ہنہہ۔۔۔نکلی نا بیٹی بھی ماں جیسی۔۔۔گھٹیا اور بدچلن– نائلہ بیگم سے اپنے بھائی کا حال دیکھا نہیں جارہا تھا- صفدر شاہ کو فالج کا اٹیک ہوا تھا– سب ہسپتال میں تھے- مزمل نے وعدے کے مطابق اسی دن بتول سے نکاح کرنے بجائے شادی کرلی تھی-
صفیہ بیگم اور نائلہ بیگم کا کام تو مصطفی ہمدانی بہت آسان کر گیا تھا اور وہ دونوں خوش ہوگئیں تھیں پر مزمل جینا بھول گیا تھا۔۔۔وہ ایک روبوٹ کی مانند ہوچکا تھا– اسے اب تک یقین نہیں آرہا تھا کہ سجل اسے دھوکہ دے کر جاچکی ہے-
بھابھی کیوں اپنا بی- پی ہائی کر رہیں۔۔۔دیور جی ٹھیک ہوجائیں گے۔۔۔۔اس منحوس ماری نے منہ دکھانے کے لائق ہی نہ چھوڑا ہمیں۔۔۔تو دیور جی کو صدمہ تو لگنا ہی تھا-
صفیہ بیگم منہ کے زاویے بگاڑ کر بولیں-
امی میں گھر جارہا ہوں۔۔۔آپ لوگ آجائیے گا– مزمل کو انکی باتیں بری لگی تھیں اسی لیے بتول کو بھی چھوڑ کر بھاگ گیا تھا اور بتول اسے روکتے رہ گئی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سر۔۔۔سوری۔۔۔ انکا خون بہت ضائع ہوچکا ہے۔۔۔آپکو بلڈ ارینج کرنا پڑے گا ورنہ انکی جان کو خطرہ ہوسکتا ہے- ﮈاکٹر اسکو بتا کر جاچکے تھے- اور وہ کافی دیر تک سوچتا رہا کہ کیا کرے- اسکو اچانک یاد آگیا کہ اسکا بھی بلڈ گروپ یہی ہے جو ڈاکٹر نے انتظام کرنے کا کہا۔۔
سر آپ نے بلڈ ارینج کیا؟ نرس اس سے آکر پوچھ رہی تھی اور وہ اثبات میں سر ہلاتا اسکے ساتھ چل پڑا– جو شخص اس لڑکی اور اسکے باپ سے نفرت کرتا تھا۔۔۔وہی شخص آج اس لڑکی کی جان بچا رہا تھا۔۔۔وہ چاہتا تو اسے مرتا چھوڑ کر کب کا جاچکا ہوتا- پر وہ ایک انسان بھی تھا اور اس میں ابھی انسانیت باقی تھی–
سجل کو ہوش آچکا تھا- پر ہسپتال کو دیکھ کر اسے کچھ سمجھ نہ آئی-
سر آپ اپنی وائف سے مل سکتے ہیں۔۔۔انکو ہوش آگیا ہے- نرس اسے بول کر جاچکی تھی اور وہ وائف لفظ میں ہی کھویا رہ گیا پھر سر جھٹک کر اٹھ کھڑا ہوا اور سجل کے پاس آگیا-
سجل۔۔۔وہ اسے پکارا تھا تو اس نے آنکھیں میچ لیں تھیں۔۔۔وہ اس شخص کو دوبارہ اپنی زندگی میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی پر قسمت کو یہی منظور تھا–
سجل آنکھیں کھولو۔۔۔وہ اب اس پر جھک کر اسکا گال تھتپا رہا تھا اور سجل کو اپنا سارا خون نچڑتا ہوا محسوس ہوا-
ہٹ جاؤ مجھ سے دور۔۔۔اسکے ہاتھ میں ﮈرپ لگی تھی پر جب اسنے مصطفی کو دھکا دیا تو ﮈرپ نکل چکی تھی-
میم۔۔۔۔یہ کیا کیا آپ نے؟ نرس اسکی چیخ سن کر فوراً اسکے روم میں آئی-
آپ جانتی ہیں آپکے شوہر نے ہی آپکو بلڈ دیا ہے اور آپ انکے ساتھ ایسے بے ہیو کررہی ہیں-
