رات کے پونے نو بج رہے تھے۔ وہ تینوں اس وقت ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے تھے۔ سارہ کوئی میگزین کھولے اس پر جھکی بیٹھی تھی۔ مرتضٰی نیچے قالین پر بیٹھا تھا اور صوفے سے ٹیک لگا رکھی تھی۔۔۔ وہ بیزار سا ریمورٹ ہاتھ میں پکڑے بار بار چینل تبدیل کر رہا تھا۔ جبکہ نمرہ بھی سارہ کے ساتھ صوفے پر آلتی پالتی مارے اپنے موبائل میں بری طرح غرق تھی۔۔۔ گھر کے بڑے اس وقت دادو کے کمرے میں نہ جانے کونسی میٹنگ میں مصروف تھے۔
مرتضٰی بار بار کن اکھیوں سے اسے دیکھ رہا تھا جو پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے موبائل پر ہی جھکی ہوئی تھی جیسے پتا نہیں کتنا اہم کام کر رہی ہو۔ چہرے پر کبھی حددرجہ سنجیدگی چھا جاتی اور کبھی مسکراہٹ جھلک دکھلاتی۔ کبھی چہرے پر سرخی سی لہرانے لگتی تو کبھی رونے والا منہ بن جاتا۔
“نمرہ! کیا کر رہی ہو۔۔۔؟؟” مرتضٰی نے اپنے لہجے کو سرسری سا بناتے ہوئیے ہوچھا۔ نہ جانے کیوں اسے شک سا ہوا کہ کہیں کسی لڑکے سے چیٹنگ میں مصروف تو نہیں وہ۔ ورنہ بغیر کسی وجہ کے موبائل کو دیکھتے دیکھتے سرخ پڑنے کی کیا تک بنتی تھی بھلا۔۔۔؟؟
“جھک مار رہی ہوں۔۔۔” نمرہ اس کے مخاطب کرنے پر بدمزہ ہوئی تھی تبھی جھلا کر بولی۔
“ایسا کیا گھس گیا ہے تمہارے موبائل میں جسے پچھلے ڈیڑھ گھنٹے سے دیکھے جا رہی ہو تم۔۔۔؟؟” مرتضٰی کو پتا نہیں کس بات پر غصہ آیا تھا۔
“تمہیں اس سے کیا؟؟ جب تم اپنے موبائیل پر مصروف ہوتے ہو کبھی میں نے پوچھا تم سے کہ کیا کر رہے ہو۔۔۔؟؟” نمرہ نے اس بار موبائل سے نگاہیں ہٹا کر مرتضٰی کو سخت نگاہوں سے گھورا۔
“تو میرے موبائیل میں ہے ہی کیا۔۔۔؟؟ اور مجھے سمجھ نہیں آ رہی تمہارے فون میں ایسی کونسی انٹرسٹنگ چیز آ گئی ہے جسے تم دیکھ رہی ہو۔ مجھے بھی دے دو، شدید بور ہو رہا ہوں میں۔۔۔” مرتضٰی کی سوئ وہیں آ کر اٹکی تھی۔۔۔
“ہے تو بہت کچھ تمہارے موبائل میں۔۔۔ وہ الگ بات ہے کہ میں نے کبھی اس کے بارے میں کسی کو بتایا نہیں۔” نمرہ نے اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے نیا شوشا چھوڑا۔۔۔
“کیا۔۔۔؟؟ کیا مطلب ہے تمہاری اس بات کا؟؟” نمرہ کا لہجہ آگ لگا گیا تھا اسے۔۔۔ تبھی وہ سیدھا ہو کر بیٹھا۔
“مطلب تو وہی ہے جو تم سمجھے۔ تم نے جو اتنی ڈھیر ساری لڑکیوں کے نمبر سیو کر رکھے ہیں نا اپنے فون میں، شکر کرو تایا ابا کو نہیں بتایا میں نے اب تک۔۔۔ ورنہ جس طرح تم ہر وقت میری ٹوہ میں رہتے ہو مجھے تو ایک سیکنڈ کی دیر نہیں کرنی چاہیے تھی۔۔۔ ” نمرہ دوبدو بولی تھی۔ اسے شدید غصہ آتا تھا جب مرتضٰی اس کے ناولز پڑھنے پر تنقید کرتا تھا۔۔۔
