرام شروع ہونے والا ہے۔” ساریہ نے موبائل بیگ میں رکھا۔ وجیہہ اسٹول ٹھیک کرچکی تھی۔ جلدی سے موبائل اٹھا کر اس کے ساتھ آڈیٹوریم کی طرف بڑھ گئی۔ آڈیٹوریم میں آ کر ساریہ اسٹیج کی طرف بڑھ گئی جبکہ وجیہہ خالی بچی دو سیٹوں میں سے ایک پر جا بیٹھی۔ وھاج اس کے پیچھے والی لائن میں بیٹھا تھا۔ وھاج کے برابر اٹھ کر آڈیٹوریم سے باہر چلا گیا تو عریبہ اپنی جگہ سے اٹھ کر وھاج کے برابر میں آ بیٹھی۔ وھاج نے بیزاری سے پہلو بدلہ۔ اسے عریبہ سے کوئی دشمنی نہیں تھی لیکن اس قسم کی لڑکیوں سے اسے چڑ تھی وہ اٹھا اور جا کر وجیہہ کے برابر والی خالی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ وہ شو دیکھنے میں مگن تھی کہ وھاج کا اپنے پاس بیٹھنا محسوس نہ کر سکی۔
وھاج نے گہری نظروں سے اسے دیکھا۔ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھری تھیں۔ وہ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ڈرامہ دیکھنے لگا۔ وھاج والوں کا گروپ کافی اچھا پرفارم کر رہا تھا۔ ڈرامہ تھوڑا افسردہ کردینے والا تھا لیکن اتنا بھی نہیں کہ کوئی رونا شروع کردے۔
آخر میں ہیرو کے مرجانے پر تو جیسے وجیہہ کو آنسو بہانے کا بہانہ مل گیا۔ وھاج کو کرنٹ لگا تھا۔ وہ دم بخود رہ گیا تھا۔
” لڑکیاں بہت حساس ہوتی ہیں وھاج۔” اسے احد کے الفاظ یاد آئے تھے۔
“سب نے ہی اچھی کی تھی۔” ساریہ کہتی ہوئی اس سیٹ کی طرف بڑھی جہاں وجیہہ اور وھاج بیٹھے تھے پر اب وھاج وہاں نہیں تھا۔ وہ دونوں وہاں بیٹھ کر باقی کا شو انجوائے کرنے لگے۔ احد اور وھاج پچھلی لائن پر بیٹھے تھے اور وھاج کی نظریں بھٹک بھٹک کر اسی پر جا رہی تھی وہ جو دھوپ چھاؤں تھی۔
☆☆ ☆☆۔