سجل نرس کی باتیں سن کر مصطفی کی طرف دیکھی تھی۔۔۔دونوں کی نظروں کا آپس میں تصادم ہوا تھا اور پھر سجل نفرت سے دوسری طرف منہ موڑ گئی تھی پر تب بھی اسے مصطفی کی نگاہیں اپنے اوپر محسوس ہورہیں تھیں-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
وہ دو دن ہسپتال رہ کر گھر بلکہ اپنے قید خانہ میں واپس آچکی تھی- مصطفی اسے واپس بیسمنٹ والے روم میں چھوڑ کر دروازے پہ تالا ﮈال کر جاچکا تھا- اور اب شام ہونے کو آئی تھی اور وہ لوٹ کر واپس نہیں آیا تھا-
وہ واپس اوپر کی طرف آئی تھی تاکہ دروازہ بجاکر اسے بلا سکے۔۔۔اسنے دروازے پہ ہاتھ رکھا ہی تھا کہ لاک کھلنے کی آواز آئی-
اوہ۔۔تو تم میرے انتظار میں بیٹھی تھی سجل شاہ- چلو ایک بات بتاؤ۔۔۔اگر میں تمہیں یہاں بند کرکے ہمیشہ کیلئے چلا جاؤں تو کیا کروگی تم– اپنی ﮈائری کے ساتھ رہ لوگی- وہ اسکا ہاتھ پکڑ کر کچن سے ہوتا لاؤنج میں آچکا تھا-
میری ﮈائری؟ وہ جو اپنی ﮈائری کو چھوڑتی نہ تھی اب 4 دن گزرنے کے بعد اسے پتہ لگا تھا کہ اسکی ﮈائری گم ہوچکی ہے-
بتاؤ۔۔۔کیا ہوا؟ وہ اسکی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا تھا جس میں سے دو موتی گرے تھے۔۔۔۔اسکے آنسو کو موتی سی ہی تشبیہہ دی جاسکتی تھی کیونکہ وہ کم روتی تھی اور جب روتی تھی تو موٹے موٹے آنسو بہاتی تھی-
میری ﮈائری کھو چکی ہے۔۔۔۔اور میں آپکو کیا زندہ نظر آرہی ہوں جو آپ یہ سوال کر رہے ہیں- وہ اپنی انگلیاں مروڑتے ہوئے بولی-
اوہ۔۔بہت افسوس ہوا آپکی ﮈائری گم ہوگئی۔۔۔۔ویسے بھی اب ﮈائری کا تو فائدہ نہیں ہے۔۔۔اتنی بری زندگی کے بارے میں تو آپ لکھنے سے رہیں– وہ مزاحیہ انداز میں بولا اور سجل شاہ کی پوری زندگی میں ایک یہی شخص تھا جس سے اسے نفرت ہونے لگی تھی-
اگر وہ گم نہ ہوتی تو میں تب بھی لکھتی اور مصطفی ہمدانی اس ﮈائری کو سارے اخبارات میں چھپواتی پھر دیکھتی کہ تم کیسے جی پاتے– وہ نفرت سے پھنکاری–
ہاہاہاہا۔۔۔۔ہنساؤ نا سجل شاہ– بھول رہی ہو میں ایک پولیس آفیسر ہوں۔۔۔۔ یہ سب کرنے سے پہلے میں تمہیں مار بھی سکتا تھا اور تمہاری یہ سب باتیں صرف کہنے کی ہیں– تمہارا تماشہ لگتے تو میں دیکھوں گا جب تم پہ ساری دنیا تھوکی گی اور میں خوشیاں مناؤں گا– وہ اس کا ہاتھ زبردستی تھام کر ﮈائننگ ٹیبل پر لے آیا جہاں ٹیبل لوازمات سے بھری پڑی تھی-
