کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اسے احد بیڈ پر ریلیکس انداز میں دراز نظر آیا۔ اس کا ایک ہاتھ آنکھوں پر دھرا تھا جس سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے وہ سو گیا ہو۔ اس ںے ہلکا سا گلا کھنکار کر اسے متوجہ کرنے کی کوشش کی جس پر اس نے فوراً ہی بازو آنکھوں سے ہٹا کر اسے دیکھا تھا جو الجھن بھرا چہرہ لئے اسے ہی دیکھ رہی تھی۔
یہاں آئو بیٹھو! اسے اپنے سامنے بیٹھنے کا اشارہ کرتا وہ اب خود اپنی ٹانگیں سمیٹ کر اٹھ کر بیٹھ چکا تھا۔ وہ چپ چاپ اس کے سامنے آ بیٹھی۔ ذہن اب تک الجھن کا شکار تھا کہ آخر ایسی کون سی ضروری بات کرنی تھی احد کو اس سے۔
کچھ توقف کے بعد اس نے بات کا آغاز کیا۔
“کل تمہیں خالہ کی گئی بات یاد ہے؟” وہ اس سے پوچھ رہا تھا مگر بہت ذہن پر زور ڈالنے کے باوجود بھی اسے خالہ کی ایسی کوئی بھی بات ذہن میں نہیں آئی جس پر یوں بیٹھ کر سنجیدگی سے گفتگو کی جاتی اسی لئے اس نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“انہوں نے کہا تھا کہ اللہ ہمیں جلد از جلد اولاد کی نعمت سے نوازے تو میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تم بھی اولاد کی خواہش رکھتی ہو؟” وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر براہ ِراست یہ سوال کررہا تھا اور وہ ہونق انداز میں اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے قطعاً توقع نہیں تھی کہ احد اس سے ‘یہ’ بات کرنے والا تھا۔ بے اختیار ہی اسے اس کمرے میں بیٹھے ہوئے ایک دم عجیب سا محسوس ہونے لگا تھا۔ اس نے تو کبھی اولاد کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ وہ تو ابھی تک اس رشتے کو قبول نہیں کر پائی تھی تو اولاد کی خواہش رکھنا یا نہ رکھنا تو بہت آگے کی بات تھی۔ اس کے کافی دیر کچھ نہ کہنے پر احد نے ہی بات کا آغاز کیا تھا۔
“تم جانتی ہو میں پہلے بھی ایک بار اولاد کے چھن جانے کے کرب سے گزر چکا ہوں۔ مگر میں دل سے چاہتا ہوں کہ اللہ ہمیں پھر سے اس خوشی سے نوازے۔ مگر تم بے فکر رہو اگر تم ایسا نہیں چاہتی تو میں تمہیں کسی بھی چیز کے لئے زبردستی نہیں کروں گا۔ مگر میں بس اس معاملے میں تمہاری مرضی۔جاننا چاہتا تھا۔” وہ اب اسے دیکھتے ہوئے اس کے جواب کا منتظر تھا۔ اس بے اختیارہی اپنے لب کچلے تھے۔ وہ ایک عجیب سی کشمکش میں مبتلا تھی۔ کیا اسے اپنے دل کی بات کرنی چاہئیے؟ چند لمحے سوچنے کے بعد اس نے گہرا سانس لیتے ہوئے بات شروع کی۔
“دیکھیں احد! شاید آپ کے لئے یہ بات تکلیف دہ ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ میں نے ہمیشہ سے ہی عمر کو ہی سب کچھ مانا ہے اور آپ کو ہمیشہ بڑے جیٹھ کے روپ میں دیکھا تھا۔ اب ایک دم سے اچانک آپ کو شوہر تسلیم کرنا ہی میرے لئیے مشکل ہے تو اولاد کی خواہش کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔” اس نے ہمت کر کے یہ سب کہہ تو دیا تھا مگر اب دل تیزی سے دھڑکنے لگا تھا۔ نجانے احد کیا ردِعمل دیتا۔
