میں نے امرتسر سے جو ’’جپھی‘‘ ڈالنے کا پروگرام بنایا تھا اور اس شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں گُم ہو جانے کی نیّت باندھی تھی۔ اُس کے خلاف ایک بھرپور سازش ہو گئی۔ دعوت ناموں کی بھرمار نے ہمیں کہیں کا نہ رکھا۔ ’’لیڈران‘‘ کے لئے فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا۔ کس کے ناشتے، کس کے لنچ اور کس کے ڈنر کو عزت بخشی جائے۔ ہم کسی کا دِل نہیں توڑنا چاہتے تھے۔ اس لئے گروپ بنا لئے گئے۔ کہیں سے دعوت نامہ ملتا تو ایک گروپ کو بھیج دیا جاتا دوسری جگہ دوسرے گروپ کو، در اصل میزبانوں کی محبت سے ہم ہار گئے تھے۔ ہمارے انکار سے اُن کے اصرار میں زیادہ کشش تھی اور یہ کشش ہمیں کھینچ لے جاتی۔
سکھوں کی فراخ دلی، میزبانی اور اتنی ساری محبتوں نے ہماری نظروں میں اُنھیں مشکوک بنا دیا تھا دِل کہتا تھا ضرور دال میں کُچھ کالا ہے۔
کُچھ نہ کُچھ ہو کے رہے گا۔
کیونکہ ہم ’’دشمنوں کے درمیان شام‘‘ ہی نہیں بلکہ صبح و شام گذار رہے تھے اور آنکھیں بند کیے اُن کا دیا ہوا پی رہے تھے، پکا ہوا کھا رہے تھے۔ حیران کُن امر یہ ہے کہ جہاں بھی جاتے صحیح سلامت واپس آ جاتے، رات کو کلمہ پڑھ کر سوتے مگر صبح تک زندہ ہوتے، آئینہ دیکھتے تو وہی شکل و صورت۔
عجیب دشمن تھے ….
اجنبی دیس، اجنبی شہر اور اجنبی گھروں میں عجیب سی اپنائیت تھی۔ ہم جہاں بھی گئے میزبانوں کا شوق اور انتظار دیکھنے والا تھا۔ وہ ہمیں اپنی بہو بیٹیوں میں یوں جا کر بٹھا دیتے جیسے ہم اُن کے فیملی ممبرز ہوں۔ کھانے کی ٹیبل پر زیادہ تر پاکستان اور خاص کر پنجاب کے بارے میں باتیں ہوتیں۔ مسلمانوں اور سکھوں کے لطیفے سُنائے جاتے خوب قہقہے لگتے، بھنگڑے ڈالے جاتے۔
میں جس انڈیا کا نقشہ آنکھوں میں لے کر آیا تھا یہ تو اُس سے بالکل مختلف تھا۔
یہ کیسے سردار تھے جو ہمارے پاؤں چھوتے، ہمیں ’’جپھیاں‘‘ ڈالتے اور ہمارے آگے ہاتھ جوڑے کھڑے رہتے اتنے معصوم، سادہ اور بھولے بھالے سردار ہم نے پہلی بار دیکھے تھے اس لئے یہ ہمیں نقلی سردار لگے۔
ہمارے ہاں بھی سردار ہوتے ہیں جن کے رُعب اور دبدبے سے وجاہت اور شباہت سے غرور اور گھمنڈ سے پتہ چلتا ہے یہ اصلی سردار ہیں۔
بالآخر ایک صبح قطار اندر قطار میزبانوں کی بے شمار دعوتیں، بے پناہ محبتیں اور بے حد خلوص ٹھکرا کر میں اپنے مُرشد، اپنے دِل کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے امرتسر کی سڑکوں پر نکل پڑا۔
اک شک سا ہوا تھا کہ پُکارا ہے کسی نے
پھر چلتا رہا چلتا رہا چلتا رہا میں
اجنبی سڑکوں، اجنبی گلیوں اور اجنبی بازاروں میں، اجنبی بن کر گھومتا رہا۔ کسی مقام یا کسی جگہ سے آشنا ہونے کی کوشش نہیں کی۔
