جبکہ میں ایک کوئین ہوں ۔ میں معصوم نہیں ہوں مجھے چالاکیاں آتی ہیں ۔ میں اگر رحمدل ہوں تو وقت آنے پر مجھ سے زیادہ سنگدل بھی کوئی نہیں ہے ۔ میں لوگوں کی باتوں میں نہیں آتی ۔ میں مسکراتی ہوں لیکن میں روڈ بھی ہوتی ہوں اور مجھے سنجیدہ رہنا بھی آتا ہے ۔ کیونکہ میں کوئین ارسا ہاشم ہوں ۔ The one and only ۔ وہ مسکرائ ۔زالان نے اثبات میں سر ہلایا ۔ ارسا کا چاکلیٹ ختم ہوچکا تھا ۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا ریپر آرام سے برابر میں بیٹھے زالان کی پاکٹ میں ڈال دیا ۔ زالان نے گھور کر اسے دیکھا ۔ تو اس نے کندھے اچکادیئے ۔
میں دیکھ رہا ہوں کہ بھائی کہنے کی زحمت تو تم پہلے بھی نہیں کرتی تھیں اب تو آپ بھی نہیں کہتیں ۔ زالان نے خفگی سے کہا ۔ ارسا نے آنکھیں سکیڑ کر اسے دیکھا ۔
مسٹر زالان حیدر ! میں سیشن جج ارسا ہاشم ہوں ۔ اور تم ایک مافیا باس ہو یہ الگ بات ہے ک تم انٹیلیجنس کے کارکن ہو لیکن ہو تو ایک مافیا باس نا ۔ تو اصولا تمہیں مجھے آپ کہنا چاہیے جیسے پہلے کہتے تھے ” میں آپ کو مارنا نہیں چاہتا ، آپ یہاں سے چلی جائیں ، آپ کی آنکھیں بالکل فاطمہ جیسی ہیں ۔ اس نے ہنستے ہوئے زالان کی نقل اتاری ۔
سچ میں جب تم آپ کہتے تھے نا تو مجھے پتا ہے میں اپنی ہنسی کیسے کنٹرول کرتی تھی ۔ وہ مسلسل ہنس رہی تھی ۔ اور زالان مسکراتے ہوۓ اسے دیکھ رہا تھا ۔
رات کے ایک بجے وہ دونوں بند دکان کی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے ۔ چاند کی روشنی ان کے چہروں پر پڑ رہی تھی ۔ سفید رنگت پر پڑتی روشنی دونوں کے مسکراتے چہرے ۔ یہ ایک خوبصورتی سے بھرپور منظر تھا ۔ جیسے اگر کوئی اور وہاں آگیا تو منظر کی خوبصورتی چلی جائے گی لیکن ہر دفع وہی نہیں بوتا جو ہم چاہیں ۔ جہاں خوبصورتی ہوتی ہے بدصورتی بھی وہیں پیدا ہوتی ہے ۔ جہاں مسکراہٹ ہوتی ہے آنسو بھی وہی گرتے ہیں جہاں بہار ہوتی ہے خزاں بھی وہی آتی ہے ۔
ارسا تم نے مجھے بتایا نہیں کے تم وہاں سے کیسے نکلیں اور تمہارے امی ابو یہ سب کیسے ہوا ؟ زالان نے جھک کر اپنے جوتوں کے تسمے ٹائیٹ کرتے ہوۓ کہا ۔
اس کی بات پر ارسا اٹھی اور سیڑھیاں اتر کر نیچے کھڑی ہوئی ۔ زالان نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو ارسا نے اسے نیچے آنے کا اشارہ کیا ۔ زالان بھی سیڑھیاں اتر کر اس کے پاس آیا ۔ بند دکان کی پچھلی جانب کھرے نقاب پوش نے اپنی گن لوڈ کی ۔
مسٹر زالان رات ہوچکی ہے اب گھر چلیں باقی کہانی میں آپ کو صبح بتاؤں گی ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
لیکن میں کیسے ؟
لیکن ویکن کچھ نہیں تم میرے ساتھ آرہے ہو ۔ ارسا نے اسے گھورا تھا ۔
ٹھیک ہے چلو ۔ لیکن اس سے پہلے کے وہ اپنے قدم اٹھاتے فضا میں فائر کی آواز گونجی ۔ گن سے نکلی گولی برق رفتاری سے زالان کی پشت کی جانب بڑھی ۔ جسے ارسا نے بخوبی دیکھا ۔ غیر ارادی طور پر اس نے زالان کو زور سے سائیڈ کی جانب دھکا دیا وہ منہ کے بل نیچے گرا ۔ نیچے پڑا پتھر اس کے ہونٹ پر لگا وہاں سے خون بہنے لگا ۔ جبکہ گولی تیز رفتار سے ارسا کے دل میں لگی تھی ۔۔۔زالان نے بے یقینی سے سر اٹھا کر ارسا کو دیکھا ۔ سیاہ چغے پر خون تیزی سے گر رہا تھا ۔ اس کے ہاتھ خون آلود ہوچکے تھے ۔ وہ لڑکھڑانے لگی ۔ زالان نے آگے بڑھ کر اسے گرنے سے بچایا ۔