آج میری سالگرہ ہے۔۔۔۔اور 4 جنوری کا دن میں اپنی ساری زندگی نہیں بھولا ہوں- تمہیں یاد نہیں ہوگا کیونکہ تم اس وقت دو سال کی تھی پر مجھے آج تک ایک ایک بات یاد ہے سجل شاہ۔۔۔۔ آؤ کیک کاٹتے ہیں۔۔۔۔کل تمہارا بھی کاٹیں گے- سجل اسکی باتوں پہ حیرانگی سے اسے دیکھ رہی تھی- اسکو کچھ بھی سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا باتیں کر رہا ہے اور کیسے اسکی سالگرہ کا اسے پتہ ہے-
جو تم سوچ رہی اس سب کا جواب تمہارا باپ ہی دے گا۔۔۔ابھی انجوائے کرو-
مصطفی اب اسکا ہاتھ تھام کر اسکے ساتھ کیک کاٹ رہا تھا- اور کیک کا پیس اٹھا کر اسے کھلایا تھا-
چلو۔۔اب تمہاری باری ہے۔۔مجھے کھلانے کی– سجل نے اسکے کہنے پر زبردستی اسکے منہ میں کیک کا ٹکڑا ٹھونسا تھا-
ایک پکچر تو بنتی ہے اس خوشی کے موقعے پر- مصطفی جیب سے اپنا موبائل نکال چکا تھا-
سجل کو اسکی یہ حرکتیں بلکل بھی سمجھ نہ آرہیں تھیں پر اسنے زبردستی سمائل کرکے ایک تصویر بنوالی تھی-
یہ لو۔۔۔ تصویر گئی تمہارے باپ کو– اب تو شاید وہ اسے دیکھ کر مر ہی جائے۔۔۔چچ چچ بچارا– مصطفی اسکے باپ کو اور مزمل کو پکچرز سینڈ کرچکا تھا اور جب سجل کو اسکی بات سمجھ آئی تو وہ روتے ہوئے کچن کی طرف بھاگ گئی–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مزمل یہ تمہارے موبائل پر پکچر آئی ہے-
بتول خوشی خوشی اسے دکھانے لائی تھی کیونکہ وہ سجل شاہ کی تصویر مصطفی کے ساتھ دیکھ چکی تھی-
کونسی پکچر بیٹا۔۔۔ارمان شاہ اور مزمل صفدر شاہ کے پاس ہی بیٹھے تھے اور بتول باہر بیٹھی تھی-
ماموں جان۔۔۔۔سجل اور اس انسپکٹر کی تصویر۔۔۔دیکھیں خود خوش ہے اور ہمارا جینا حرام کردیا ہے- بتول کی ساری باتیں صفدر شاہ بھی سن رہے تھے-
ہنہہ میرے بھائی کو اس حال میں پہنچاکر خود عاشق کے ساتھ مزے کر رہی ہے– ارمان شاہ کی باتوں پر صفدر کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے تھے- وہ جانتے تھے انسپکٹر مصطفی کون ہے اور اسکی بیٹی کس کے کیے کی سزا بھگت رہی ہے۔۔۔۔آج کلثوم بانو کی باتیں سچ ہوگئیں تھیں کہ یہ زندگی مکافات عمل ہے۔۔۔۔کسی کو دکھ دے کر ہم خود بھی کبھی خوش نہیں رہ سکتے– ایک نہ ایک دن ہمیں اس سب کیے کی سزا بھگتنی پڑتی ہے- اور آج سجل شاہ اپنے باپ کے کیے کی سزا بھگت رہی تھی- اور مصطفی ہمدانی اپنے باپ کا انتقام لے رہا تھا—-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
5جنوری کی صبح کا سورج طلوع ہوگیا تھا اور وہ جائے نماز پر بیٹھی اللہ کے سامنے رو رو کر اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہی تھی- مصطفی ہمدانی جو نماز کے بعد جاگنگ کیلئے جارہا تھا۔۔اسے اللہ کے سامنے سجدے میں روتا دیکھ کر وہیں صوفے پر بیٹھ گیا اور اسکے فارغ ہونے کا انتظار کرنے لگا–
