داور جب کمرے میں داخل ہوا تو زوہا سنگھار میز کے سامنے کھڑی اپنی جیولری اتار رہی تھی۔
وہ چلتے ہوئے اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا۔
” اس رویے کی وجہ جان سکتا ہوں تمہارے؟ ”
داور کی آواز پر زوہا کے جیولری اتارتے ہاتھ رکے۔
” میں آپکو جوابدہ نہیں ہوں۔ ”
یہ کہہ کر وہ دوبارہ اپنے کام میں مگن ہوگئی۔
” کیوں جوابدہ نہیں ہو۔ بیوی ہو تم میری۔ نکاح ہوا ہے ہمارا۔ ”
وہ اسکا رخ اپنی جانب موڑتا ہوا بولا۔
” نکاح ہوا ہے۔ خریدا نہیں ہے آپ نے مجھے۔ آپ جاگیرداروں کا مسئلہ یہی ہے۔ آپ اپنی بیوی کو بیوی نہیں بلکہ اپنی زر خرید غلام مانتے ہیں۔ ”
وہ غصے سے پھنکاری۔
” صرف ایک ہی دن میں میرے کونسے رویے نے تمہیں یہ بتا دیا کہ میں تمہیں بیوی نہیں بلکہ اپنی غلام مانتا ہوں۔ ”
داور اسکی آنکھوں میں جھانک کر بولا۔
” جو کچھ آپ میرے ساتھ کرچکے ہیں وہ مجھے یہ احساس دلانے کے لئے کافی ہے۔ ”
” کیا کیا ہے میں نے تمہارے ساتھ یہ زرا مجھے بھی تو پتہ چلے۔ ”
” واہ! انجان بننے کی اداکاری تو بہت اچھی کرلیتے ہیں آپ۔ ”
زوہا نے تالی بجا کر داد دی۔
” زوہا یہ پہیلیاں مت بجھائو اور مجھے صاف صاف ساری بات بتائو۔ ایسی باتیں کرکے تم مجھے الجھا رہی ہو۔ ”
” میں کیا الجھائوں گی۔ زندگی تو آپ نے میری الجھا کر رکھ دی ہے۔ ”
” میں نے؟ ”
وہ حیرت سے گویا ہوا۔
” جی آپ نے۔ سارے خواب توڑ ڈالے اپ نے میرے۔ میرے گھر والوں کو بھی مجھ سے دور کر دیا۔ ”
وہ منہ ہاتھوں میں چھپا کر رو دی۔
” اوہ تو یہ بات ہے۔ پر تم خود دیکھو شادی کر کے ہر لڑکی کو دوسرے گھر جانا ہوتا ہے اور پھر میں کونسا تم پر کوئی پابندی لگا رہا ہوں جب دل چاہے تم انکل آنٹی سے مل آنا۔ ”
وہ اس کے آنسوؤں کو گھر والوں سے دوری کے باعث سمجھ کر اسے بہلانے کے لیے بولا اور اسکے چہرے سے ہاتھ ہٹانے لگا۔
جسے زوہا نے جھٹک دیا۔
” ہاتھ مت لگائیں مجھے۔ ”
وہ درشتگی سے بولی۔
” اوکے اوکے نہیں لگاتا۔ ریلیکس ہو جائو تم اور پلیز رونا بند کرو۔ ”
پر زوہا اسکی بات کو نظرانداز کرکے رونے میں مصروف رہی۔ داور ایک بے بس سی نظر اس پر ڈال کر صوفے پر جاکر لیٹ گیا اور آنکھیں موند لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن جب داور اٹھ کر آیا تو زوہا پہلے ہی وہاں موجود تھی۔
گلزار بیگم کو سلام کرنے کے بعد وہ بولا۔
” اماں سائیں ناشتہ لگوا دیں مجھے زمینوں پر جانا ہے۔ ”
