(Last Updated On: )
سکندر علیم نے بہت پیار سے نین کی خواہش کو رد کیا تھا۔ نین ماما کو منا چُکی تھی ۔، اُن کو منانا اُسے کبھی مشکِل نہیں لگا تھا۔اُسے صرف پاپا کی ٹینشن تھی۔، اور وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ پاپا سِرے سے ہی منا کر رہے تھے ، اور یہ بات نین کو خاصہ پریشانی میں مبتلا کر گئی تھی۔
ماما اپنا وعدہ نبھا چُکی تھیں ، اب اُسے اپنی مدد آپ کے تحت پاپا کو منانا تھا۔
پاپا پلیز صرف دو سال کی ہی تو بات” ہے اور اُس عرصہ میں آپ ماما وجی سب ملنے آتے تو رہیں گے نا”۔ نین پاپا کو قائل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہی تھی۔
نینی بیٹا میں ایک بار منا کر چُکا ہوں
تو پھر بار بار کیوں ضد کر رہی ہو۔ آئی سیڈ نو”پاپا پلیز اڑز مائی ڈریم وِش میں اپنی زندگی کے بس دو سال مانگ رہی ہوں،کیا میری زندگی کے دو سال مُجھے نہیں مِل سکتے”۔ نین کی آنکھیں آنسوؤں سے لبا لب بھری ہوئی تھیں۔
سکندر علیم نے اخبار پڑتے ہوۓ زرا کے زرا نین کی اور دیکھا تو اُن کا دل پسیج گیا چاہے کچھ ہو جاۓ وہ نین کی آنکھوں میں آنسو نہیں دکھ سکتے تھے۔ نیوز پیپر ایک طرف رکھ کر سیدھے ہو بیٹھے اور بغور اپنی ننھی پری کو دیکھنے لگے جس کو دیکھے بِنا اُنکی زندگی کی رمق ادھوری تھی وہی دیارے غیر جانے کی بات کر رہی تھی۔
تمہیں کتنی پرسینٹ یقین ہے کے” تمہیں اسکالرشپ مِل جاۓ گا؟ کیوں کے بیٹا بہت لائک فائک بچے رہ جاتے ہیں ان معاملوں میں”، پاپا نے پُر سوچ انداز میں کہا تھا۔
پاپا!۔۔آئی ایم ناٹ شیور کے مجھے” اسکالرشپ مِلے گی کہ نہیں ۔، “میں نے فارم فِل کر کہ بھیجا ہے اب قسمت ہوئی تو لگ جاۓ گا،
اور اگر نا لگا تو،اگر وہاں سے کوئی” رسپانس نا آیا تو”؟؟ نین کی بات مُکمل ہونے سے پہلے ہی پاپا جلدی سے بول گئے تھے۔ پھر اُنہیں اپنی جلد بازی کا اندازہ نین کی ناراض نظروں سے ہو گیا تھا۔
جب اسکالرشپ مِلے گا ہی نہیں
تو کیسے جا سکتی ہوں بھلا؟ ناراضگی سے بولی تھی۔
ک “پاپا پلیز مان جائیں نا”،،، “اچھا دیکھتے ہیں اگر اسکالرشپ مِل گئی تو میں منا نہیں کروں گا لیکن اگر نا مِلی تو پھر جہاں میں کہوں گا وہاں اڈمیشن لینا ہو گا ۔۔۔۔۔ ڈن ڈیل”؟؟ پاپا نے سوالیہ آبرو اُٹھا کر بیٹی کو جواب طلب نظروں سے دیکھا تھا۔
ڈن ڈن ڈن پاپا ۔۔۔۔ آپ دنیا کہ” سب سے بیسٹ پاپا ہیں” ۔ نین پاپا کو ہگ کرتے ہوۓ جوش سے بولی تھی ساتھ ہی میں ماما کو بتا کر آتی ہوں کا کہہ کر کمرے سے نکل گئی۔
