شہرِ جاں کی دیکھ کر یخ بستگی
خواہشیں تک ہم جلانے لگ گئے
۔۔۔۔آج میں آپ کو کوئی کہانی نہیں سناؤں گا۔آج تو مجھے اپنی ایک اُلجھن کے بارے میں بتاناہے۔ یہ اُلجھن کچھ اتنی زیادہ الجھی ہوئی بھی نہیںہے۔بڑی سیدھی سادی سی الجھن ہے۔ مجھے بچپن سے ہی مکھیوں کو دیکھ کر وحشت ہوتی۔ اب سوچتاہوں ممکن ہے بچپن میں مجھے کس چھوٹی سی شہد کی مکھی نے کاٹ لیاہو اور میں اسے بھی عام سی مکھی سمجھ کر مکھیوں سے الرجک ہونے لگ گیا۔ لڑکپن تک پہنچاتومیں نے دیکھا میرے کئی ہم عمر میز پر، کرسی کی ہتھی پر یا دیوار پر بیٹھی ہوئی مکھیوں کو بآسانی مارلیتے تھے۔ انہوں نے مجھے بھی کئی بارد وستانہ ترغیب دی لیکن میں مکھی مارنے کے لئے کبھی بھی آمادہ نہ ہوسکا۔ میں نہیں کہہ سکتامیں مکھیوں سے خوفزدہ تھایا مجھے ان سے کراہت محسوس ہوتی تھی یا میری الجھن کی کوئی اور وجہ تھی۔ میرے مسلسل انکار کے باعث میرے دوستوں نے مجھے بزدلی کا طعنہ دینا شروع کردیا حالانکہ مکھی مارنا کہاں کی بہادری تھی کہ مجھے بزدل قراردیاجاتا۔اس کے باوجود میں نے کئی بار کوشش کی۔ چھپ چھپاکر کوشش کی کہ ایک آدھ دفعہ کسی مکھی کو مارلوںتاکہ اس معاملے میں جھجھک یا خوف جو کچھ بھی ہے کسی حد تک دور ہوجائے لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ میرے ہم عمروں نے میرے بارے میں یہ جملہ گھڑ لیا ”یہ تو مکھی بھی نہیں مارسکتا“۔ جواباً میں نے انہیں مکھی مارکہناتو شروع کردیالیکن اندر ہی اندر میری الجھن اور وحشت بڑھتی گئی۔ ”یہ تو مکھی بھی نہیں مارسکتا“یہ جملہ کسی گرز کی طرح مجھ پر برستااور میںاندرہی اندر ٹوٹنے لگتااور پھر اپنی الجھن اور دوستوں کے طعنوں کے باعث میں نے بہادری کے متبادل تلاش کرنا شروع کردیئے۔آپ یہ سن کر حیران ہوں گے میں نے تیرہ برس کی عمر میں جنس کے میدان میں پہلی فتح حاصل کرلی تھیں۔ میں اپنی جرأت اور بہادری پر خود ہی حیران بھی تھا اور نازاں بھی۔
۔۔۔۔۔لڑکپن میں پھر کئی چھوٹی چھوٹی فتوحات حاصل کیں۔ یہاں تک کہ میرے ہم عمروں کو بھی ان کی کچھ کچھ بھنک سی پڑنے لگی لیکن انہوں نے یہ کہنا نہیں چھوڑاکہ یہ تو مکھی بھی نہیں مارسکتا۔ ویسے ان کے لہجے سے اب طنز کی بجائے حسدکااظہارہونے لگاتھااور ان کا یہی حسد مجھے جیسے اپنے طاقتورہونے کا احساس دلانے لگاتھا۔ جوانی تک پہنچا تو میں نے کشتوںکے پشتے لگادیئے۔ بھرپور جوانی تک میں اپنے میدان کا اسکندراعظم بن چکا تھا جو اپنے دائرہ کارمیں آدھی سے زیادہ دنیا فتح کرچکاتھا۔