اے اللہ تو نے مجھے کس گناہ کی سزا دی ہے۔۔۔۔میں تو ہمیشہ تیرے سے اپنی گناہوں کی معافی مانگا کرتی تھی پھر وہ شخص کیوں مجھے سزا دے رہا ہے۔۔۔وہ کیوں کہتا کہ سب کچھ میں اپنے باپ سے پوچھو۔۔۔اللہ تو تو جانتا ہے نا سب کچھ تو۔۔۔ تو مجھے بتا کہ میرے باپ نے ایسا کونسا گناہ کیا تھا جس کی سزا وہ شخص ایک کانچ کی گڑیا کو دے چکا ہے- کیا وہ نہیں جانتا اللہ کہ جب کانچ کی گڑیا ٹوٹ جاتی ہے تو اس پر کیا گزرتی ہے۔۔۔میرے پیارے اللہ اگر میرے باپ سے کوئی غلطی ہوئی ہے تو۔۔۔۔تو اسے معاف کردے- تو سب کچھ کرسکتا ہے۔۔بے شک تو بڑا رحیم و کریم ہے- سجل رو رو کر دعائیں مانگ رہی تھی۔۔۔۔مصطفی اس سے آگے کچھ نہ سن سکا تھا اور اٹھ کر باہر چلا گیا-
جاگنگ کرتے وقت وہ مسلسل سجل کے بارے میں سوچے جا رہا تھا کہ اسکا کیا قصور تھا اس سب میں۔۔۔وہ کیوں اپنے باپ کا کیا بگھت رہی تھی– پر جب جب اسے اپنے باپ کی موت یاد آتی وہ پھر سے ان دونوں باپ بیٹی سے نفرت کرنے لگتا- اسے وہ رات بھولتی نہ تھی- اسے لگتا تھا اس شخص نے میری ماں کو بھی تو توڑا تھا تو میں اسکی بیٹی کو کیوں نہیں توڑ سکتا۔۔۔جب وہ اتنا بڑا گناہ کر کے نہیں پچھتایا تو میں کیوں پچھتاؤں گا۔۔۔۔میں بھی اسی کی طرح سب بھول کر اپنی زندگی میں آگے بڑھ جاؤں گا۔۔۔۔وہ اپنے آگے کی سوچ رہا تھا۔۔۔وہ یہ نہیں سوچ رہا تھا کہ آگے اس کانچ کی گڑیا کا کیا ہوگا۔۔۔۔وہ کہاں جائی گی۔۔۔کیسے ساری زندگی گزارے گی کیونکہ اسکی ماں کے پاس تو اسکا بیٹا تھا پر اس لڑکی کے پاس کوئی نہ تھا۔۔۔۔تب بھی وہ لڑکی صرف اللہ کے سامنے گڑگڑا رہی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
”میں اک کانچ کی گڑیا۔۔
ہواۓ دہر کی زد میں کبھی ٹوٹی۔۔
کبھی بکھری۔۔
میں وقت کی آنکھ میں ٹھہرا ہوا۔۔
بے رنگ سا آنسو۔۔
کہ جس کی منزلیں زمین کی پہنائیاں ٹھہری۔۔
میں آنگن کے درو دیوار پر ٹھہرا۔۔
اک خزاں زدہ موسم۔۔
جسے کوئی دیکھنا چاہے نہ خواہش ہو چھونے کی۔۔
میں اک کانچ کی گڑیا۔۔
میں بے رنگ سا آنسو۔۔
میں خزاں زدہ موسم۔۔
!مگر، رکو ، سنو ، دیکھو۔۔
میں انسان بھی تو ہوں۔۔
میرے احساس کے زخمی بدن کو نرم لفظوں کا مرہم دو۔۔
میرے بے رنگ ہاتھوں کو کبھی تو کوئی رنگ دے دو۔۔
محبت نہ سہی۔۔
مگر اتنا ہی کردو تم۔۔
فقط اعتبار کا اک لازوال پل مجھے دے دو۔۔“
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
