عجیب آوازیں گونجتی ہیں ہمیشہ نقلیں اُتارتا ہوں
میں شہر کے بیچ رہ کے جنگل کی زندگی کیوں گزارتا ہوں
پلٹ کے آتا ہے خود کلامی کا شور میری سماعتوں میں
اندھیرے کمرے میں آنکھیں کھولے کسے میں شب بھر پکارتا ہوں
ابھی ذرا دیر پہلے مجھ پر عیاں حقیقت ہوئی تھی، لیکن
دوبارہ کس خواب کے تصور میں آئینے کو نہارتا ہوں
قسم خدا کی کتاب دل پر منافقت کی جگہ نہیں ہے
مگر یوں ہی متن کی رقابت میں حاشیے کو اُبھارتا ہوں
کمہار ہاتھوں کا تیز دھاگہ مری ضرورت کو کاٹتا ہے
کبھی چڑھاتا ہوں چاک پر میں کبھی میں خود کو اُتارتا ہوں
فریبی نظروں کے سامنے تو طلسم منظر ہے سبز سارا
ذرا ٹھہر کینوس پہ سچ مچ کا سرخ منظر اُبھارتا ہوں
معاہدہ لکھ کے صلح کیجئے جو جنگ لڑنی ہے کھل کے لڑیئے
للک ہے مرضی سے جیتنے کی، کب اپنی مرضی سے ہارتا ہوں
اُداس نسلوں کا دور دلشادؔ نظمی اب میرے سامنے ہے
صدی پہ نظریں جمائے لمحوں کی زندگی میں گزارتا ہوں