ارسا دیکھو تمہیں کچھ نہیں ہوگا ہمّت رکھو ۔ وہ اسے بہلا رہا تھا ۔ درد کی وجہ سے ایک آنسو اس کی آنکھ سے نکل کر گال پر پھسلا تھا ۔ زالان نے نفی میں سر ہلایا ۔
ارسا میں ایمبولینس کو کال کرتا ہوں ۔ تم ہمّت کرو۔ میں تمہیں بچا لوں گا ۔ تمہیں کچھ نہیں ہوگا ۔اس نے پینٹ کی پاکٹ میں سے موبائل نکال کر کان سے لگایا ارسا نے کچھ نہیں کہا تھا بس خاموشی سے آنکھیں بند کے تھیں ۔ اسے ہچکی آئ تھی ۔ اس کا سر زالان کے ہاتھ کی پشت کی جانب لڑھک گیا ۔ زالان کے ہاتھ سے موبائل چھوٹا تھا ۔ اس نے بے یقینی سے اپنے خون آلود ہاتھ کو دیکھا ۔
ارسا ۔۔ وہ چلآیا تھا ۔ وہ دوبارہ اسے چھوڑ کر چلی گی تھی ۔ لیکن اب وہ دوبارہ کبھی واپس نہیں آئے گی ۔ زالان رو رہا تھا ۔ چاند نے بھی یہ منظر دیکھا تھا ۔ فضا میں آواز گونجی تھی :” کوئین ارسا ہاشم اس دنیا کو الوداع کہ چکی تھی ۔ موت نے اسے شہ مات دے دی تھی ۔ ”
یہ بازی جان کی بازی ہے
تم جیت گئے ہم ہار گئے۔۔
اور موت کا تو کچھ پتا نہیں ہوتا ۔ کب کیسے کس کو آجائے ۔
یہ جسم ہے تو کیا
یہ روح کا لباس ہے
یہ درد ہے تو کیا
یہ عشق کی تلاش ہے
فنا کیا مجھے
یہ چاہنے کی آس نے
طرح
طرح
شکست ہی ہوا
رضا ہے کیا تیری
دل و جہاں تباہ کیا
سزا بھی کیا تیری
وفا کو بے وفا کیا
تو وار زندگی
سے یوں مجھے جدا کیا
کہاں
کہاں
پھروں میں ڈھونڈتا
رضا ہے کیا تیری
دل و جہاں تباہ کیا
سزا بھی کیا تیری
وفا کو بے وفا کیا
تو وار زندگی
سے یوں مجھے جدا کیا
کہاں
کہاں
پھروں میں ڈھونڈتا ۔۔۔۔
———– ——-
اوڑھ کر مٹی کی چادر ب نشاں ہوجائیں گے
ایک دن آئے گا ہم بھی داستاں ہوجائیں گے
ہادیہ مسلسل لان میں چکّر کاٹ رہی تھی ۔ ہاتھ میں موبائل پکڑ رکھا تھا جس سے بار بار وہ کسی کا نمبر ملتی بےچینی سے لان میں ٹہل رہی تھی ۔ اس نے کہا تھا کے وہ ایک بجے تک آجائے گی اور اب ڈھائی بج رہے تھے ۔ چمکتا ہوا چاند اسے بتانا چاہتا تھا کے جو چلے جاتے ہیں وہ واپس نہیں آتے ۔ آخر تھک ہار کر وو لان کے سائیڈ میں پڑی کرسی پر بیٹھ گئی ۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ایمبولینس کے سائرن کی آواز گونجی ۔ وہ چونک کر اٹھی ۔ عبدالله بھی باہر آگیا تھا ۔ دونوں دروازے کی طرف دوڑے ۔ ایمبولینس ان کے گھر کے باہر رکی ۔ ایک اسٹریچر کو ایمبولینس میں سے نکالا گیا ۔ اسٹریچر کے ٹائیر چرچراے ۔ اسے دھکیلا جا رہا تھا ۔
(میں ارسا ہاشم یہ عہد کرتی ہوں کے میں ہمیشہ انصاف پر قائم رہوں گی ۔ کبھی اپنے ذاتی مفاد کو انصاف پر برتری نہیں دوں گی ۔ میں اپنے آخری وقت تک اپنے ملک، اپنے مذہب اسلام ، اپنے رب اور اپنی قوم کے لیے انصاف پر ڈٹی رہوں گی ۔)
اسٹریچر اندر آچکا تھا ۔ دونوں بہن بھائی اس کی جانب دوڑے ۔ ہادیہ نے کپکپاتے ہاتھوں سے سفید کفن میں لپٹی اس لاش کے منہ سے کپڑا ہٹایا ۔ وو ساکت رہ گئی تھی ۔ وو ارسا ہاشم تھی ۔
(میں۔ انصاف کی خاطر اپنی موت سے بھی نہیں ڈروں گی ۔ میں عہد کرتی ہوں کے میں کسی ظالم کو کسی مظلوم پر ظلم نہیں کرنے دوں گی ۔ I will shed last drop of my blood for allah , for Islam , for my country and for justice )