موسم بدلتے ہی سردی میں اضافہ ہوگیا تھا- اندھیرے کو چیڑتی سورج کی پہلی کرن نے مرگلہ کے پہاڑوں پہ اپنا قدم رکھ دیا تھا- پہاڑوں کو پاٹتی سورج کی نرم گرم روشنی اسلام آباد کے مکینوں کیلئے صبح کا پیغام لائی تھی- وہ جو فجر کی اﺫان سنتے ہی اٹھ جاتی تھی آج نہ اٹھ پائی اور اب موبائل کی رنگ ٹون بجنے کی آواز پر اٹھی تھی–
ہیلو۔۔۔۔کون؟ اسنے نمبر دیکھے بغیر ہی کال اٹینڈ کرلی تھی–
باجی۔۔۔وہ میں نوری بات کر رہی ہوں- آپ کے پاس کل میں آئی تھی نہ اپنے ایک سلسلے میں- تو آج بھی میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں پر آپ اب تک پہنچی نہیں ہیں-
اوہ ہاں نوری معاف کرنا۔۔۔میں تھوڑی دیر تک آتی ہوں۔۔۔تم وہیں رہنا اوکے۔۔۔خدا حافظ– وہ رابطہ منقطع کرکے بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی- پھر تیار ہو کر کمرے سے باہر نکل کر نیچی آئی اور کچن میں ناشتہ بنانے لگی۔۔۔وہ اس بڑے گھر میں جو اسلام آباد کی مرگلہ کی پہاڑیوں پہ تھا اس میں اکیلی رہتی تھی- اور سارا دن گھر سے باہر اپنے ورکرز یا جن لوگوں کی مدد کیلئے اس نے اپنا ادارہ کھول رکھا تھا وہاں پائی جاتی– اتوار کا دن وہ صرف گھر میں گزارتی تھی کیونکہ اس دن اسے سارے گھر کی صفائی کرنی ہوتی تھی-
اسی دوران اسکی دوبارہ کال آنے لگی- وہ سلائس پر جیم لگاتے ہوئے کال اٹھا چکی تھی-
ہیلو۔۔۔مسز اقبال- کیسی ہیں آپ؟ اسکی بات پر دوسری طرف سے جواب دیا گیا-
جی مسز اقبال سوری آپکو انتظار کرنا پڑا۔۔۔مجھے صرف 15 منٹ دیں- میں آپکے پاس ہونگی۔۔۔خدا حافظ– اسکی روٹین تھی یہ کھاتے ہوئے بھی کال پر بات کرنا کیونکہ اسے اپنے کام سے بہت پیار تھا اور ہر کسی کو جواب دینا وہ اپنا فرض سمجھتی تھی۔۔۔۔آج تک کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہوگا جو اسکے پاس آیا ہوگا اور اسنے اسے جواب نہ دیا ہو۔۔۔۔اسے ہر کسی کی مدد کرکے سکون ملتا تھا–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
میں آج تمہیں تمہارے گھر چھوڑنے جارہا ہوں۔۔۔ مصطفی ہمدانی نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ اسکو چھوڑ آئے گا-
اچھا۔۔۔بہت جلدی خیال نہیں آگیا مصطفی ہمدانی- کہاں گئیں وہ باتیں کہ تم مجھے توڑو گے اور مہینہ بھر یہاں رکھو گے۔۔۔ سجل جو اسکے گھر کے لاؤنج میں ہی بیٹھی تھی اسکے کہنے پر استہزایہ انداز میں بولی-
ہاں۔۔۔بہت جلدی خیال آگیا ہے۔۔۔خیال بدل جائے۔۔۔اس سے پہلے اچھا ہے کہ تم چلو میرے ساتھ–