سکندر علیم نین کہ جانے کے بعد تادیر دروازے کی اور دیکھتے رہے ۔، جہاں سے ابھی تھوڑی دیر پہلے نین گئی تھی۔ پھر چشمہ پہنتے ہوۓ دوبارہ سے نیوز پیپر سامنے پھیلا لیا۔
※※※※※※※※※
ستاون ہزار آٹھ سو کی تعداد پہ مُشتمل جدید دور کی بنی سوربونے یونیورسٹی جو بعد میں یونیورسٹی آف پیرس میں مرج ہو گئی تھی۔ دنیا کی خوبصورت یونیورسٹیز میں سے ایک ہے،جہاں اسٹوڈنٹس پڑھنے کی خواہش کرتے ہیں ۔ نین سکندر یہاں اپنے مُلک کا نام اور مقام اُنچا کرنے آئی تھی۔یہاں آنا اور پڑھنا اُس کی خواہش تھی،اور آج وہ اُس مقام پہ تھی۔ جہاں اُسے ہونا ہی تھا۔ تقدیر کا لکھا کون ٹال سکتا ہے بھلا، اِرادے پاک اور مضبوط ہوں تو تقدیر وہاں لے جاتی ہے جہاں کا کبھی سوچا بھی نہیں ہوتا۔ کہتے ہیں ہاتھوں کی لکیریں تو خود میں اُلجھی ہوتی ہیں ان لکیروں نے کیا دینا ہے ۔ جب کےیہ اُلجھی لکیریں ہی تو ہماری قسمت سُلجھاتی ہیں۔ نین کا دیارے غیر آنا اس کے پیچھے بھی تو تقدیر کا کوئی راز چُپھا تھا۔
**************
نین سکندر کو آۓ دو ہفتے ہو چُکے تھے،ابھی اُس کی کلاسز اسٹارٹ نہیں ہوئی تھیں، اسٹوڈنٹ کارڈ بن چُکا تھا، جس بیس پے اُسے بُکس مل چُکی تھیں۔ لائبریری کارڈ بھی اُسنے ڈھونڈ کر بنوا لیا تھا۔، اُس کی ابھی تک کسی سے حاص دوستی نہیں ہوئی تھی، وہ ایسی ہی تھی کم گو وہ زیادہ دوستیاں کرنے کی شوقین نہیں تھی۔یہاں آ کر ابھی تک اُس کی صرف لِنڈا سے ہاۓ ہیلو ہوئی تھی، وہ کافی حد تک کاپریٹیو تھی چینی خدوخال کی مالک میجیکل سمائل والی، وہ جب بھی ہستی نین اُسے بغور دیکھتی،وہ جاپان کی تھی۔ لیکن ہسنے کا انداز جاپانیوں سے مختلف تھا، جاپانی عورتیں ہستے وقت منہ پہ ہاتھ رکھ لیتی ہیں، جب، کہ لِنڈا نے ایسا نہیں کیا،اُس کی ہسی آسمان پے بکھری چاندنی جیسی تھی مکمل اور خوبصورت ،خوش شکل اور خوش میزاج لِنڈا! نین کو پہلی نظر میں ہی اچھی لگی تھی۔لِنڈا کی مدد سے اُسے جاب بھی مل گئی تھی پاپا کے لاکھ کہنے پر بھی وہ نا مانی اور پاپا کو پیسے بھیجنے سے منا کر دیا، یہ دو سال اُس کے تھے صرف اُس کہ وہ یہاں سب کُچھ اپنی مدد آپ کہ اصول کہ مطابق کرنا چاہتی تھی۔ابھی وہ فل خال اُسی ہوٹل میں ٹھری ہوئی تھی۔ جس کی ایک ماہ کی پیمنٹ پاپا کر چُکے تھے۔اس لیے اُسے یہ مہینہ یہیں گُزارنا تھا، لیکن پھر بھی وہ ساتھ ساتھ اپنی جاب کے مطابق کمرا تلاش رہی تھی۔