ہادیہ ساکت نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ (میں چاہتی ہوں گولی دل میں لگے تاکہ درد بھی نہ ہو اور میں شہادت کو پالوں ۔) اس کے کانوں میں ارسا کی آواز گونجی تھی ۔
(کبھی کبھی مجھے لگتا ہے کہ مجھے اپنی دعاوں میں ایڈیٹنگ کرنی ہوگی کہ اللہ جب میں مروں تو ہادیہ میرے پاس نہ ہو ۔ ورنہ یہ میرے پیچھے ہارٹ اٹیک کہ بہانہ بنا کر جنّت میں آجائے گی )
(عبدالله میرے مرنے کے بعد اپنے اس نئے کیمرے سے میرے جنازے کی ویڈیو بنانا کہ میرے گھر والے رو بھی رہے ہیں کہ نہیں ۔ جنّت میں ویڈیو تم سے لے لوں گی )
زالان کی نظر سوچوں میں گم اس لڑکی پر پڑی ۔ (سنو میری موت پر جو لڑکی رونے کے بجائے شاکڈ ہو سمجھ جانا وہ ہادیہ ہوگی ) وہ دونوں باتیں کر رہے تھے جب اچانک ارسا نے اس سے کہا تھا ۔
ہادیہ ۔۔ کسی کے پکارنے پر اس نے بےخیالی سے نظر اٹھائی ۔ لال آنکھیں ، گیلے گال ،خون آلود ہاتھوں کے ساتھ وہ لڑکا اس کے سامنے کھڑا اسے دیکھ رہا تھا ۔ ہادیہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا ۔
میں زالان حیدر ۔۔۔ارسا ۔ وہ رکا ۔
ارسا ہاشم کا بھائی ۔ وہ چاہ کر بھی اس کے نام کے آگے حیدر نہیں لگا پایا تھا ۔ جس نام کو اپنا حق سمجھ کر اس نے اپنے نام کے ساتھ لگایا تھا اس کے جانے کے بعد وہ اسے کیسے ہٹا دیتا ۔ بجھے قدموں سے وہ اندر کی جانب بڑھا تھا ۔ ہادیہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا ۔ کانوں میں اب بھی ارسا کی آوازیں گونج رہی تھیں ۔
( پہلے لوگ مرنے والوں کے جنازوں پر ان کی تلواریں رکھا کرتے تھے ۔ ہم لڑکیوں کے جنازے پر کیا رکھو گے ؟ جھاڑو ، پوچا یا برتن)
( میں جلدی مر جاؤں گی اور میرے مرنے پر بہت سے لوگ رویں گے ۔ کیونکہ اچھے لوگ جلدی مر جاتے ہیں اور ان کے مرنے پر بہت زیادہ لوگ روتے ہیں میں تو ویسے بھی کوئین ہوں نا )
ایک آنسو اس کے گال پر پھسلا تھا۔ اور وہ نیچے بیٹھتی چلی گئی ۔ چاند اداسی سے اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اب خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی ۔
“اچھے لوگ اس دنیا سے جلدی چلے جاتے ہیں کیونکہ یہ دنیا اچھی نہیں ہے ”
“اور کیونکہ جب آپ باغ میں ہوتے ہیں تو آپ اس پھول کو توڑتے ہیں جو آپ کو اچھا لگے”
اور ارسا ہاشم تو اچھی تھی نا ۔اسی لیئے جلدی چلی گئی ۔ دنیا نامی اس باغ سے ایک اور اچھے پھول کو توڑ دیا گیا تھا ۔۔۔
——— —————
عجیب پاگل سی لڑکی ہوں کہ
ان خوابوں کو چنتی ہوں
جنہیں پورا نہیں ہونا
دعا وہ مانگتی ہوں جس کو اذن
باریابی ہی نہیں ملنا
میں ہونے اور نہ ہونے کی
عجیب سی کشمکش سہتے ہوئے
زندہ ہوں اور اس دل کی سنتی ہوں
مجھے معلوم ہے جس راستے پر
عمر بھر اب مجھ کو چلنا ہے
وہاں میرے لیۓ بس اک
بھرم ہے ساتھ چلنے کا
وہاں کے خار تلووں میں چھبیں گے
تب بھی مجھ کو اف نہیں کہنا
مگر پھر بھی میں اپنا سر جھکائے ،
دل سے اس راستے پر چلتی ہوں
میں ان خوابوں کے مرنے پر
نہ کوئی بین کرتی ہوں
نہ روتی ہوں نہ ان کو یاد کرتی ہوں
میں سچ اور جھوٹ سے رنگا ہوا یہ
زندگی کے نام کا چولا پہن کر خوب ہنستی ہوں
تمہیں اگر ایسے جینا پڑے تو چیخ اٹھو تم
مگر میں پھر بھی جیتی ہوں
عجب پاگل سی لڑکی ہوں ۔۔۔۔۔