“ٹھیک ہے۔ تم۔مجھے کچھ وقت دو۔ میں جلد ہی تمہاری مرضی کے مطابق فیصلہ کردوں گا۔” اس نے اس سے آگے اور کچھ نہیں کہا تھا اور خاموشی سے دوسری طرف کروٹ لے کر لیٹ گیا تھا۔ جبکہ فاطمہ کو ایک دم ہر چیز بے رنگ سی محسوس ہوئی تھی
وہ کیا فیصلہ کرے گا؟ کیا وہ اسے چھوڑ دے گا؟ تو وہ بھی تو یہی چاہتی تھی پھر دل کیوں اس کی بات پر اس طرح دکھا تھا۔
بے اختیار ہی ایک آنسو اس کی آنکھ سے گرا تھا۔
_______
زندگی ایک بار پھر ویران ہوگئی تھی۔ وہ آخری روزن جو روشںی دیتا تھا اب بند ہوچکا تھا۔ دنیا پھر سے اندھیر ہوگئی تھی۔ فاطمہ کے الفاظ نے اس کی ساری امیدیں لحظے بھر میں توڑ کر رکھ دی تھیں۔ وہ جانتا تھا کہ فاطمہ یہی جواب دے گی مگر پھر بھی دل کے نہاں خانے میں کہیں ایک امید تھی کہ شاید وہ اس رشتے کو تسلیم کرے۔ شاید وہ مثبت جواب دے مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ اس کی بیوی نے اسے دو ٹوک جواب دیا تھا اور یہی۔
وہ لمحہ تھا جب اس نے فاطمہ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ اسے ایک زبردستی کے بندھن میں باندھ کر ساری زندگی نہیں گزار سکتا تھا۔
اسے سمجھ آگیا تھا کہ اس کی زندگی میں صرف ہجر ہی لکھا ہے۔ وصل کی شب شاید اس کے نصیب میں ہے ہی نہیں۔
__________
اگلے دن وہ فجر کی اذان ہوتے ہی اٹھ گیا تھا۔ پوری رات یوں ہی گزر گئی تھی۔ نیند ایک منٹ کے لئے بھی مہربان نہ ہوئی تھی۔ وہ۔جب اٹھا تو سر بے حد بھاری بھاری ہورہا تھا۔ وہ اپنی تمام تر ہمت مجتمع کر کے کھڑا ہوا اور ٹھنڈے ٹھنڈے پانی سے وضو کیا۔ وضو کر کے ذہن کو کچھ سکون ملا تھا۔ فجر کی نماز پڑھی اور کچن میں چلا آیا تاکہ اپنے لئے ناشتے کا انتظام کر سکے۔ فاطمہ سو رہی تھی۔ اس نے اسے جگایا بھی نہیں۔ جلدی جلدی اپنے لئے ناشتہ تیار کیا اور باہر لائونج میں آکر ناشتہ کرنے لگا۔
وہ ناشتہ کر کے اٹھ ہی رہا تھا کہ فاطمہ باہر آتی دکھائی دی۔ وہ اب تک شب خوابی کے لباس میں ملبوس تھی۔ بالوں کا ڈھیلا سا جوڑا بنائے وہ لائونج میں آئی اور اسے دیکھتے ہی بول اٹھی۔
“ارے آپ آج اتنا جلدی اٹھ گئے؟ مجھے بھی اٹھا دیا ہوتا؟ میں آپ کے لئے ناشتہ بنادیتی۔” وہ اسے فکرمندی سے دیکھ رہی تھی جس پر احد “مسئلہ نہیں ہے” کہہ کر خاموش ہوگیا تھا۔ اس نے غور کیا کہ وہ کل کی نسبت بے حد چپ چپ اور پثرمدہ سا لگ رہا تھا۔
کچن میں آکر اس نے جلدی سے اپنے لئے ناشتہ تیار کیا اور پھر احد کے کپڑے نکالنے کمرے میں آئی مگر تب تک وہ تیار ہو چکا تھا۔ سیاہ شرٹ اور نیلے رنگ کی پینٹ پہنے وہ بس کمرے سے باہر آنے والا ہی تھا کہ فاطمہ اندر آئی تھی۔
“آپ آج جلدی جارہے ہیں آفس؟” اسے تیار کھڑا دیکھ کر اس نے استفسار کیا تھا جس پر وہ بس ہوں کہتا گیٹ کی سمت بڑھ گیا۔
“میں آج شاید لیٹ گھر آئوں اسی لئے پریشان مت ہونا۔” وہ اسے گیٹ پر اطلاع دیتا باہر چلا گیا تھا جبکہ وہ ایک دم اداس سی اب تک بند گیٹ کو دیکھ رہی تھی۔ اسے احد کا یہ انداز بلکل نہیں بھایا تھا۔ وہ تو ہمیشہ اسے توجہ دیتا تھا، جب بھی آفس جاتا ہمیشہ مسکرا کر خدا حافظ کہا کرتا تھا۔ ہر روز ناشتے پر وہ اس کا انتظار کرتا تھا اور اسی کے ہاتھ کا بنا ناشتہ کیا کرتا تھا مگر آج اس کا ہر انداز ہی بدلا بدلا سا تھا اور اس کا یہ بدلا ہوا انداز فاطمہ کو اندر ہی اندر جیسے کاٹ رہا تھا۔ وہ اس کا یوں نظر انداز کرنا سہہ نہیں پارہی۔تھی۔
