رات کے دو بجے کا وقت تھا ۔پورے ہسپتال کا کوریڈور سنسان تھا ۔صرف ایمرجنسی کے دروازے کھلے تھے ۔باقی وارڈز میں تمام مریضوں کو رات کی دوائی دی جا چکا تھی ۔
پرائیویٹ کمرے کی آئی سی یو میں لیٹے ہاشم کی حالت اب تشویش ناک نہیں تھی ۔ڈاکٹرز کے مطابق کم عمری میں بلڈ لگنے کی وجہ سے ہاشم کو ری ایکش ہوسکتے تھے ۔جس میں متلی بخار ہاضمے کا خراب ہونا شامل تھا ۔کل صبح اس کو ڈیسجارج مل جانا تھا آج کی رات وہاں آخری تھی ۔۔سب لوگ وقفے وقفے سے کبھی ہسپتال کے چکر کاٹتے تو کبھی فون کالز پر ہاشم کی طبیعت دریافت کرتے رہتے ۔۔یہ سلسلہ پرسوں سے ہی جاری تھا ۔
روفہ کمرے میں منسلک باتھ روم سے وضو کر کے باہر نکلی ۔۔اس کا ارادہ شکرانے پڑھنے کا تھا ۔دروازے کی اوٹ میں کھڑی گیلے بازو کی آستین نیچی کرتے اس کی نظر سامنے صوفے پر لیٹے فودیل پر پڑی ۔۔ایک پل کو وہ ٹھٹکی پھر تزبزم میں کچھ دیر اپنی جگہ پر ہی جمی رہی ۔
فودیل اس کی چادر سر سے لے کر پیر تک اوڑھے صوفے پر لیٹا تھا ۔یہ عمل غالبا اے سی کی خنکی سے بچنے کے لیے کیا گیا تھا ۔وہ سو رہا تھا یا جاگ رہا تھا یہ تو روفہ جان نا سکی البتہ چادر کی طلب میں سوچ میں پڑھ گئی ۔
ایک پل کو تو اس کا دل کیا فودیل کو آواز دے کر اپنی چادر مانگ لے مگر اس کی تھکن کے خیال سے گہرا سانس بھرا ۔۔وہ آج سارا دن ہاشم کے ٹیسٹ چیک آپ ریپورٹس کے چکروں میں بھاگم دوڑ کرتا رہا تھا ۔۔روفہ کا دل ہی نا کیا کہ وہ اس کو نیند سے جگائے ۔۔
ہاشم کے بے بی بیگ میں رکھا اپنا ڈوپٹا نکال کر اوڑھا اس دوران نظریں فودیل کے اردگرد ہی گھومتی رہیں تھیں ۔پھر سر جھٹک کر جائے نماز بچھا کر نماز کی نیت باندھ لی ۔
فودیل کی آنکھ ہاشم کے رونے کی آواز سے کھلی تھی ۔روفہ کی چادر کے اوٹ تلے نیند نے ایسا غلبہ پایا تھا کہ وہ لمحوں میں ہوش سے بے گانہ ہو گیا ۔۔
چادر کی نرمی اور اس میں سے آتی سرور بخشتی مہک نے جیسے تھپکی کا کام کیا تھا ۔چادر کا نرم گرم حصار اپنے اوپر چہرے اور بدن پر محسوس ہوتے ہی طمانیت کا احساس جاگا ۔
وہ سکون چادر کے حصار کا نہیں تھا در حقیقت اس چادر میں بسے روفہ کے لمس کا تھا ۔جس کو اوڑھتے ہی اردگرد کا ہوش نا رہا تھا ۔
محبوب ظالم ہو یا مہربان دل بے قرار کو راحت اس کی پناہ میں ہی ملتی ہے ۔محبوب اپنی بےگانگی سے مارتا ہے اور محب اس بے نیازی میں بھی ایک لمحہ بھر کی آغوش کا طلبگار بنا پھرتا ہے ۔
روفہ نا سہی فل وقت اس کی چادر میں پوشیدہ لمس ہی فودیل زکی کو بہت سے بھی زیادہ محسوس ہو رہا تھا ۔
ہاشم کی آواز کو سنتے ہی دماغ یک دم غنودگی سے حقیقت کی کیفیت میں لوٹا تھا ۔پاس جائے نماز پر بیٹھی روفہ ہاشم کو روتے سن کر سلام پھیر رہی تھی ۔فودیل نے اس کے اٹھنے کا انتظار کیے بغیر ہی ہاشم کو اٹھا لیا ۔
تب تک روفہ بھی بیڈ کے قریب ہی پہنچ چکی تھی ۔۔
” لائیں مجھے پکڑا دیں ۔اسے بھوک لگی ہو گی ۔”
مدھم آواز میں کہا ساتھ ہی فودیل کی جانب ہاتھ بڑھا دیا ۔