لیپ ٹاپ کی روشن سکرین پر اندھیرا چھا گیا ۔ زالان نے گہری سانس لی ۔ اور لیپ ٹاپ بند کیا اور بیڈ سے اٹھ کر کھڑکی کے پاس آیا ۔ سرخ آنکھیں ، ماتھے پڑ بکھرے بال بلیک شرٹ بلیک پینٹ پہنے وہ اس وقت بکھرا ہوا لڑکا لگ رہا تھا ۔ آج ارسا کو اس دنیا سے گئے ہوۓ ایک ہفتہ ہوگیا تھا ۔ اس کی زندگی اب بھی چل رہی تھی ۔ واقعی وہ بہت ڈھیٹ تھا وہ اب بھی زندہ تھا ۔ نجانے موت اس پر رحم کیوں نہیں کھاتی تھی ۔
زالان یہ تمہاری کافی ۔ ہادیہ کمرے میں آئی تھی ۔ زالان نے مڑ کر اسے دیکھا ۔
ہادیہ ۔ وہ مکڑی جس نے ہوا سے ہار قبول کی تھی اس کا کیا ہوا ؟ ہادیہ نے گہری سانس لی
اس نے ہوا سے ہار قبول کی تھی ۔ ایک دن ہوا اور زیادہ زور سے آئی تھی اور مکڑی کو بھی اپنے ساتھ لے گئی تھی ۔ ہادیہ نے بیڈ کراؤن کے اوپر لگی پینٹنگ کی طرف اشارہ کیا ۔
جس نے قبول کی مات بہت جلد اسے ملے گی شہ مات ۔ اس نے سر جھکایا تھا ۔
وو پہیلیوں کی طرح تھی زالان ۔ اس کی اکثر باتیں مجھے بھی سمجھ میں نہیں آتیں تھیں ۔ جیسے کہ یہ کالا دل ۔ مجھے کبھی سمجھ میں نہیں آیا کے اسے یہ کیوں پسند تھا ۔ زالان نے نظر اٹھا کر اس شوپیس کو دیکھا ۔
یہ کالا دل باہر سے بھی کالا اور اندر سے بھی ۔ اسے لیۓ اسے یہ بہت پسند تھا ۔ کیونکہ یہ جیسا اندر سے ہے ویسا ہی باہر سے ہے ۔ اسے وہ لوگ اچھے نہیں لگتے تھے جو اندر سے کالے اور باہر سے سفید ہوں ۔ارسا ہاشم کو منافقت ناپسند تھی ۔ اس نے کافی کہ کپ لبوں سے لگایا ۔ کافی کہ ایک گھونٹ لیتے ہی اسے جھٹکا لگا تھا ۔
ہادیہ کافی بہت زیادہ كڑوی ہے ۔ ہادیہ مسکرائی تھی ۔
تم نے مجھ سے کہا تھا کہ جس چیز کا استعمال ارسا زیادہ کرتی تھی وہ لے آؤ ۔ اور وہ بلیک کافی زیادہ پیتی تھی ۔ زالان مسکرایا ۔
زالان بھائی ۔ کوئی آپ سے ملنے آیا ہے۔ عبداللہ افراتفری میں کمرے میں داخل ہوا ۔
نام نہیں بتایا کیا انہوں نے ؟ زالان نے کپ سائیڈ پر رکھتے ہوئے کہا۔
حسیب ۔ زالان نے چونک کر ہادیہ کو دیکھا ۔ اور فورا بیڈ سے اٹھ کر کمرے سے باہر بھاگا ۔ گیسٹ روم میں میں داخل ہو کر اس کی نظر صوفے پر بیٹھے حسیب کمانڈر پر پڑی ۔ زالان کو دیکھ کر وہ کھڑے ہوئے اور مصافحے کے لیۓ ہاتھ بڑھایا ۔ زالان نے سنجیدگی سے انہیں دیکھتے ہوئے ان کا ہاتھ تھاما ۔
تمہاری بہن کا سن کر بہت افسوس ہوا مجھے ۔ اللہ اس کی مغفرت کرے ۔ زالان نے اثبات میں سر ہلایا ۔
تم نے کبھی بتایا ہی نہیں ارسا ہاشم تمہاری بہن ہے ۔ زالان کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آئی تھی ۔
اگر بتا دیتا تو کیا آپ اس کی جان بخش دیتے ۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا ۔
زالان یہ سب اس ملک کے لیۓ ہے ۔۔۔
اس ملک میں انصاف واپس لانے والوں کی جانیں لے کر آپ کہ رہے ہیں کہ یہ اس ملک کے لیۓ ہے ۔ زالان نے ان کی بات کاٹی ۔
میری ایک بات یاد رکھیئے گا کمانڈر ۔ یہ آپ نے اچھا نہیں کیا ۔ آپ کو نہیں لیکن آپ کی نسلوں کو اس بات کا ضرور احساس ہوگا جب اس ملک کا بوجھ ان کے کندھوں پر گرے گا ۔ اور وہ اسے سنبھال نہیں پائیں گے۔ کیونکہ انصاف نہیں تو کچھ نہیں ۔ لکن آپ ریلیکس ہوجائیں جب تک انصاف مہم کی ٹیم میں سے ایک فرد بھی زندہ ہے تب تک یہ ملک اپنے پاؤں پر کھڑا رہے گا ۔ وہ جانے کے لیۓ
مڑا تھا ۔ لکن پھر رک گیا ۔