میں نے اپنی زندگی کو پلٹ کر دیکھا میرے سارے ہم عمر دوست بہت پیچھے رہ گئے تھے سوائے دو دوستوں کے۔ ایک جوشاعر تھااور لندن میں کسی میم سے شادی کرکے وہیں آبادہوگیاتھا۔ دوسرا حمید۔ حمید میرا ہم رکاب تھا لیکن کسی ایسے جانور کی طرح جو شیر کے شکارکا”جوٹھا“ ملنے کی امید میں حریص نظریں گاڑے بیٹھاہو۔ لیکن اس شیر کے اپنے کچھ اصول تھے۔ چنانچہ حمید جب مجھ سے بالکل مایوس ہوگیاتو وہ بھی ساتھ چھوڑ گیا۔ جب وہ جانے لگاتو مجھے ایسے لگاجیسے اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ دیاہوتم کہاں کے اسکندراعظم ہو۔ تم تو مکھی بھی نہیں مارسکتے۔ اور میں اندر ہی اندر مزید ٹوٹنے لگا۔
۔۔۔۔۔میں نے ادھیڑ عمری میں بھی جوانی کے مزے لوٹے ہیں لیکن بڑھاپے میں اپنی باگیں اپنی بیوی کے ہاتھ میں تھمادیں۔ جنس کے معاملے میں میرے اپنے اصول ہیں۔ کسی سے زبردستی ظلم ہے لیکن اگرمیا ںبیوی راضی ہوں تو قاضی کو دخل اندازی کا کوئی حق نہیں۔ قاضی زیادہ مداخلت کرے تو بھگوان کو ساکھشی مان کر کام چلالیجئے ۔اس طرح قاضی سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ میں نے ہمیشہ دوستی بڑھاکراور اپنی دوست کو رضامندی سے بھی آگے راضی بہ رضا کے مقام پر لاکر جھک ماری ہے۔ کبھی کسی سے کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا۔ دھوکہ نہیں دیا۔ دو قدم کاساتھ ہے، عمر بھر کا نہیں ہے۔ اصل میں جھوٹ، دھوکہ دہی، بلیک میلنگ، فریب کاری یہ سارے جوہر تو آج کے زمانے میں اخلاقیات اور سیاست کے نمبرداروں نے اپنارکھے ہیں۔بہرحال میری صاف گوئی یا حماقت کا اندازہ اسی بات سے کرلیں کہ میں نے اپنی بیوی سے اپنی کوئی فتح پوشیدہ نہیں رکھی حالانکہ ایسے معاملات کا بھلے ساری دنیاکو علم ہوجائے صرف بیوی کو علم نہیں ہوناچاہئے۔
۔۔۔۔۔مجھے اپنی ساری زندگی میں صرف دودفعہ شدید پچھتاواہواہے۔ ایک دفعہ تب ہوا جب میرے بچپن کے دوست اور لندن میں مقیم شاعرکی میم بیوی میرے پیچھے پڑگئی۔ اس نے مجھے صاف صاف بتادیاکہ تمہارادوست جنسی لحاظ سے ناکارہ ہوگیاہے اور اب نوجوان لڑکوں کو ڈھونڈ ڈھانڈ کر اپناobjectiveگزارا کررہاہے۔اس وقت پتہ نہیں کیوں مجھے دوست کا لحاظ مارگیا۔ میں نے اپنی جھولی میں خودبخود آکر گرنے والے پھل کو اٹھاکر اپنے دوست کی فرج میں رکھ دیا۔ اپنی اس شرافت پرمیں آج بھی شرمندہ ہوں۔ مجھے اس میم کو مایوس نہیں کرناچاہئے تھا۔دوسری دفعہ مجھے اس وقت پچھتاواہواجب لاہور کی ایک بُری عورت کی خواہش میں نے پوری کردی۔ مجھے اس عورت کی صورت کسی مکھی کی طرح لگنے لگی ہے اسی لئے میرے پچھتاوے میں کراہت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ میں نے یہ باتیں بھی اپنی بیوی کو بتادی تھیں۔
