باب سوم:
کھلتی دھوپ پیڑوں سے چھایا سکیڑ کر نرم گھاس پر بکھر رہی تھی۔۔ دسمبر کی نم فضا کے باوجود دوپہر خاصی شفاف تھی آج دودن کی بارش کے بعد ہر شئے چمک بکھیر رہی تھی۔ روبن بلیو لانگ گاؤن اور سادہ کالی قمیض کے ساتھ سیاہ ٹراؤزر اور گہرے نیلے رنگ کا بیگ شانوں پر حمائل کیے وہ ریسٹورنٹ میں داخل ہوئی۔ ایک طائرانہ نظر پورے ماحول پر دوڑانے کے بعد وہ مطلوبہ ٹیبل تک چلی آئی تھی۔ ہلکے سے نیچرل میک اپ میں وہ تروتازہ دکھائی دیتی تھی۔
ہیلو۔۔
اسے دیکھتے ہی مقابل نے کہا تھا۔
کیوں ملنا چاہتے تھے مجھ سے؟
وہ کھڑے کھڑے ہی اس سے مخاطب ہوئی تھی۔
ٹیک اٹ ایزی! پلیز ہیو آ سیٹ آرام سے بات کرتے ہیں۔
وہ بھی اپنی جگہ سے کھڑا ہوگیا تھا۔
پرس کا اسٹرپ تھامے کچھ سوچ کر نورین ابشام کے مقابل بیٹھ گئی تھی۔
بولو۔۔۔ کیا کہنا ہے؟ لیکن بولنے سے پہلے ایک بار سوچ لینا کہ میں پہلے عشال کی دوست ہوں بعد میں تمہاری۔۔۔اور میری ساری ہمدردیاں عشال کے ساتھ ہیں۔۔۔از اٹ کلیئر؟
ایزی۔۔یار! میں کچھ ایسا ویسا نہ کہنے والا ہوں اور نہ تم سے کروانے والا ہوں۔۔۔
ابشام نے قدرے جلدبازی سے کہا تھا۔
ایکچولی مجھے سچ مچ اس سے محبت ہوگئی ہے۔۔۔اور وہ بھی شدید والی۔۔!
یہ تو تم مجھے بتا چکے ہو۔۔۔میں کیا کروں یہ بتاؤ۔۔؟
یہ ہی تو تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ اب میں کیا کروں۔۔؟
اس کے لہجے میں بےبسی سی تھی۔
نورین نے چند لمحے سوچا اور۔۔۔
آر یو شیور؟ کہ یہ محبت ہی ہے؟
اس کا انداز ٹٹولتا ہواسا تھا۔
ہنڈریڈپرسنٹ یار؟ تمہارا کیا خیال ہے میں فلرٹ کررہا ہوں۔۔۔؟
اب کے ابشام کے لہجے میں ناراضگی اور بیزاری سی گھلی تھی۔۔۔
میرا یہ مطلب نہیں تھا۔
نورین نے فورا صفائی پیش کی تھی۔
دراصل کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے ہم وقتی طور پر کسی جذبے کا شکار ہوکر اسے بھی محبت کا نام دے دیتے ہیں۔۔۔جبکہ وہ چیز یا موٹیو حاصل ہوجانے کے بعد اس چیز میں ہماری دلچسپی اور شدت کم ہوتے ہوتے بالکل ختم ہوجاتی ہے۔۔۔تمہارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی تو نہیں۔۔ ؟
کیونکہ پسند اور محبت کے درمیان اکثر لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں۔۔
سو پلیز پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ لو۔۔ پھر کوئی فیصلہ کرو۔۔
نورین نے اسے تفصیل سے سمجھایا، ابشام نے اس کی بات تحمل سے سنی اور بولا۔
تم کیا سمجھتی ہو۔۔؟ یہ ایک دن کی کہانی ہے؟ پہلے دن سے میں اس کے حصار میں گرفتار ہوں۔ میں ایکسپلین نہیں کرسکتا۔۔ کہ اس کی محبت میں میں کس حد تک نکل چکا ہوں؟