نین سکندر سیدھ میں چلتی آ رہی تھی۔،ہاتھوں میں بُکس کا ڈیر لیے یقیناً وہ لائبریری سے آ رہی تھی۔ایک ہاتھ سے ڈوبٹہ سنبھال رکھا تھا جو وقتنًا فوقتا نیچے گرتا یونی کی صفائی کرتا نظر آتا تھا۔ پھر نجانے کیا ہوا، کچھ تھا جس پہ اُس کا پاؤں آیا تھا اور وہ بیلنس قائم نا رکھ پائی اور کتابوں کے ساتھ ساتھ خود بھی نیچیے کو لڑھ گئی اُسکی جاندار چیخ ہوا میں گونجھی تھی، کتابیں یہاں وہاں بکھری پڑی تھیں ۔ نین کی آنکھوں میں آنسو بہہ نکلے تھے اُسکا پاؤں زمین کی رگڑ سے ضخمی ہوا تھا۔،وہاں خون کی بوندھیں رس رہی تھیں اور یہ پیرس میں اُس کی پہلی چوٹ تھی جس کا نشان وقت کے ساتھ ساتھ چُھوٹتا چلا جاۓ گا۔
ارے ارے ۔چک۔چک۔چک۔ نین” سکندر گر گئی،اہ ہو,, یہ تو بہت بُرا ہوا۔۔ نی”؟
پیٹر اُس کے پاس نیچے زمین پے بیٹھے ہوۓ افسوس سے بولا۔ “دیکھو شرمندہ مت ہو اس میں تمہارا کوئی فالٹ نہیں ہے آسمانوں پے رہنے والے اکثر ایسے ہی گرتے ہیں، ویسے بُرا مت ماننا تمہاری اصل جگہ یہی ہے”۔وہ برہمی سے بولا تھا۔، جبکہ نین کا دل چاہا اس بندر کا سر پھار دے مدد نہیں کر سکتا تو فالتو کی بکواس کیوں کر رہا تھا۔نین کو اُس وقت پہ رونا آیا جب اے جے نے نین کے سامنے انکی دُرمت کی تھی۔ تب سے اب تک اے۔جے سے اُس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی، سُننے میں آیا تھا وہ بیمار ہیں اس لیے چوٹی پہ ہیں، ورنہ ان سب کی شکائت لازمی کرتی۔نین نے نظریں اُٹھا کر ناپسندیدگی سے پیٹر کو دیکھا تھا۔ تھوڑے فاصلے پہ باقی کے چار کی بجاۓ تین کارٹون موجود تھے۔اُنکا گھمنڈی دوست جس کی شئے پہ یہ سب ہوتا تھا۔ ،شیری وہ موجود نا تھا۔شرلے خسبِ معامول اپنا میک اپ درُست کرنے میں لگی تھی۔،آج گھنگھریالے بال بلکُل سیدھے تھے۔ہیری پاکٹس میں ہاتھ گُھسیڑے کھڑا ہس رہا تھا۔ جیسے پیٹر نے کوئی بہت بڑا معارکہ سر کیا ہو۔ اُس کے ساتھ کھڑی عینی کانوں میں ہینڈ فری ڈال کسی اور دنیا کی مخلوق لگ رہی تھی۔،وہ وہاں ہو کر بھی وہاں موجود نہیں تھی۔کہنے کو وہ مسلمان تھی لیکن اُس کا لباس اُسکے مسلمان ہونے کی نفی کرتا تھا۔آج بھی اُس نے مینی اسکرٹ پے سلیولیس شرٹ پہن رکھی،بیلی آج بھی نظر آرہا تھا۔ جس پے اُس نے پچھلی بار کیطرح سفید نغوں والی مالا پہن رکھی تھی،جو عموماً ہندوستانی عورتیں گھاگھرا چولی کے ساتھ پہنتی ہیں۔
