البرٹ آئنسٹائن نے کہا تھا کہ ’تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ بہت ساری حقیقتیں جان لی جائیں۔ تعلیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دماغ کی اس طرح تربیت ہو جائے کہ جو کچھ کتابوں میں نہیں ہے وہ بھی سمجھ میں آ سکے۔‘یقین کے ساتھ کہوں تو مجھے ہمیشہ کسی تخلیق کو سمجھنے کے لیے کسی نہ کسی تنقیدی تحریر کا مطالعہ ناگزیر سا محسوس ہوا۔ ایسا نہیں کہ ان تخلیقات میں پروئے گئے معانی کے سرے میری دسترس سے بالکل باہر تھے۔ تاہم اپنی فہم پر اس قدر اعتبار نہیں ہو پاتا اور یہی سبب ہے کہ دوسری تحریریں میرے مطالعے کا حصہ بنتی ہیں تاکہ میں اپنے افہام و تفہیم کے اس عمل کو پورے اعتماد کے ساتھ برت سکوں۔ ادب انسانی زندگی کا اہم ترین شعبہ ہے اور اس سے میری دلچسپیاں اپنی نوعیت کی ہیں۔ کہانیاں میرے روز و شب کا حصہ ہیں اور ان کی قرأت کا میرا اپنا ڈھنگ ہے۔ افسانے مجھے عزیز ہیں اور ان پر بحث و مباحثہ میرے تفہیمی عمل کا ایک سرا ہے۔بیانیہ حیات کے برابر ہے اور اخبار کی رپورٹ، تاریخی کتابیں، ناول، افسانہ، فلم، رقص، گپ شپ ان چند ایک بیانیوں میں سے ہیں جو ہماری زندگی میں بہت زیادہ دخیل ہیں۔اس لیے ان جیسے سوالات سے دو چار ہوئے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ بیانیہ کیا ہے ؟ افسانوی بیانیہ کیا ہے ؟دیگر بیانیوں سے یہ کس طرح مختلف ہے ؟ کوئی متن افسانوی بیانیہ کیسے بنتا ہے ؟ یا کون سے عوامل ہیں جو اس کے افسانوی بیانیہ ہونے سے مانع ہوتے ہیں ؟ افسانے میں بیان کنندہ کی صورتیں، نوعیتیں، راوی کے اقسام، تصور حقیقت، زمان و مکان کا تصور اور افسانے کے افراد یعنی کرداروں کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کتاب میں ان چند سوالوں کے علاوہ افسانوی بیانیہ سے وابستہ کئی پہلوؤں کو موضوع بحث بنایا گیا ہے۔ یہ واضح کر دوں کہ میں اس بات کا بالکل بھی اہل نہیں کہ فنون کے اصول و مبادیات اور اس کی شعریات تشکیل کر سکوں، یہ کام مشرق و مغرب کے دانشوروں نے بہت پہلے ہی کر دیا ہے، تاہم یہ ایسے مباحث ہیں جو ہمیشہ ہی بحث طلب رہے ہیں کیونکہ علم و تحقیق میں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی۔میرا خیال ہے کہ زندگی اور اس سے جڑی دیگر چیزوں، جن میں فنون لطیفہ بھی شامل ہیں، کا صحیح علم ہمیں سوال کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی نے افسانے کے حوالے سے چند ایک سوالات قائم کیے اور دور حاضر کی اس مقبول صنف پر کسی قدر سنجیدہ گفتگو کی۔ ان کی کتاب ’افسانے کی حمایت میں ‘نے افسانوں کے مطالعے کو ایک نئی سمت اور ایک جدید پیٹرن عطا کیا۔ اس کی مخالفت و موافقت میں طویل بحثیں ہوئیں، بعض لوگوں نے اس کی اقتدا بھی کی اور اس کے طفیل افسانوی تنقید کا شعبہ کسی قدر با ثروت بھی ہوا۔میری یہ کتاب ’افسانے کی حمایت میں ‘ میں مذکور ان نظری مباحث پر مکالمہ قائم کرنے کی ایک کوشش ہے جن کا تعلق افسانے کی شعریات سے ہے۔