بس اتنا جان لو۔۔۔اب اس کے بنا رہنا مشکل نہیں ناممکن لگنے لگا ہے۔۔ پلیز نورین؟ ہیلپ می؟
اس لمحے نورین ششدر سی اس مغرور لڑکے کو دیکھ کر رہ گئی جو کسی کو خاطر میں نہیں لاتا تھا۔
شامی سے اس کی جان پہچان بھی اتنی ہی تھی جتنے یونی میں اسے دن ہوئے تھا۔۔ عشال کی بہ نسبت نورین کی نظر اردگرد پر گہری تھی۔۔ابشام زبیر بھی اپنی مغرور اور نک چڑھی شخصیت کی وجہ سے ڈیپارٹمنٹ میں موضوع بحث رہتا تھا۔۔۔نورین کو اس سے کوئی غرض نہیں تھی۔۔بس وہ اسے جانتی تھی۔۔۔ مگر جب سے ابشام کی نظروں نے عشال کو فوکس کیا تھا۔۔۔اسے ہر اس چیز اور شخص سے دلچسپی ہوگئی تھی۔۔۔جس سے عشال کا واسطہ تھا۔
نورین سے وہ یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں ہی ملا تھا اور اسے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ وہ ان کے فرینڈز گروپ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔۔۔ اس روز۔۔۔
یعنی کہ آپ ہمارے فرینڈز گروپ میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ نورین نے اپنے سیاہ گلاسز بالوں میں پھنسائے اس کی بات دہرائی تھی۔ جوابا ابشام نے اثبات میں سر ہلایا تھا۔
لیکن کیوں؟ آپ کے کلاس میٹس نے آپ کو لفٹ نہیں کرائی کیا؟
اس کے ساتھ ہی اس نے چہرے پر مصنوعی سنجیدگی طاری کرلی تھی۔
ایکچولی میں نے انھیں لفٹ نہیں کروائی۔
ابشام نے زور دے کر اپنی بات کی وضاحت کی تھی۔
اوہ۔۔۔۔اچھا۔۔ ؟
نورین نے الفاظ کو لمبا کھینچا تھا
ہم پر اس خاص عنایت کی وجہ۔۔۔؟
نورین نے تفتیشی انداز میں پوچھا تھا۔
وجہ ہے۔۔۔مجھے آپ سے ایک فیور چاہیے۔۔۔
اور میں چاہتا ہوں ہمارے درمیان معاملات دوستانہ ماحول میں طے پائیں۔۔
ابشام کو صاف بات کہنا درست لگا تھا۔
کیسے معاملات۔۔۔؟
نورین جو اس کی بات کو مذاق میں ٹال رہی تھی۔۔اب سنجیدگی سے اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
اس دن ابشام نے اس سے ملاقات کا وقت لیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس پر کس حد تک اعتماد کرسکتا ہے؟
اور نورین نے عشال کے نام کی وجہ سے اسے اعتماد کا یقین دلایا تھا۔
میں کیا ہیلپ کرسکتی ہوں بھلا۔۔۔یہ سراسر رسکی معاملہ ہے۔۔۔
وہ کچھ سوچ رہی تھی اور بول رہی تھی۔۔
ایک بات بتاؤ کیا تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو؟
نورین نے ابشام کی آنکھوں میں جھانکا تھا۔
تو اور کیا۔۔۔؟ اس کے علاوہ میں چاہ بھی کیا سکتا ہوں؟
وہ بے بس سا دکھائی دے رہا تھا۔
پھر تو یہ معاملہ سیدھا سیدھا بزرگوں کی مداخلت سے ہی حل ہوسکتا ہے۔