ارے تمہارا تو خون نکل رہا ہے، کیا میں کچھ مدد کروں پیٹر مصنوعی پرشانی ظاہر کرتا ہوا بولا تھا۔نین تھوڑی اور سمٹ کر بیٹھ گئی۔نین کو پیٹر اپنے حواسوں میں نہیں لگتا تھا۔،اس لیے اُسکی آنکھوں میں غُصے کے ساتھ ساتھ پریشانی بھی در آئی تھی۔ “ہیری دیکھ دیکھ نین سکندر ہم سے ڈر رہی ہے، اسکی آنکھوں میں ڈر دیکھو۔ پر یہ ڈر اُس دن کیوں نہیں تھا”؟ وہ اُنگلی ماتھے پہ رکھتے ہوۓ پُر سوچ انداز میں بولا۔ نین کو اُس بندر کی زہنی خالت پہ شک گُزرا تھا۔ وہ جو بھی تھا نین کو حد درجہ عجیب اور نفسیاتی لگا تھا۔خود سے باتیں کرنے والا عجائب گھر سے آیا ہوا نفسیاتی بندر۔
آہستہ آہستہ کافی اسٹوڈنٹس اکھٹے ہو گے تھے،ایک مجمہ سا لگ کیا تھا، اُس اکیلی لڑکی کی مدد کو کوئی آگے نا بڑھا، جبھی بھیڑ کو چیرتی لِنڈا وارد ہوئی تھی اور نین کو دیکھتے ساتھ آگے بھڑی تھی
نین نے نا سمجھی سے لِنڈا کو دیکھا، جو نین کو ایسے دیکھ کر بوکھلا گئی اور فرینچ میں پوچھنے لگی۔۔، “کیا ہوا؟ کیا تم ٹھیک ہو”؟ نین کے دیکھنے پہ اُس نے فوراً انگریزی زُبان کا استعمال کیا تھا۔،اور ارد گرد کے مجمہ کو لتاڑا دیا نجانے وہ فریچ جو کے وہاں کی معادنی زُبان ہے میں انہیں کیا کہہ رہی تھی جبھی ایک سیکنڈ کے اندر اندر سارا مجمہ غائب ہو گیا تھا ۔پیٹر ہیری عینی شرلے بھی وہاں سے نکل لیے تھے۔ شاید اُس نے اُن کو بھی کوئی دھمکی دی تھی۔ کیسے بے حس لوگ تھے۔ کج ادا۔بے مروت, انسانیت کہ ہر جزبے سے دور
نین لِنڈا کا ہاتھ تھام کر اُٹھنے لگی جب اُسکی نظر گول سے یلو بل پہ پڑی دیکھنے میں وہ چھوٹے سائز کا تھا لیکن وہ لوہے کا وزنی بال تھا جس پہ گولڈن خروف میں کچھ لکھا تھا اور ایک طرف سفید نگ جڑا تھا، یقیناً وہی اُس کے پاؤں کے نیچے آیا تھا اور وہ بیلنس نا رکھ پائی اور گر گئی
پر وہ بال کس کا تھا اور وہاں کیسے آیا یہ سوچنے میں اُسے زیادہ وقت نہیں لگا تھا۔، وہ سمجھ چُکی تھی کے اُسے گرانے کی یہ گندی ہرکت کون کر سکتا ہے۔
اُس نے وہ ننھا بال مٹھی میں بند کر لیا اور اُٹھ کر لِنڈا کے ساتھ چلتی ہوئی کیفے میں آگئی، نین کو بینڈیج لگانے کے بعد لِنڈا نے کافی آرڈر کی تھی۔”نین تم بہت خوبصورت ہو “ہر بار کی طرح آج بھی لِنڈا نے ستائش بھری نظروں سے نین سکندر کو بغور دیکھتے ہوۓ دل سے کہا تھا، جواباً نین ہلکا سا مُسکرائی تھی۔