“تمہارا دماغ خراب ہے کیا؟؟ میں بھلا کیوں لڑکیوں کے نمبر رکھوں گا؟؟ جن کے نمبرز میرے پاس ہیں وہ تو آفس کولیگز ہیں۔ انہیں ورک کے لیے جب ہدایات دینی ہوں تو ضرورت کے وقت ان کے نمبرز کام آ جاتے ہیں۔ ” مرتضٰی تو شاکڈ رہ گیا تھا اس کی بات پر۔ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ایسا طعنہ نمرہ کی طرف سے ملے گا۔
“اچھا! تم اپنی کولیگز کے نمبر سیو کرتے ہوئیے ان کے نام کے ساتھ جان بھی ایڈ کرتے ہو گے۔۔۔ ہے نا؟؟” نمرہ نے بھرپور طنز کیا تھا۔
“واٹ؟؟ جان؟؟ میں کیوں کسی کا نمبر جان سے سیو کروں گا؟؟ دیکھو اب تم میرے کردار پر انگلی اٹھا رہی ہو اور یہ میں ہرگز برداشت نہیں کروں گا۔۔۔” مرتضٰی اس کی باتیں سن کر چٹخ کر رہ گیا تھا تبھی انگلی اٹھا کر وارننگ دی۔
“یادداشت بہت کمزور ہے آپ کی مرتضٰی صاحب! میں اس پری جان کی بات کر رہی ہوں۔ جس کا نمبر آپ کے فون میں ہے۔۔۔ یقیناً اس نے بھی آپ کا نمبر مرتضٰی جان کے نام سے سیو کیا ہو گا۔۔۔ ہے نا؟؟ یہاں سے تم آفس کے لیے جاتے ہو اور وہاں نہ جانے کس کس کے ساتھ گھومتے ہو۔۔۔ پتا نہیں اور کتنی جانو بنا رکھی ہیں اس پری جان کے علاوہ۔۔۔ تایا ابا کتنا بھروسہ کرتے ہیں تم پر۔۔۔ انہیں کیا پتا یہ گل کھلا رہے ہو تم باہر۔۔۔ ” نمرہ کا نہ جانے کیوں آج جھگڑنے کا موڈ ہو رہا تھا تبھی لفظ جان پر زور دئیے وہ غصے میں کہتی چلی گئی۔ سارہ نے بدمزگی سے ان دونوں کو دیکھا جو تیسری جنگ عظیم شروع کیے ہوئیے تھے۔۔۔
“خدا کا واسطہ ہے بی بی۔۔۔۔ اپنی عقل کے گھوڑے دوڑانا بند کرو۔۔۔ وہ کولیگ ہی ہے میری اور اس کا پورا نام ہی پری جان ہے اس میں میں کیا کر سکتا ہوں؟؟بات کا بتنگڑ بنا کر رکھ دیتی ہو تم۔۔۔” مرتضٰی کا لہجہ اس بار شدید تلخ ہوا تھا۔ وہ آج سے پہلے کبھی اتنے غصے میں نہیں آیا تھا۔ لیکن آج نمرہ نے بات ہی ایسی کی تھی کہ اسے خود پر قابو رکھنا مشکل ہونے لگا۔
” آپ دونوں کو اللّہ کا واسطہ ہے چپ ہو جائیں۔ بندہ باہر سب کے ساتھ بیٹھتا ہے کہ تھوڑی دیر فریش ہو لے۔ لیکن آپ لوگوں کی اس چک چک نے میرے سر میں درد لگا دیا ہے۔۔۔” سارہ چڑ سی گئ تھی ان کے جھگڑے پر۔۔۔
“ہاں تو بات تمہارے بھائ نے شروع کی تھی۔” نمرہ نے سارا الزام مرتضٰی پر دھرتے ہوئیے خود کو بری الذمہ کیا۔
