ماہم کے پاس موجود سیل فون جو وائبریشن موڈ پر لگا ہوا تھا اب وائبریٹ ہونے لگا تھا اس نے سیل فون کی اسکرین پر کیف کا نام دیکھا پھر ایک عجیب نظروں سے اپنے ہاتھ میں موجود اسکیچ کو دیکھا (جوکہ کیف کا اسکیچ تھا اور خود ماہم نے بنایا تھا)
اس کال پر آنے والے غصے پر اس کا ایک پل کو دل چاہا کہ وہ اپنے ہاتھ میں موجود اسکیچ پر والہانہ لکیریں کھینچ دے مگر اس نے ایسا نہیں کیا اسے اب خود پر غصہ آیا تھا وہ کیوں اس کا اسکیچ بنارہی تھی اور وہ کیوں اسے کال کرکے کمزور بنانے کی کوشش کررہا تھا کچھ دیر تک اس کا سیل فون وقفے وقفے سے وائبیریٹ ہوتا رہا تھا وہ کیف کی کال ہرگز اٹینڈ نہیں کرنا چاہتی تھی کل رات بھی جذبات میں آکر اس نے کال اٹینڈ کر تو لی تھی مگر پچھتائی تھی کیف کی کال نے اس کی تکلیف میں مزید اضافہ کیا تھا وہ اب اپنا سیل فون اٹھائے اسکرین کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی اسکرین پر ایک میسج نوٹیفیکیشن جگمگایا تھا۔ اس نے میسج اوپن کیا پڑھنے پر اسے مزید غصہ آیا اسے اب کوفت سی ہوئی اب وہ انتظار کرنے لگی کہ کیف اسے دوبارہ کال کرے اور وہ اس پر برس پڑے اس پر آیا ہوا اپنا سارا غصہ اس پہ نکال دے اس کی یہ خواہش کچھ ہی سیکینڈز میں پوری ہوچکی تھی کیف اسے دوبارہ کال کررہا تھا “آپ سمجھتے کیا ہیں خود کو؟مجھے یہ ڈرامے بازی بالکل بھی پسند نہیں ہے آپ مجھے ایموشنلی بلیک میل نہیں کرسکتے مسٹر کیف عالم میں آپ کی ان چالبازیوں میں ہرگز آنے والی نہیں ہوں اپنے یہ حربے آپ کہیں اور جاکر آزمائیے‘‘ وہ اپنی خواہش کے عین مطابق اس پر بغیر ہیلو ہائے کے برسی تھی”یہ جالبازی نہیں ہے تمہارے لیے میری محبت کی انتہا ہے ‘‘وہ جو اپنے غصے کے بدلے میں کیف سے بھی کسی غصیلے جواب کی امید لگائے بیٹھی تھی یکدم ہی لاشعوری طور پر ٹھنڈی پڑگئی تھی یہ عورت زاد کی فطرت میں شامل ہے اس کے غصے کے بدلے میں کوئی اسے پیار دے تو وہ بہت جلدی موم ہوجاتی ہے
’’جو بھی ہے مجھے یہ سب پسند نہیں آپ اب کبھی مجھے اس طرح کی کوئی دھمکی نہیں دیں گے ‘‘۔ اس بار اس نے نرمی سے کہا تھا۔
’’یہ دھمکی نہیں تھی ماہم اگر آج تم مجھ سے بات نہ کرتی تو میں واقعی کچھ کھالیتا یا سڑک پر چلنے والی کسی گاڑی کے نیچے آجاتا ‘‘یہ سن کر ماہم طنزیہ مسکرائی”کوئی کسی کے لیے جان نہیں دیتا خاص کر آج کے اس آرام طلب دور میں جہاں لوگ اپنے پکے مسلمان ہونے کا دعوٰه تو کرتے ہیں پر جب کسی تبلیغی قافلے میں جانے کی بات آتی ہے تو مصروفیت کا بہانہ بناکر ٹال جاتے ہیں اور آپ فانی دنیا کے فانی حسن پہ مرنے کی بات کرتے ہیں یہ سب تو کسی کو بیوقوف بنانے کے حربے ہیں ‘‘آزماكر دیکھ لو‘‘۔اس نے اتنے یقین سے کہا کہ ماہم کو ایک پل کے لیے اس کی بات سچ لگی تھی دل کو لگی تھی شاید واقعی وہ خود کو کوئی نقصان پہنچالیتا
کچھ لمحوں کے لیے دونوں طرف خاموشی چھائی”میں نے تمہیں اپنے مسئلے کا حل نکالنے کے لیے کہا تھا کچھ سوچا تم نے اس بارے میں ‘‘۔ اس نے کچھ یاد دلایا تھا۔ماہم جواب میں خاموش رہی تھی اسے خاموش پاکر کیف سمجھ گیا کہ اس کے پاس کوئی حل نہیں ہے
وہ تو اس کے مسئلے حل نہیں نکال پائی تھی پر کیف ایک حل نکال چکا تھا جو آج وہ کسی بھی قیمت پر ماہم کو بتانا چاہتا تھا “تمہیں بھولنے کے لیے میں ہر ممکن کوشش کرچکا ہوں اب میں تمہیں پانے کی کوشش کرنا چاہتا ہوں پچھلی کوشش میں ناکام رہا ہوں اس کوشش میں کامیابی کی امید ہے اگر تم میرا ساتھ دو ‘‘اس کا انداز اب کچھ عجیب سا تھا “مگر میں آپ کا ساتھ کیوں دوں؟اس کا لہجہ اب پھر سے تلخ ہوچکا تھا وہ نرم رویوں سے محبتوں کو بڑھاوا دینا نہیں چاہتی تھی”کیوں کے تمہارے دل میں میرے لیے محبت کے جذبات ہیں بھلے ہی ان میں اتنی شدت نہ ہو مگر کچھ تو تمہارے دل میں بھی ہے‘‘۔وہ بڑی رسانیت سے بولا تھا۔