۔۔۔۔۔بیوی سے یاد آیا۔ میرے ناناجی اور تایاجی کو بڑھاپے میں نئی بیوی لانے کا بہت شوق تھا۔ ان بے چاروں کے شوق تو پورے نہ ہوئے البتہ بڑے ماموں نے سترسال کی حد پارکرنے کے بعد بھی بازی جیت لی۔لوگوں نے بہت بکواس کی۔ ان کے بڑے بیٹے کی بیوی نے کئی برس پہلے علیحدگی اختیارکرلی تھی۔ لوگوں نے اسے ہی جواز بنالیا:وہ بے چارہ ابھی تک دوسری شادی نہیں کرسکااور اس بوڑھے کو دیکھوبیٹے کارشتہ کرانے کی بجائے خود شادی رچابیٹھا۔ مولوی،مولوی ہی ہوتاہے چاہے کسی مسلک کاہو۔ اپنی بیٹی کی ہم عمر عورت سے شادی رچا بیٹھاہے اور اب دین سے اس کی سند اور جواز پیش کررہاہے۔ ارے ایک بیٹی بھی تو بیوہ ہے اس کی۔ اگردین کا اتناہی پاس تھاتو پہلے اپنی بیوہ بیٹی کا کہیں رشتہ کراتا۔ غرض جتنے منہ اتنی باتیں۔ پر مجھے اپنے ماموں کی یہی ایک خوبی تو بھائی تھی۔ بہتر سال کی عمر میں شادی۔ جیﺅ بڑے ماموں زندہ باد!
۔۔۔۔۔صاحبان!۔۔۔۔۔۔۔اس وقت میں اسی برس سے اوپرکاہوگیاہوں۔ اب اس عمر میں کہاں تک جھوٹ بولوں لیجئے آپ کو سچی بات بتاہی دوں۔حمید نامی کوئی شخص کبھی بھی میرا دوست نہیں رہا۔ میرے اندر ساٹھ سال تک تو بہرحال جنس کا طوفان سامچارہا لیکن یہ طوفان کبھی بھی کناروں سے باہر نہیں آیا۔ میری فطرتی بزدلی نے میرے کناروں کو بہت بڑے بندمیں تبدیل کردیاتھا۔ میری جنسی فتوحات کی ساری کہانیاں میری خواہشات کا لفظی بیان تھیں اور بس۔ اس لفظی بیان کی جادو گری کام کرتی رہی ۔مجھے بزدل کہنے والے مجھے حسد بھری نظروں سے دیکھتے اور جل کر من ہی من میں کہہ دیتے ہونہہ یہ تو مکھی بھی نہیں مارسکتا۔ اب وہ سارے دوست مرکھپ چکے ہیں تو پھر مزید جھوٹ بولنے سے فائدہ؟ یوں بھی جنس کا طوفان تو کبھی کا ختم ہوچکاہے۔اب تو میرے اندر اور باہر برف ہی برف ہے۔ (پر یہ ”خواہش“ ابھی تک کیوں نہیں مری؟)
۔۔۔۔۔ابھی ابھی ایک انوکھی بات ہوگئی ہے۔ ہلکی سی دھپ کی آواز کے ساتھ دو جُڑی ہوئی مکھیاں میرے میزپر آن گری ہیں۔ ان کے ”طرزِ عمل“سے مجھے علم ہوگیاہے کہ ایک نر ہے اور ایک مادہ۔ میں نے کسی وحشت یا کراہت کے بغیر انہیں دلچسپی سے دیکھاہے۔ کاش میرے سارے بچپن کے دوست اس وقت زندہ ہوتے او ریہ منظر اپنی آنکھوں سے دیکھتے۔
میں نے اخبار اٹھاکر اسے تھوڑا سا فولڈ کیاہے اور اس کے ایک ہی وار سے نراور مادہ دونوں مکھیوں کو ”دورانِ عمل“ ہی ختم کردیاہے۔
٭٭٭