نہیں جاؤں گی میں– ساری زندگی تمہارے سر پہ ہی پڑی رہوں گی سن لو تم۔۔۔۔وہ شہادت کی انگلی اٹھا کر وارننگ دینے والے انداز میں بولی اور اوپر مصطفی کے کمرے میں بھاگ کر لاک لگا چکی تھی۔۔۔مصطفی اسکی اس حرکت پر کھول اٹھا تھا– وہ کچن میں سے چابیاں نکال کر اوپر اپنے روم کی طرف بڑھنے لگا-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
سجل بیٹی۔۔۔یہ آخری موقع ہے۔۔جلدی جلدی ﮈھونڈ ورنہ وہ کسی بھی وقت آجائے گا- وہ خود سے بات کرتے ہوئے اسکے لاکر میں گھسی تھی- اسکو اس گھر سے جانا ہی تھا پر یہ دیکھ کر کہ مصطفی ہمدانی نے کیوں اسکے ساتھ یہ سب کیا اور اسے لگا تھا کہ کوئی فائل وغیرہ مصطفی نے چھپا کر رکھی ہوگی یا اپنی کوئی ﮈائری وغیرہ جس میں سب کچھ لکھا ہوگا– وہ اسکے لاکر کا لاک کھولنے کی کوشش کررہی تھی۔۔۔اسکی سالگرہ کی تاریخ بھی لگا کر دیکھ چکی تھی پر وہ کھل نہیں رہا تھا-
4455 لگاؤ۔۔۔کھل جائے گا- سجل اسکی آواز پر اچھل گئی تھی۔۔۔اسے لگا تھا اسکی موت کا فرشتہ قریب آچکا ہے–
کیا ہوا سجل بی بی لگاؤ نا۔۔۔۔جو کچھ تم ﮈھونڈنا چاہ رہی ہو وہ اسی میں تو ہے۔۔۔وہ اب اسکے پاس آکر کھڑا ہوگیا تھا اور سجل کو بھاگنے کا موقع دیے بغیر اسکا ہاتھ پکڑ چکا تھا-
اوہو۔۔۔کہاں گئی لمبی زبان جو نیچے چل رہی تھی– خیر تم نہ لگاؤ۔۔میں لگا دیتا ہوں پھر جو کچھ تمہیں دیکھنا ہو دیکھ لینا-
وہ اب اپنا لاکر کھول چکا تھا-
یہ لو دیکھ لو۔۔۔۔کتنے پیسے لے جانا چاہتی ہو؟ لے جاؤ سب کیونکہ اگلے دنوں تمہیں انکی ضرورت پڑ سکتی ہے- اسکے لاکر میں پیسوں کے علاوہ کچھ نہ تھا-
نہیں چاہیے مجھے کچھ بھی۔۔۔۔صرف اتنا بتا دو کیوں میری زندگی برباد کی۔۔۔۔کیا ملا تمہیں یہ سب کرکے۔۔۔۔کوئی خوشی؟ اگر تمہاری بہن کے ساتھ کوئی یہی سب کرتا تو پھر میں تم سے پوچھتی مصطفی ہمدانی۔۔۔کیسا لگتا ہے اپنی بہن کو رسوا ہوتا دیکھنا—- وہ چیخ چیخ کر بولتی چلی گئی تھی-
اسٹاپ اٹ۔۔۔بکواس بند کرو سجل شاہ۔۔۔۔ مصطفی ہمدانی کا بس چلتا تو اس بات پر اسکا گلا دبا چکا ہوتا– شاید یہ میری نرمی کا نتیجہ ہے جو تم مصطفی ہمدانی کے کمرے میں گھس کر میری چیزوں پر ہاتھ ﮈال رہی ہو– اور رہی بات تمہیں رسوا کرنے کی تو یہی کام تمہارا باپ کب کا کرچکا ہے– اور شاید اب مجھے یہ بتانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کہ کس کے ساتھ کیا کرچکا ہے- وہ اس سے بھی زیادہ زور سے چیخا تھا۔۔۔سجل کی رنگت لال ہوچکی تھی- مصطفی نے اگر اسکا ہاتھ نہ پکڑا ہوتا تو وہ اس کمرے سے بھاگ چکی ہوتی-