’’کچھ نہیں ہے میرے دل میں‘‘۔وہ اس پر اپنے جذبات ظاہر کرکے بات کو آگے نہیں بڑھانا چاہتی تھی نا تو وہ لوگوں کی قیاس آرائیوں کو سچ کرنا چاہتی تھی اور نا ہی کیف کے گھر والوں کے آگے اپنا تماشہ بنانا چاہتی تھی”تم مکر نہیں سکتی میں جانتا ہوں تم میرے بارے میں کچھ نا کچھ تو ضرور محسوس کرتی ہو‘‘۔وہ پر اعتماد تھا “کہا نا نہیں ہے کچھ بھی میرے دل میں اب میں کال بند کررہی ہوں اور اگر آپ نے پھر مجھے کال کی تو میں آپ کے لیے بہت بری ثابت ہوں گی‘‘ اس سے پہلے کہ کیف پر اس کے جذبات ظاہر ہوجائیں وہ فرارچاہتی تھی “رکو ذرا پہلے کچھ سوالوں کے جواب تو دے دو پھر جو چاہے کرنا جواب اگر سچ ہوئے تو یقین مانو دوبارہ تمہیں پریشان نہیں کروں گا‘‘۔اس نے اب کچھ پوچھنا چاہا تھا ماہم خاموش ہی رہی تھی کال اس نے کاٹی نہیں تھی مطلب وہ سن رہی تھی”صرف اتنا بتادو کہ اس دن تمہیں میرے امبر کی تعریف کرنے پر برا کیوں لگا تھا کیوں تمہاری چھوٹی سی ناک جلن سے پھولی ہوئی نظر آنے لگی تھی کیوں تمہارے چہرے کے رنگ بدل گئے تھے کیوں تم اس کے ذکر سے اجتناب کی خاطر وہاں سے چل دی تھی ‘‘اس نے وہ سوال کیا تھا جس کا جواب خود اسے بھی بہت دیر سے سمجھ آیا تھا”یہ آپکا وہم ہے کیف عالم مجھے کوئی جلن محسوس نہیں ہوئی تھی‘‘ اس کی آواز میں کپکپاہٹ تھی جیسے اس کی چوری پکڑی گئی ہو”میری ناراضی محسوس کرنے پر کیوں میرے لیے صبح ہی صبح آلو کے پراٹھے بنائے تھے ‘‘۔اس نے ماہم کو کٹہرے میں لاکھڑا کیا تھااور اب سوالوں کی بوچھاڑ کرچکا تھا”آپ کی جگہ میرا کوئی بھی کزن مجھ سے روٹھا ہوتا تو میں یہی کرتی اتنی سی بات پر کسی خوش فہمی میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے ‘‘۔وہ بری طرح سے اس کے سوالوں میں الجھنے لگی تھی”تو کیا تمہاری آنکھوں میں نمی کسی بھی کزن کے اگنور کرنے پر آجاتی ہے؟”وہ چونکی تھی تو وہ سب جانتا تھا یہ بھی کہ اس کے اگنور کرنے سے بارہا اس کی آنکھوں میں نمی اتری تھی وہ یہ بھی جانتا تھا کہ آلو کے پراٹھے اسی کے لیے بنائے گئے تھے وہ یہ بھی جانتا تھا کہ امبر کی تعریف اسے چبھی تھی جانے وہ اور کیا کیا جانتا تھا”کل میرے میسج کو دیکھتے ہی کیوں میسج کرڈالا اگر میں تمہارے لیے کچھ نہیں تو کیوں میری کال اٹینڈ کی کیوں میری آواز سن کر تم کچھ لمحے بول ہی نا پائی تھی ‘‘تو ثابت ہوا کہ اس نے بہت بڑی غلطی کی تھی کیف عالم کو رسپانس دے کر اسے کل کیف کے بلینک میسج کو اگنور کرنا چاہیے تھا اپنے دل و جذبات پر کنٹرول کرنا چاہیے تھا۔اب وہ اپنی چاہت سے انحراف کرے بھی تو کیسے؟ وہ خاموش ہوچکی تھی”مت چھپاؤ ماہم کوئی فائدہ نہیں ہے تمہاری یہ خاموشی بھی یہی بتارہی ہے کہ تم مجھے چاہتی ہو اقرار کرو اس بات کا کہ تمہارے دل میں بھی میں ہوں تمہیں ماننا ہوگا کہ تم بھی میرے بغیر جی نہیں سکتی یہاں تک کہ تمہیں میرا اگنور کرنا بھی تکلیف دیتا ہے” وہ اب ڈنکے کی چوٹ پر اس پر چاہت کا جرم ثابت کررہا تھا اس کے گلے میں پھندہ سا لگ چکا تھا وہ اپنے دفاع میں کچھ بول نہیں پارہی تھی بس اشک تھے جو اس کی بھوری آنکھوں سے جاری تھے اور وہ سسکیاں بھرنے لگی تھی جس زخم کو وہ اپنے دل کے7پردوں میں چھپائے بیٹھی تھی کیف اسی زخم کو مسلسل کرید رہا تھا رو مت ماہم میں تمہیں کمزور نہیں کرنا چاہتا تھا میں نے خود بھی پہلے پہل تم سے دور جانا ہی مناسب سمجھا تھا لیکن یہ میرے بس میں نہیں ہے اور یہ میں بخوبی سمجھ چکا ہوں‘‘وہ اس کی شوں شوں سنکر بولا تھا۔
ماہم جواب میں اب بھی کچھ نہ کہہ پائی تھی۔وہ پھر گویا ہوا تھا اب کہہ دو کہ تمہارے یہ آنسو بھی میرا وہم ہے اگر میں غلط نہیں تو تم اپنے یہ قیمتی آنسو میرے لیے بہارہی ہو اور قیمتی چیزیں تو صرف مزید قیمتی چیزوں پہ قربان کی جاتی ہیں کیا اب بھی تم اپنی چاہت سے انحراف کروگی ‘‘میرے پاس اور کوئی چوائس نہیں ہے میں بہت اچھے سے جانتی ہوں یہ چاہت ادھوری رہ جائے گی میں اس راہ میں اپنے قدم مزید نہیں بڑھانا چاہتی”وہ شوں شوں کرتے ہی بولی تھی “تو تمہیں مجھ سے محبت کا اعتراف ہے میر ے لیے یہ بھی بہت ہے یہی میری ہمت بڑھانے کے لیے بھی کافی ہے۔ ‘‘اس کے لہجے میں واضح سکون تھا”ہم دونوں کیا چاہتے ہیں اور کیا نہیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے ‘‘اس کے لہجے میں واضح مایوسی تھی”فرق پڑتا ہے پہلے صرف میں ہی تمہیں بھلانے اور پھر پانے کی کوشش میں تھا اب تم بھی میرے ساتھ ہو”اس کا لہجہ پراعتماد تھا”میں آپ کے ساتھ نہیں ہوں کیف عالم میرا فیصلہ اب بھی وہی ہے آپ بھول جائیں مجھے اور مجھے بھی آپ کو بھولنے دیں‘‘ماہم نے فوراً سے کال کٹ کردی اعترافِ محبت کا جرم تو کرچکی تھی اب کوئی وعدہ وفا نہیں کرناچاہتی تھی وہ کوئی عہدو پیمان نہیں چاہتی تھی جن کے ٹوٹنے پہ وہ خود بھی ٹوٹ جائے کال ڈسکنیکٹ ہونے کے بعدکیف اپنے نکالے ہوئے حل پر پھر سے سوچنے لگا تھا کال کرنے سے پہلے وہ نہیں جانتا تھا کہ ماہم اس کے حل پر عمل کرے گی یا نہیں پر کال کے اختتام پر اسے یقین ہوچلا تھا کہ ماہم بھی اسی سے محبت کرتی ہے اور وہ ضرور اس کی بات مانے گی اگلی کال میں وہ ضرور اسے اپنی سوچ سے آگاہ کرے گا