__________
کچھ دن یوں ہی گزر گئے۔ احد اس بات کے بعد بالکل چپ ہوگیا تھا۔ وہ ویسے ہی کم بولتا تھا مگر ہر وقت اس کے چہرے پر ایک خوشگواری اور شادابیت سی چھائی رہتی تھی اور اب وہ سب ایک دم جیسے ختم ہوگیا تھا۔ فاطمہ کو سب سے زیادہ دکھ اس بات کا۔تھا کہ احد نے اس سے اپنا کوئی بھی کام کہنا چھوڑ دیا تھا۔ وہ کوشش کیا کرتا تھا کہ اس کے اٹھنے سے پہلے ہی وہ اپنے تمام کام نپٹا کر آفس کے لئے تیار ہو جائے۔ گھر آ کر بھی وہ بس خاموشی سے کھانا کھاتا اور سونے کے لئے لیٹ جاتا۔ نہ اس سے چائے کی فرمائش کرتا نہ اس کے بنائے کھانے پر کوئی تبصرہ کرتا۔
فاطمہ اگر اس کا کوئی کام کر بھی لیتی تو اس کے چہرے پر ایک عجیب قسم کی ناگواری آجاتی تھی۔ وہ اس سے کہتا کچھ نہیں تھا مگر لب بھینچ کر اس جگہ سے ہٹ جاتا۔ اس دن بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ فاطمہ نے رات سے ہی اس کے کپڑے استری کر کے رکھ دیے تھے اور فجر کی اذان کے ساتھ ہی اٹھ کر،نماز پڑھ کر اس کا ناشتہ تیار کرنے لگی تھی۔ وہ جب فجر کی نماز کے لئے اٹھا تو کچن میں کھٹ پٹ کی آوازیں آرہی تھیں۔ جب تک وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوا فاطمہ ٹیبل پر ناشتہ لگا چکی تھی۔ اس نے ایک نظر اپنے سامنے رکھی ناشتے کی ٹرے کو دیکھا اور پھر نرم مگر کچھ ناگوار سے لہجے میں اس سے کہا۔
“تم نے یہ سب کیوں کیا؟ تم کیوں روز میرے لئے جلدی اٹھتی ہو؟” احد کی اس بات نے اس کا ضبط کا پیمانہ لبریز کردیا تھا اور تب ہی اس نے اس سے روبرو بات کرنے کا فیصلہ کیا۔
“احد آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ آپ اتنے دنوں سے اس طرح کا برتائو کیوں کررہے ہیں؟ اور میں کیوں نہ کروں یہ سب؟ میں آپ کی بیوی ہوں میرا فرض بنتا ہے یہ سب کرنا۔”
“اور کب تک رہو گی میری بیوی؟” اپنے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ میز پر رکھتے ہوئے وہ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے سوال کررہا تھا۔ اس کے لہجے میں طنز کی آمیزش محسوس ہوتی تھی۔
“ک!کیا مطلب؟” بے اختیار ہی اس کی زبان لڑکھڑائی تھی۔ اس کے لہجے نے اس کے اندر تک سنسنی دوڑا دی تھی۔
“مطلب یہی کہ جب ہم علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر ہی چکے ہیں تو پھر کیا مقصد رہ جاتا ہے یہ سب کرنے کا۔”
علیحدہ ہونے کا فیصلہ کر چکے ہیں؟ احد کے الفاظ پر اس کا دل ڈوبا تھا۔ وہ۔ایک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ احد نے لمحہ بھر کو اسے دیکھا اور پھر سر جھکا دیا۔