چلو۔۔۔۔تمہارا وقت آچکا ہے کانٹوں بھری زندگی گزارنے کا- اور آج کے دن کے بعد کوئی دن ایسا نہ ہوگا جسکو تم بھول پاؤ گی– وہ اسکا زبردستی ہاتھ پکڑے اسے نیچے لے آیا اور اپنی گاڑی میں فرنٹ سیٹ پر بٹھا کر خود ﮈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی اپنے گھر سے نکال لے گیا- سجل اس گھر کو آگ لگنے کی بددعائیں دیتی ہوئی جاچکی تھی-
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
باجی۔۔۔باجی۔۔۔وہ مجھے کل رات بھی دھمکیاں دے رہا تھا- نوری اسکے آفس میں بیٹھی رو رہی تھی-
نوری رو مت۔۔بہادر بنو اگر تم رو گی تو مرد خوش ہوگا کہ تم اس سے ﮈر کر رورہی ہو اور اسکے رعب میں ہو- وہ اسے سمجھانے لگی-
باجی وہ کہتا ہے میں کماؤں اور وہ خود گھر بیٹھا رہ۔۔۔مجھے راتوں کو کتوں کے حوالے کرنا چاہتا ہے۔۔۔بتائیں کیا میں برداشت کرسکتی باجی- کتنی ساری گاؤں کی عورتیں ایسا ہی کر رہی ہیں تاکہ انکا شوہر انہیں نہ مارے پر میں یہ نہیں کرسکتی باجی– نوری کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے-
نوری میں تمہارے ساتھ ہوں۔۔یہ مرد ہم عورتوں کو ایک شے سمجھتے ہیں- تم آج گھر جاؤ اور اس سے دوبارہ بات کرنے کی کوشش کرو کہ وہ سمجھ جائے تمہاری بات کو اور اگر ایسا نہ ہوا تو تم یاد رکھنا اللہ نے جب تمہیں مجھ تک پہنچوایا ہے تو وہی تمہاری آگے مدد بھی کرے گا- اللہ سے کسی بھی وقت گلے شکوے نہ کرنا کیونکہ جب اس دنیا میں ہم تنہا ہوتے ہیں تب ایک اللہ ہی ہمارے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔۔۔شام ہونے والی ہے- تم اپنے گھر جاؤ اور شوہر کیلئے کھانا پکاؤ۔۔۔اسکا موﮈ سہی کرو پھر بات کرنا— وہ اسے دھیرے دھیرے سمجھانے لگی۔۔۔نوری اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے اللہ پر یقین رکھ کر اٹھ گئی- اور اسکے ساتھ باہر آگئی۔۔۔جہاں مسز اقبال بیٹھیں اسکا انتظار کر رہی تھیں–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
مجھے یہی اتار دیں۔۔۔۔میں خود بھی اپنے گھر جا سکتی ہوں- کسی کی محتاج نہیں ہوں- وہ لوگ ابھی مین روﮈ پر آئے تھے جب سجل نے اسے گاڑی روکنے کا بولا-
نہیں۔۔سجل شاہ میں تمہارا تماشہ دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔پھر تمہاری چلتی زبان دیکھوں گا- وہ مسکراتے ہوئے بولا تھا جیسے سجل نے کوئی مذاق کیا ہو-
ہنہہ یہ تمہاری حسرت بن جائی گی مصطفی ہمدانی ۔۔۔۔۔اتنے اونچے خواب نہ دیکھو- وہ نفرت سے بول کر منہ پھیر گئی-