اگلے دن کیف ماہم کو اپنے تجویز کردہ حل بتارہا تھا “میں تمہارے گھر تمہارے والدین سے تمہارا ہاتھ مانگنے آؤں گا پر میں اکیلا ہی آؤں گا تم سے شادی کرنے کے لیے مجھے اپنے گھر والوں سے ہمیشہ کے لیئے تعلق ختم کرنا ہوگا جو میں کرنے کو تیار ہوں تم صرف اتنا کرو کہ اپنے گھر والوں کو راضی کرو کہ وہ مجھے بغیر میری فیملی کے قبول کریں اورتمہارا ہاتھ مجھے دے دیں”شاید وہ خود بھی نہیں جانتا تھا کے وہ کیا بول رہا ہے”واہ کیف عالم واہ میں یہاں اپنی اور اپنے ماں باپ کی عزت کو سنبھالے رکھنے کی بات کررہی ہوں اور آپ ہر طرح سے ہمیں رسوا کرنے پر تلے ہیں کیا خوب عزت ہوگی نا ہماری کہ لڑکے کے ماں باپ ہی رشتے میں شامل نہیں تھے لڑکا اکیلا ہی منہ اٹھائے چلا آیا ‘‘اسے مزید غصہ آیا تھا
what nonsense yaar میں تمہاری خاطر اپنے پورے خاندان کو چھوڑ رہا ہوں اور تم میری خاطر اتنا بھی نہیں کرسکتیں کہ لوگوں کی فکر کیے بغیر میرا ساتھ دے دو کوئی نا کوئی compromise تمہیں بھی تو کرنا چاہیے ماہم قریشی محبت تم نے بھی کی ہے صرف میں نے نہیں ‘‘کیف اب گرجا تھا”نہیں کرنا مجھے ایسا کوئی بھی compromise جو سارے جہاں میں میرا تماشہ بنادے ‘‘اس کی آواز میں اب غصہ بھی تھا اور دکھ بھی۔
’’صاف کہو کہ تمہیں محبت ہی نہیں ہے میری نظروں نے دھوکہ کھایا تھا میرے دل نے فریب کھایا تھا تم نے زندگی میرے ساتھ گزارنی تھی میرے گھر والوں کے ساتھ نہیں لوگوں کے ساتھ نہیں”اس کا لہجہ اب تلخ تھا”عزت سے بڑھ کر محبت نہیں ہوتی ‘‘وہ بھی تلخی سے ہی بولی تھی”تم میرا ساتھ دینے سے انکار کررہی ہو ماہم کل کو تمہیں ہی پچھتاوا ہوگا میں کبھی تمہاری شکل بھی نہیں دیکھوں گا تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گا تم چاہتی تو میرے ساتھ کورٹ میرج کرسکتی تھی وہ نا سہی تو کم از کم مجھے بغیر میرے خاندان کے قبول کرسکتی تھی”اس کا انداز اب جنونی ہونے لگا تھا”مجھے کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا کیف عالم میں جانتی ہوں میرا فیصلہ ٹھیک ہے ‘‘اس کی اس بات سے کیف کو آگ سی لگی تھی اسے فرق ہی نہیں پڑرہا تھا کہ کیف اس کی شکل بھی نہیں دیکھے گا وہ اتنی پتھر دل کیسے ہوسکتی تھی”اوہ ہاں ماہم قریشی بھلا تم کیوں پچھتاؤگی بھلا تم کیوں مجھے میرے خاندان کے بغیر اپناؤگی تمہیں اسٹیٹس چاہیے ہوگا پیسہ چاہیے ہوگا جو مجھ اکیلے کے پاس تو نہیں میرے خاندان والے مجھے جائیداد سے بے دخل کردیں گے یہ تم جانتی ہو اسی لیے میری محبت کی تذلیل کررہی ہو نہ تم مجھے دھتکار رہی ہو”وہ مزید جنونی ہوا تھا”میں یہ سب پیسے ویسے کے لیے نہیں کررہی میں ان لڑکیوں میں سے ہوں جو بھوکے پیٹ بھی زندگی گزار لیں گی مگر عزت کے بغیر نہیں ‘‘اس نے جتا کر کہا تھا۔
’’عزت؟my foot تمہاری عزت ہے کہاں؟سارا جہان تمہیں جن نظروں سے دیکھتا ہے وہ تم بھی جانتی ہو کس عزت کی دھائی کا ناٹک کررہی ہو”اس عزت کے لیے مجھے دھتکار رہی ہو جو تمہارے پاس ہے ہی نہیں”اس نے ماہم کہ منہ پر طمانچہ مارا تھا جس کی گونج ماہم نے اچھے سے محسوس کی تھی بہت اچھے سے محسوس کی تھی اس کو لگا کے وہ اب رو بھی نہ پائے گی اس پر سکتہ سا طاری ہوا تھا پر کیف پر اب بھی جنون سوار تھا اسے اب بھی بہت کچھ ماہم کو سنانا تھا اسے اسکی اوقات بتانی تھی”تم جیسی لڑکیاں خوامخواہ میں ہی اپنی کٹی ہوئی ناک بچانے کے لیے یہ ڈرامے کرتی ہیں تمہیں کیا لگتا ہے تمہارے اس عزت کے بھاشن پہ میں تم سے امپریس ہوجاؤں گا ہرگز نہیں تم یہ ڈھونگ میرے آگے مت رچاؤ مس ماہم میں نے ایک بدنام لڑکی سے ہی محبت کی ہے یہ میں جانتا ہوں پھر کیسی عزت اور کہاں کی عزت تم مجھے دکھا رہی ہو ‘‘اس پر جانے کیوں پاگل پن سا سوار ہوا تھا وہ اپنی باتوں سے اس کو نیم مردہ کرچکا تھا ۔ وہ اب کچھ اور بھی بولنا چاہتا تھا شاید کچھ اورتذلیل کرنا باقی تھا مگر ماہم میں مزید ہمت نا تھی۔