ایک بات پوچھوں آپ سے ؟
آپ نے مجھے مارنے کے لیۓ ہادی کو کیسے راضی کیا ؟ کمانڈر چونکا تھا ۔
آپ کو کیا لگتا ہے کے مجھے نہیں پتا کہ میری بہن کو گولی مار کر لنگڑا کر بھاگتا وو شخص ہادی تھا جسے میں نے اپنا بھائی اپنا دوست سب کچھ سمجھا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں درد تھا ۔
آپ ہی نے تو مجھے وارننگ دی تھی کہ اگر اس مشن میں میرے قدم ذرا سے بھی ڈگمگائے تو آپ مجھے مروانے میں ایک سیکنڈ نہیں لگائیں گے ۔ لیکن مجھے نہیں پتا تھا آپ مجھے اپنے بھائی کے ہاتھوں مروانا چاہتے تھے ۔ بولتے ہوئے اس کی آنکھوں میں نمی آئی تھی ۔
میں صرف یہ بتانے آیا ہوں کے انٹیلیجنس نے تمہیں فائر کر دیا ہے ۔ انہوں نے جلدی جلدی کہا ۔
زالان نے اثبات میں سر ہلایا اور باہر کی طرف قدم بڑھائے ۔ آنکھوں سے بہتے آنسو تیزی سے اس کہ چہرا بھگو رہے تھے ۔۔۔۔۔
———– ——-
چلتے رہیں گے قافلے میرے بعد بھی یہاں
اک ستارہ ٹوٹ جانے سے فلک تنہا نہیں ہوتا
کچھ سالوں بعد ::
1 جنوری 2027 :::
آسمان پر بادل چھائے ہوۓ تھے ۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہورہی تھی ۔ پانی کی بوندیں لاہور کی اس سڑک کو بھگو رہی تھیں ۔ درخت بھی بارش میں نہا رہے تھے ۔ صبح کے اس وقت اس بڑے سے بینگلو کے باہر پولیس موبائل کھڑی تھی ۔ بینگلو کا گیٹ کھلا تھا ۔ سیاہ پینٹ پر سیاہ کوٹ ہاتھ میں رسٹ واچ پہنے بلیک جاگرز پہنے وہ باہر آیا تھا ۔ گاڑی کی جانب جاتے ہوئے اس کی نظر پولیس موبائل کے پاس کھڑے عبدالله پر پڑی ۔ اس نے حیرت سے اسے دیکھا اور پھر اپنے قدم اس کی جانب بڑھائے ۔
عبداللہ ۔ اس کی آواز پر عبداللہ نے مڑ کر اسے دیکھا ۔
زالان بھائی ۔ وہ مسکرایا ۔
یہاں کیا کر رہے ہو ؟ آفس نہیں جانا کیا ؟ زالان نے پوچھا تھا ۔
جانا ہے ۔ عبداللہ نے سر جھکایا تھا ۔
آپ کو پتا ہے زالان بھائی ۔۔ ارسا آپی کے ساتھ یہی پولیس موبائل ہوتی تھی جو آج آپ کے ساتھ ہے ۔ یہ گارڈز ، یہ پولیس موبائل پر چیز یہیں ہے کوئی نہیں ہے تو وہ ارسا آپی ہیں ۔ زالان نے ہونٹ بھینچتے ہوئے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا ۔
ان کے جانے کے بعد ہماری زندگی رکی نہیں ہے لیکن بعض دفعہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ ان کے بغیر زندگی خالی خالی سی ہے ۔ وہ مجھے اپنا کرائم پارٹنر کہتی تھیں ۔ اور ہادیہ آپی ان کی بیسٹ گرینڈ تھیں ۔ جبکہ زینب کو وہ ہمیشہ چھوٹے بچوں کی طرح ٹریٹ کرتی تھیں جس پر وہ بہت چڑتی تھی ۔ مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب زینب نے بابا سے پوچھا تھا کہ مجھے سچ سچ بتائیں ارسا آپی نہیں میں آپ کی سوتیلی بیٹی ہوں نا ۔ اس دن اس نے سب سے بہت ڈانٹ کھائی تھی ۔ واحد ارسا آپی تھیں جو اس کی اس بات پر بہت ہنسیں تھیں ۔ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
ایک اور بات بتاؤں ۔ مجھے آج بھی چاکلیٹس پسند ہیں ۔ زینب کی فرینڈز اب بھی اسے چاکلیٹس دیتی ہیں ۔ لیکن کوئی ان کو ہاتھ تک نہیں لگتا ۔ زینب کو لگتا ہے کسی دن ارسا آپی مجھے کہیں گی کہ زینب سے چاکلیٹس لے آؤ ۔ اسی انتظار میں چاکلیٹس ایکسپائر ہو جاتی ہیں ۔ لیکن وہ اب مجھے چاکلیٹس لانے کا نہیں کہتیں ۔ نا مجھے نا ہادیہ آپی کو ۔ اس کی آنکھوں سے نمی جھلکی تھی ۔ زالان نے اسے گلے لگایا تھا ۔