” ارے پاگل ہوئے ہو کیا۔ ابھی ایک دن ہوا ہے تمہاری شادی کو اور تمہیں کام کی پڑ گئی ہے۔ ارے نئی دولہن ہے اسکو گھوماو پھرائو۔ بلکہ ایسا کرو آج اپنے سسرال چلے جائو اچھا ہے زوہا بھی اپنے گھر والوں سے مل لے گی۔ ”
” ٹھیک ہے لے جائونگا آج شام میں۔ چار بجے تک تیار رہنا۔ ”
اس نے بیک وقت دونوں کو مخاطب کیا۔
زوہا محض سر ہلا کر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شام میں زوہا تیار ہو کر بیٹھی داور کا انتظار کر رہی تھی کہ گلزار بیگم آئیں اور اسے دیکھ کر بولیں۔
” زوہا بیٹا تیار نہیں ہوئی تم۔ داور آتا ہی ہوگا۔ ”
زوہا جو تیار بیٹھی تھی حیرانی سے بولی۔
” آنٹی میں تو تیار ہوں۔ ”
وہ اسکن کلر کا ہلکی کڑھائی والا سوٹ پہنے میک اپ کے نام پر صرف لپ اسٹک لگائے ہوئی تھی۔
” یہ آنٹی کیا ہوتا ہے جیسے میں داور اور مشعل کی ماں ہوں ویسے ہی تمہاری بھی۔ اسی لئے مجھے اماں سائیں بولو۔ اور یہ کیسے تیار ہوئی۔ لگ ہی نہیں رہا کہ تم شاہوں کی بہو ہو۔ نہ ہاتھ میں چوڑیاں ناں ہی کوئی زیور۔ رکو میں مشعل کو کہتی ہوں وہ تمہیں تیار کردے گی۔ ”
بغیر زوہا کو بولنے کا موقع دیئے وہ مشعل کو بلانے چل دیں۔
مشعل نے آکر زوہا کے خوبصورت سے کام کا نیلے رنگ کا سوٹ نکالا اور اسے دیتی ہوئی بولی۔
” جائو یہ پہن کر آئو۔ ”
” مشعل پر یہ بہت ہیوی ہے۔ ”
زوہا ہچکچائی۔
” کوئی ہیوی نہیں ہے جائو شاباش جلدی سے چینج کرکے آئو۔ ”
مشعل نے مزید اسکی آنے بغیر اسے واش روم مین دھکیل دیا۔
” زبردست۔ ”
مشعل کے منہ سے زوہا کو تیار کرنے کے بعد نکلا۔
” آج تو میرے بھائی کی خیر نہیں۔ ”
بلیو سوٹ میں نفاست سے کئے میک اپ ، کلائیوں میں سونے کی چوڑیاں ، گلے میں سونے کا گلوبند اسی کے ساتھ کے ہی بندے پہنے وہ غضب ڈھا رہی تھی۔
ابھی مشعل بول ہی رہی تھی کہ داور کی آمد ہوئی۔
” اتنی دیر کردی بھائی آپ نے آنے میں۔ ”
” ہاں وہ میں۔ ”
کہ اسکی نظر زوہا پر پڑی اور وہ اپنے الفاظ بھول گیا۔
“اہم ۔۔ اہم ۔ میں یہاں ہی ہوں ابھی۔ ”
اسے مسلسل زوہا کو تکتے پاکر اس نے داور کو چھیڑا۔
” میں چینج کرکے آتا ہوں۔ ”
یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔
” چلو تم اپنی ساس صاحبہ کو اپنا چہرہ دکھا دو تاکہ انہیں اطمینان ہو جائے۔ ”
” صحیح چلو۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
داور کے ساتھ وہ اپنے گھر کے باہر موجود تھی۔
دستک دے کر وہ دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔
کہ فائز نے آکر دروازہ کھولا۔
” فائز۔ ”
داور کچھ بولنے ہی لگا تھا کہ فائز اسکی بات کاٹتا ہوا بولا۔
” مجھے کچھ ضروری کام ہے۔ ”
اور گھر سے باہر نکل گیا۔