اس نے کال کٹ کردی تھی
(دراصل کیف کے ماہم کو ایسا کہنے کی وجہ 4 سال پہلے کا ایک واقعہ ہے جو ماہم کے ساتھ پیش آیا)
*********************
چار سال پہلے جب ماہم تیرہ سال کی تھی تب سب کچھ ٹھیک تھا․․․․سب کچھ نارمل تھا۔ خالدہ اور فریدہ میں بہت پیار تھا ․․․․دونوں گھروں میں بہت آنا جانا تھا․․․مگر کیف اور ماہم اپنی ریزرو نیچر کی وجہ سے ایک دوسرے کے گھر نہیں آتے تھے بس بڑے ہی مل لیتے تھے ۔شہباز اور عادل کی دوستی بھی بہت گہری تھی ․․․․یہاں تک کہ دونوں ایک ساتھ بہت بڑے پیمانے پر بزنس شروع کررہے تھے جس پر کافی انویسٹمنٹ ہوچکی تھی ۔
عادل کی وجہ سے کاشف کی بھی شہباز سے بہت گہری دوستی ہوگئی تھی․․․․ وہ بھی اکثر شہباز کے گھر آیا کرتا تھا۔ عادل کی اپنی سالی فریدہ سے بہت بنتی تھی ․․․․․دونوں ایک دوسرے کو سگے بہن بھائیوں سے بھی بڑھ کر مانتے تھے اور ایک دوسرے کی بہت عزت کرتے تھے اور اسی وجہ سے فریدہ کاشف کی بھی بہت عزت کرتی تھی ۔کاشف بھی فریدہ کو باجی باجی کہتے نہ تھکتا تھا۔
ان سب کی اتنی زیادہ بن چکی تھی کہ چائے پینے بھی ایک دوسرے کے گھر بلا جھجھک چلے جاتے تھے․․․․․․ ایسے جیسے کوئی فرق ہی نا تھا․․․․․یہاں تک کہ ندا جب بھی اپنی بہن فریدہ سے ملنے جاتی عادل اور کاشف کو سامنے پاتی اور جب بھی خالدہ کے گھر ملنے جاتی تو شہباز کو وہاں موجود پاتی ۔
ماہم کاشف کو انکل بلاتی تھی اور کاشف بھی ماہم سے بہت اچھا رویہ رکھتا تھا․․․جب بھی کاشف ان کے گھر شہباز سے ملنے آتا تو ماہم فوراً کاشف سے چائے کا پوچھتی․․․کاشف بھی ہمیشہ اسے بچوں کی طرح ہی ٹریٹ کرتا تھا․․․
اسے ان دنوں ننگے پاؤں چلنے کی بہت عادت تھی ․․․․․حالانکہ وہ اتنی بھی چھوٹی نہیں تھی مگر اس کی بگڑی ہوئی کچھ عادتوں میں سے ننگے پیر پھرنا سرِفہرست تھا․․․․․․․․جب وہ ننگے پاؤں گھر میں چل پھر رہی ہوتی تھی تو کاشف اسے فوراً ٹوکتا تھا کہ جاؤ جاكر جوتا پہنو․․․اور جیسا کہ بچیوں کو کبھی کبھی گھر میں روٹیاں بنانے کا شوق چڑھتا ہے․․․․․․ وہ بھی کبھی کبھی جلی کٹی ٹیرھی ، میڑھی روٹیاں بنارہی ہوتی تو اسے خوب نصیحتیں کرتا تھا۔
ماہم کو اپنے کاشف انکل سے بہت لگاؤ تھا وہ ہر وقت ان کے آگے پیچھے ہی پھرتی تھی ․․․جب بھی کاشف آتا وہ بڑوں میں گھس کر بیٹھ جاتی تھی اور سار ی باتیں سنتی تھی ۔
وہ جب بھی اسکول سے آتی تھی تو یونیفارم بدلے بغیر کھانا کھانے لگتی تھی اور اس وقت اگر کاشف بھی ان کے گھر ہو تو وہ اسے ٹوکتا تھا بالکل ویسے ہی جیسے کوئی بڑا سمجھاتا ہے ․․․․وہ بھی احتراماً کاشف کی ساری نصیحت سنتی اور پھر اس پر عمل بھی کرتی ۔
ایک دن اسی طرح ندا جب فریدہ کے گھرآئی تو سامنے عادل اور کاشف کو موجود پایا۔ ان دنوں کاشف کے لیے لڑکی بڑے ہی زور و شور سے ڈھونڈی جارہی تھی اور ان سب میں اسی سلسلے میں گفتگو جاری تھی ۔ندا کے آنے کے بعد فریدہ مہمان نوازی کی غرض سے کچن میں چلی گئی تھی اور تب ندا نے شہباز اور کاشف سے باتوں ہی باتوں میں کہا کہ ۔
’’ارے بھائی جان یہ تو وہی بات ہوئی بچہ بغل میں ڈھنڈورا شہر میں ․․․․․․کاشف کے لیے سارے جہان کی لڑکیاں دیکھ رہے ہو اپنی ماہم پر نظر نہیں پڑی ؟؟؟‘‘۔
’’کیسی باتیں کر رہی ہوندا․․․․ماہم بہت چھوٹی ہے کاشف سے ․․․․‘‘۔وہ حیران ہوئے تھے ندا کی اس بات پر ۔
’’کہیں آپ بھی ان لوگوں میں سے تو نہیں جو اپنے رشتے داروں میں شادی کرنا گناہ سمجھتے ہیں ․․․بس غیروں کے پیچھے ہی بھاگتے رہتے ہیں ‘‘۔ندا نے طنز کیا۔
’’میرے لیئے میرے رشتے دار سب سے پہلے ہیں ․․․․․میرا اپنا بیٹا کیف اگر ابھی کچھ بڑا ہوتا تو میں ماہم اس کے لیے لینے میں ذرا دیر نہ کرتا․․․․مگر کاشف سے ماہم کا کوئی جوڑ ہی نہیں ہے‘‘۔انہوں نے نرم لہجے میں اپنی صفائی دی ۔وہ ذاتی طور پر ماہم سے بہت لگاؤ رکھتے تھے ․․․اور اگر کاشف سے ماہم کی عمر کا فرق زیادہ نہ ہوتا تو وہ بہت پہلے ہی ماہم کا ہاتھ مانگ چکے ہوتے۔