” میں بھی پلا سکتا ہوں فیڈر تم اپنی نماز پوری کرلو۔۔اس کی فکر مت کرو ۔”
فودیل نے نرمی سے کہا ۔روفہ بغیر کوئی جواب دیئے دوبارہ جائے نماز پر جا کھڑی ہوئی ۔اس کی بے نیازی ایک بار پھر فودیل کو چبھی تھی ۔تین ہفتوں میں اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا وہ جان کر ایسا نہیں کرتی یہ عادتا تھا یا پھر فطرتا ۔۔جو بھی تھا فودیل کو یہ بے گانگی بھی خندہ پیشانی سے قبول کرنی تھی ۔جو کہ مشکل نہیں تھا تو آسان بھی ہر گز نا تھا ۔۔
اس کے نماز پڑھنے تک فودیل ہاشم کو فیڈر دے کر دوبارہ سلا چکا تھا ۔گھڑی اب تین کا ہندسہ پار چکی تھی ۔فودیل صوفے پر بیٹھ کر ہاتھ کی مٹھی تھوڑی تلے رکھے اس کی لبوں کی حرکت کو دیکھنے میں محو تھا ۔جو وہ دعا مانگنے کے دوران ہولے ہولے ہلا رہی تھی ۔
جائے نماز کو طے کرکے وہ جیسے ہی مڑی فودیل نے صوفے پر بیٹھے ہی اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا ۔ روفہ نے کچھ دیر کے توقف کے بعد اپنا ہاتھ اس کی بڑھی ہوئی ہتھیلی پر رکھ دیا ۔
” گیا مانگا اپنی دعا میں تم نے ؟ ۔۔”
اس کا ہاتھ تھام کر اپنے قریب صوفے پر بیٹھا کر سوال کیا ۔پھر نرمی سے اس کے ہاتھ کی پشت کو چوم کر سہلانے لگا۔۔اس عمل پر روفہ نے کوئی درعمل نا دیا ۔
وہ جانے کیا پوچھنے کا خواہش مند تھا ۔روفہ نے اس کے تاثرات سے اندازہ لگانا چاہا ۔۔
” بہت کچھ مانگا ۔۔”
جواب بظاہر سادہ تھا پر اس پیچیدہ سادگی پر وہ ہنس کر اس کی نبض چومنے لگا ۔۔سیدھا جواب دینا روفہ کے بس میں ہی نہیں تھا ۔۔
” میرے لیے کچھ مانگا ؟؟ ”
اس کے لہجے میں امید تھی یا حسرت روفہ کو اندازہ لگانا مشکل ہوا ۔جو بھی تھا اس کی بے چینی روفہ کی نظروں سے پوشیدہ نہیں تھی ۔۔
” ہاں ۔۔ہر روز مانگتی ہوں ”
اس جواب کی توقع کم از کم فویل زکی کو بالکل بھی نا تھی ۔وہ بےقصد اس کے چہرے کو دیکھتا رہ گیا ۔جبکہ وہ لاپرواہی سے بول کر اب اس کے موڑے ہوئے کالر کو سیدھا کر رہی تھی ۔۔
” اپنا لئیے کیا مانگا ۔۔۔؟؟؟ ”
اس نے بات بدلنا چاہی ۔پہلے کے جواب پر اس کے پاس الفاظ نہیں بن پڑے تھے ۔۔اس نے قصدا ہاشم کے بارے میں نہیں پوچھا اتنا تو وہ جانتا تھا سب سے پہلے وہ ہاشم کے لیے ہی ہاتھ اٹھاتی ہو گی ۔۔
” کچھ بھی نہیں ۔۔”
وہ آرام سے کندھے اچکا کر بولی ۔۔جبکہ وہ متحیر سا اس کے انداز دیکھنے لگا ۔۔
” کیا مطلب کچھ بھی نہیں مانگا ۔۔کیوں ؟؟ یہ کیا بات ہوئی بھلا ۔”
وہ بے حد حیران ہوا تھا ۔روفہ اس کے سوال پر عجیب انداز میں مسکرا دی ۔۔اس وقت فودیل کو تو یہ مسکراہٹ عجیب ہی لگی تھی ۔۔اس دوران اس نے ایک پل کو بھی روفہ کے ہاتھ کو سہلانا نہیں چھوڑا تھا ۔
” میں نے کبھی اپنے لیے کچھ نہیں مانگا ۔کبھی ضروت ہی نہیں پڑی ۔۔اسے میرا تجربہ کہہ لو یا فارمولا ہر گھڑی ہر حال میں فقط ” الحمداللہ ” کہہ دینے سے رب وہ بھی دیتا ہے جس کا گمان بھی خیالوں سے نا گزرا ہو زبان سے مانگنا تو بہت پیچھے چھوٹ جاتا ہے ۔۔دوسروں کا پتا نہیں میرے ساتھ تو یہ ہی ہوتا آیا ہے ۔”