داور فائز کا رویہ دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ تو خود ہی زوہا سے شادی نہیں کرنا چاہتا تھا اب جبکہ اسکی خواہش پوری ہوگئی اس پر اسکا یہ انداز اور دوسری جانب زوہا کا رویہ وہ الجھ کر رہ گیا۔
وہ دونوں گھر میں داخل ہوگئے۔
” بابا! مماں! کہاں ہیں آپ۔ ”
زوہا کی آواز سن کر نسرین بیگم آئیں اور اسے گلے سے لگا لیا۔
پھر داور نے آگے بڑھ کر ان سے سلام کیا اور ان کے آگے سر جھکا دیا۔
انہوں نے بھی خوش دلی سے اسکے سلام کا جواب دے کر اسکے سر پر ہاتھ پھیرا۔
اس کے بعد اظہار صاحب آئے۔
” اسلام و علیکم بابا ! کیسے ہیں آپ۔ ”
” وعلیکم اسلام! میں بالکل ٹھیک۔ ”
اور اسکے سر پر ہاتھ پھیر کر داور کی طرف متوجہ ہوگئے۔
اپنے بابا کے اس روئیے پر زوہا نے بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں کو پیا۔
داور سے وہ بغل گیر ہوئے۔
اب جو بھی تھا جیسا بھی تھا داماد تھا انکا۔
سب لائونج میں بیٹھ کر باتوں میں مشغول ہو گئے۔
نسرین بیگم اٹھ کر کچن میں گئیں تو زوہا بھی انکے ساتھ ہولی۔
” ماما میں رمشا سے مل آئوں۔ ”
زوہا جھجکتے ہوئی بولی۔
” جو تم انکے ساتھ کرچکی ہو۔ اس کے بعد بھی تمہیں لگتا ہے وہ تم سے ملیں گے؟ ”
” مماں آپکو بھی ایسا ہی لگتا ہے کہ میں غلط ہوں۔ آپ کو مجھ پر یقین نہیں؟ ”
” زوہا یقین ایک بار ہوتا ہے اور وہ کرچکے ہم تم پر اور انجام بھی بھگت چکے اسکا۔ ”
نسرین بیگم سرد لہجے میں گویا ہوئیں۔
زوہا چند لمحے انہیں ڈبڈبائی آنکھوں سے دیکھتی رہی اور پھر اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر آکر زوہا گلزار بیگم کو سلام کرکے اپنے کمرے میں آگئی اور بغیر ڈریس تبدیل کئے بیڈ پر اوندھے منہ گر کر رونے لگی۔
کافی دیر بعد داور کمرے میں آیا تو دیکھا زوہا اسی حالت میں لیٹی ہوئی ہے۔
” زوہا ”
اس نے آہستہ سے پکارا۔
پر جواب ندارد۔
اس نے آگے بڑھ کر اسے کندھے سے پکڑ کر سیدھا کیا۔
اس کے چہرے پر آنسوؤں کو دیکھ کر اسے لگا جیسے کسی نے اسکا دل مٹھی میں مسل دیا ہو۔
اس کی نظر اسکی جیولری پر پڑی اس نے آہستہ سے اسکی ساری جیولری اتار دی۔
” آخر ایسی کیا بات ہے جو تمہیں اندر ہی اندر کھا رہی ہے۔ جس نے تمہیں مجھ سے متنفر کردیا ہے۔
آخر تم مجھ سے کھل کر بات کیوں نہیں کر لیتی۔
میں ساری تمہاری غلط فہمیاں دور کر دوں گا۔
بس ایک بار صرف ایک بار مجھ پر بھروسہ کرکے دیکھو۔ ”
وہ آہستہ آواز میں اس سے بات کرنے لگا۔
جو ظاہر ہے زوہا نے نہیں سنا۔
وہ گہری نیند میں تھی۔
پھر ایک فیصلہ کرکے وہ اٹھا۔