※※※※※※※※※
سکندر علیم نے نین کو اس بیس پہ ہاں کہی تھی کہ اگر اسکالرشپ مل گیا تو وہ نین کو قطعاً نہیں روکئیں گے، کیونکہ اُنکو کہیں نا کہیں اس بات پہ یقین تھا کہ ایسا کچھ ہونے والا نہیں، اور نا ہوگا نین خود ہی بھول جاۓ گی، لیکن یہ سب تو بس وقتی احساس تھا جو وقت کے ساتھ بیت چُکا تھا۔ نین کو اسکالرشپ مل چُکا تھا۔ سکندر علیم کو نا چاہتے ہوۓ بھی بیٹی کی خوشی میں خوش ہونا پڑا۔
جب سے نین کی سیٹ فائنل ہوئی تھی تب سے اُسکا روزانہ بازار کا چکر لگ رہا وہاں کے موسم کے حساب سے وہ گرم کپڑوں کی بے شُمار شاپنگ کر چُکی تھی پھر بھی اُسکا روز کچھ نہ کچھ رہ ہی جاتا۔ سب اُداس تھے نین سب کی جان تھی سب کی آنکھوں کا تارا، نین کے جانے سے کوئی خوش نا تھا، سِواۓ نین کے، وہ باہر جانے کی خوشی میں سب کی اُداسی یکسر نظر انداز کر رہی تھی، کیا اُسے دور جانے کا کوئی دُکھ نہیں تھا؟ یاں ! یہ جو بھی ہو رہا تھا یہ بس وقتی خوشی کے زیرِاثر تھا؟، یاں اس ٹائم پہ خود کو مضبوط ثابت کرنے کی کوشش کر رہی تھی جو بھی تھا وہ اندر ہی اندر کٹ رہی تھی، خود سے جنگ لڑ رہی تھی۔
سب تیاریاں مکمل ہو جانے کے بعد بل آخر وہ دن بھی آگیا جب نین کو سفر کی لمبی اُڑان بھرنی تھی،اپنے خوابوں کو پورا کرنا تھا جس کی خاطر وہ اپنے پیاروں کو پیچھے چوڑ کر جا رہی تھی۔اس لمحے اُسکا دل بھی بیٹھا جا رہا تھا، یہ اُسکی زندگی کا پہلا سفر تھا جس کی وہ اکیلی مسافر تھی،اور اُسے اپنی منزل خود تلاش کرنی تھی،ورنہ اب تک اُس نے جتنے بھی باہر کے ٹوئرز کیے تھے ،وہ ماما پاپا وجی کے ساتھ کیے تھے۔وجی کی شرارتیں،اس کی لڑائیاں اُسکا تنگ کرنا سب کچھ وہ مِس کرنے والی تھی۔نین کی فلائٹ کی انائوسمنٹ ہو رہی تھی اور سکندر علیم بھیڑ میں نین کو خود سے بھینچے کھڑے تھےُآنسوؤں کا سیلاب بن توڑ کر چھلکنے کو بےقرارتھا۔،لیکن اس وقت اُنکو کمزور نہیں پڑنا تھا، وقت بہت نازک تھا۔، اور اس وقت وہ مضبوط دل سے نین کو رُخصت کرنا چاہتے تھے۔ تیسری بار نین کی فلائٹ انائونس ہو رہی تھی۔وہ ماما پاپا اور وجی کو الویدائی کلمات کہتی ہوئی اپنا سامان اُٹھاتی ہوئی اور ماما کی بے شُمار نصیحتوں کا پلِندا گانٹھ باندتی ہوئی وہ آگے بھڑی تھی اپنے سفر کی اور جہاں بہت کچھ اُس کا انتظار کر رہا تھا۔ آخری بار اُس نے گلاس وال سے باہر جھنکا تھا جہاں ماما پاپا وجی کھڑے بے قرار نظروں سے اُسے جاتا دیکھ رہے تھے۔اُس نے دور سے ہاتھ ہلایا تھا،اور پھر گلاس وال کے پیچھے گم ہو گئی۔