نورین نے صاف ہاتھ جھاڑے تھے اور ابشام زبیر کا دل چاہا تھا اپنے سامنے موجود اس بےنیاز ہستی کا قتل کرڈالے۔ صبروضبط کی ساری کوششیں بروئے کار لاتے ہوئے بولا تھا۔
اس سب سے پہلے میں اسے اعتماد میں لینا چاہتا ہوں۔۔۔ڈفر
آخری لفظ بمشکل اس نے لبوں پر روکا تھا۔
چلو پھر کچھ سوچتے ہیں تم مجھے کچھ ٹائم دو۔۔۔
درحقیقت نورین نے اس سے جان چھڑائی تھی۔ اپنے طور پر وہ فرصت سے اس بارے میں غور کرنا چاہتی تھی۔
بعدازاں اس نے اپنے طور پر اشعر سے ابشام کے بارے میں سرسری معلومات حاصل کرنی چاہی تھیں اور اشعر کی رپورٹ اس کی باتوں کی طرح بے سر پیر کی تھی۔ بالآخر حتمی نتیجے پر پہنچنے کے بعد اس نے ابشام سے ملنے کا فیصلہ کیا تھا۔
*********
اب میں تمہاری کیا ہیلپ کروں؟ سچ کہوں تو یہ معاملہ اس طرح حل نہیں ہوسکتا جیسے تم چاہ رہے ہو۔۔۔
نورین نے شامی سے کہا تھا۔
تو پھر کیسے حل ہوسکتا ہے؟
وہ خاصا بےصبرا نظر آرہا تھا۔
نورین نے لمبی سانس کھینچی اور کچھ سوچتے ہوئے بولی تم مجھے تھوڑا ٹائم دو میں دیکھنا چاہتی ہوں تمہاری دال گلنے کے کتنے پرسنٹ چانسز ہیں؟
تم نے پہلے بھی یہی کہا تھا کہ تمہیں ٹائم چاہیے آخر تمہیں کتنا ٹائم چاہیے ایک بار ہی بتادو۔۔۔ شامی کے لہجے میں بیزاری تھی۔
نورین نے ناگواری سے اسے دیکھا اور خفگی سے بولی، تمہارے لیے ہی کہہ رہی ہوں ورنہ عشال زبرجرد کوئی شوکیس میں سجی ہوئی گڑیا نہیں ہے کہ تمہاری فرمائش پر تمہیں فورا مل جائے۔۔۔۔ اور بات صرف عشال کی نہیں۔۔۔یہاں اور بھی بڑے پاپڑ ہیں بیلنے کےلیے۔۔۔
اس کے سامنے کئی چہرے گھوم گئے تھے۔
میرا یہ مطلب نہیں تھا۔۔۔
شامی کو واقعی اپنا انداز نامناسب محسوس ہوا تھا۔
نورین نے ایک مرتبہ پھر گہری سانس خارج کی اور رسان سے اسے سمجھانے لگی۔
دیکھو میں چاہتی یوں تم ہرٹ نہ ہو۔۔۔اسی لیے کہہ رہی ہوں صبر سے کام لو۔۔۔ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے!
نورین نے اسے تسلی دی تھی۔
دیکھ لو کہیں یہ پھل گل سڑ ہی نہ جائے۔۔
وہ کچھ زیادہ ہی حساس ہورہا تھا۔
اس بارے میں میں زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتی، سوائے اس کے۔۔ کہ اچھی امید رکھو۔۔
انسان امید اچھی رکھے تو اسے نتیجہ بھی اچھا ملتا ہے۔۔۔ باقی صرف کوشش ہی کی جاسکتی ہے۔۔۔
ٹیک کیئر۔۔۔
ایک بار پھر نورین نے اسے تسلی دی تھی۔۔۔۔ساتھ ہی وہ جانے کےلیے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
کہاں جارہی ہو؟ تم نے تو کچھ لیا بھی نہیں؟
نورین کو اٹھتا دیکھ کر شامی نے فورا کہا تھا۔
نو فارملٹیز پلیز۔۔۔
مجھے کچھ کام ہے۔۔۔ کھانا پیناپھر کبھی۔۔۔!