“میں نے صرف اتنا پوچھا تھا کہ کیا کر رہی ہو فون پہ۔۔۔ مجھے کیا پتا تھا تم آتش فشاں بنی بیٹھی ہو۔۔۔” مرتضٰی نے بھی اپنی صفائ پیش کرنی چاہی۔
“ناول پڑھ رہی ہے وہ فون پر۔۔۔ اب پلیز چپ ہوں گے آپ؟؟” سارہ نے اسے بتاتے ہوئیے جھگڑے کو نمٹانا چاہا۔
“سیل فون پر ناول؟؟” مرتضٰی کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں۔۔۔
“جی۔۔۔ رائیٹرز فیس بک پہ اپنے ناولز پوسٹ کرتی ہیں اور ان کے ریڈرز وہ ناول پڑھتے ہیں۔ اس نے بھی ان رائیٹرز کے پیجز لائک کر رکھے ہیں اور ان کے ناول پڑھتی ہے اب آنلائن۔۔۔” جواب پھر سارہ کی طرف سے ہی موصول ہوا تھا۔ مرتضٰی حیرت سے نمرہ کے جھکے سر کو دیکھے گیا جو اب پھر اپنے سیل فون کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
“لعنت ہو مجھ پر جس نے برتھڈے پر فون گفٹ کر دیا اسے۔ پہلے صرف کتابوں سے ناول پڑھ پڑھ کر ہمارا دماغ خراب کرتی تھی اب تو کھلی چھوٹ مل گئ ہے۔۔۔ پہلے تو کتابی شکل میں ناول نہ ملنے کے باعث چند دن ہی سہی گھر میں سکون تو رہتا تھا۔ اب اس سکون کی بھی امید نہیں۔۔۔ پتا نہیں کیا بنے گا میرا۔۔۔” وہ بڑبڑاتا ہوا ریمورٹ پٹخ کر اٹھا اور وہاں سے واک آؤٹ کر گیا۔۔۔
گھڑی رات کا ڈیڑھ بجا رہی تھی۔ اس وقت سب لوگ اپنے اپنے کمروں میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے لیکن وہ کروٹیں بدل بدل کر تھک گیا تھا۔ نیند نہ جانے کیوں آج روٹھی روٹھی سی لگ رہی تھی۔ جب کوشش کے باوجود سو نہ سکا تو اٹھ کر کھڑکی کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ پردہ ہٹاتے ہوئیے باہر جھانکا جہاں لان میں مکمل اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ یونہی خالی الذہنی کہ حالت میں کھڑے کھڑے اچانک نمرہ کا چہرہ آنکھوں میں آن سمایا۔ وہ خود بھی بے خبر تھا کہ کب نمرہ اپنی تمام تر بے وقوفیوں سمیت اس کے دل میں اتر چکی تھی۔ وہ جو اسے فقط اپنی کزن اور ایک جھلی سی لڑکی سمجھتا تھا اچانک ہی اس کے لیے دل کے جذبات بدل گئے تھے۔ اسے سامنے پاتے ہی دھڑکنیں اودھم مچانے لگتی تھیں۔ یہ بھی فکر لگی تھی کہ پتا نہیں بابا نے چچا اور چچی جان سے بات کی ہے یا نہیں؟؟؟اور ان کا کیا جواب تھا؟؟ گھر والوں نے کیا فیصلہ کیا ان کے مستقبل کے حوالے سے؟؟ ابھی تک کوئی بھی بات کھل کر سامنے نہیں آئ تھی۔