وہ اگر جادو گرنی تھی تو اس کے منتر کا اثر فودیل پر ہوا تھا ۔اگر ساحرہ تھی تو وہ سحر زدہ بھی ہوا تھا ۔کئی لمحے خاموشی کے نظر ہو گئے ۔وہ کچھ بول نا سکا ۔دونوں ہی ایک دوسرے کی آنکھوں میں نظریں گاڑھا ایک دوسرے کے بے حد قریب بیٹھے تھے ۔
فودیل نے آہستہ سے اس کے کندھے کے گرد اپنے بازو پھیلا کر نرمی سے گلے لگا لیا ۔اس سے زیادہ اس کی سمجھ میں نا آیا تھا ۔اس کے بالوں پر بوسا دے کر وہ یوں ہی بیٹھا رہا ۔
روفہ حیران ہوئی تھی ۔پر اس نے مزاحمت نا کی ۔اس کے قریب آنے پر وہ کبھی مزاحمت نہیں کرتی تھی ۔۔اور کیوں نہیں کرتی تھی ۔اس سوال کا جواب روفہ نے بھی کبھی تلاش کرنے کی کوشش نہیں کی ۔
” تم سہی کہتی ہو ۔” الحمداللہ ” کہ تم میری بیوی اور بچے کی ماں ہوں ۔”
روفہ نے فودیل کی مدھم آواز سنی ۔۔اس کے سینے پر سر رکھے وہ ساکت ہوئی تھی ۔یہ اظہار تھا تو لاجواب تھا ۔تشکر تھا وہ تو سرشار ہوئی تھی ۔
” آپ میرے شوہر نہیں ہوتے تو کوئی اور ہوتا ۔۔وہ کوئی بھی ہوتا یہ الفاظ کبھی نا کہتا ۔۔شکریہ نہیں کہوں گی کیونکہ پزیررائی ہر بیوی کا حق ہوتی ہے ۔”
وہ بے اختیار ہنس دیا ۔۔وہ شکریہ نا بھی کہتی تب بھی وہ اس کو کبھی اپنا مشکور بنانے کا خواہش مند نہیں تھا ۔۔
” ہو سکتا ہے زندگی کے کسی پہر میں آکر تم مجھے “شکریہ” کہہ ہی دو ۔۔”
وہ اس کو تنگ کرنے کے لیے مذاق کرنے لگا تھا ۔روفہ نے اپنی آنکھیں گھمائیں ۔۔اس کا یہ عمل فودیل کو بے حد پسند تھا ۔
” ایسا تو کبھی نہیں ہو ہوسکتا ۔جس دن میں نے کہہ دیا وہ دن آپ کے لیے موجزے سے کم نہیں ہوگا ۔اور عام لوگوں کی زندگی میں موجزات ہوا نہیں کرتے ۔”
وہ چیلنج کرتے ہوئے بولی ۔۔لفظ ” عام ” خاص طور پر اسے کہا گیا تھا جس پر وہ حیران ہونے کی بجائے محظوظ ہوا ۔۔
” چلو “خاص” لوگوں کی زندگی میں تو ہوتے ہیں نا ۔۔مجھے اس دن کا نتظار رہے گا ۔آخر کو موجزات اسی دنیا میں وقوع پزیر ہوتے ہیں ۔”
وہ بھی اس کے انداز میں کندھے اچکا کر بولا ۔۔روفہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے ہنسنے لگی ۔۔فودیل کے خود کو ” خاص ” کہنے پر وہ بس مسکرا ہی سکتی تھی ۔۔
فودیل نے اپنے حصار میں قید ہنستی ہوئی بیوی کے گال کو نرمی سے ہونٹ سے چھوا ۔۔وہ شرمائی تو نا تھی البتہ جھجھک کر رخ ضرور پھیر گئی تھی ۔۔فودیل نے دوبارہ سے اس کو گلے لگا لیا ۔۔
زندگی مشکل نہیں رہی تھی پر آسان اب بھی نا تھی ۔۔شادی کے ایک سال گزر جانے اور ایک بچہ ہونے کے باوجود کسی نو بیاتا جوڑے کی طرح وہ دونوں اعتبار اعتماد اور سمجھنے کی پہلی سیڑھی پر کھڑے تھے ۔روفہ نے اپنی کوشش کر لی تھی اب باری اس کی تھی ۔اعتماد کی عمارت کی بنیاد روفہ نے رکھی تھی اس کو اپنے پیروں پر کھڑا اس نے ہی کرنا تھا ۔
ہاشم پر نظریں جمائے روفہ کو اپنی گرفت میں لیے سوچیں کے دھاگے اسے الجھائے ہوئے تھے ۔۔