نورین مسکرا کر رخصت ہوگئی تھی۔۔
شامی کا آدھا کام ہوگیا تھا۔
*********
کہاں تک پہنچی تمہاری کھچڑی۔۔۔؟ شہیر نے گاجر کترتے ہوئے پتیلے میں جھانکا تھا۔۔۔
کیا؟ تمہیں یہ اچھی خاصی بریانی کھچڑی نظر آرہی ہے؟ عشال نے اچھا خاصا برا مناتے ہوئے اسے گھورا تھا۔
آج سنڈے تھا اور عشال کے سارے اسائمنٹس بھی تیار تھے اور فی الحال کوئی ٹیسٹ بھی نہیں تھا تو آج کچن میں عشال کی حکومت تھی۔۔اسے اچانک ہی بریانی بنانے کا دورہ پڑا تھا۔
کیا؟ یہ بریانی ہے؟ مگر مجھے تو اس میں کوئی بھی چیز بریانی سے مشابہ نہیں لگ رہی؟
شہیر نے برے برے منہ بناتے ایک بار پھر پتیلے کی طرف منہ کیا تھا۔۔۔
اور عشال نے بڑی مہارت سے اس سے سلاد کی پلیٹ چھینی تھی۔۔۔تو بس ٹھیک ہے تمہیں اس کی خوشبو بھی چکھنے کو نہیں ملے گی۔۔
تمہارے (سسرال) والوں کی تو سمجھو چھٹی ہی ہوگئی۔۔۔؟
شہیر نے مظلومیت بھرا اعلان کیا اور کچن سے نکل کر ڈائننگ ٹیبل سنبھال لی تھی۔۔
یہ بات عشال کے تلووں کو جا لگی تھی۔۔۔
دن بدن وہ حددرجہ بدتمیز ہوتا جارہاتھا،ماماجان کی موجودگی بھی اس کی بدتمیزیوں پراثرانداز نہیں ہوئی تھی۔
کیا کہا تم نے…؟
عشال کا چہرہ ضبط سے سرخ پڑگیا تھا کیونکہ لاؤنج میں ہی سطوت آراء بھی موجود تھیں اور عشال کو اس موضوع سے کتنی چڑتھی شہیر اچھی طرح جانتا تھا۔
شہیر۔۔۔۔؟
سطوت آراء سب سن چکی تھیں لہذا کسی بڑی محاذآرائی سے پہلے ہی مداخلت کرنا ضروری سمجھا تھا۔
جی ماما۔۔۔؟
اس نے بڑی فرمانبرداری کا مظاہرہ کیا تھا۔
شہیر کیوں تنگ کر رہے ہو بیچاری کو۔۔۔؟ صبح سے اکیلی کچن میں ہلکان ہورہی ہے۔
میں کب تنگ کررہا ہوں ماما۔۔۔میں تو بس جاننا چاہ رہا تھا، اتنی دیر سے کچن میں آخر پک کیا رہا ہے؟ اور یہ محترمہ کہاں کی بیچاری؟ بیچارے تو ہم ہیں، جنھیں آج پتہ نہیں کیا نصیب ہونےوالا ہے؟ اور خدا خبر۔۔۔؟ کچھ نصیب ہونے والا بھی ہے یا نہیں؟ کہ آج کا لنچ ٹائم تو ہوچکا۔۔۔؟
درحقیقت یہ کھانے کی خوشبو ہی تھی جو اسے صبح سے بانولا کیے ہوئے تھی۔ اور اپنے بےصبرے پن کا بدلہ وہ اس طرح لے رہا تھا۔
تم چپ کرو۔۔ مجھے پتہ ہے سب سے زیادہ مزے لے کر تم نے ہی کھانا ہے۔۔۔
سطوت آراء نے ایک بار پھر اسے لتاڑا۔
پھر وہ عشال کی طرف متوجہ ہوئیں جو منہ پھلائے شہیر پر نظریں جمائے ہوئے تھی۔
تم دل پر مت لو بیٹا۔۔۔ جانتی تو ہو اسے؟
وہ عشال کی دلجوئی میں مصروف تھیں کہ شہیر کے موبائل کی مخصوص ٹون گونجی تھی۔
اسکرین دیکھتے ہی وہ ایکدم سیدھا ہوا تھا۔
اوہ میری میل ہے میں ابھی آیا۔۔۔
کہہ کر وہ تیز قدموں کے ساتھ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اس کے جاتے ہی ماحول بدل گیا تھا۔
کھانا تیار ہے ماماجان!
میں بس پانچ منٹ میں لگاتی ہوں۔
کہہ کر عشال کچن کی جانب بڑھ گئی تھی اور سطوت آراء آبریش کو بلانے لان کی طرف چل دی تھیں، جہاں وہ ضیاءالدین صاحب سے کوئی فرمائش منوانے میں مصروف تھی۔
دن اپنی مخصوص رفتار کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ ہلچل اس وقت پیدا ہوئی جب چند لمحوں بعد شہیر کی خوشی اور جوش سے چہکتی آواز گونجی تھی۔
بابا۔۔۔ ماما۔۔۔گڈنیوز۔۔۔!