’’ارے بھائی جان ․․․․یہ تو آپ کی خوش نصیبی ہوگی کہ کم عمر لڑکی مل جائے گی اور کیا چاہیے آپ کو؟؟؟ سب سے بڑی بات آپ دونوں گھرانے مزید قریب ہوجائیں گے ․․․ایک ہی گھر بن جائیں گے․․․․․اور خالدہ باجی بھی بڑی خوش ہوجائیں گی کہ ان کی اپنی سگی بھانجی ہی ان کی دیورانی بن گئی ہے ‘‘۔ ندا نے فائدے بتائے۔
کاشف خاموشی سے ندا اور عادل کی باتیں سن رہا تھا۔اس نے پہلے کبھی ماہم کو اس نظر سے نہیں دیکھا تھا ․․․․․مگر ا ب ضرور سوچنے لگا تھا اور اسے تو یہ رشتہ بڑا پسند بھی آیا ۔ اس عمر میں اسے اتنی کم عمر لڑکی مل جائے اسے اور کیا چاہیے تھا۔
’’کم عمر لڑکی اور بچی میں فرق ہوتا ہے ندا․․․․ماہم ابھی بچی ہے․․․․تیرہ سال بھی بھلا کوئی عمر ہے ؟؟؟․․کاشف اور شہباز کی عمر تقریباً ایک جتنی ہے ․․․․اس لحاظ سے اگر کاشف پہلے شادی کرلیتا تو آج اس کی ماہم جتنی بیٹی ہوتی ‘‘۔عادل نے کہا۔
’’مرد بھی کبھی بوڑھا ہوا ہے ؟؟؟آپ بھی نا کمال کرتے ہیں بھائی جان ‘‘۔ندا تو جیسے مناکر ہی چھوڑنے والی تھی ․․․
اس سے پہلے کے عادل مزید کوئی بات کرتے انہیں کسی کی کال آئی تھی اور وہ کال اٹینڈ کرنے کی خاطر لاؤنج سے نکلے تھے ۔
’’تم بتاؤ کاشف ؟؟ کیا حرج ہے اس میں ؟؟ ‘‘۔اب ندا نے کاشف کی رائے لینا چاہی ۔
’’حرج تو کوئی نہیں باجی ‘‘۔کاشف نے جواب دیا۔
’’تو بس پھر․․․․․․ جب تمہیں ہی کوئی اعتراض نہیں تو بات ختم․․․․میں فریدہ باجی سے بات کروں گی اور خالدہ باجی سے بھی ‘‘۔ندا نے ٹھان لی تھی ۔
’’کیافریدہ باجی مان جائیں گی ‘‘۔ کاشف کو تشویش ہوئی ۔
’’کیوں نہیں مانیں گی ؟؟؟تم میں کمی ہی کیا ہے ؟؟‘‘۔ وہ پر اعتماد تھی۔جانے اسے بیٹھا بٹھائے کیا سوجھا تھا۔
کاشف نے بھی سر ہلادیا․․․․ظاہر ہے اس کے حساب سے تو اس میں کوئی کمی نہیں تھی ․․․․۔
کاشف اور عادل کے جانے کے بعد ندا نے فریدہ سے بات کی ․․․فریدہ پہلے تو سن کرحیران پریشان ہوگئی تھی مگر پھر ندانے ایسی باتیں کیں کہ فریدہ بھی سوچنے پہ مجبور ہوگئیں ۔
’’باجی اب وہ دور نہیں ہے کہ لڑکیوں کو زیادہ دیر گھر میں بٹھاؤ․․․․ارے میں تو کہتی ہوں اس کے کالج جانے سے پہلے ہی اس کو اپنے گھر کا کردو․․․کالج جاتے ہی لڑکیوں کے پر نکل آتے ہیں ‘‘۔
’’ارے باجی میری نند کی بیٹی بھاگ گئی تھی گھر سے․․․بتایا تو تھا آپ کو․․․․‘‘۔
’’باجی اب وہ زمانے گئے کہ بیٹیاں گھر میں ہوں تو مائیں سکون سے سوئیں․․․اچھی بھلی شریف بچی ہے ہماری ماہم ․․․کیوں اسے خراب ہونے کا موقع دے رہی ہیں ۔‘‘وغیرہ،وغیرہ۔ اور جب فریدہ نے عمر کی بات کی تو بھی کافی جوابات ملے ۔
’’عمر سے کیا ہوتا ہے باجی ․․․․مرد بھی کبھی بوڑھا ہوا ہے ؟؟ ویسے بھی باجی زیادہ عمر والے تو زیادہ اچھے رہتے ہیں ․․․ساری زندگی بیویوں کے لاڈ اٹھاتے نہیں تھکتے ‘‘۔
وہ مزید بولی ۔
’’باجی آج کے دور میں شریف لڑکا مل جائے وہ غنیمت جانو․․․․نہ لڑکا سگریٹ پیئے ،نہ شراب پیئے، نہ کوئی یاری دوستی ہے ۔سیدھا سادہ سا شریف لڑکا ہے ۔۔۔سب سے بڑی بات ماہم کسی غیر کے گھر نہیں جائے گی․․․․․․ ورنہ غیروں کے حال تو آپ نے دیکھے ہی ہیں میری جٹھانی کی بیٹی کو تیسرے دن ہی ذرا سی بات پر اگلوں نے طلاق دلواکر گھر بھیج دیا تھا۔اور میرے پڑوس میں جو عادلہ ہیں اسے تو روز ہی اس کے سسرال والے طعنے دیتے ہیں ․․․ہر چھوٹی بڑی بات پر اس بیچاری کو طعنہ دے دیا جاتا ہے ․․․وہی وہ اپنوں میں گئی ہوتی تو آج عیش کر رہی ہوتی ‘‘۔
’’زندگی کا بھروسہ تو ہے نہیں باجی ․․․․اپنے ہاتھ سے اپنی بیٹیوں کا فرض ادا کردیا جائے تو کیا ہی بات ہے ․․․سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ ان کو بگڑنے کا موقع ہی نہ دیا جائے ․․․ارے شریعت بھی تو یہی کہتی ہے کہ لڑکی کے جوان ہوتے ہی اس کی شادی کردو‘‘۔
’’خود سوچیں باجی ․․․․آپ اور شہباز بھائی تو بوڑھے ہو جائیں گے․․․ماہم کا کوئی بھائی بھی نہیں ہے جو ساری زندگی اس کا خیال رکھے․․․کل کلاں کو خدا نخواستہ شہباز بھائی کو کچھ ہوگیا تو ماہم کا تو کوئی سہارا ہی نہ ہوگا․․․․․آج ارسلان زندہ ہوتا تب تو آپ بے فکر ہوتے ہوئے اچھی بھی لگتیں ․․․․مگر اب تو آپ کو ایسی جگہ بیٹی دینی چاہیے جہاں آپ آنکھ بند کرکہ بھی یقین کرسکیں ‘‘۔
ندا کی سب باتیں اس کی کمزوری تھیں ۔ندا نے اسے نفسیاتی طور پر قائل کیا تھا․․․․اس کے ویک پوائنٹ پکڑے تھے ۔