” تم تو کچھ بتا نہیں رہی۔ اب مجھے ہی اپنے طریقے سے پتہ لگانا پڑے گا۔ ”
اس نے سوچ لیا تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور جا کر صوفے پر لیٹ گیا۔ کیونکہ اب زوہا زوال کا رویہ کچھ عجیب ہی لگ رہا تھا۔ اگر ماں باپ سے جدائی کا غم تھا تو بھی اب تک سنبھل جانا چاہیے تھا پر زوہا کا رویہ عجیب ہی ہوتا جا رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صبح فجر کے وقت ہی زوہا کی آنکھ کھل گئی۔
تھوڑے حواس بحال ہوئے تو دیکھا سائیڈ ٹیبل پر اسکی ساری جیولری رکھی ہوئی تھی تو اس نے فورا اپنے گلے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ خالی تھا۔
پھر اسکی نظر صوفے پر سوئے داور پر پڑی تو ساری کہانی اسکی سمجھ میں آگئی۔
اسے اس کی اس دیدہ دلیری پر غصہ آنے لگا۔
وہ غصے سے اٹھی اور جا کر ایک جھٹکے سے داور کا کمبل کھینچ کر اتارا۔
داور ہڑبڑا کر اٹھا۔
” کیا ہوا؟ ”
زوہا کو دیکھ کر اس نے بھاری آواز میں پوچھا۔
” آپ کی ہمت کیسے ہوئی مجھے ہاتھ لگانے کی؟ ”
” میں نے تمہیں کب ہاتھ لگایا۔ کیا بولے جارہی ہو؟ ہوش میں تو ہو۔ ”
داور نیند میں اٹھائے جانے کی وجہ سے جھنجھلا کر بولا۔
” اچھا! آپ نے ہاتھ نہیں لگایا؟ تو رات کو میری جیولری آپکے فرشتوں نے اتاری تھی۔ ”
” ہاں تو وہ میں نے تمہارے آرام کی وجہ سے اتاری تھی۔ تم ڈسٹرب ہو رہی تھی اسکی وجہ سے۔ ”
وہ بولا اور پھر اسکو شانوں سے جکڑ کر اپنے قریب کیا۔
” دوسری بات۔ بیوی ہو تم۔ جب چاہوں تمہیں ہاتھ لگا سکتا ہوں۔ ٹائم دے رہا ہوں تمہیں اسکا یہ مطلب نہیں کہ جو تمہارے دل میں آئے گا کروگی۔ ”
پھر ایک جھٹکے سے اسے چھوڑکر واشروم کی جانب بڑھ گیا۔
پیچھے زوہا سکتے میں آگئی وہ کیسے بھول گئی کہ وہ ایک مرد ہے وہ بھی ایک عیاش مرد (زوہا کی نظر میں) آخر کب تک بچ سکتی ہے اس سے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دوسری طرف داور کو خود پر غصہ آرہا تھا کہ کیسے وہ زوہا سے اس لہجے میں بات کرگیا۔
اسے نیند میں سے اٹھائے جانے پر ہمیشہ غصہ آتا تھا۔
دوسرا زوہا کے رویے کی ٹینشن۔
وہ ساری فریسٹریشن زوہا پر نکال گیا۔
وہ اس وقت ڈیرے پر موجود تھا ۔۔گھر سے ناشتہ لئے بغیر ہی نکل آیا تھا۔
گلزار بیگم بولتی ہی رہ گئیں۔
یہاں آکر اسنے اپنے خاص ماتحت کو بلوایا۔
” جی سائیں! حکم کریں۔ ”
اس کا ملازم عاجزی سے بولا۔
” ہاں ایک خاص کام ہے تم سے۔ یاد رہے بات تمہارے اور میرے درمیان رہنی چاہیے۔ ”
” سائیں اپ کا راز میرا راز۔ حکم کریں آپ۔ ”