ترتیل اور ہائیسم گھر سے ہسپتال کے راستے پر تھے جب اچانک گاڑی جھٹکا کھا کر رک گئی ۔وہ دونوں آج ہاشم کے ڈیسجارج پر فودیل اور روفہ کو لینے جارہے تھے ۔ہائیسم گاڑی سے باہر نکل کر اینجن میں پانی ڈال رہا تھا ۔۔ترتیل اندر بیٹھی میسج پر روفہ کو ان کے لیٹ ہونے کی وجہ بتانے لگی ۔
گاڑی کے پاس سے گزرتی بلیک کلر کی ہونڈا تھوڑے آگے جا کر ریورس ہوئی ۔۔ترتیل نے ایک نظر موبائل پر ڈال کر کھڑکی سے باہر اس کالی گاڑی کو دیکھا جس میں سے ایک چھبیس ستائیس سالہ لڑکی باہر نکل کر خوشگوار حیرت سے ہائیسم کی طرف دیکھ کر اس کی طرف بڑھی ۔۔
ترتیل ماتھے پر سلوٹیں ڈالے اب ہائیسم کے حیرت بھرے تاثرات کو مسکراہٹ میں بدلتا ہوا دیکھ رہی تھی ۔وہ کیا بات کر رہے تھے یہ تو اس کی سمجھ میں نا آیا پر ان دونوں کو ساتھ کھڑے دیکھ کر دل میں جلن ضرور ہوئی تھی ۔۔احساس کمتری کے ڈپریشن میں وہ گاڑی سے باہر بھی نا نکل سکی بس ان دونوں کو دیکھتی رہی ۔ہائیسم اب ترتیل کی سیٹ طرف اشارہ کرکے اس لڑکی کو کچھ کہہ رہا تھا ۔شاید اس کے بارے میں ہی بتا رہا تھا ۔وہ اندازہ لگانے لگی ۔۔
وہ لڑکی الٹرا موڈرن جدید تراش خراش کا لباس زیب تن کیئے بلاشبہ جاذب نظر تھی ۔۔اس لڑکی کو وہ ہائیسم کے بیچ گروپ کے فوٹو میں بھی دیکھ چکی تھی ۔۔تھوڑا سا دماغ پر ضرور ڈالنے سے اس کا نام بھی یاد آگیا تھا ۔وہ آصفہ تھی ۔جس نے ہائیسم کو بیٹ کرکے اپنے بیچ میں فرسٹ پوزیشن لی تھی ۔
ہائیسم نے اس کی سیٹ کی طرف کا دروازہ کھول کر ترتیل کا بازو پکڑ کر باہر نکالا اس دوران آصفہ مسکراتے ہوئے ترتیل کو ہی دیکھ رہی تھی ۔
” لو مل لو میری بیوی ترتیل سے ۔۔تالی یہ آصفہ ہے میری کلاس فیلو ۔۔”
ترتیل جبرا مسکرا دی ۔۔لاشعوری طور پر وہ اپنا ناکارہ ہاتھ کمر کے پیچھے چھپا گئی تھی ۔۔آصفہ نے تو شاید اس کی حرکت نوٹ نا کی تھی پر ہائیسم کی نظروں سے چھپ نا سکی تھی ۔۔اس نے جان بوجھ کر ترتیل کی کمر کے پیچھے چھپا ہاتھ باہر نکال کر اپنی مضبوط گرفت میں تھاما ۔
” بہت سنا تھا آپ کے بارے میں ۔انفیکٹ ہائیسم آپ کا ذکر اکثر یونیورسٹی میں بھی کرتا رہتا تھا ۔یور آر لکی ون ۔”
کتنی پر اعتماد تھی وہ ۔بات کرنے میں شائیستگی تھی ۔آنکھوں میں نرمی کا تاثر اس کو اور پروقار بنا رہا تھا ۔اسے دیکھ کر کم مائیگی کے احساس تلے وہ ہونٹ کاٹنے لگی ۔
” اچھا ۔”
زبردستی مسکرا کر وہ اتنا ہی کہہ سکی ۔ہائیسم اس کے اڑے رنگ والے چہرے پر نظر ڈال کر ہونٹ بھینج کر آصفہ کی طرف متوجہ ہوا ۔
” تمہیں ایڈریس تو بتا دیا ہے میں نے ترتیل کو لے کر لازمی آنا ہے تم نے گھر ۔۔اور میرا کارڈ سنبھال کر رکھنا گمانا نہیں ۔امید ہے جلد ملاقات ہو گی ۔۔”
اس کے اصرار پر ہائیسم نے خوشدلی سے آصفہ کی دعوت قبول کی تھی ۔اس دوران وہ بس بے چینی سے سڑک پر چلتی ٹریفک کو دیکھتی رہی ۔
ہائیسم کے ساتھ آصفہ کو کھڑے دیکھنا اس کی زندگی کے اب تک کے مشکل ترین اور قابل اعتراض مناظر میں سے ایک تھا ۔۔سامنے دکان کے بورڈ کو دیکھتی وہ اب بے زار ہونے لگی تھی ۔۔ہائیسم اب الوداعی کلمات کہہ رہا تھا ۔