لیکن اب اور چاکلیٹ ایکسپائر نہیں ہوں گی ۔ارسا کا کرائم پارٹنر ان چاکلیٹس کو بنا چرائے میرے پاس لائے گا ۔ سن رہے ہوں نا ۔ عبداللہ نے اپنی آنکھوں میں آئی نمی صاف کرتے ہوئے اثبات میں سر ہلایا ۔
تمہارے پاس آج کا دن ہے رات چاکلیٹس لاؤ گے اور پھر چل کریں گے ۔ ٹھیک ہے ۔ وہ دونوں مسکرائے تھے ۔
۔Siparişiniz gibi efendim ۔عبداللہ کے کہنے پر دونوں کی ہنسی چھوٹ گئی ۔ نم آنکھیں اور ہنستے چہرے تیز چلتی ہوا کو کسی کی یاد دلا گئے تھے۔
چلو اب میں لیٹ ہو رہا ہوں ۔ خدا حافظ ۔ اس نے اپنے قدم گاڑی کی طرف بڑھائے ۔ اس کے گاڑی میں بیٹھتے ہی گاڑی چل پڑی ۔ عبداللہ نے مسکراتے ہوئے دور جاتی اس کی گاڑی کو دیکھا تھا ۔ بیس منٹ بعد گاڑی کورٹ کے کار پورچ میں رکی تھی ۔ وہ گاڑی سے اترا اور راہداری میں چلنے لگا ۔ اپنے آفس کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر اس نے اپنی نیم پلیٹ کو دیکھا۔ سات سال پہلے جہاں سیشن جج ارسا ہاشم لکھا ہوتا تھا سات سال بعد وہاں سیشن جج زالان حیدر لکھا تھا ۔ اس نے لمبی سانس لیتے ہوئے آفس کا دروازہ کھولا ۔ دروازہ بند کر کے مڑتے ہوئے اس کی نظر شیشے کی ٹیبل کے اس پار راکنگ چیئر کے پیچھے کھڑے کھڑکی سے باہر جھانکتے اس ذی نفس پر پڑی ۔
ارے ۔۔ سر آپ یہاں ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ اس کی بات پر وہ مڑا تھا ۔
ہمیشہ کی طرح بلیک کوٹ پینٹ میں ملبوس ہلکی سبز آنکھیں بھورے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے وہ ہائی کورٹ جج حدید تھا ۔
سر تو نہ کہا کرو یار ۔ چھوٹا ہوں تم سے ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا تھا ۔
عمر کو کون دیکھتا ہے جی ۔ عہدے میں تو آپ مجھ سے بڑے ہیں نا سر۔ زالان نے ہنستے ہوئے کہا۔
سر کے بچے سدھر جاؤ ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا
اچھا تم بیٹھو ۔ تمہارے لیئے میں کیا منگواؤں ۔ چائے ؟ زالان نے موبائل نکالتے ہوئے کہا ۔
بلیک کافی ۔ نمبر ملاتے ہوئے زالان کے ہاتھ تھمے تھے ۔ اس نے سر اٹھا کر حدید کو دیکھا ۔ وہ بھی مسکراتے ہوئے اسے ہی دیکھ رہا تھا ۔
اوکے ۔ زالان نے اثبات میں سر ہلاتے ہوئے موبائل کان سے لگایا ۔
دو بلیک کافی بجھوادیں ۔ حدید نے چونک کر اسے دیکھا ۔ جو اب کرسی پر بیٹھ رہا تھا ۔
وہ چلی گئی ہے حدید ۔ لیکن مجھے بلیک کافی اور چاکلیٹس کا عادی کر گئی ہے ۔ اس نے ہونٹ بھینچے کہا ۔
تمہیں ایک بات بتاؤں ۔ زالان نے اثبات میں سر ہلایا ۔
بہیرا۔۔۔ بہیرا یونیورسٹی میں ہم پہلی دفعہ ملی تھے ۔ پہلی ملاقات میں ہی اچھی خاصی لڑائی ہوئی تھی ۔ نہ ظالم ملکہ نے ہار مانی تھی نا میں نے ۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ مجھے اندازہ ہوا کہ ارسا ہاشم بہت مختلف ہے ۔ ہر طرح سے ۔ میں اس سے فرینڈ شپ کرنا چاہتا تھا ۔ لیکن وہ مجھے اگنور کرتی تھی ۔ پھر ایک دن وہ میرے پاس آئی تھی ۔ ہمارے یونی کے لاسٹ ڈیز چل رہے تھے ۔ جانتے ہو وہ مجھ سے کیا کہنے آئی تھی ۔ اس نے گہری سانس لی ۔