“خدا کے لئے مجھے اپنا اور عادی مت بنائو۔ میں بہت مشکل سے اپنی زندگی کو تمہارے بغیر گزارنے کی کوشش کررہا ہوں۔ اسی لئے میں تم سے اپنا کوئی کام نہیں کہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ مجھے مزید تمہاری عادت ہو۔ میں پہلے ہی بہت تکلیف میں ہوں فاطمہ۔ میں تم سے محبت کرنے لگا ہوں اور اب ہر وقت اس محبت کو اپنے دل و دماغ سے نکالنے کی کوشش کرتا ہوں اور تم جانتی ہو یہ آسان نہیں ہوتا۔۔ خدا کے لئے مجھے اور تکلیف مت دو۔ میری زندگی کو اتنا مشکل نہ بنائو کہ میں تمہارے بغیر مر ہی جائوں۔ ” وہ اس کے آگے ہاتھ جوڑے کہہ رہا تھا۔ آخر میں بولتے بولتے اس کی آواز رندھ گئی تو وہ بے اختیار ہی چپ ہو کر وہاں سے اٹھ کر چلا گیا جبکہ وہ دم سادھے بیٹھی صوفے کو تک رہی تھی۔ محبت؟ کیا وہ اس سے محبت کرتا تھا؟ وہ اس کا عادی ہوگیا تھا؟ اس کے وجود کا اس قدر عادی ہوگیا تھا کہ اب اس کا چھوڑ کر جانا اسے اتنی تکلیف پہنچا رہا تھا۔ مگر یہ کب ہوا؟ کیسے ہوا؟ وہ ایک شاک کی سی کیفیت میں تھی۔ احد کا یوں برملا اظھارِ محبت اسے اندر تک ہلا گیا تھا۔ تو کیا وہ ہانیہ کو بھول گیا تھا؟ نہیں ایسا کیسے ہوسکتا تھا۔ مگر اگر ایسا نہیں ہوا تھا تو وہ اس سے کیسے محبت کرنے لگا تھا۔ وہ تو ہمیشہ سے سوچتی تھی کہ احد اور وہ ہانیہ اور عمر کے علاوہ کبھی کسی کو دل میں جگہ نہیں دے پائیں گے اور اسی زبردستی کے بندھن میں بندھے ہوئے ساری زندگی گزر جائے گی۔ مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ احد نے تو سارا پانسا ہی پلٹ دیا تھا۔۔وہ تو اس سے محبت کرنے لگا تھا۔ کیا وہ اس اعترافِ محبت کے بعد بھی اسے چھوڑ دے گی؟ کیا وہ اتنی سنگ دل تھی کہ احد کے لہجے کی شدت اور الفاظ کا درد بھی اسے پگھلا نہیں رہا تھا؟ اس کا دل ایک دم لرز سا گیا۔ اسے چھوڑنے کا تصور ہی نہایت اذیت ناک تھا۔
__________
کئی دن یوں ہی گزر گئے۔ احد اس دن کے بعد سے اس سے بلکل ہی لا تعلق ہوگیا تھا۔ وہ ضرورت کی بات کے علاوہ اس سے کوئی اور بات نہیں کرتا تھا اور اس کا یہ رویہ فاطمہ کے دل کو لہولہان کررہا تھا۔ وہ جب آفس میں ہوتا تو وہ پورا وقت اپنا فون دیکھتی رہتی کہ شاید اس کی جانب سے کوئی میسج یا کوئی کال آجائے۔ جب وہ گھر آتا تو وہ اس کے چہرے کا طواف کرنے لگتی کہ شاید آج اس کے موڈ میں کچھ بدلائو ہو۔ کہ شاید آج احد کا رویہ نارمل ہو مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا جس کی وجہ سے اس کے دل کا غبار بڑھتا جارہا تھا یہی وجہ تھی کہ آج جب خالہ نے اتنے دنوں بعد ان کے گھر کا چکر لگایا تو وہ ان سے لپٹ کر بے اختیار ہی پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
خالہ ہکا بکا سی اسے دیکھ رہی تھیں۔ احد اس وقت آفس گیا تھا اور فاطمہ اس وقت اکیلی تھی۔
وہ اسے بڑی مشکل سے ہی چپ کروانے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ جب وہ پانی پی کر کچھ ریلیکس ہوئی تو انہوں نے اس کے برابر بیٹھتے ہوئے اس کے اس طرح رونے کی وجہ دریافت کی۔
“خالہ میں بہت پریشان ہوں! احد مجھ سے بات نہیں کررہے۔ وہ۔مجھے طلاق دینے والے ہیں۔” وہ یہ کہتے ہوئے ایک بار پھر چہرے پر ہاتھ رکھ۔ کر رونے لگی تھی جبکہ خالہ کو شدید قسم کا حیرت کا جھٹکا لگا تھا۔
احد فاطمہ کو طلاق دینے والا ہے؟ ایسا کیسے ممکن ہے۔ محض دو ہفتے پہلے ہی تو وہ ان کے گھر پر آئی تھیں تب تو وہ دونوں اچھے خاصے خوش لگ رہے تھے۔ اب ایسا کیا ہوگیا ان کے درمیان کہ طلاق کی نوبت آگئی.