ارسلان کی موت کے بعد سے ہی فریدہ بہت حساس ہوچکی تھی ․․․․اسے ہر حال میں اپنی بیٹی کا تحفظ چاہیے تھا ․․․․اسے لگتا تھا وہ بہت جلد مرجائے گی ․․․․وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کی بیٹیوں کی شادی کسی ایسی جگہ ہو جہاں وہ فریدہ کے مرنے کے بعد ذلیل ہوجائیں ۔اس لیے اس وقت اسے خالدہ کا گھر سب سے بہترین نظر آیا جو اس کے اپنے تھے ․․․․کاشف سے بھی اسے بہت اپنائیت اور امیدیں تھیں ۔
ان سب باتوں کے بعد فریدہ بہت حد تک قائل ہوچکی تھی مگر پھر بھی کہا۔
’’ٹھیک ہے میں سوچ کر بتاؤں گی ‘‘۔
’’سوچنا کیا ہے باجی ․․․․․میں آپ کی طرف سے ان کو ہاں کرنے جارہی ہوں بھئی ․․․․مجھے انہوں نے ہی بات چلانے کو کہا تھا‘‘۔ندا نے فاتحانہ مسکراہٹ سے کہا۔
’’میں ذرا ماہم کے بابا سے تو بات کرلوں ‘‘۔فریدہ کو شہباز یاد آئے ۔
’’مزاق کرتی ہیں باجی آپ بھی ․․․․شہباز بھائی بھلا کیوں اعتراض کریں گے․․․ان کے جگری دوست کے گھر ان کی بیٹی جائے گی․․․․ وہ توخوشی سے پھولے ہی نہ سمائیں گے ‘‘۔وہ پر اعتماد نظر آئی ۔
’’بات تو ٹھیک ہے تمہاری‘‘ ۔فریدہ بھی متفق ہوئی ۔
ندا کی باتوں سے فریدہ مکمل طور پر قائل ہوچکی تھی ۔ انہیں اب کاشف سے اچھا کوئی لڑکا دنیا میں نظر ہی نہیں آرہا تھا․․․اپنی زندگی کو لے کر وہ ویسے بھی وہم کا شکار رہتی تھیں ․․․․۔
ندانے فریدہ کے گھر سے نکلتے ہی خالدہ کے گھر کا رخ کیا تھا․․․․خالدہ تو یہ اچانک رشتے کی بات سن کر ہی حیران ہوگئی تھی ۔ان کے ساس سسر تو تھے نہیں ․․․کاشف کے لیے رشتہ دیکھنے ہر جگہ خالدہ ہی جاتی تھیں ۔
’’باجی لڑکی مل گئی ہے اور ایسی ملی ہے کہ آپ تو ابھی سے محلے میں مٹھائیاں بانٹ دیں گی ‘‘۔وہ اسی اعتماد سے بولی تھی ۔
’’کون لڑکی ندا؟؟‘‘۔ خالدہ نے پوچھا ۔
’’اپنی ماہم ‘‘۔ چہرے پہ مسکراہٹ سجائے ندا نے کہا۔
’’توبہ کرو ندا․․․․․․کیسی باتیں کر رہی ہو․․․ماہم تو تیرہ سال کی بچی ہے ابھی ‘‘۔خالدہ کے جیسے چھکے چھوٹے تھے ۔
’’باجی تمہاری اپنی بھانجی تمہاری دیورانی بن جائے گی تمہیں اورکیا چاہیے ؟؟؟کوئی غیر آگئی تو تمہیں بھی نچوائے گی اور کاشف کو بھی ․․․ماہم تو تمہاری سگی بھانجی ہے․․․․ وہ تو تمہاری عزت خدمت کرتے نہ تھکے گی ‘‘۔یہاں بھی لالچ دی گئی ۔
’’فریدہ اس رشتے کے لیے ہر گزنہیں مانے گی ‘‘۔خالدہ نے اپنا اندازہ بتایا۔
’’کمال کرتی ہو باجی ․․․․تمہارے گھر اپنی بیٹی دینے کے لیے نہیں مانے گی ؟؟ میں انکی ہاں لے کر آئی ہوں ․․․وہ اس رشتے سے خوش ہیں ․․․اب بس بات پکی کرنی ہے ․․․آپ سب تیاری باندھو اور رشتہ بلوانے کے لیے چلو‘‘۔اب وہ پرجوش ہوئی ۔
’’یہ سب کیا ہورہا ہے ندا․․․․مجھ تو کچھ سمجھ نہیں آرہا ‘‘۔وہ الجھیں ۔
’’دماغ پر زیادہ زور مت دیں باجی ․․․․بس اتنا سمجھ لیں کہ لڑکا بھی راضی ہے اور لڑکی والے بھی ․․․․آپ سب بس تیاریاں شروع کرو‘‘۔ندا کہہ کر چلتی بنی ۔
ندا کے جانے کے بعد خالدہ نے عادل سے بات کی تھی مگر عادل کو ابھی بھی اس رشتے پر اعتراض تھا مگر وہ یہ سوچ کر راضی ہوگئے تھے کہ لڑکی والے خود رشتہ دینا چاہتے ہیں تو انہیں انکار کرکے ان کی توہین نہیں کرنی چاہئے ۔…..
ندا نے کاشف کو بھی بتادیا تھا کہ فریدہ راضی ہے ․․․․کاشف مٹھائی اور کچھ فروٹ لے کر فریدہ کے گھر چلا آیا تھا․․․․فریدہ نے بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا تھا۔
ماہم جو کچھ دیر پہلے ہی اسکول سے آئی تھی ابھی بھی یونیفارم میں تھی اور اپنے انکل کاشف کو دیکھتے ہی فوراً اپنی صفائی دینے لگی ․․․․
’’انکل میں ابھی آئی ہوں اسکول سے ‘‘۔
کاشف انکل لفظ پر مسکرایا․․․․ماہم بھی اسے مسکراتا دیکھ مسکرادی ۔
’’تمہارے لیے مٹھائی لایاہوں ․․․یہ لو کھاؤ‘‘۔ کاشف نے اس کے آگے مٹھائی کا ڈبہ بڑھاتے ہوئے کہا جسے اس نے مسکراتے ہوئے لے لیا۔
’’اس میں تو صرف چم چم ہے ․․․مجھے چم چم پسند نہیں ہے ․․․میں نہیں کھاتی چم چم ‘‘۔ اس نے ڈبہ کھولنے کے بعد مایوسی سے اسے بند کرتے ہوئے کہا ۔
’’تو تمہیں کون سی مٹھائی پسند ہے ․․․․میں وہ لے آتا ہوں ‘ْ‘۔ اس اچانک مہربانی پر ماہم حیران ہوئی تھی ․․․آج سے پہلے کبھی کاشف اول تو کچھ لایا نہیں ․․․․اور اگر کبھی کچھ کھانے پینے کا موقع بنا بھی ہوگا تب بھی ایسی مہربانی تو کاشف نے کبھی نہیں کی تھی کہ اس کی پسند کو اہمیت دی ہو۔
