ایشین نقوش رکھنے والا وہ چینی لڑکا کلاس ختم ہوتے ہی شکر مناتا گھر کی طرف روانہ ہونے کا سوچ رہا تھا۔
آج پورے چھ مہینے اپنی ٹرینگ کے مکمل کرنے کے بعد اسکا ارادہ اب سیدھا گھر جانے کا تھا۔ آج اسکا سب سے بڑا خوشی کا دن تھا وہ اپنے بچپن کا خواب پورا کر چکا تھا۔
قوفو شاٶلین کونگفو سکول چاٸنہ سے کونگفو اور مارشل آرٹ کی ٹریننگ مکمل کر لینے کے بعد وہ اب اپنی فوج کا ایک بہترین سپاہی بن چکا تھا۔
اپنی یہ خوشی وہ سب سے پہلے دوست جیکی کے ساتھ منانا چاہتا تھا۔ اسلٸیے وہ مونکس اور ماسٹرز سے ملنے کے بعد فوراً ہی نکلنے کے لیے تیار ہو گیا۔
اوہ ہیری یو آر گریٹ!
جیز پیچھے سے آتا ہوا بولا۔ ہیری جو جلدی جلدی جانے کا سوچ رہا تھا اسے کوفت سے دیکھتا رہ گیا۔ جانتا تھا اب جلدی جان بخشی نہیں ہو گی۔
وہ کبھی اپنی ٹریننگ کے دوران بھی اتنا پریشان نہیں ہوتا تھا جتنا جیز کو دیکھ کر ہو جاتا تھا ۔ جیز فیصل آبادی تھا اور بلا کا باتونی تھا وہ سکول کے تیسرے دن ہی ہیری کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ گیا تھا شاید ایک الگ ملک اور الگ زبان سے تعلق رکھنے والے ملک میں ہم وطن کے ملنے کی خوشی تھی جبھی وہ اسکے لیے اتنا جزباتی تھا اور زبردستی کا دوست بن بیٹھا تھا۔
زبردستی کا اسلٸیے کیونکہ ہیری کو ذیادہ دوست پسند نہ تھے اس کے لیے اسکا ایک ہی دوست کافی تھا۔۔۔۔جیکی
*********************************
زہرہ میں تمہیں کتنی مرتبہ سمجھاوں ؟؟؟ جب تم جانتی ہو کہ مجھے یہ سب نہیں پسند تو کیوں کرتی ہو ایسی حرکتیں تم؟؟؟
ماٸدہ بیگم آج غصے سے پھٹ پڑی تھیں جب انہیں پتہ چلا زہرہ اپنے دوستوں کے ساتھ اخروٹ چوری کرتے پاٸ گٸ تھی تو ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ زہرہ کو کہیں غاٸب کر دیں یا پھر جوتے سے اسکی درگت بنا دیں۔
کتنی شرمندگی اٹھانی پڑی تھی انہیں چاچا نذیر کی بیگم کے ہاتھوں جنہوں نے بغیر کسی لگی لپٹی کے انھیں اتنی باتیں سنا ڈالی تھیں۔
حالانکہ کہ انہوں نے تو بس یہی کہا تھا کہ گاٶں کی رونق تو بس زہرہ کے ہی دم سے ہے ۔ آج اخروٹ کے درختوں کے پاس ہل چل دیکھی تو مجھے لگا چور ہیں ۔ میں نے شیرو کو بھگایا تو وہ بھی بھونکے بغیر وہی بیٹھ گیا میں حیران ہو کر اس طرف آٸ تو پتہ چلا اپنی زہرہ ہے ۔ شیرو چاچا نذیر کا کتا تھا انتہاٸ خوفناک صورت کا جس کی دہشت سے ہر کوٸ خوفزدہ تھا مگر زہرہ کے لیے تو وہ جیسے کوٸ بلی کا بچہ تھا۔
بس اتنی سی بات تھی اور ماٸدہ بیگم کو لگا جیسے وہ ان کی بے عزتی کر رہی ہیں ۔ انھیں کہاں اس سب کی عادت تھی ان کے والد کراچی کے مشہور بزنس مین تھے انہوں نے ہمیشہ اپنے جیسے لوگوں کے درمیان ہی زندگی گزاری پھر شوہر بھی آرمی میں اعلٰی عہدے پر فاٸز تھے۔ زہرہ کی پیداٸش کے آٹھ سال بعد وہ باغ آذاد کشمیر میں پوسٹنگ ہو کر آۓ تو تب سے اب تک وہی رہے۔