مجھے america میں اسکالرشپ مل گئی ہے!!!
ضیاءالدین صاحب کا منہ کی طرف جاتا ہاتھ ساکت ہوگیا تھا۔
*********
مجھے اس کے بارے میں ٹھیک ٹھیک بتاؤ۔۔۔ خبردار اگر تم نے بونگیاں ماریں تو۔۔۔؟
نورین نے انگلی دکھا دکھا کر اشعر کو خبردار کیا تھا۔
یار میں نے تو پہلے بھی صاف صاف بتایا تھا۔ کہ وہ بہت عجیب فیملی ہے۔۔۔سب کے سب نمونے ہیں، تم لوگوں کا ان کے ساتھ گذارا نہیں ہوسکتا۔۔۔
اس میں کون سی بات تمہیں بونگیاں لگ رہی ہے؟
اشعر نے باقاعدہ نورین کے الفاظ پر اعتراض کیا تھا۔
نورین نے کہا۔
جتنا پوچھوں صرف اتنابتاؤ ایک لفظ ادھر ادھر ہوا ناں ہم دونوں سے تمہیں کوئی نہیں بچاسکتا۔
اشعر کی آج شامت آئی ہوئی تھی، شومئی قسمت آج وہ تنزیلہ سے ملنے چلا آیا تھا۔
دیکھو سرکاری افسر کی بیٹی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ تم مجھے hirass کرو قانون ابھی اتنا بھی اندھا نہیں ہوا ہے؟
اشعر نے ان کی تفتیش سے تنگ آکر دفاع کی ایک کوشش کی تھی۔
اشعر۔۔۔۔؟
تنزیلہ کی گھوری نے خاطر خواہ اثر کیا تھا۔
بولو بھی اب میری گردن پھنس ہی چکی ہے تو کیا کرسکتا ہوں۔۔۔؟
بالآخر اس نے ہتھیار ڈالے تھے۔
درحقیقت عثمانی فیملی کا صحیح تعارف کروانے کےلیے اس کے پاس مناسب الفاظ نہیں تھے۔
اس کے پیرنٹس کیا کرتے ہیں؟
نورین نے کسی ماہر تفتیشی افسر کی طرح سوالات کا آغاز کیا تھا۔
وہی جو ایلیٹ کلاس کے اکثر پیرنٹس کرتے ہیں۔
پاپا کرپشن اور ماما سوشل ورک۔۔۔
اشعر نے بیزاری سے جواب دیا تھا۔
نورین کے ماتھے پر تیوریاں چڑھیں اور تنزیلہ نے بمشکل ہنسی روکی تھی۔
ابشام کی کیا ایکٹیوٹیز ہیں؟
نورین کا اگلا سوال۔
ڈرگز لیتے ہوئے میں نے اسے دیکھا نہیں اور سلام دعا میری اس سے ہے نہیں۔۔،
عجیب روڈ سا بندہ ہے۔۔۔اور i thik۔۔۔selfish بھی!
باقی گھر میں اس کی کیا ہوبیز ہیں میں نہیں جانتا۔۔۔
بس۔۔۔؟ اشعر نے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔
ہنم م م م
نورین نے پیچھے ہٹ کر ٹیرس کی باؤنڈری وال سے پشت ٹیک دی۔۔۔
اشعر نے اشارے سے تنزیلہ سے پوچھا کہ اس “ہووونم” کا کیا مطلب ہے لیکن اس نے لاعلمی سے کندھے اچکا دیے۔
نورین نےلمبا ہنکارا بھرنے کے بعد پرسوچ انداز میں اشعر کی طرف دیکھا اور بولی۔۔۔
مجھے ہی کچھ کرنا پڑے گا۔۔
کک۔۔ کیا؟ کرنا پڑے گا؟ سنو میں اس بار ہرگز بکرا نہیں بنوں گا۔۔۔!
اشعر نے ان کے خطرناک ارادے بھانپ کر پہلے ہی ہاتھ اٹھا دیے تھے۔۔۔
*********