اس نے مجھے کہا کہ یونی کے لاسٹ ڈے پر ہونے والے فنکشن میں وہ چاہتی ہے کہ تلاوت میں کروں ۔ کتنی عجیب بات تھی ۔ نجانے اس نے کہاں سے سنی تھی میری تلاوت ۔ خیر ۔۔ میں نے اسے کہا تھا کہ پہلے وہ مجھ سے دوستی کرے گی پھر میں تلاوت کروں گا۔ عجیب شرط تھی لیکن نہ میرے پاس نہ اس کے پاس کوئی اور چارہ تھا ۔ وہ ہماری دوستی کا پہلا دن تھا ۔ فنکشن کے اینڈ میں وہ میرے پاس آئی اور مجھے ایک موبائل دیا ۔ وہ چاہتی تھی کہ میں اس کا پاس ورڈ کھولوں ۔ میں نے کالج کے زمانے میں ہیکنگ کی کلاسس لیں تھیں اور یہ بات اسے پتا چل گئی تھی ۔ وہ موبائیل مشال کا تھا ۔ اس کی یونی دشمن کا ۔ مشال کو وہ شروع سے ہی ناپسند کرتی تھی۔ اور مشال کالج کے زمانے سے ہی میری فرینڈ تھی ۔ جب اسے یہ پتا چلا تو ہنگامہ کھڑا کیا تھا اس نے ۔ ۔ اکثر مجھے اچھی خاصی سناتی تھی مشال کی وجہ سے ۔ میں نے مشال کے موبائل کا پاسورڈ کھولا تھا ۔اور پھر مجھے پتا چلا کہ مشال نے اسپیچ کے دوران اس کی پک لی تھی جسے وہ ڈیلیٹ کرنا چاہتی تھی ۔ اس نے پک ڈیلیٹ کر کے موبائل واپس مشال کو دے دیا اور ساتھ میں ایک چاکلیٹ بھی جس کا اسے بہت افسوس تھا ۔ اور جب مشال تمہاری ایلی بائی بن کر آئی تھی اس دن بھی اس نے مشال کو اچھا خاصا سنایا تھا ۔۔۔ فیملی جج ، سول جج ، حتیٰ کہ سیشن جج بھی ہم ساتھ بنے تھے ۔ زالان غور سے اسے سن رہا تھا ۔
اکثر ہم کیس ایکسچینج کرتے تھے جس پر بہت ڈانٹ پڑتی تھی ہمدانی سر سے ۔ لیکن ہم بعض نہیں آتے تھے ۔ اس کا پسندیدہ کرائم اسمگلنگ تھا ۔ مجھے ملنے والا کوئی بھی اسمگلنگ کیس میں نے حل نہیں کیا وہ ہمیشہ ایسے کیسز مجھ سے لے لیتی تھی ۔ اور سفر کے بیچ میں ظالم ملکہ مجھے چھوڑ گئی ۔وہ واقعی ظالم تھی ۔ ایک اور ظلم کر گئی ۔ حدید نے چہرہ جھکایا تھا ۔ پھر اس نے گہری سانس لی ۔
بہرحال میں تمہیں مبارک بعد دینے آیا تھا ۔ میرے بعد انصاف مہم کے لیڈر تم ہوگے ۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ۔
زالان نے غور سے حدید کو دیکھا ۔
میری ایک بات ہمیشہ یاد رکھنا زالان ۔ کبھی کسی ملکہ سے دوستی مت کرنا ۔ ہر ملکہ ظالم ہوتی ہے ۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا اور آفس سے باہر چلا گیا ۔
جبکہ پیچھے زالان مسکرایا تھا ۔ ظالم ملکہ جاتے جاتے حدید کو بھی رنگ بدلنا سکھا گئی تھی ۔۔۔
——– ———-
وہ جو قافلوں میں نہ تھے ، منزل کو جا پہنچے
کوئی ہمیں بھی یوں سفر کرنا سکھا دے
ارسا ۔۔ مطلب قوس قزح ۔ رینبو ۔ رینبو کے سات رنگ ہوتے ہیں ۔ سات رنگ ۔ ارسا کے بھی مختلف رنگ تھے ۔ جو مختلف جگہوں پر مختلف وقت میں سامنے آتے تھے ۔ وہ مختلف چہرے نہیں رکھتی تھی ۔ وہ منافق نہیں تھی ۔ وہ مختلف رنگ رکھتی تھی ۔ چہروں اور رنگ میں کیا فرق ہوتا ہے یہ میں ابھی تک سمجھ نہیں پایا ۔ لیکن وقت مجھے سکھا دے گا ۔ بہت جلد ۔ لیپ ٹاپ پر چلتی انگلیاں رکیں تھیں ۔ اس نے سر اٹھا کر کھڑکی سے جھانکتے چاند کو دیکھا ۔ وہ ارسا کا کمرہ تھا لیکن اب وہاں زالان رہتا تھا ۔دیواروں پر لگی پینٹنگز میں اضافہ ہوتا جارہا تھا ۔ کبڈ میں پڑے جاگرز ، لانگ کوٹ اور گنز میں اضافہ ہوا تھا ۔ وہ اس کی کمی کو پورا کرنے کی پوری کوشش کرتا تھا ۔ اس نے ارسا کے بعد سب کو سنبھالا تھا ۔ لیکن اسے سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا ۔ وقت نے اسے سکھایا تھا کبھی کسی پر بھروسہ مت کرنا ۔ اور اس نے کسی پر بھی بھروسہ کرنا چھوڑ دیا تھا ۔ ظالم دنیا کے لوگ بھروسے کے قابل ہی نہیں ہیں ۔