” یہ جو فائز ہے اپنے زوار کا دوست۔ ”
اس نے زوہا کا حوالہ دینے سے گریز کیا۔
” جی سائیں کیا کرنا ہے اسکا؟ ”
” پتا تو کرو کہ اپنی شادی سے کیوں بھاگا تھا وہ۔ ”
” سائیں کام ہو جائے گا۔ ”
” دو دن۔ دو دن کا وقت ہے تمہارے پاس۔ دو دن میں مجھے ساری خبر چاہیے۔ ”
” جو حکم سائیں۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“زوہا! بات سنو۔ ”
داور شام میں کمرے میں آیا اسے دیکھ کر زوہا کمرے سے جانے لگی تو داور نے اسے پکارا۔
زوہا اس کی بات کو نظر انداز کرکے جانے لگی تو داور نے آگے بڑھ اسکا ہاتھ پکڑا۔
” ہاتھ چھوڑیں میرا۔ ”
زوہا ہاتھ چھڑاتی ہوئی بولی۔
” ادھر آئو ایک دفعہ اطمینان سے میری بات سن لو۔ ”
اس نے لے جا کر اسے بیڈ پر بٹھایا۔
” میں تم سے صبح والے رویے پر معافی چاہتا ہوں۔ میں پریشان تھا اسی پریشانی میں تم پر غصہ کرگیا۔ ”
” ہاں آپ جاگیرداروں کا عورتوں پر ہی تو بس چلتا ہے۔ ”
وہ غصے سے اسے دیکھتی بولی۔
” آف تمہیں کس نے اتنی غلط خبریں دی ہوئی ہیں جاگیرداروں کے بارے میں۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔ ”
وہ ماتھے پر ہاتھ مارتا ہوا بولا۔
” مجھے سب اب پتا ہے مجھے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ پہلے ہی بہت مسئلے ہیں میری زندگی میں۔ ”
” یار اتنی بدگمانی کیوں ہے مجھ سے۔ کیا پریشانی ہے مجھ سے بتائو۔ میں اسے حل کرنے میں پوری طرح تمہارا ساتھ دوں گا۔ ”
” یہ اچھا ہے پہلے مشکلات پیدا کریں اور بعد میں بولیں میں ختم کر دونگا ساری مشکلات۔ ”
” کیا مشکلات پیدا کی ہیں میں۔ یہی پوچھ رہا ہوں اگر آپ بتانا پسند کریں تو۔ ”
وہ جھنجھلا کر بولا۔
” واہ پہلے فائز بھائی کو اغوا کروایا۔ پھر وہ تصویریں۔ میرے ماں باپ کو مجھ سے بدگمان کردیا۔ پوری دنیا میں انکا تماشہ بنا دیا۔ اب انجان بن کر پوچھ رہے ہیں میں نے کیا کیا۔ ”
زوہا روتے ہوئ بولی۔
جب کے داور تو کتنی دیر تک اپنی جگہ سے ہل ناں سکا یہ کیا کہہ رہی تھی وہ۔
” زوہا م۔میری بات سنو۔ میں نے کچھ نہیں کیا ایسا خدا گواہ ہے۔ ”
” بس کردیں آپ کم از کم اپنا جھوٹ سچ ثابت کرنے کے لئے خدا کو تو بیچ میں مت لائیں۔ ”
اس سے پہلے وہ کچھ بولتا اس کا فون بجا اس نے جیب سے فون نکالا تو اس کے ماتحت خاص کا نام جگمگا رہا تھا۔
اس نے لب بھینچ کر فون ریسیو کرکے کان سے لگایا۔ اور بالکونی کی جانب بڑھ گیا۔
” ہاں بولو۔ کیا خبر ہے؟ ”
” سائیں لڑکا بھاگا نہیں تھا۔ کسی نے اٹھوایا تھا اسکو اور کافی مار پیٹ کرکے چھوڑا تھا۔ ”