ایک سال آرمی کی طرف سے ملے گھر میں رہے پھر زہرہ کی ضد پہ ڈنّہ شفٹ ہو گۓ۔ خضر صاحب کی یہ چھوٹی سی جنت تھی جس میں زہرہ نام کی چڑیا چہچہاتی پھرتی تھی۔
جبکہ اسکے یہی رنگ ڈھنگ ماٸدہ بیگم کو ایک آنکھ نہ بھاتے تھے۔ دونوں بیٹیاں ماں باپ کے جینے کی وجہ تھیں بس زہرہ اپنی حرکتوں کی وجہ سے ماٸدہ بیگم کا بلڈ پریشر بڑھا دیتی تھی۔
**********************************
آخر کار دو گھنٹے جیز کی بکواس سننے کے بعد وہ گھر روانہ ہوا۔ بیجنگ میں سورج اس وقت اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا۔ ندا بیگم کچن میں ہارون صاحب کی فرماٸش پہ آج کوفتے بنا رہی تھیں۔ ہارون صاحب پولیس میں تھے جبکہ ندا بیگم ہاٶس واٸف تھیں۔ انکا ایک ہی بیٹا تھا۔۔۔۔۔۔ حیدر جسے سب پیار سے ہیری بلاتے تھے۔
ہیری دبے قدموں اندر داخل ہوا اسکا ارادہ ماں کو چونکانے کا تھا۔ وہ ابھی لاونج میں ہی تھا کہ جیکی دوڑتا ہوا آیا اور اسکی ٹانگوں کے گرد گھومنے لگا۔
وہ اچھل اچھل کر اپنی خوشی میں بھونکنے لگا مگر اس کے چکر میں ہیری کے سرپراٸز کی ایسی کی تیسی ہو گٸ۔ ندا بیگم کچن سے باہر آٸ اور ہیری کو دیکھ کر حیران ہو گٸیں ۔ ہیری! میرا بیٹا! کیسے ہو میری جان ۔۔۔
میں بالکل ٹھیک ہوں آپ کیسی ہیں ۔ وہ انہیں ساتھ لپٹاتے ہوۓ بولا
تم فریش ہو جاٶ۔ تمہارے بابا بھی آتے ہی ہوں گے پھر کھانا کھاتے ہیں۔
اوکے کہتے ہی وہ اٹھ گیا۔ جبکہ جیکی اسکا بیگ دانتوں سے کھینچنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ جیکی چیمپ واٹ آر یو ڈوٸنگ؟؟؟ آٸ نو یو آر ویٹنگ فار یور گفٹ بٹ اٹس ٹاٸم ٹو گَیٹ فریش دین وی وِل سی یور گفٹ اوکے ڈووڈ۔ وہ پیار سے اسکے ملاٸم بال سہلاتے ہوۓ بولا۔
تین سال پہلے جیکی ہیری کو سڑک کنارے ملا تھا وہ بیمار سا کتا ہیری کو آس بھری نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
ہیری اسے گھر لے آیا اور کبھی نہ دوست بنانے والے ہیری کے لیے جیکی بیسٹ فرینڈ بن گیا۔
************************************
سردیوں کا موسم شروع ہو گیا تھا کشمیر کے پہاڑوں نے برف کی چادر اوڑھ لی ۔ اور جو منظر پہلے سبز رنگ اوڑھے سب کو متوجہ کرتا تھا اب سفید رنگ میں اور بھی دلکش لگنے لگ گیا تھا۔
زہرہ کے تو مانو پیر ہی زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ اسے سردیاں حد سے ذیادہ پسند تھیں۔ اسکا دل چاہتا تھا کہ وہ گنگا چوٹی جاۓ اور برف سے ڈھکی اس خوبصورت سی چوٹی کو قریب سے دیکھے۔
مگر وہی دھات کے تین پات ماٸدہ بیگم کی سختی اسکی خواہش میں رکاوٹ ڈالے ہوٸ تھی۔ زہرہ آٸسکریم اٹھاۓ کمرے میں داخل ہوٸ تو منورہ کو کتاب میں گم پایا۔
کیا پڑھ رہی ہو منو؟؟؟ وہ دھپ سے اس کے پاس گرتے ہوۓ بولی۔
افوہ اپیا بیڈ پہ بیٹھ کر نہیں کھاتے اور سردیوں میں آٸسکریم تو بالکل بھی نہیں کھاتے۔ آپ وہ خیزیں کیوں نہیں کھاتی پیتی جو سردیوں کے لیی ہی ہوتی ہیں۔ صدا ہی نفاست پسند اور ہر چیز پرفیکٹ رکھنے والی منو ناگواری سے بولی۔