“ٹھک ٹھک ٹھک۔۔۔” وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھا جب اسے اپنے کمرے کے دروازے پر دستک سنائی دی۔ اس نے دیوار گیر گھڑی پر نگاہ دوڑائ تو پونے دو کا وقت تھا۔
“اس وقت کون ہو سکتا ہے۔۔۔؟؟” وہ بڑبڑایا۔ پھر آگے بڑھ کر دروازہ کھولا تو سامنے وہی کھڑی تھی جو آج کل اس کے دل کی مسند پر بڑی شان سے براجمان تھی۔
“نمرہ! تم؟؟؟ اس وقت؟؟ کیا ہوا سب خیریت تو ہے نا؟؟؟” وہ رات کے اس پہر اسے اپنے سامنے دیکھ کر حیران ہوا تھا۔ اوپر سے اس کے چہرے کے تاثرات بھی ناقابل فراموش تھے۔۔۔
“مرتضٰی! مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔۔۔” وہ رونے والا چہرہ بنا کر اسے ایک طرف ہٹا کر اندر چلی آئ۔
“ڈر؟؟ کس بات کا ڈر؟؟ ” وہ ششدر سا اس کے پیچھے چلا آیا کہ اس کے چہرے پر خوف کی پرچھائیاں دیکھ کر وہ خود بھی پریشان ہو گیا تھا۔ بھلا نمرہ اور کسی سے ڈرے؟؟ یہ کہاں لکھا تھا۔
“وہ نا۔۔۔ میں نا۔۔۔ آیت نور کا ایک خوفناک ناول پڑھ رہی تھی۔ اس میں ایک جن زینی پر قبضہ کر لیتا ہے۔۔۔ وہ جن بہت برا اور خوفناک ہے۔۔۔ بے چاری زینی کو تکلیفیں پہنچاتا ہے۔۔۔ اس سے انتقام کی خاطر سب گھر والوں کو بھی ڈراتا ہے۔۔۔ اس کے سین۔۔۔ اس کے سین اتنے خوفناک تھے کہ اب مجھے خود ڈر لگنے لگا ہے۔۔۔ اگر اس جیسا کوئی جن میرے سامنے آ گیا تو؟؟ اگر مجھے اٹھا کر لے گیا تو؟؟ مرتضٰی مجھے مرنے سے بہت خوف آتا ہے۔۔۔ مم مجھے ایسا لگتا ہے جیسے میرے پیچھے بھی بالکل ویسا ہی جن ہے۔ بیڈ پہ سونے کے لیے لیٹی تو ایسا لگا جیسے بیڈ کے نیچے کوئی ہے۔۔۔ مجھے نہیں سونا اپنے کمرے میں۔۔۔” وہ سچ میں بے حد خوفزدہ ہو چکی تھی۔ مرتضٰی نے اس کے چہرے کو پیلا پڑتے دیکھا۔
“تو کیوں پڑھتی ہو پھر ایسے ناولز جب ڈر لگتا ہے تو؟؟ ” وہ جھنجھلا سا گیا تھا۔ نمرہ کی حالت پر اس کے اپنے دل کو کچھ ہونے لگا تھا۔ نمرہ پر ابھی بھی کپکپی طاری تھی۔
“اچھا دیکھو ریلیکس ہو جاؤ۔۔۔ کوئی جن بھوت نہیں ہے یہاں۔۔۔ وہم ہے تمہارا۔۔۔ ادھر آؤ۔ یہاں بیٹھو۔” مرتضٰی اس کا ہاتھ تھام کر اسے صوفے تک لایا اور اسے بٹھا کر خود سامنے والی ٹیبل پر بیٹھ گیا۔ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کن الفاظ میں اس سے مخاطب ہو جو اس کا ڈر زائل ہو جائے۔
کافی دیر خاموشی دونوں کے درمیان حائل رہی تھی۔ دھیرے دھیرے وہ نارمل ہو رہی تھی۔
“نمرہ! اب تم اپنے کمرے میں چلی جاؤ۔ اس وقت تمہارا میرے کمرے میں موجود ہونا ٹھیک نہیں۔” مرتضٰی نظریں چراتا اس کے سامنے سے اٹھ کر کھڑکی کے قریب آن کھڑا ہوا۔ چہرے پر سنجیدگی تھی۔۔۔