” ہممممم۔ اب تمہارا اگلا کام یہ ہے کہ پتا لگوائو اٹھوایا کس نے تھا اسے۔ ”
” سائیں کام ہو تو جائے گا پر ذرا مشکل سے۔ جس نے بھی یہ سب کیا ہے بڑی رازداری سے کیا ہے۔ ”
” جتنی جلدی ہو سکے پتا کرو۔ ”
” جو حکم سائیں۔ ”
یہاں ایک مسئلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا آجاتا۔ اب یہ تصویروں کا پتا نہیں کیا چکر ہے۔ داور نے غصے سے گرل پر مکہ مارا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مماں کتنی مرتبہ کہہ دیا آپ سے کہ مجھے شادی نہیں کرنی ابھی۔ تو کیوں فورس کر رہی ہیں آپ مجھے۔ ”
عائلہ بیگم آج پھر مختلف لڑکیوں کی تصویریں لئے موجود تھیں جس پر فائز جھنجھلا کر ان سے بولا۔
” کیوں نہیں کرنی شادی۔ جس کا سوگ تم منا رہے ہو وہ تو خوشیاں منا رہی ہے اپنی زندگی میں۔ ابھی آئی تھی ناں تو دیکھتے تم کیا ٹھاٹھ تھے اس کے۔ ارے اسے جب وہ آسائیشوں والی زندگی مل رہی تھی تو وہ کیوں تم سے تعلق رکھتی۔ اتنا بڑا جگیردار اس کے سامنے تھا تو وہ کیوں تم جیسے نو سے پانچ جاب کرنے والے انسان سے شادی کرتی۔ وہ اپنی زندگی میں مگن ہوچکی ہے۔ تم بھی بھول جائو اور بڑھو اپنی زندگی میں آگے۔ ”
” ٹھیک ہے جو آپ کے دل میں آئے وہ کریں۔ ”
” یہ ہوئی ناں بات۔ اب جلدی سے ان میں سے کوئی لڑکی پسند کر لو۔ ”
وہ خوشی سے پھولی ناں سماتے ہوئے اسے تصویریں دکھانے لگی۔
” جو آپ کو ٹھیک لگے دیکھ لیں آپ مجھے آپکی پسند پر کوئی اعتراض نہیں۔ ”
وہ جان چھڑاتے ہوئے بولا۔
” بس پھر دیکھنا اس زوہا سے لاکھ درجے بہتر دولہن لائوں گی اپنے بیٹے کے لئے۔ ”
یہ کہہ کر وہ چلی گئیں۔ فائز نے اپنا سر ہاتھوں میں گرا لیا اور خود کلامی کرتا ہوا بولا۔
” کیوں۔ کیوں کیا زوہا تم نے ایسا۔ دل ابھی بھی ماننے کو تیار نہیں کہ تم ایسا کر سکتی ہو۔ پر اس کا کیا کروں جو نظر آتا ہے۔ تم اپنی زندگی میں خوش ہو تو میں بھی اب تمہیں خوش رہ کر دکھائوں گا۔ بھول جائونگا تمہیں۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس وقت گلزار بیگم اور مشعل کے ساتھ لان میں بیٹھی چائے سے لطف اندوز ہورہی تھی۔
اور ساتھ میں باتیں بھی جاری تھیں کہ زوہا گلزار بیگم کو مخاطب کرتی ہوئی بولی۔
” اماں سائیں! ایک بات کرنی تھی آپ سے۔ ”
” ہاں بولو بیٹا کیا بات ہے۔ ”
” وہ مجھے مماں اور بابا کی یاد آرہی ہے۔ اگر آپ پرمیشن دیں تو میں کچھ دن ان کو پاس رہ آئوں؟ ”
” بیٹا اس میں اجازت کی کیا بات ہے۔ آپ جائو اور رہ کر آجائو۔ بس داور سے پوچھ لینا۔ ”
انہوں نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔
” آپ خود بول دیجیئے گا انہیں۔ ”
زوہا نے جھجکتے ہوئے کہا۔
گلزار بیگم کو عجیب تو لگا کہ وہ آجکل کے زمانے کی لڑکی ہو کر وہ بھی شہر کی لڑکی ہونے کے نا وجود بھی اپنے شوہر سے خود بات کرنے کے بجائے اپنی ساس کا سہارا لے رہی تھی۔ پر انہوں نے کچھ ظاہر کیے بغیر کہا:
” ٹھیک ہے میں بول دوں گی داور سے۔ ”
” کیا بولنا ہے اماں سائیں مجھے سے ۔ ”
داور ابھی زمینوں سے گھر آیا تھا۔ تو سب خواتین کو لان میں بیٹھا دیکھ کر خود بھی ادھر آگیا۔ اور گلزار بیگم کے سامنے جھکتا ان سے پوچھنے لگا۔
” ماشاءاللہ سے بڑی لمبی عمر ہے میرے بیٹے کی۔ ہم ابھی آپ ہی کا نام لے رہے تھے۔ ”
وہ داور کا ماتھا چومتے ہوئے بولیں۔
” یہی تو میں پوچھ رہا ہوں کہ مجھے کس سلسلے میں یاد کیا جا رہا ہے۔ ”
داور نے زوہا کے برابر ہی کرسی سنبھالی اور اسکا چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے بولا۔
داور کے اس عمل پر زوہا کو غصہ تو بہت آیا پر وہ کچھ بولی نہیں۔ بس داور پر ایک ناگوار سی نظر ڈال کر رہ گئی۔ جسے داور نظر انداز کرکے مزے سے چائے پینے لگا۔
” ہاں وہ میں بول رہی تھی کہ بہو کو کچھ دن کے لیے اس کے گھر چھوڑ آئو۔ بچی کا دل چاہ رہا ہے اپنے گھر والوں سے ملنے کا۔ ”
” تو محترمہ یہ بات خود نہیں بتا سکتی تھی مجھے۔ ”
داور منہ میں بڑبڑایا۔ جسکی سمجھ پاس بیٹھی زوہا کے علاوہ کسی کو نہیں لگی۔
” کیا کہہ رہے ہو بیٹا۔ ”
گلزار بیگم نے پوچھا۔
اس سے پہلے کہ داور جواب دیتا مشعل بول پڑی۔
” بھائی بول رہے ہیں بھابھی چلی جائیں گی تو انکا دل نہیں لگے گا۔ کیوں صحیح کہا ناں بھائی۔ ”
” زیادہ زبان نہیں چل رہی تمہاری۔ چپ رہنا بھی سیکھو ورنہ زوار بولے گا کس کان کھانے والی مشین کو میرے پلے باندھ دیا۔ ”
داور نے اسے مصنوعی غصے سے ڈانٹا۔ اس کی بات پر وہاں موجود سب کے چہروں پر مسکراہٹ بکھر گئی۔
” اماں سائیں آپ دیکھ لیں ادا سائیں کو۔ ”
مشعل چیخی۔
” میں کہہ رہا تھا کل ڈیرے سے واپس آکر چھوڑ آئوں گا۔ ”
داور نے گلزار بیگم کو جواب دیا۔
” زوہا بیٹا تم پیکنگ کر لینا۔ ”
گلزار بیگم نے زوہا سے کہا۔
” جی ٹھیک ہے۔ ”
اس نے آہستہ سے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگلے دن زوہا داور کے ساتھ اپنے گھر آگئی۔ داور کچھ دیر بیٹھ کر اسے چھوڑ کر چلا گیا۔ زوہا نسرین بیگم کے ساتھ ان کے کمرے میں چلی گئی اور دونوں باتوں میں مشغول ہوگئی۔ ابھی نسرین بیگم کسی کام سے باہر گئی تھیں کہ انکے کمرے کا دروازہ بجا۔