’’بس رہنے دیں انکل میں یہی چکھ لیتی ہوں ‘‘۔ اس نے لحاظ کرتے ہوئے کہا تھا․․․گھر آئے مہمان سے فرمائش کرکے کچھ منگوانا اسے غیر مناسب لگا تھا۔
فریدہ جو یہ سب دیکھ کر مسکرا رہی تھیں اب ماہم کو جاکر یونیفارم بدلنے کا کہنے لگیں ۔ وہ بھی سر ہلا کر وہاں سے چلی گئی تھی ۔
’’اس تکلف کی کیا ضرورت تھی ‘‘۔ انہوں نے کاشف سے کہا۔
’’بس باجی میرا دل کیا کہ کچھ لیتا جاؤں ‘‘۔ اس نے مسکراکر جواب دیا․․․اس کے نزدیک وہ اپنے ہونے والے سسرال آیا تھا تو خالی ہاتھ بھلا کیسے آتا ۔
فریدہ بھی مسکرادی تھیں ۔ انہوں نے کاشف سے کچھ یہاں وہاں کی باتیں کی․․․پھر و ہ رشتہ کے موضوع پر آئیں ۔
’’ماہم کو ابھی کچھ نہیں پتہ․․․․میں نے تو شہباز سے بھی اب تک بات نہیں کی ․․․․تم نے اچھا کیا تم آگئے مجھے پہلے تم سے بات کرنے کا موقع مل گیا․․․میرا بھی دل چاہ رہا تھا ذرا تم سے حال احوال کرکے تسلی کرلوں ‘‘۔
’’ضرور باجی آپ ہر طرح کی تسلی کرلیں ․․․․میں تو آپ کے سامنے ہی ہوں ․․․․آپ مجھے ویسے بھی بڑے اچھے سے جانتی ہیں ‘‘۔کاشف نے شائستگی سے جواب دیا۔
’’فریدہ نے مسکراتے ہوئے سر ہلایا ۔
’’یقین کریں باجی پہلے میں نے کبھی ماہم کو اس نظر سے نہیں دیکھا مگر اب جب بات چل ہی گئی ہے تو مجھے ماہم سے بہتر لڑکی کوئی لگتی ہی نہیں ․․․معصوم سی بھولی بھالی سی ہے ․․․آپ نے اتنی اچھی تربیت بھی کی ہے․․․ ․․․میرے لیے اب اس گھر سے بڑھ کر کوئی بھی نہیں ‘‘۔اس نے مزید کہا۔
’’یہ تو سچ کہا تم نے کاشف ․․․․سوچا تو میں نے بھی پہلے کبھی ایسا نہیں تھا مگر جب سے ندا کی باتیں سنی ہیں مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ مجھے بھی اپنی ماہم کے لیے تم سے اچھا لڑکا کوئی مل ہی نہیں سکتا․․․سب سے بڑی بات تم اپنے ہو․․․․میری بیٹی میری بہن کے گھر جائے گی ․․‘‘آخری جملے کے بعد وہ کچھ جذباتی ہوئیں ۔
’’بالکل باجی ․․․․اور میں تو اپنا سب کچھ ماہم کے نام کردوں گا․․․․ساری جائیداد یہاں تک کہ گھر میں اپنا حصہ بھی میں ماہم کے نام کردوں گا ․․․․آپ جیسی ساس جہاں ملے اور شہباز بھائی جیسے سسر جہاں ہوں وہاں تو انسان اپنی جان بھی پیاری نہ کرے․․․․․ مگر آپ ماہم سے بھی پوچھ لیتیں ایک بار‘‘۔اس کو ماہم سے کچھ ڈر سا تھا کہ جانے وہ ہاں کرے گی یا ناں۔
’’وہ تو میں پوچھوں گی مگر میری بیٹی میری فرمانبردار ہے ․․․․جہاں میں چاہوں گی آنکھ بند کر کہ وہاں ہی شادی کر لے گی ‘‘۔ان کے لہجے میں اعتماد تھا․․․اپنی بیٹی پر اندھا اعتبار تھا۔
’’پھر بھی باجی․․․․لڑکیوں کی اپنی بھی کوئی خواہشات ہوتی ہیں ․․․کوئی سوچ ہوتی ہے ‘‘۔اس نے مزید کہا۔
’’میری بیٹی بڑی نیک شریف ہے ․․․․اس نے تو آج تک اس طرح کا کچھ سوچا ہی نہیں ․․․․تم بے فکر ہوجاؤ․․․․جہاں میں خوش،وہاں میری بیٹی بھی خوش‘‘۔انہوں نے مسکراکر کہا۔
’’پھر تو میں بھی خوش ہوجاؤں ‘‘۔ اس کو جیسے تسلی سی ہوگئی تھی ۔
فریدہ اس بات پر بھی مسکرادی تھیں ․․․کافی دیر تک وہ دونوں اسی رشتے کے موضوع کو لے کر باتیں کرتے رہے تھے ․․․ماہم کبھی آ بھی جاتی تو اسے کسی نہ کیسی بہانے سے بھیج دیا جاتا تھا۔
فریدہ اس رشتے سے راضی تو پہلے بھی تھیں مگر کاشف کی تسلی بخش باتوں نے انہیں مزید متاثر کیا تھا۔ ان کے لیے تو ساری دنیا جیسے ختم ہی ہوگئی تھی ․․․․ اتنا شریف لڑکا اور اتنا اچھا سسرال بھلا کہاں ملتا ان کی بیٹی کو۔
۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰۰
’’ماہم اپنے اسکول کا ہوم ورک کر رہی تھی جب فریدہ اس کے پاس آکر بیٹھی تھی
’’اچھی بیٹیاں اپنے ماں باپ کی عزت کا ہمیشہ خیال رکھتی ہیں ․․․‘‘۔ وہ نہایت ہی پیار سے بولی تھیں ۔
ماہم ان کی بات پر مسکراکر پھر سے اپنا ہوم ورک کرنے میں لگ گئی تھی ۔
’’تمہیں کاشف کیسا لگتا ہے ماہم ‘‘۔ انہوں نے پوچھا۔
’’بہت اچھے ․․․وہ میرے سب سے فیورٹ انکل ہیں ‘‘۔ اس نے چہک کر جواب دیا ۔
’’تمہاری شادی ان سے کردیں تو ‘‘۔ انہوں نے ڈاریکٹ ہی سوال کیا ۔
وہ چونک کر اپنا ہوم ورک چھوڑے ان کو دیکھنے لگی ۔
’’کاشف بہت اچھا لڑکا ہے ․․․تمہارا بہت خیال رکھے گا‘‘۔وہ بولیں ۔
’’وہ میرے انکل ہے مما․․․․آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتی ہیں‘‘۔اس نے زور دے کر کہا․․․․