” چلو پھر سنڈے کو اس ٹوپک پر بات کرتے ہیں ۔میں تمہیں بابا سے بھی ملواوں گی ۔۔اوکے ترتیل ۔۔اٹس گڈ ٹو سی یو ۔ٹیک کئیر ۔۔”
خوش مزاجی سے کہتی وہ ترتیل کو گلے بھی لگا چکی تھی ۔۔ایک پل کو تو وہ گڑ بڑا کر رہ گئی ۔۔آصفہ کچھ زیادہ خوش اخلاق تھی اس کا اندازہ دس منٹ کی ملاقات میں اس کو ہو چکا تھا ۔۔
” کیا آپ واقع جائیں گے اپنی دوست کے گھر ۔۔”
وہ جانے کیا سوچ کر اس سے پوچھ بیٹھی تھی ۔ہائیسم نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے ایک نظر اسے دیکھا ۔
” دوست نہیں ہے وہ صرف کلاس فیلو ہے ۔اور ہم نہیں جائیں گے ۔”
اس کے سنجیدگی سے بولنے پر وہ حیران ہوئی۔آصفہ سے تو اس نے وعدہ بھی کر لیا تھا آنے کا اور اب انکار کر رہا تھا ۔۔
” اپنی کلاس فیلو سے تو آپ وعدہ بھی کرچکے ہیں پھر کیوں نہیں جائیں گے ۔”
وہ جھلا کر پوچھنے لگی ۔ہائیسم نے ایک بار پھر اس کو دیکھ کر ونڈ سکرین سے باہر نظریں جمادیں ۔
” میں کوئی فرشتہ تو نہیں ہوں نا کوئی ولی اللہ جو اپنا ہر قول و قرار پورا کروں گا ۔۔میں نے اسے ٹالنے کے لیے جھوٹ بولا تھا ۔وہاں جانے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ۔۔”
اس کے انداز اور لہجے میں بلا کی سنجیدگی تھی ۔۔ترتیل اس کے رویے سے جزبز ہوئی ۔۔پر اس نے آگے سے بحث نہیں کی ۔۔
” زیادہ اس کے بارے میں مت سوچے شادی شدہ اور تین بچوں کی ماں ہے وہ ۔”
اس کے سپاٹ لہجے پر ترتیل بری طرح چونکی ۔۔وہ واقعی اس وقت آصفہ کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی ۔ہائیسم تو جیسے اس کا دماغ پڑھ رہا تھا ۔۔وہ گڑبڑا کر نفی میں سر ہلانے لگی ۔
” میں تو نہیں سوچ رہی اس کے بارے میں ۔میں کیوں کسی بھی ایرے غیرے کے بارے میں اپنا دماغ کھپانے لگی ۔”
اپنا بھرم رکھنے کو اس نے بھی جھوٹ بول دیا ۔یہ دونوں بھائی بہن (ہائیسم اور روفہ ) کسی فرشتے سے کم بھی نا تھے ۔ترتیل اور فودیل کی کوئی بات ان سے چپھی رہ ہی نہیں سکتی تھی ۔۔
وہ دل ہی دل میں سوچ کر ہائیسم سے نظریں چرا کر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگی ۔۔
” میرے سامنے پیدا ہوئی ہو تم اور میری آنکھوں نے تمہیں جوان ہوتے دیکھا تھا تمہاری رگ رگ سے واقف ہوں اس لیے جھوٹ مت بولو مجھ سے ۔”
وہ اس کی چوری پکڑ چکا تھا ۔ترتیل سبکی کے احساس تلے کچھ بول نا سکی ۔وہ صحیح کہہ رہا تھا ۔
” اور ایک بات میرا اس سے کوئی تعلق نہیں میری محبت تم سے شروع ہو کر تم پر ہی تمام ہے ۔اپنے دماغ میں وہم مت پالو ۔۔”
ترتیل نے چبھتے ہوئے لہجے میں اس کو کہتے سنا ۔۔وہ سن سی ہو گئی ۔۔اس کی بات ترتیل کو بری طرح کھلی تھی ۔وہ جیسے اس کو یہ جتانا چاہ رہا تھا ترتیل کی طرح اس نے اپنے جزبات کسی اور پر ضائع نہیں کیے ۔۔جلیس اس کی زندگی کا ایک سیاہ باب ضرور بن گیا تھا ۔
” پہلے کا پتا نہیں۔ اب میں بھی صرف آپ سے ہی محبت کرتی ہوں ۔۔”