افسانے سے دلچسپی اور افسانوی تنقید سے لگاؤ نے ذاتی مطالعے کے لیے ہمیشہ ہی افسانہ تنقید کو ترجیح دی ہے۔ شکر گزار ہوں پروفیسر معین الدین جینابڑے کا جنھوں نے شمس الرحمن فاروقی کی ایک متنازعہ تاہم اہم کتاب ’افسانے کی حمایت میں ‘ کے مطالعے کا مشورہ دیا۔ دوران مطالعہ ذہن میں کئی سوالات اٹھے۔ کچھ کے جواب سمجھ میں آئے اور کچھ نے ذہن کو الجھا کر رکھ دیا۔ استاد محترم کی محبتوں اور نوازشوں کا ممنون ہوں کہ انھوں نے میری دلچسپی کو دھیان میں رکھتے ہوئے نہ صرف یہ کہ ایک بنیادی کتاب کے مطالعے کی جانب میری رہنمائی فرمائی بلکہ دوران مطالعہ جب جب ضرورت محسوس ہوئی، بات چیت، سوال و جواب اور بحث و مباحثے کے ذریعے میری الجھنوں کو دور کرنے میں دلچسپی لی۔اپنے تحقیقی کام کے چند نکات پر میں نے استاد محترم کی زیر نگرانی ازسر نو کام کیا اور تقریباً ڈیڑھ برس کی محنت کے بعد یکسر تبدیلیوں کے ساتھ یہ صورت سامنے آ سکی ہے۔ استاد محترم کی اس عنایت کا بھی قرض دار ہوں کہ انھوں نے میری اس کتاب کے مسودے پر ایک نظر ڈالنے کی زحمت گوارہ کی اور اس دوران کئی اہم نکات کی جانب اشارہ کیا۔اس کتاب میں جو بھی کام کی باتیں ہو سکی ہیں، میں انھیں اپنے استاد کی دلچسپیوں کا نتیجہ سمجھتا ہوں۔
اس موقع پر اپنے ان اساتذہ کا شکر گزار ہوں جن کی تربیت سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اپنے دوستوں کا ممنون ہوں جن کی صحبتیں ہمیشہ میری زندگی کی معنویت میں اضافہ کرتی ہیں۔ اپنے ہم سبق دوستوں میں شبنم افروز، فاروق اور اظہار کا تہہ دل سے ممنون ہوں جن کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے میں نے بارہا اس موضوع پر اپنی الجھنیں بیان کیں اور ان لوگوں سے بات ہی بات میں بہت کچھ حاصل کیا۔ ڈاکٹر عبد الرافع اور برادرم تفسیرکا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جنھوں نے مسودے کا پروف پڑھنے کی مشکلیں برداشت کیں۔ ندیم اور مجیب تمہارا بھی شکریہ کہ تمہاری موجودگی میری قوت ہے۔علم دوست اور کھرے ناقد حقانی القاسمی کا ممنون ہوں کہ انھوں نے گاہے بگاہے میری حوصلہ افزائی فرمائی اور موضوع پر مواد کی فراہمی میں بھی تعاون کیا۔ والدین کا شکریہ کن لفظوں میں ادا کیا جائے، بس اللہ رب العالمین سے دعا گو ہوں کہ ان کا سایہ تا دیر ہمارے سر پر قائم رہے اور اللہ انھیں اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ بڑے بھائی صلاح الدین سلفیؔ کا ممنون ہوں جنھوں نے ہمیشہ مجھے لکھنے پڑھنے کی ترغیب دی اور کئی اہم ذمہ داریوں سے آزاد رکھا۔ خالق کل کی حمد و ثنا ضروری ہے کہ وہی باقی رہنے والی ذات ہے۔
اس بات کا معترف ہوں کہ اس کتاب میں جو بھی غلطیاں یا کمیاں ہیں، وہ میری کم فہمی، کم علمی یا میری کاہلی کا نتیجہ ہیں، جن کی نشاندہی بسروچشم قبول ہے۔؎
صلائے عام ہے یاران نکتہ داں کے لیے
رضی شہاب
نئی دہلی
مورخہ۳۰؍ اپریل۲۰۱۶ء