’’شادی سے پہلے سب انکل یا بھائی ہی ہوتے ہیں ․․․اب شادی سے پہلے ہی تھوڑی نا لڑکیاں غیر مردوں کو اس نظر سے دیکھنے لگ جاتی ہیں ․․․․‘‘ وہ بولیں ۔
ماہم پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی ․․․․ایک پل کہ لیے اسے یہ شک گزرا کہ شاید فریدہ اس کی سگی ماں نہیں ہے سوتیلی ہے ․․یا پھر ․بچپن میں کیا جانے والا مزاق کہ وہ اسے کچڑے کے ڈبے سے اٹھا لائی تھیں وہ مزاق نہیں حقیقت ہے۔
’’اچھی بیٹیاں وہی ہوتی ہیں جو اپنے ماں باپ کے فیصلوں کا احترام کریں ․․․‘‘۔ وہ اب اس کے سر پر پیار سے اپنا ہاتھ پھیر رہی تھیں ۔
’’مجھے نہیں کرنی ان سے شادی ‘‘۔اس نے دوٹوک کہا اور فریدہ کا پارہ چڑھا۔
’’اس سے نہیں کرنی تو کس سے کرنی ہے بتاؤ مجھے ‘‘۔لہجے کی سختی سے ماہم کے ہوش اڑے۔
’’پتہ نہیں ․․․․مگر ان سے تو بالکل نہیں کرنی ‘‘۔وہ منمنائی ۔
’’وجہ ؟؟ کیوں نہیں کرنی ؟؟ آخرکیا اعتراض ہے تمہیں ماہم ‘‘۔لہجہ سرد تھا۔
’’وہ میرے انکل ہیں‘‘۔اس نے جتایا۔
’’یہ بہانے وہانے مت بناؤ لڑکی ․․․کوئی پسند کیئے بیٹھی ہو تو بتاؤ مجھے ․․․․میں اس سے تمہاری شادی کروادوں ․․․بے غیرت ‘‘۔ان کا پارہ چڑھ چکا تھا․․․․اور وہ اپنے لفظوں سے اسے گھائل کرنے لگیں ۔
’’مما‘‘۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ․․․․اتنی کم عمری میں اس پر اتنا بڑا الزام لگانے والی کوئی اور نہیں اس کی اپنی سگی ماں تھی ۔
’’میں کسی کو پسند نہیں کرتی ‘‘۔آواز بھرائی ۔
’’نہیں کرتی تو ہماری پسند پر اعتراض کیا ہے ․․․․ہم نے تو آج تک کبھی اپنے بڑوں کے فیصلوں میں مداخلت نہیں کی تھی ․․․جہاں ہاں کرتے تھے یا ناں کرتے تھے ہمیں تو کوئی اعتراض نہیں ہوا تھا ․․․․صحیح کہہ رہی تھی ندا بیٹیوں کو گھر پر بٹھا کر انہیں بگاڑنا نہیں چاہیے ‘‘۔لفظوں کا ایک اور تیر چلا تھا۔اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ اس کی اپنی ماں کے الفاظ ہیں ۔
’’میں نے کیا کیا ہے مما ‘‘۔وہ اب پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔
’’دیکھ لڑکی ․․․ماں کی پسند انہیں ہی نا پسند ہوتی ہے جن کی نظر میں پہلے سے ہی کوئی ہو․․․․ورنہ کوئی بھی شریف لڑکی اپنی ماں کی پسند پر اعتراض نہیں کرتی ․․․‘‘وہ ماہم سے لڑکی بن گئی تھی صرف ایک انکار کرنے پر ۔
’’آپ کو میرے لیے انکل پسند آئے ہیں مما․․․مجھے نہیں پسند وہ ‘‘۔اس نے بھی اب اپنا لہجہ سرد کیا ۔
’’تمہیں کون سا شہزادہ غلفام پسند ہے ․؟؟․․․‘‘۔ایک اور تیر چلا۔
’’مجھے کوئی پسند نہیں ‘‘۔آنکھیں رگڑ کر دو ٹوک کہا۔
’’ہو ہی نہیں سکتا․․․مجھے بتاؤ وہ ہے کون جس کی خاطر تم میری اتنی نافرمانی کر رہی ہو․․․‘‘؟ وہ اس پر جرم ثابت کرنے پہ تلی تھیں ۔
’’کوئی نہیں ہے مما․․․․کہا نا کوئی نہیں ہے ․․․کتنی بار کہوں کوئی نہیں ہے ․․․کوئی نہیں ہے ․․․کوئی نہیں ہے‘‘۔وہ جنونی ہوئی ۔
’’جو لڑکیاں اپنی مرضیاں کرتی ہیں نا خدا انہیں برباد کرتا ہے ․․․․کہیں کا نہیں چھوڑتا ․․․نہ ان کی دنیا اچھی ہوتی ہے نا آخرت ‘‘۔انہوں نے دھمکی دی ۔
وہ سسکنے لگی ․․․․
’’جو اپنے ماں باپ کا دل دکھاتی ہیں ان کو موت بھی گندی آتی ہے ․․․․تمہیں بھی گندی موت ہی آئے گی ماہم ․․․․یاد رکھنا تم ․․․تم نے ناک کٹوا کے رکھ دی ہے میری ․․․․کیا جواب دوں گی اب میں کاشف کو کہ میری لڑکی ہی میرے کنٹرول سے باہر ہے ․․خاک میں ملادی تم نے میری عزت․․․․کیا کہوں گی میں ندا سے ۔خالدہ سے اور عادل بھائی سے کہ میری بیٹی ایسی بد بخت ہے جومنہ چڑھ کر مجھے جواب دیتی ہے ․․․ارے بد بخت وہ بھی مجھ سے ہی پوچھیں گے کہ جب لڑکی کسی اور کے چکر میں تھی تو ہمیں ہاں ہی کیوں کی‘‘۔ وہ بس اسے ملسل کوسے جارہی تھیں اور وہ سسکیاں بھر رہی تھی ۔
’’خدا ایسی بیٹی کسی کو نہ دے جو یوں اپنی ماں کی ناک کٹوادے․․․․جو یوں سب کے سامنے شرمندہ کروادے․․․․میری نہیں تو اپنے باپ کی عزت کا ہی خیال کرلیا ہوتا نامراد․․․․کیا عزت رہے گی تیرے باپ کی سب کے سامنے ‘‘۔ وہ اسے شرمندہ کرنے لگیں۔
ماہم بس اشک بہانے میں مصروف رہی ۔
وہ اسے کوستے ،بددعائیں دیتے کمرے سے نکل گئیں مگر ان کے منہ سے نکلی ہوئی باپ کی عزت کی بات نے ماہم کو مزید توڑ دیا تھا․․․․اس کے بابا اس کی کمزوری تھے ماں کے جانے کے بعد وہ چیخ چیخ کر رونے لگی تھی ․․․․یہ کیسی آزمائش تھی جو اس پہ اچانک آپڑی تھی……