“میں نہیں جاؤں گی وہاں۔ مجھے ڈر لگتا ہے ادھر۔۔۔” نمرہ نے خوفزدہ لہجے میں کہا تھا۔
“ڈر کس بات کا ہے یار! سارہ بھی وہیں ہے۔۔۔” مرتضٰی جھنجھلا کر رہ گیا تھا اس کی ضد پر۔ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھتی نہیں تھی۔ سارہ اور نمرہ ایک ہی کمرہ شئیر کرتی تھیں۔
“ہاں! وہ تمہاری بہن جب گھوڑے گدھے بیچ کر سوتی ہے نا تو اس کے قریب چاہے ڈھول پیٹتے رہو اسے کچھ ہوش نہیں ہوتا۔ اگر اس کے پاس سے مجھے کوئی جن اٹھا کر لے گیا تو۔۔۔؟؟” نمرہ نے چہرے کے زاویے بگاڑے۔۔۔
“جیسی تمہاری حرکتیں ہیں نا۔۔۔ میرا تو دل چاہتا ہے میں خود چالیس راتوں کا ایک چلّہ کروں، کسی جن کو قبضے میں کروں اور اس سے کہوں کہ اٹھا کر لے جائے تمہیں۔” مرتضٰی چڑ سا گیا تھا اس کی باتوں سے۔
“کیا کہا تم نے؟؟” نمرہ اپنا سارا ڈر اور خوف بھلا کر اسے گھورنے لگی۔
“کچھ نہیں۔ تم ایسا کرو دادو کے روم میں چلی جاؤ، وہاں جا کر سو جاؤ۔” مرتضٰی نے اسے ٹالتے ہوئیے ایک اور حل تلاشا۔
“نہیں۔۔۔ دادو سو رہی ہوں گی۔ پھر انہیں تہجد کے وقت اٹھنا ہوتا ہے۔ انہیں ڈسٹرب نہیں کر سکتی میں۔ ان کی نیند خراب ہو جائے گی۔” نمرہ نے منہ لٹکاتے ہوئیے یہ تجویز بھی رد کی۔
“اس گھر میں سب کی نیند کی فکر ہے۔ بس ایک میری ہی نیند حرام کرنی ہوتی ہے۔” وہ غصے سے بڑبڑایا تھا لیکن نمرہ اس کی بڑبڑاہٹ سن چکی تھی۔
“تو تمہیں کیا کہا ہے میں نے؟؟ تم سو جاؤ جا کر وہاں بیڈ پر۔۔۔ میں یہاں صوفے پر ایڈجسٹ کر لوں گی۔ ویسے بھی تمہیں کونسا صبح کو کوئی کام ہوتا ہے۔ کرونا وائرس کی وجہ سے تمہارے آفس میں ویسے ہی چھٹیاں چل رہی ہیں۔ دن کو بھی سوئے ہی رہتے ہو۔” نمرہ نے نخوت سے سر جھٹکا۔
“اف! کم عقل لڑکی! کیوں میری شامت بلوانا چاہتی ہو؟؟ تم تو یہاں صوفے پر سکون سے سو جاؤ گی لیکن میری جان ساری رات سولی پر لٹکی رہے گی۔ اگر گھر میں سے کسی نے یہ دیکھ لیا کہ تم میرے روم میں سو رہی ہو تو تمہیں تو کچھ نہیں کہا جائے گا البتہ مجھے ضرور لعن طعن کریں گے سب۔۔۔” مرتضٰی کو غصہ آنے لگا تھا نمرہ کی ناسمجھی پر تبھی سخت لہجہ اختیار کر گیا۔ بدلے میں دوسری جانب خاموشی چھائ رہی تھی۔ مڑ کر دیکھا تو وہ اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی جبکہ نین کٹورے پانی سے بھرے تھے۔