※※※※※※※※
پیرس کی شام اگر دن بھر میں دھوپ نکلنے کے بعد ہوتو شاید ہی اسے حسین شام دنیا کے کسی اور احاطے پر اُترتی ہو گی،شام کا منظر سورج کی الویداہ ہوتی کِرنوں میں دلکش نظارہ پیش کر رہا تھا۔ اِفل ٹاور کا شُمار دنیا کے عظیم عجائب میں ہوتا ہے۔، پیرس میں شام ڈھلتے ہی اِفل ٹاور کی روشنیاں شہر کے دور دراز علاقوں سے بھی نظر آنا شروع ہو جاتی ہیں ،وہ بھی لِنڈا کے ساتھ کریسمس کی رونق دیکھنے آئی تھی۔ جب سے وہ پیرس آئی تھی آج پہلی بار باہر آئی تھی وہ بھی لِنڈا کے بے حد اصرار کرنے پر اُن کی کار ٹاور کے پاس رُکی تھی ۔کار کے باہر کا منظر بارش میں بھیگا ہوا تھا اِفل پر لگی لال نیلی اور سفید رنگ کی لائٹوں کے سامنے سے جب بھی بارش زمین پے اُترتی تو بارش بھی اُسکے رنگ میں رنگ جاتی۔
کریسمس کا دن تھا سارے شہر کو کسی مخل کی صورت سجا دیا گیا تھا۔ہر طرف پُر رونق سما تھا، دوکانوں کو خوبصورتی سے سجایا گیا تھا، آنکھوں کو چندھیا دینے والی دل کش روشنیاں ہر سو پھیلی ہوئی تھیں، جگہ جگہ کھانے پینے کی اشیا کے اسٹالز لگے تھے، بچوں کے دل بہلانے کے لیے خوبصورت کھیلونے، تمام مناظر دل چھو لینے والے تھے ۔ رش اتنا تھا کے کوئی کھڑا کھڑا جان سے گُزر جاۓ اور کسی کو پتہ بھی نا چلے۔ ایک جگہ پے فیری ٹیل کا گھر بنایا گیا تھا،جس میں ایک نکلی فیری بنا کر کھڑی کی گئی تھی جو کے دیکھنے میں اصلی لگتی تھی۔، جس نے انتہائی دلکش وائٹ فراک پہن رکھا تھا بالوں کی جدید دور کے لیخاز سے چوٹی بنا کر اُسے آگے کی طرف گِرایا تھا۔اور نین تو میری ٹیل کی دیوانی تھی اور فیریز بہت دلکش لگتی تھیں ۔فیری مُسکرا کر ہاتھ ہلا رہی تھی اُس کا ہاتھ ایک جگہ ساکن تھا۔پیچھے ہیپی کریسمس کا گانا چل رہا تھا،اب فیری نازک گُریا کی طرح گول گول گھوم کر سب کو وِش کر رہی تھی۔ دیکھنے میں وہ منظر اس قدر حسین تھا، ایک پل میں ایسا لگتا واقعی کوئی فیری اپنی کہانی سچ کرنے زمین پے دبے پاؤں اُتر آئی ہو، فیری ٹیل ہاؤس کے بر عکس سینٹہ کلاز کی خوبصورت مجسمہ سازی کی گئی تھی ، عموماً سینٹہ کلاز اس تہوار پے تحفے خود تقسیم کرتا نظر آتا ہے جب کے سینٹہ کے اس مجسمے کو سب کی توجہ اور دلچسپی بڑھانے کے لیے گیم کی شکل میں بنایا گیا تھا، گیم بھی خاصی دلچسپ تھی ۔