بے خبری سے کسی بھی چیز کو تجسّس بھری نظروں سے دیکھنا ایک ایسی کیفیت ہے جسے خود تو Enjoy کیا جا سکتا ہے کسی کے ساتھ Share نہیں کیا جا سکتا۔
جس کا اپنا ایک حُسن ہوتا ہے کُچھ اچھا لگے نہ لگے مگر اُس کے بارے میں بغیر جانے اُس کو دیکھنے اور چھونے کا نشہ ہی الگ ہے۔
میں نے بھی یہاں عقل کو تنہا چھوڑ دیا تھا اور دِل کی اُنگلی پکڑ کر سیر کر رہا تھا۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ کتنا کُچھ جان کر یہ بے خبری آتی ہے۔
اسی بے خبری کی چھڑی کو ہاتھ میں پکڑ کر میں چلتا رہا۔ کوئی منظر آنکھوں کو اچھا لگتا تو آنکھیں بند کر کے اُس کو قید کر لیتا۔
ایک پارک کے کونے میں دو سردار گھُڑ سواروں کے بڑے بڑے مجسمے نظر آئے۔ کافی دیر تک اُنھیں دیکھتا رہا۔
یہ سکھوں کے گُرو تھے یا آزادی کے ہیرو اس بات سے بے نیاز ہو کر دیکھتا رہا۔
کافی دیر تک ایک پرانی عمارت کو حیران ہو کر دیکھتا رہا۔ اُس کے سیلن زدہ دیواروں، بوسیدہ کھڑکیوں اور خستہ حال دروازوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا۔
ع ہو گئے کیسے کیسے گھر خاموش
ایک دیوار پر کُچھ لفظ گُر مکھی میں لکھے تھے میرے خیال میں یہ اُس گھر میں رہنے والے بچوں کے نام ہوں گے کیونکہ بچے اکثر دیواروں پر اپنا نام لکھ دیتے ہیں۔
جانے اُس گھر کے مکیں کس دیس پہنچے کیا ہوئے؟
رہ گئے دیوار پر لکھے ہوئے بچوں کے نام
مجھے اپنا گھر یاد آ رہا تھا۔ جب میں نے اپنے گھر کے در و دیوار کو آخری بار حسرت بھری نظروں سے دیکھا تھا تو پورا گھر مجھے اپنے وجود کا حِصہ لگنے لگا تھا۔ جب آخری بار میں نے اُسے چھونے کی خواہش کی تھی تو میرے ہاتھ چپک گئے تھے میں نے اُسے اُٹھا کر اپنی پُشت پہ رکھ لیا تھا اب میں جہاں جاتا ہوں میرا گھر بھی میرے ساتھ ہوتا ہے۔
جہاں جائیں ان آنکھوں میں ہے بس دیوار و در اپنا
سفر میں بھی لئے پھرتے ہیں ہم تو ساتھ گھر اپنا
بارشوں کے موسم میں مجھے اپنا گھر بہت یاد آتا ہے۔ حالانکہ اب وہ گھر میرا نہیں رہا پھر بھی سوچتا ہوں اُس کی چھت ٹپک رہی ہو گی، آنگن میں پانی ٹھہر گیا ہو گا، کہیں دیواروں کو نقصان نہ پہنچے، بے ساختہ قدم اُس کی طرف اُٹھنے لگتے ہیں۔
یادیں تھیں دفن ایسی کہ بعد از فروخت بھی
اُس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے
جس شہر میں کوئی جاننے والا نہ ہو اُس میں بھی آوارہ گردی کرنے کا اپنا مزہ ہے۔ امرتسر کی سڑکوں، گلیوں، بازاروں میں گھومتے ہوئے میں ہر کسی کو دیکھتا رہا مگر کسی نے مجھے نہیں دیکھا۔ کوئی رستے میں جاننے والا نہیں ملا۔ کسی نے حال نہیں پوچھا اور یہ سب مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔
پتہ نہیں کیوں؟
اچانک مجھے دور سے ڈھول کی آواز سُنائی دی اور بہت سے لوگ اپنی طرف آتے دکھائی دئے۔
قریب آئے تو پتہ چلا دولہا جی بارات لے کے چلے ہیں جو بھی تھا چلو اس بہانے کُچھ دیر نہیں بلکہ زیادہ دیر تک سکھوں اور سکھنیوں کا ڈانس دیکھنے کا ایک بار پھر موقع مِل گیا۔ آنکھیں تھک گئیں مگر وہ ناچ ناچ کر نہیں تھکے۔
عجیب مست قوم ہے۔
امرتسر کے لوگ بھی اہل لاہور کی طرح زندہ دِل ہیں۔ جس طرف اور جہاں جائیں، ہنستے مُسکراتے چہرے نظر آئیں گے۔ زندگی اپنے جوبن پر دکھائی دے گی۔
کُچھ فاصلے پر ریل کی پٹڑی تھی جو شہر سے گذر رہی تھی۔ پٹڑی کے پاس جا کر میرے قدم خود بخود رُک گئے۔ ریل کی پٹری تک جانا اور پھر لوٹ آنا میرے بچپن کی عادت ہے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب مجھے ریل گاڑی سے ڈر نہیں لگتا تھا۔ اپنے شہر کے اُجاڑ ریلوے اسٹیشن پر آنے والی بھولی بھالی، معصوم اور سادہ سی پسنجر ٹرین سے مجھے کبھی خوف نہیں آیا۔ اُس کے کُکّڑ انجن (Steam Engine) کے ساتھ لگے دو مفلوک الحال یتیم بچوں جیسے ڈبے دیکھ کر مجھے اُس کی حالت پر بہت ترس آتا۔ میرا دِل کرتا اس گاڑی کو اُٹھا کر اپنے گھر لے آؤں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے والد صاحب کے ساتھ جب میں پہلی بار کراچی جا رہا تھا تو سمہ سٹہ اسٹیشن پر لمبی لمبی، مسافروں سے کھچا کھچ بھری ٹرینیں دیکھیں تو پریشان ہو گیا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ ان ٹرینوں کے خوفناک حادثات کی خبروں نے دِل دہلا دیا اور ڈر کا سانپ میرے اندر کنڈلی مار کر بیٹھ گیا۔
اپنے شہر کے اُجاڑ ریلوے اسٹیشن پر وہ سنڈی کی طرح رینگتی ہوئی آنے والی ٹرین جس کے آواز سے صحرا موسیقی سے بھر جاتا اور بھی اچھی لگنے لگی۔ کبھی کبھار میں یونہی بے مقصد اُس پر بیٹھ کر چلا جاتا تھا۔
جیسے ہم کسی دوست کے ساتھ سیر کے لئے جاتے ہیں۔
اچانک تیز رفتار ٹرین پٹری پر سے گذر نے لگی اور اُس کا سارا شور مجھے اپنے اندر سے آتا ہوا محسوس ہوا یوں لگا جیسے وہ میرے سر سے گذر رہی ہے۔
قریب ہی کسی شادی پر بجنے والے ڈھول کی آواز، ریل گاڑی گذرنے کا شور اور اس شور میں رضا علی عابدی کا یہ جملہ میرے کانوں میں گونج رہا تھا۔
’’جب سے ریل گاڑی ایجاد ہوئی ہے لوگ اپنی بیٹیوں کو دور دور بیاہنے لگے ہیں‘‘۔
میں اس جملے کے اندر چھپی ہوئی دُکھ کی لہر کو پلکوں پہ سجائے واپس لوٹ رہا تھا۔
دھیرے دھیرے اسٹیشن کو گاڑی چھوڑ رہی تھی
جب وہ کہنے آئی بائے ہاتھ میں پھول اُٹھائے
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...