دروازہ کھلا اور رمشا بولتی ہوئی اندر داخل ہوئی۔
” چچی! یہ امی۔ ”
زوہا کو دیکھ کر رمشا کی چلتی زبان کو بریک لگا۔
“میں بعد میں آتی ہوں۔ ”
یہ کہہ کر رمشا واپس جانے لگی۔
“رمشا! پلیز ایک دفعہ میری بات سن لو۔ تمہیں ہماری دوستی کی قسم۔ ”
زوہا بولی۔
” بولو۔ میں سن رہی ہوں۔ ”
رمشا بغیر مڑے بولی۔
زوہا رمشا کے پاس گئی اور اسکا رخ اپنی طرف موڑتی ہوئی بولی۔
” میری آنکھوں میں دیکھو۔ اور بولو کہ میں ایسا کرسکتی ہوں۔ تم تو بچپن سے رہی ہو میرے ساتھ۔ میری ہر اچھی بری عادت سے واقف ہو۔ اسکے باوجود بھی تم مجھے قصوروار مانتی ہو؟ ”
” یہ سب باتیں اپنی جگہ۔ پر زوہا میں اپنے بھائی کی حالت بھی نظرانداز نہیں کرسکتی جو تمہاری وجہ سے ہوئی ہے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد مجھے لگتا تم وہ زوہا نہیں ہو جسے میں جانتی تھی۔ پر خیر جو ہونا تھا ہو چکا۔ اسے بدلا تو نہیں جا سکتا۔ جیسے تم اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئی ہو اپنی خوشی کو حاصل کرچکی ہو ویسے ہی اب بھائی بھی اپنی زندگی میں آگے بڑھ گئے ہیں۔ یہی بتانے اور مٹھائی دینے کیلئے امی نے مجھے بھیجا تھا۔ لو مٹھائی کھائو۔ ”
رمشا زوہا کے منہ رس گلا ڈالتی ہوئی بولی۔
” ایک خوشخبری تو یہ کہ فائز بھائی کی منگنی ہوگئی ہے اور دوسرا میرا میڈیکل کالج میں ایڈمیشن ہوگیا ہے۔ ”
رمشا کی بات سن کر زوہا کو اپنے ادھورے خواب پھر سے یاد آگئے تھے۔
” مبارک باد نہیں دو گی زوہا مجھے۔ ”
” ہاں ہاں۔ بہت مبارک ہو تمہیں۔ فائز بھائی کو بھی دینا مجھے کچھ کام ہے میں آتی ہوں ابھی ۔ ”
زوہا بڑی مشکل سے اپنی بات کہہ کر وہاں سے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر زوہا جو کچھ دن رہنے کے لیے آئی تھی۔ اگلے دن ہی گلزار بیگم کو فون کر کے داور کو بلوایا اور واپس آگئی۔
زوہا کے دل میں داور کے لئے نفرت میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔
” ویسے یار تم سے میری ایک رات کی بھی جدائی برداشت نہیں ہوئی۔ ایک دن تو اور رک جاتی آنٹی انکل کو برا لگے۔ ”
” لگتا ہے خاصے خوش فہم انسان ہیں آپ۔ پر بے فکر رہیں کسی کو کچھ برا نہیں لگے گا۔ کیونکہ آپکی وجہ سے میری محبت کا گراف ان کے دلوں میں اتنا بڑھ گیا ہے کہ میرے قریب یا دور رہنے سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ”
زوہا کا طنز سے بھرپور جواب سن کر داور سوچ میں پڑ گیا کہ جو بھی غلط ہے وہ اس کو صحیح کرکے ہی رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...