زالان بھائی ۔ چاکلیٹس حاضر ہیں ۔ عبداللہ نے اس کے سامنے چاکلیٹس رکھیں ۔ وہ مسکرایا ۔
تم سمجھتے کیا ہو خود کو عبداللہ ؟ زینب کی تیز آواز پر اس نے چونک کر سر اٹھایا ۔
اوو تو آپ نے کہا تھا اسے ۔ زینب غصے سے اسے گھور رہی تھی ۔
زینب کیا ہوگیا ہے ؟ عبداللہ نے کہا تھا ۔
مجھے کیا ہوا ہے ؟ تم مجھ سے پوچھ رہے ہو کہ کیا ہوا ہے ؟ یتیم خانے میں اکیلے ارسا آپی کو یہ جناب چھوڑ کر گئے تھے ۔ اور جب وہ ہمارے ساتھ خوش تھیں تو یہ دوبارہ آگئے ان کی زندگی میں ۔ انہی کی وجہ سے آپی اس دنیا سے چلیں گئیں ۔ وہ چلائی تھی ۔ زالان نے ہونٹ بھینچے ۔
میری بات کان کھول کر سن لیں یہ جو چند سانسیں آپ لے رہے ہیں نا ان کے لیئے آپی کا شکر ادا کریں آپ ۔ یہی کافی ہے ۔ ارسا آپی کی جگہ لینے کی کوشش بھی نہ کریں ۔ اسے وارن کرتی وہ باہر چلی گئی تھی ۔ اس کے پیچھے ہی عبداللہ بھی چلا گیا تھا ۔
زالان نے لمبی سانس لی ۔ اسے یقین تھا ایک دن زینب بھی اسے سمجھ جائے گی ۔ یقیناً وہ اسے سمجھے گی ۔ اس نے پاس پڑی فائلز اٹھا لیں ۔
حسیب کمانڈر کے خلاف عدالت میں کیس آیا تھا ۔ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ RAW agent تھے جنہوں نے انٹیلیجنس کا نام استعمال کر کے ملک میں جنگ پھیلانے کی کوشش کی ۔ جبکہ کچھ کا کہنا تھا کہ وہ RAW agent نہیں تھے البتہ ملک میں دہشتگردی پھیلانے آئے تھے ۔ اصل حقیقت کیا تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا ۔ زالان آج کل اسی کیس کو ریڈ کر رہا تھا ۔ اسے یقین تھا یہ معمہ بھی حل ہو جائے گا ۔ تیز چلتی ہوا نے گہری سانس لی ۔ وقت کا کام ہے گزرنا وہ گزر جاتا ہے ۔ یہاں بھی وقت گزر رہا تھا ۔ لیکن ارسا ہاشم کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔ ظالم ملکہ کو کوئی نہیں بھلا سکتا ۔ظالم ملکہ کو بھلایا نہیں جاسکتا کیونکہ وہ ملکہ تھی ۔ جو دلوں پر بادشاہت کرتی تھی۔ اس کی سلطنت لوگوں کے دل تھے ۔ جہاں اس نے اپنی موت سے پہلے تک راج کیا ۔ لیکن ان دلوں میں وہ اپنے نشان چھوڑ گئی تھی ۔ ان نشانوں سے واضع تھا کہ اس نے جن دلوں پر بادشاہت کی تھی اس کے جانے کے بعد بھی وہاں اسی کی بادشاہت قائم تھی ۔ کوئی اور ملکہ اس کی جگہ نہیں لے سکتی کیونکہ وہ ارسا ہاشم تھی ۔
Queen irsa Hashim the one and only ..
وہ کہتی تھی کہ اگر لوگوں کی نظر سے دیکھا جائے تو ہیپی اینڈنگ وہ ہے جس میں کہانی کے آخر میں سب خوشی خوشی رہیں کوئی نہ مرے ۔ اس نظریے سے ہماری زندگی میں کبھی بھی ہیپی اینڈنگ نہیں ہو سکتی ۔ کیونکہ کہانی جتنی بھی بڑی ہو مرنا تو سب کو ہے ایک نہ ایک دن ۔ اصل ہیپی اینڈنگ وہ ہے جس میں کردار کی موت اچھی ہو ۔ یا جیسی موت کی اس نے خواہش کی ہو اسے ویسی ہی موت ملے ۔ ارسا ہاشم کے اس نظریے سے دیکھا جائے تو بنت عباس کو لگتا ہے کہ اس کہانی کی ہیپی اینڈنگ ہوئی ہے آپ کا کیا خیال ہے ؟
سو بار چمن مہکا ،
سو بار بہار آئی،
دنیا کی وہی رونق ،
دل کی وہی تنہائی
The eNd
——— —————
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...