اکیسویں صدی میں سائنس حملوں کی زد میں ہے اور یہ کئی اقسام کے ہیں۔ سوسائٹی کے کئی حصے حقیقت اور سراب کے درمیان تفریق نہیں کر پا رہے۔
ان میں سب سے سنجیدہ پہلو وہ ہے جہاں پر وہ لوگ ہیں جو سائنس کو اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اور جو اس سے نکالے گئے نتائج کو اپنے سیاسی، نظریاتی یا بزنس مقاصد سے ہم آہنگ نہیں پاتے۔ مثال کے طور پر، موسمیاتی تبدیلیاں سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ نظریاتی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ہم سب کی سلامتی کا مسئلہ ہے اور اس کے لئے ہمیں ایسے حل تلاش کرنے ہیں جن کی بنیاد ایویڈنس پر ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس پر ہونے والا ایک اور حملہ ایسے مذہبی قدامت پرستوں کی طرف سے ہوتا ہے جو ہر نئی تحقیق اور انسانی علم کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ میری نظر میں، بزنس اور سیاسی مخالفین کے برعکس سائنس اور مذہب میں تنازعہ ہونے کی کوئی بنیادی وجہ نہیں ہے۔
بہت سے مذہبی مکتبہ فکر نہ صرف سائنس کو نیچرل دنیا کے بارے میں علم حاصل کرنے کے طریقے کے طور پر نہ صرف تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اور اس سے آگے یہ کہ اس دنیا کے اور ہمارے وجود و معنی میں اتنا اسرار موجود ہے کہ سائنس اور مذہب ہمیں اس پر غور کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔ اور دونوں ہی اسے مکمل حل نہیں کر پاتے۔
مذہبی مخالفین کی طرف سے بس ایک ہی چیز کی ضرورت ہے۔ وہ یہ کہ سائنسی دریافتوں پر اور شواہدات کی بنیاد پر اسٹیبلش ہو جانے والے علم پر حملے نہ کئے جائیں۔ اور ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے بہت سے راہنما بالکل ایسا ہی نکتہ نظر رکھتے ہیں۔
اور جواب میں، سائنسدانوں کو ایسے مذہبی لوگوں اور راہنماوٗں کو بہتر دنیا بنانے میں اتحادی کے طور پر دیکھنا چاہیے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس پر ہونے والا ایک اور حملہ ہیومنسٹ اکیڈیمیا کی طرف سے ہے۔ جن کا دعویٰ ہے کہ سائنس محض ایک سوشل کنسٹرکٹ ہے جو بہت سے نکتہ نظر دیتا ہے جو سب ایک برابر ہیں۔
اگر سائنس کو ایسے چیلنجز کا واضح اور مضبوط جواب دینا ہے تو اسے نہ ہی سائنسدانوں کی mystical خواہشات اور نہ ہی ان کے میٹافزیکل ایجنڈا سے آلودہ ہونا ہے۔
انفرادی طور پر سائنسدان اپنے کوئی بھی خیالات رکھ سکتے ہیں۔ اور یہ سائنس کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتا جب تک کہ واضح طور پر اپنے خیالات کو یا غیرمتعلقہ باتوں کو سائنس کہہ کر پیش نہ کیا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنس صدیوں سے جاری حقیقت شناسی کا پراجیکٹ ہے۔ تھوڑا تھوڑا کر کے اپنے علم کو ایڈجسٹ کیا جاتا ہے۔ اور رئیلیٹی اور سراب میں تفریق کی جاتی ہے۔ اینٹی رئیلسٹ فلسفے سے خطرہ یہ ہے کہ یہ نیچر کو سمجھنے کے ہمارے ambition کو کمزور کر دیتا ہے۔
نہ صرف چھوٹے ترین سکیل پر، بلکہ بڑے ترین سکیل پر بھی اینٹی رئیلزم speculation کی کمی نہیں۔ مثال کے طور پر، کاسمولوجسٹس کی ایک اقلیت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ ہماری کائنات، کائناتوں کے سمندر کا ایک بلبلہ ہے۔ اور ایسے لامتناہی بلبلے موجود ہیں۔
یہاں تک تو ایک محفوظ مفروضہ ہے کہ جس طرح کی کہکشاں ہم آس پاس دیکھتے ہیں، اسی طرح کی کہکشائیں باقی کائنات میں بھی ہیں۔ لیکن یہ قیاس کہ ایسے لامتناہی بلبلے متنوع اور رینڈم قوانین کے زیرِتحت ہوں گے اور ہماری کائنات ان میں سے ایک ہی ہے؟ اور اس پر اضافہ یہ کہ یہ بلبلے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہمارے مشاہدات کی حد سے دور رہیں گے؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ ملٹی ورس کا یہ ہائیپوتھسس نہ ہی ٹھیک قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی غلط۔ ایسی fantasy سائنس کی حدود سے باہر ہے۔ لیکن اس آئیڈیا کو اصل قرار دے کر چیمپئن کرنے والے کئی بہترین فزسسٹ اور ریاضی دان بھی ہیں۔
ملٹی ورس کی fantasy کے علاوہ ایک اور مثال ایک کوانٹم مکینکس کی متوازی کائناتوں کا ہے۔ یہ دونوں بالکل الگ خیالات ہیں لیکن ان میں مشترک چیز میجک رئیلزم کی ہے۔ اور یہ سائنس کے مقصد کو فائدہ نہیں دیتیں جو دنیا کو سمجھنے کا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقینی طور پر کوانٹم مکینکس نیچر کے کئی پہلووٗں کی بہت نفاست سے وضاحت کرتی ہے۔ فزسسٹ اس کی بنیاد پر بہت کچھ سمجھنے کے طاقتور اوزار تیار کر چکے ہیں۔ کوانٹم مکینکس کو ماسٹر کرنے سے ہم نیچر کی کئی چیزوں کو کنٹرول کر لیتے ہیں۔ لیکن یہ نیچر کی تصویر نہیں دیتی۔ یہ نہیں بتاتی کہ انفرادی پراسسز میں ہو کیا رہا ہے اور عام طور پر اس کی وضاحت نہیں کر سکتی کہ تجربے کا یہ نتیجہ کیوں نکلا۔
اور یہ اہم ہیں کیونکہ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سائنس کے مرکزی سوالات کو جزوی طور پر حل کر پائے ہیں۔ گریویٹی اور سپیس ٹائم کو ملانے یا انٹرایکشنز کو یکجا کرنے جیسے مسائل میں ناکامی ہمیں واضح طور پر بتاتی ہے کہ کوانٹم تھیوری یا تو نامکمل ہے یا کہیں پر غلط ہے۔
کوانٹم دنیا میں خوش آمدید۔ اور یہ ہماری ہی دنیا ہے۔ اور ہماری خوش قسمتی ہے کہ اس کے اسرار حل کرنا ابھی باقی ہیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...