“فاطمہ بیٹا ایسا کیا ہوگیا تم دونوں کے درمیان کے بات طلاق تک جا پہنچی؟”
خالہ کے سوال پر اس نے بے اختیار نظریں چرائی تھیں۔ وہ ان سے کیسے کہہ دیتی کہ اس نے خود ہی احد کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ہے۔ مگر اس نے ہمت کر کے احد اور اس کے درمیان ہونے والی تمام گفتگو سے لے کر اس کے بعد کے احد کے رویے تک ساری بات ان کے گوش گزار دی۔ اس کی بات سن کر انہوں نے کتنی ہی دیر بعد ایک لمبا سا صرف “ہممم” کہا تھا یوں جیسے وہ کب سے اس کی باتوں اور احد کے رویے کا تجزیہ کرنے کے بعد اب کسی نتیجے پر پہنچی ہوں۔
وہ شرمندہ سی نظریں جھکائے ان کے سامنے بیٹھی تھی۔
“فاطمہ کیا تم احد سے علیحدگی چاہتی ہو؟” خالہ نے اس کی انکھوں میں دیکھتے ہوئے سوال کیا تھا جس پر اس نے فوراً ہی زور زور سے نفی میں سر ہلایا تھا۔
“کیوں؟” ان کے اگلے سوال نے اسے ایک دم چپ کروادیا تھا۔ اسے سمجھ ہی نہیں آیا وہ اس کیوں کا کیا جواب دے۔
“کیونکہ احد مجھ سے محبت کرنے لگے ہیں۔” وہ کتنی ہی دیر بعد بولی تھی۔
“کوئی بات نہیں۔ وہ عادی ہے اس طرح جینے کا۔ پہلے ہانیہ کے بغیر بھی رہ ہی رہا تھا ناں تو تمہارے بغیر بھی رہ لے گا۔ تم اپنی بات کرو۔ تم رہ لو گی اس کے بنا؟” خالہ نے بے رحمانہ طریقے سے اس کی توجیہ کو رد کیا تھا اور آخر میں اسے پھر مشکل میں ڈال گئی تھیں۔
کیا وہ احد کے بنا رہ لے گی؟ اس نے تھک کر سر جھکا لیا۔ وہ دن میں کئی کئی بار خود سے یہ سوال کرتی تھی اور ہر بار جواب ناں میں ہی آتا تھا۔
“میں نہیں رہ سکتی احد کے بنا۔ اب آپ مجھ سے وجہ مت پوچھئیے گا کیونکہ میرے خود کے پاس کوئی وجہ نہیں ہے۔ میں بس نہیں رہ سکتی ان کے بغیر۔” اس کی آواز رندھی ہوئی تھی اور انداز شکست خوردہ سا تھا یوں جیسے وہ احد کی محبت کے آگے ہار سی گئی ہو۔
“وجہ تمہیں بھی اچھی طرح معلوم ہے اور مجھے بھی۔” وہ اسے پیار سے خود کے ساتھ لگاتے ہوئے اب اس کے بالوں میں نرمی سے ہاتھ پھیر رہی تھیں۔ کئی آنسو تھے جو اس کی آنکھ سے گرے تھے۔۔
“خالہ! یہ کیا ہوگیا مجھے؟ مجھے کیوں ہوگئی ہے احد سے محبت؟ اتنی محبت کہ اب میں اس کے بغیر رہ بھی نہیں سکتی۔ میں عمر کے علاوہ کسی اور سے محبت کر کے عمر کے ساتھ بے وفائی کیسے کر سکتی ہوں۔” وہ زار و قطار رو رہی تھی جبکہ خالہ کو اس کی بات پر بے حد افسوس ہوا تھا۔ وہ ایک پاکیزہ محبت کو بے وفائی قرار دے رہی تھی۔
_______
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...