وہ بھی اس کے ہی انداز میں جتا کر بولی ۔۔اسے خامخواہ ہی رونا آنے لگا تھا ۔۔ہائیسم اس کے اعتراف پر مسکرایا ۔۔ تھوڑی دیر پہلے کی سنجیدگی کہیں غائیب ہوگئی تھی ۔۔
” آج کے دن کی یہ پہلی بات تم نے اچھی کی ہے ۔۔اینڈ آئی لو یو ٹو ۔۔”
تھوڑا آگے جھک کر اس کے کندھے پر اپنے بازو لپیٹ کر اپنے کندھے سے لگا اس کی پیشانی چوم کر بولا ۔۔۔
” ہممم ”
اس کی تھوڑی دیر پہلی کئی گئی بات کا اثر ابھی تک زائیل نہیں ہوا تھا ۔۔ہائیسم نے اپنے طور پر اس کو ایک عام سی بات ہی کہی تھی پر ترتیل کو وہ کسی طعنے سے کم نا لگی تھی ۔
” کیا ” ہممم ” کوئی بات کرو ۔تمہیں پتا ہے نا میں چپ رہ کر ڈرائیو نہیں کر سکتا ۔۔”
وہ نرمی سے بولا ۔۔ترتیل اس کا بازو خود سے ہٹا کر اپنی سیٹ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئی ۔۔ہائیسم کو اس کے خراب موڈ کی وجہ سمجھ نا آئی ۔۔
” کیا ہوا تالی میں تمہیں مجھ سے باتیں کرنے کو بول رہا ہوں اور تم آنکھیں بند کرکے بیٹھ گئی ہو ۔۔”
وہ شکوہ کرنے لگا ۔۔ترتیل گہرا سانس بھر کر سیدھی ہو کر بیٹھ گئی ۔۔
” میرا دل نہیں چاہ رہا کوئی بات کرنے کو ویسے بھی ہاسپیٹل آنے والا ہے میں آنکھیں بند کرنے لگی ہوں جب ہاسپیٹل آئے تو مجھے بتا دیجے گا ۔”
وہ کھردرے لہجے میں کہہ کر دوبارہ آنکھیں موند گئی ۔۔ہائیسم اس کے خراب موڈ کی وجہ پوچھنا چاہتا تھا پھر گھر جا کر پوچھنے کے خیال سے ایک خاموش نگاہ اس پر ڈال کر سٹرک کو دیکھنے لگا تھا ۔۔۔
ان دونوں کے ہسپتال پہنچنے تک روفہ اور فودیل ہاشم کو ڈیسچارج کروا چکے تھے ۔۔ہاشم کے ایکسیڈینٹ سے ہائیسم اور فودیل نے بھی اپنے بگڑے معاملات کو کافی حد تک سدھار لیا اب پہلے کی طرح دونوں میں بدکلامی بھی نہیں ہورہی تھی کچھ روفہ کی دھمکیوں کا بھی اثر تھا جس سے دونوں کافی حد تک سیدھے ہو چکے تھے ۔۔گھر سے واپسی تک کے سفر میں ترتیل خاموش سی پچھلی سیٹ پر روفہ کے ساتھ بیٹھی رہی تھی فودیل ہاشم کو گود میں لیئے ہائیسم کے ساتھ فرنٹ سیٹ پر تھا ۔۔روفہ نے ترتیل سے اس کے ناخوشگوار موڈ کی وجہ پوچھی کیونکہ ہاشم کے ڈسچارج کا اس کو بہت بے چینی سے انتظار تھا پر اس کے تسلی بخش جواب نا دینے پر روفہ نے دوبارہ نہیں پوچھا ۔۔وہ پیچھے پڑنے والوں میں سے نہیں تھی ۔۔
فرنٹ مرر سے ہائیسم وقفے وقفے سے اس پر نظر ڈال رہا تھا ۔۔فودیل جبکہ صرف ہاشم کے ساتھ مگن تھا ۔۔
گھر پہنچ کر ہی فضا نے واہلانہ انداز میں ہاشم کا استقبال کیا ۔۔صدقے کے بکرے زبح کیے گئے تھے ۔۔عالم اور فضا ہاشم کو لے اپنے کمرے میں چلے گئے ان دونوں ہی نے بڑی مشکل سے اس کے بغیر تین دن کاٹے تھے ۔۔
روفہ بھی تھکن کے باعث کمرے میں جا کر سونے کا سوچ ہی رہی تھی جب ملازم کی اطلاع پر کسی مہمان کی آمد کے تحت کوفت زدہ ہوگئی ۔۔
” تم جا کر تھوڑی دیر سو جاو مہمان کو میں ایٹنڈ کر لیتا ہوں ۔”