اور آپ رات کو کپڑے بھی نہیں بدلتیں جو پہنے ہوتے وہی پہن کے سو جاتی ہیں۔
زہرہ منہ کھولے اسکی بات سن رہی تھی اس نے تو کتاب کا پوچھا اور وہ اسے لیکچر دینے لگی تھی۔ تبھی وہ اسے تنگ کرتے ہوۓ بولی۔
اچھا تو منو سردیوں میں کیا کھانا چاہیے؟؟؟؟ ہنہ جیسے کہ آپ کو اگر بتاٶں گی تو آپ وہی چیزیں کھاٸیں گی نہ۔ منو چڑتے ہوۓ بولی۔
اچھا چھوڑو یہ تو بتاٶ کیا پڑھ رہی تھی تم ؟؟؟
میں پرنسز فیونا کی سٹوری پڑھ رہی تھی اور پتہ ہے اس میں کیا ہوتا ہے پرنسز ایک قلعے میں بند ہوتی ہے جس کے باہر ایک ڈریگن ہوتا ہے اور۔۔۔۔ وہ اب زہرہ کو سٹوری سنا رہی تھی جبکہ زہرہ کا فوکس آٸسکریم پر تھا۔
اپیا آپ نہیں سن رہی نہیں نہ وہ ناراض ہوتے ہوۓ بولی۔
ارے میری مس پرفیکٹ میں سن رہی تھی نہ۔ آپ سناٶ ۔ کوٸ نہیں اب میں نہیں سناوں گی آپ کو۔
اچھا نہ سوری اب مان بھی جاٶ کل ہم سنو مین بھی بناٸیں گے پھر۔
اوکے اپیا پر ایک بتاٸیں۔ جی پوچھیں ۔ وہ بھی اسی کے انداز میں بولی
آپ کو فیری ٹیلز پسند ہیں کیا ؟؟؟؟ آپ کو پرنسز اچھی نہیں لگتی کیا؟؟؟؟
نہیں مجھے تمہاری فیری ٹیلز والی پرنسز بالکل نہیں پسند ۔ وہ صاف گوٸ سے بولی
تو پھر آپ کو کونسی پرنسز پسند ہے؟؟؟
مجھے۔۔۔۔ فیری ٹیلز کی وہ پرنسز نہیں پسند جو بارہ بجتے ہی محل سے بھاگ جاۓ یا پھر جو ایک زہریلا سیب کھا کر مر جاۓ جو جادوگرنی کے ڈر سے ساری زندگی قلعے میں گزار دے جسے دادی کا لباس پہن کر کوٸ بھی بھیڑیا بے وقوف بنا لے۔۔۔۔۔ بلکہ مجھے تو وہ پرنسز پسند ہے جو محل سے اپنا جوتا خود لے کر آۓ جو زہر کو میلوں دور سے پہچان لے ۔ جو جسم سے سوٸیاں نکالنے کے لیے کسی شہزادے کا انتظار نہ کرے۔ جو خود کو جان بوجھ کر ونڈر لینڈ میں گم کر لے اور کسی بیسٹ سے خوفزدہ نہ ہو۔ وہ کھوۓ کھوۓ لہجے میں بولتے ہوۓ کسی اور ہی دنیا میں پہنچی ہوٸ تھی۔
ہمم مطلب آپ کو فروزن پسند ہے۔۔۔۔ منورہ سوچتے ہوۓ بولی
اپنی سوچوں کے گھوڑوں مت دوڑاٶ مجھے فروزن بھی نہیں پسند۔ زہرہ اس کے بال بگاڑتے ہوۓ بولی
تو پھر؟؟؟؟؟ کوٸ اور وقت ہوتا تو منورہ زہرہ کی اس حرکت پہ چڑ جاتی مگر ابھی وہ تجسس میں تھی
تو پھر نہ میں اچھی شہزادی ہوں نہ بننا چاہتی ہوں۔۔۔۔ میں تو وہ ظالم شہزادی بننا چاہتی ہوں جو ایک دن اپنے محل میں اپنی مرضی سے راج کرۓ گی۔
زہرہ روم سے نکلتے ہوۓ بولی۔ جبکہ منورہ حیران سی بڑبڑا رہی تھی
اپیا بھی عجیب ہیں ظالم شہزادی تو ولن ہوتی ہے تو کیا اپیا کو ولن بننا ہے ۔ مگر اپیا تو سب سے اتنا پیار کرتی ہیں۔
اسے وہ دن یاد تھا جب زہرہ زخمی کوا اٹھا لاٸ تھی اور تب تک اسکی دیکھ بھال کرتی رہی تھی جب تک وہ ٹھیک نہیں ہو گیا
تو پھر تو اپیا ولن نہیں بن سکتی وہ چھوٹی سی پرنسز سوچتے ہوۓ گھڑی پہ ڈالی جو دس بجا رہی تھی یعنی پرنسز کے سونے کا وقت ہو گیا تھا سو وہ ہر چیز بھلا کر سونے کے لیے لیٹ چکی تھی۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...