، کرنا صرف اتنا تھا،اُس کے سامنے کھڑے ہو کر سینٹہ کے دائیں طرف لال رنگ کا بٹن پریس کرنا تھا،بٹن پریس کرنے پے سینٹہ کی بیلی سے ایک باکس اوپن ہوتا اندر سے ایک چُٹ نکلتی اور اُس پے جو بھی لکھا ہوتا کھولنے والے کو اُس پے پرفارم کرنا ہوتا تھا،پرفارم کرنے کے بعد سینٹہ کی بائیں جانب یلو بٹن پریس کرنا ہوتا جسے پریس کرنے سے دوبارہ بیلی والی سائڈ سے باکس اوپن ہوتا اور اس میں جیتنے والے کا انعام موجود ہوتا۔، بچہ اپنا تُحفہ اُٹھاتا اور مُسکراتے چہرے کے ساتھ پلٹ جاتا۔ نین اشتیاق سے اس کھیل کو دیکھ رہی تھیی انسان کے رنگ بھی کیسے کیسے ہوتے ہیں باز اوقعات تھوڑے سے پل میں نجانے کتنی خوشیاں بکھیر دیتے ہیں ،اور باز اوقعات زندگی کی رمق تک چھین لیتے ہیں اُسکو یہ کھیل دلچسپ لگا،جبھی وہ بھی آگے بڑھی اور آہستہ سے لال بٹن دبا دیا، کھڑک کی آواز سے باکس کھلا اسنے چٹ اُٹھائی اور دھیرے سے کھولی تھی سب سے مُشکل ٹاسک تھا جبکہ اُس کی نسبت باقی سب کا بہت آسان آسان تھا،اسے جو مِلا تھا وہ کچھ ایسا تھا کی اُسے وہاں بھیڑ میں کھڑے کسی ایک کپل کو ساتھ ہی بنے ہوۓ ڈانس فلور پر سب کے سامنے رومانٹک ڈانس پرفارم کرنا تھا۔ نین نے تو سِرے سے ہی گیواپ کر دیا اتنی بھیڑ میں سے کپل کو دھنڈنا اور پھر ڈانس کے لیے منانا اِٹز ناٹ این ایزی ٹاسک،لیکن پاس کھڑے مجمہ نے سیٹیاں اور تالیاں بجا کر خوب ہلا گلا کیا اور اسے حوصلہ دیا کے تم یہ کر سکتی ہو تمہیں کرنا ہو گا۔ہر طرف ہسی اور قہقوں کا سماں تھا،وہ شرمندہ سی ایک طرف ٹک گئی جب کے لِنڈا تیر کی سی تیزی سے بھیڑ کو چیرتی ہوئی بھیڑ میں کہیں غائب ہو گئی اور پھر پورے بیس منٹ بعد وہ چیختی چِلاتی بھیڑ کو چیرتی نمودار ہوئی تھی،پر وہ اکیلی نہیں تھی ایک نو بیاہتہ جوڑا اسکے ہمراہ تھا جنیں نجانے کیا کچھ کہہ کر وہ راضی کر لائی تھی۔ پھر اُس پیارے سے جوڑے نے پیارا سا ڈانس پرفارم کیا جس کی بدولت نین کو اُس کا تحفہ مل گیا جب کے اصلی حقدار خود لِنڈا تھی۔لیکن اُس نے بڑی سہولت سے یہ کہتے ہوۓ منا کر دیا کہ تم لو یاں میں لوں ایک ہی بات ہے لہذا یہ تخفہ صرف تمہارا ہے،۔
پیرس کی ایک اور خوبصورت شام اختتام پزیر ہوئی تھی،ان خوشیوں بھری شام کا عکس ابھی تک فضا میں شامل تھا، حسین شام کے رنگ کہیں اور ابھی باقی تھے، فائر ورک کا دھواں آسمان پے چھایا آسمان کو گرد آلُود کر رہا تھا۔