اس کے تھکن ردہ چہرے کو دیکھ کر فودیل نے چادر سے باہر نکلے اس کے بال کان کے پیچھے اڑسا کر نرمی سے جانے کا اشارہ کیا ۔۔وہ بھی سر ہلا کر وہاں سے جانے کے لیے مڑی ۔
” روفہ تمہارے باس ڈی سی احسان جبار آئے ہیں یہاں کیوں کھڑی ہو جا کر ملو ان سے ۔ہاشم کی خبر لینے آئے ہیں ۔”
ہائیسم کی آواز پر وہ چونک کر مڑی ۔۔مگر اس کی اطلاع پر جی بھر کر بد مزہ ہوئی ۔۔اپنے باس روفہ کو ایک آنکھ نا بھاتا تھا انتہائی کرپٹ بندہ تھا نیب میں کرپشن کے دو کیس بھی چل رہے تھے جرم ثابت نا ہونے کی وجہ سے ابھی تک اس کی نوکری بحال تھی ۔آج کل ویسے بھی وہ روفہ کو کسی طرح سسپینڈ کرنے کے چکروں میں تھا ۔پر عالم جیسے سیاست دان والد کی پشت پناہی کی وجہ سے وہ اپنے ارادے میں کامیاب نہیں ہوا تھا ۔
” اس دوزخ کے سانپ کو بھی ابھی آنا تھا ۔”
وہ جھنجھلا کر بڑبڑائی ۔۔فودیل اس کی سرگوشی نما آواز سن کر محظوظ انداز میں ہنس دیا ۔۔ہائیسم اطلاع دے کر آفس جا چکا تھا ۔روفہ اسے گھور کر اپنے ساتھ ڈرائینگ روم میں آنے کا کہہ کر آگے بڑھ گئی ۔۔
” السلام علیکم ! روفہ صاحبہ کیسی ہیں مزاج کیسے ہیں آپ کے ۔۔آپ کے بیٹے کا سن کر بڑا افسوس ہوا مجھے ۔”
ان دونوں کے اندر آتے ہی وہ کھڑا ہوکر روفہ کی طرف ہاتھ ملانے کی عرض سے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھا کر بولا۔
” بڑی کمزور یادآشت ہے آپ کی ۔۔میں آپ کو پہلے بھی بتا چکی ہوں سر میں ہاتھ نہیں ملاتی ۔پتا نہیں آپ نے سی ایس ایس کیسے پاس کر لیا اتنے کمزور دماغ کے ساتھ ۔”
اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ پر چوٹ کرکے سامنے والے صوفے پر ٹانگ پر ٹانگ جما کر سنجیدگی سے بولی ۔۔فودیل کے سامنے سبکی کے احساس تلے جبڑے بھینج کر صوفے پر وہ بھی بیٹھ گیا ۔۔فودیل روفہ کے رویے کو دیکھ کر کنگ سا روفہ کے پہلو میں بیٹھا ۔اب کی بار احسان نے فودیل سے بھی ہاتھ ملانے کی غلطی نا کی تھی صرف سر کے اشارے سے ہی سلام کیا تھا
” فادی یہ سر ہیں میرے آپ کو بتانے کی ضروت تو نہیں ہے ویسے پچھلے ہفتے ہی تو آپ نے ان کے کرپشن کیسیز پر اپنا شو کیا تھا ۔”
روفہ نے فودیل کی طرف دیکھ کر جتا کر کہنے سے احسان بامشکل ضبط کے گھونٹ بھر سکا تھا ۔باس وہ اس کا تھا مگر رویہ روفہ کا باس والا ہوتا تھا شاید یہ اس کی شخیصت کا وقار ہی تھا کہ ایک تئیس سالہ لڑکی ہونے کے باوجود ایک روعب دار عورت کا عکس اس کے ہر پہلو سے جھلکتا تھا ۔
” روفہ کچھ زیادہ ہو رہا ہے اب بس کرو ۔۔۔”
فودیل اس آدمی کو بڑی اچھی طرح جانتا تھا آخر کو اس کا پالا سیاست دانوں سرکاری افسران بیوروکیٹس سے روز ہی پڑتا تھا ۔۔تبھی اس کو محتاط انداز میں جھک کر سرگوشی نما آواز میں بولا۔
روفہ کے تاثرات سے وہ اتنا جان گیا تھا وہ کہ وہ بالکل بھی باز نہیں آنے والی تبھی وہ بھی صورت حال کی سنگینی کا جائیزہ لینے لگا ۔۔ایک چیز جو فودیل نے شدت سے نوٹ کی تھی روفہ نے ایک نظر ڈالنے کے بعد احسان پر دوسری نظر ڈالنا بھی گوارہ نہیں کیا تھا ۔بالکہ وہ باہر کے مردوں کی طرف تو کیا گھر کے مرد ملازموں کے ساتھ بھی آنکھیں ملا کر بات نہیں کرتی تھی ۔ایک غیرارادی نگاہ کے بعد روفہ پر جیسے دوسری نظر ڈالنا بھی حرام ہوتا تھا ۔