اچھا۔۔۔یہ بھی دیکھ لیتے ہیں- مصطفی کہتے ہوئے سپیڈ بڑھا چکا تھا– اور پھر سارا راستہ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم رہے-
یہ لو آگیا تمہارا میکے- جہاں تم ساری زندگی سڑتی رہو گی- مصطفی خوشی سے بولا-
خدا حافظ مصطفی ہمدانی۔۔۔امید کرتی ہوں تم ساری زندگی چاہ کر بھی مجھے بھلا نہیں پاؤ گے- وہ گاڑی سے اتر کر اپنے گھر میں داخل ہوچکی تھی جہاں اسکے لیئے کوئی بھی انتظار میں نہ بیٹھا تھا اور جو بیٹھا تھا وہ اسکے آنے سے ایک دن پہلے مر چکا تھا-
سجل۔۔۔۔مزمل جو لان میں بیٹھا تھا اسے دیکھ چکا تھا- اسکے کہنے پر باقی سب پر باہر آچکے تھے-
کیا کرنے آئی ہے اب تو یہاں۔۔کیسے جرأت ہوئی اس گھر میں داخل ہونے کی۔۔۔۔نائلہ بیگم اسے دیکھ کر اپنے حوش و حواس میں نہ رہی تھیں- اور اسکے پاس آکر اسے مارنے لگیں تھیں پر انکا ہاتھ اٹھنے سے پہلے ہی سجل انکا ہاتھ روک چکی تھی-
ہنہہ میں اپنے باپ کیلئے یہاں آئیں ہوں۔۔۔اگر وہ اس گھر میں نہ ہوتا تو میں کبھی قدم بھی نہ رکھتی-
تو پھر تم اب بھی چلی جاؤ سجل۔۔۔کیونکہ تمہارا باپ مر چکا ہے- بتول اپنی ماں سے کم نہ تھی۔۔وہ بھی بول پڑی کیونکہ اسے ﮈر تھا کہ سجل کے آنے سے مزمل اسے چھوڑ بھی سکتا ہے-
تم جھوٹ کہ رہی ہو نا بتول۔۔۔تایا جان،مزمل آپ لوگ کچھ تو بولیں۔۔۔۔بتائیں یہ جھوٹ کہہ رہی ہے- سجل ارمان شاہ اور مزمل کے پاس آکر بولی-
نہیں کہ رہی وہ جھوٹ۔۔۔۔اسلیے بہتر یہی ہوگا سجل کہ تم اس گھر سے ہمیشہ کیلئے چلی جاؤ کیونکہ یہاں تمہیں اب کوئی بھی رہنے کی اجازت نہیں دے سکتا- یہ سب کہنے والا اسکا اکلوتا دوست۔۔۔اس سے محبت کے دعوے کرنے والا مزمل تھا- سجل کو اسکی باتوں پر یقین نہ آیا کہ یہ وہی مزمل ہے جو اسے چاہتا تھا- چاہنے کی باتیں صرف باتیں ہی رہ جاتی ہیں اور محبت کے دعوے بھی کھوکلے ثابت ہوتے ہیں-
ٹھیک ہے۔۔۔میں جارہی ہوں اس گھر سے ہمیشہ کیلئے– خدا حافظ۔۔۔سجل اپنے اللہ پر بھروسہ کر کے اس گھر سے نکلنے لگی-
سجل رکو۔۔۔۔مزمل اسکے پیچھے گیٹ تک آیا تھا- یہ چاچو کے اسلام آباد والے گھر کی چابی اور یہ انکے بزنس کے کچھ کاغذات وغیرہ ہیں۔۔۔۔انکی گاڑی بھی یہیں ہے۔۔۔جو تم لے جاسکتی ہو کیونکہ تمہیں اسکی ضرورت پڑسکتی ہے- وہ امانتیں لوٹا رہا تھا اور نائلہ بیگم اسکی اس حرکت پہ کھول اٹھیں تھیں-
نہیں گاڑی مجھے نہیں چلانے آتی۔۔میں بس یہی لے جاؤں گی خداحافظ۔۔۔وہ مزمل کے ہاتھ سے کاغذات اور گھر کی چابی لے کر ہمیشہ کیلئے مری کی وادیوں کو چھوڑ کر جاچکی تھی–
★★★★★★★★★★★★★★★★★★★
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...