“اچھا آئم سوری۔۔۔ اب پلیز رونا مت شروع کر دینا۔” وہ فواراً اس کی جانب آیا تھا تاکہ اس کے رونے پر پیشگی بند باندھ سکے۔ جانتا تھا اگر ایک بار وہ رونا شروع ہو گئ تو سارا گھر سر پر اٹھا لے گی۔ اور اس وقت گھر والے یہاں آ گئے تو اس کے مرتضٰی کے کمرے میں ہونے اور یوں رونے سے پتا نہیں کیا کیا نتائج اخذ کر لیے جائیں گے۔ وہ گھر والوں کی نگاہوں میں مشکوک نہیں ہونا چاہتا تھا۔
“اچھا ٹھیک ہے نا یار! مت جاؤ اپنے کمرے میں۔ کوئی حل تلاش کر لیتے ہیں۔ رونا تو بند کرو۔” اس نے ایک بار پھر منت کرتے ہوئیے نمرہ کو تسلی دینے کی کوشش کی۔ جواب میں سوں سوں کرتے ہوئیے نمرہ نے گال رگڑتے ہوئیے آنسو صاف کیے۔
“چلو آؤ میرے ساتھ۔” مرتضٰی نے کچھ سوچتے ہوئیے اپنے بیڈ سے بلینکٹ اٹھایا اور اسے اپنے پیچھے آنے کا کہتے ہوئیے باہر نکل گیا۔ نمرہ نے بھی اس کی تقلید کی۔ لاؤنج میں پہنچ کر مرتضٰی نے بلینکٹ صوفے پر رکھا۔ پھر ڈرائنگ روم کی جانب بڑھا۔ وہاں نیچے بیٹھنے کے لیے ایک میٹرس بچھا تھا۔ وہ اسے گھسیٹتے ہوئیے لاؤنج میں لایا۔
“نیچے میٹرس پر سونا ہے تمہیں یا یہاں صوفے پر؟؟” تمام کارروائ مکمل کرتے ہوئیے اس نے نمرہ سے سوال کیا جو ایک جانب بت بنی کھڑی سب دیکھ رہی تھی۔
“میں کیوں نیچے سوؤں؟؟ تم مجھے نیچے سلا کر اپنی برتری ظاہر کرنا چاہ رہے ہو کہ تم مرد اونچے رتبے کے ہوتے ہو اور ہم عورتیں تم سے کم تر ہیں؟؟” نمرہ شاکی لہجے میں کہتی اب ایک نیا مسئلہ کھڑا کر چکی تھی۔ مرتضٰی کا دل چاہا اپنا سر پیٹ لے۔
“اف! عجیب بددماغ لڑکی ہو تم۔ میں نے صرف تم سے پوچھا ہے کہ کہاں سونا پسند کرو گی۔ ہر بات کا الٹا مطلب نکالنے میں تو ماہر ہو۔ جاؤ جا کر سو جاؤ صوفے پر،میٹرس پر سونے سے کہیں تمہاری شان میں کوئی گستاخی نہ ہو جائے۔ نیچے میں سو جاتا ہوں۔ ” مرتضٰی نے اپنا بلینکٹ پکڑ کر نیچے میٹرس پر پٹخا۔
“میرا بلینکٹ؟؟” وہ اب سوالیہ انداز میں اسے دیکھنے لگی۔
“اپنے کمرے سے لے آ ؤ نا۔ اب کیا اس بلینکٹ کو کاٹ کر آدھا آدھا کروں؟؟؟ ” مرتضٰی نے طنزیہ لہجہ اختیار کرتے ہوئیے اپنے بلینکٹ کی جانب اشارہ کیا۔
“لیکن میرے کمرے میں کوئی ہے۔۔۔ وہ جن۔۔۔” نمرہ نے بات ادھوری چھوڑی۔
“بھاڑ میں جاؤ تم اور تمہارا جن۔ پاگل کر کے رکھ دیتی ہو دوسرے بندے کو۔ اللّہ پوچھے ان رائیٹرز کو جو ایسے الٹے سیدھے ناول لکھتی ہیں۔” ایک بار تو دل چاہا تھا اسے اس کے حال پر چھوڑ کر خود ڈھیٹ بن کر سو جائے۔ لیکن پھر بڑبڑاتا ہوا وہ اس کے کمرے سے اس کا بلینکٹ لینے چل دیا۔