پر عالم ہائیسم جلیس حیدر اور فودیل سے وہ پہلے دن سے آنکھوں میں آنکھیں گاڑھ کر بات کرنے کی عادی تھی ۔
اور کچھ نا سہی اس کی ذات کا ایک راز فودیل پر اچانک ہی دریافت ہوا تھا ۔یہ جان کر وہ کتنا سرشار ہوا تھا اس کا اندازہ روفہ کبھی نہیں لگا سکتی تھی ۔وہ احسان کی موجودگی کی پرواہ کیے بغیر اس کو دیکھے گیا ۔
روفہ کے گھورنے پر اس نے محبت سے مسکرا کر اس پر سے نظریں ہٹا لیں ۔۔
وہ پاک تھی اس میں کوئی شک نا تھا ۔وہ عاجزی میں کمال تھی اس کا اندازہ وہ رات کو لگا چکا تھا ۔پر وہ اپنے نفس کی حد بندی کی محافظ بھی تھی یہ انکشاف اس کو اس عورت کی عزت کرنے پر مجبور کر رہا تھا ۔
عمر اور رشتے میں کم درجہ رکھنے کے باجود وہ قد میں اس سے کتنی اونچی تھی ۔۔فودیل کو اس پل جانے کیوں روفہ کی ذات پر رشک کے ساتھ حسرت کا احساس بیک وقت بڑی شدت سے جاگا تھا ۔۔وہ پرت در پرت اس پر ظاہر ہو رہی تھی اور ہر انکشاف کے بعد فودیل بولنے کے قابل نہیں رہتا تھا ۔
روفہ اور احسان کی گفتگو کی آوازیں کہیں پس منظر میں چلی گئیں تھیں ۔۔وہ کب وہاں سے اٹھ کر گیا فودیل کو اندازہ نہیں ہوا وہ تو اپنی ہی سوچوں میں غرق آلود تھا ۔
” فودیل ۔۔۔فودیل ۔۔چلیں ”
روفہ نے پکارنے کے ساتھ اس کا کندھا بھی جھنجھوڑ ڈالا۔۔وہ ہڑبڑا کر اس کی طرف متوجہ ہوا ۔
” ہاں کیا ہوا۔۔احسان صاحب کب گئے ”
اس کے ہونق پن سے پوچھنے پر روفہ اس کو سر سے لے کر پیر تک دیکھنے لگی ۔۔اس کے اس انداز میں دیکھنے پر فودیل نے سر پر ہاتھ پھیر کر گہرا سانس بھرا ۔۔
” کیا چیز ہو تم روفہ ۔۔”
وہ اٹھ کے جانے لگی تھی جب اس نے ہاتھ پکڑ دوبارہ اس کو اپنے پہلو میں بٹھا لیا ۔۔
یہ سوال تھا یا تجزیہ وہ سمجھ نا سکی ۔۔سمجھ تو وہ بھی نا سکا تھا ۔۔
” چیز تو نہیں ہوں انسان ہوں ۔گوشت پوشت سے بنی عام سی بندی ۔۔”
وہ بڑے تحمل سے نفی میں سر ہلا کر کندھے اچکا کر بولی ۔۔
” کاش کے چیز ہوتی کم از کم تمہیں اپنے مطابق ڈھال تو سکتا ۔۔آج دل تمہاری عزت کرنے پر مجبور تو نا ہوتا ۔۔”
وہ بڑبڑا کر بولا۔۔آواز بہت دیھمی تھی روفہ کے کان سننے سے قاصر تھے ۔
پہلے محبت کے اس اعتراف میں عزت کا عمل دخل نہیں تھا مگر اب ہو چکا تھا ۔۔
” چلیں بہت نیند آرہی ہے مجھے ۔۔”
فودیل سر جھٹک کر اس کے کندھے پر گرتی چادر کو صحیح کرنے لگا جب اس نے روفہ کی جھنجھلاہٹ بھری آواز سنی ۔
” ہاں میرا بھی یہ ہی خیال ہے سو جاتے ہیں ۔ورنہ تو دماغ کی چولیں ہی ہل گئیں ہیں ۔۔”
اپنی جگہ سے اٹھ کر وہ بولا ۔روفہ جمائی روکتی دروازے کی جانب بڑھ گئی ۔اس نے فودیل کے تبصرے کے سیاق وسباق کو جاننے کی کوشش نہیں کی تھی اس کی بے نیازی پر فودیل سر ہلاتا ہوا اس کی زمین پر رلتی چادر کی کنی پکڑ کر اس کے ساتھ ہی چلنے لگا ۔۔