یہ نظم میرا جی کی نظم ”اجنتا کے غار“سے متاثر ہو کر
اور ایک تصویر کو دیکھ کر لکھی گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی کی بات ہے شاید یا کل کی،ایسے لگتا ہے
مگر یہ بات تو صدیوں پرانی ہے
ہم اپنے پیار میں کھوئے ہوئے
اک دوسرے میں خود کو جیسے ڈھونڈتے تھے
ہمارا کھیل ابھی جاری تھا
جب تاریخ کے صفحات پر آندھی چلی
خانہ بدوشوں کے مقدس حملہ آور
جب مِرے جغرافیہ کو روندتے بڑھتے چلے آئے
تب اس آندھی کے پہلے زور ہی میں
میں جنم چکر کے گھیرے میں چلا آیا
وہ اصحافِ کہف کا حال کچھ کچھ جانتی تھی
اس لیے آندھی سے بچنے کے لیے
اک غار میں وہ جاچھپی
جنم چکر میں لہراتا ہوا کتنے ہی جنموں تک
اسے میں ڈھونڈتا پھرتا رہا
میں ساری بستیوں،صحراؤں سے ہوتا
بیابانوں تلک پہنچا
اُسے ڈھونڈا صدائیں دیں
پہاڑوں اور دریاؤں سے گزرا
اور غاروں تک بھی جا پہنچا
تبھی اک غار میں تصویر کا پیکر بنی آخر وہ مجھ کو مل گئی
میں اس مُورت کو کتنی دیر تک حیرت سے بس تکتا رہا
تکتا رہا۔۔۔تکتے ہوئے
اس وقت خود حیرت سے مورت بن گیا
تصویرمیںجب یک بیک جنبش ہوئی
انگڑائی سی لے کر وہ گہری نیند سے جاگی
اندھیرے غار کی دیوار سے نیچے اتر کر مسکرائی
میرے پاس آئی
مجھے بانہوں میں بھر کے بھینچ کے سینے سے لپٹایا
تو دو مہجور روحوں کا ملن جسموں کے رستے سے
ازل سے تا ابد پھیلے ہوئے لمحے میں جیسے نقش سے بھرنے لگا
دو مہجوروں کے وصلِ جاوداں کی یہ کہانی
خواب کو تعبیر دیتی ہے
اک ابدی کیف سے سرشار لمحے کی گواہی
آج بھی اُس غار کی تصویر دیتی ہے!
٭٭٭