ایسا شہکار ہو: ناز کرتی پھرے جس پہ اردو زباں ، کوئی ایسی غزل
جس کی ہر ہر پڑھت پر کھلیں فکر کی نت نئی کھڑکیاں ، کوئی ایسی غزل
جس کا لہجہ حسیں گویا کھلتے کنول ، جس کے مصرعے فصاحت میں ضرب المثل
جو پڑھے ، سر دھنے ، حظ اٹھائے ، کہے” ہائے ہائے میاں!” کوئی ایسی غزل
وہ تخیّل جو قاری کا دل موہ لے ، دکھ بھرا ہو مگر یوں لگے دکھ نہیں
جس سے اٹھتا نہ ہو راکھ ہوتی ہوئی حسرتوں کا دھواں ، کوئی ایسی غزل
ضبط کی آنچ پر لمحہ لمحہ جلوں ، رات بھر جاگ کر پورے دل سے کہوں
جو کسی سے نہ اٹھے ، میں ہنس کر اٹھا لوں وہ بارِ گراں ، کوئی ایسی غزل
جس کا ہر لفظ اپنی مثال آپ ہو ، جس کے ہر شعر میں اک نئی بات ہو
کوئی ایسی زمیں ، کوئی ایسی طرح ، کوئی ایسا بیاں ، کوئی ایسی غزل
وہ ردھم ہو کہ سنتے ہی ننھے قدم ، چین کی وادیوں میں اترنے لگیں
نیند پڑنے تلک ان کا پیچھا کریں ، ماؤں کی لوریاں ، کوئی ایسی غزل
چاندنی سے چھنی ، خوشبوؤں کی جنی ، نقشِ ناز آفریں ، شوخ ، چنچل ، حسیں
میں کہوں ، مست الہڑ جوانی بھری ؟ آپ فرمائیں “ہاں کوئی ایسی غزل”
ایک طرفہ سخن یعنی آمد ہی آمد ہو ، آورد کا شائبہ تک نہ ہو
اتنی اعلی کہ استاد بھی کہہ اٹھیں ، “وا رے استادیاں” کوئی ایسی غزل
میر و غالب سنیں تو مکرر کہیں ، حضرتِ داغ ماتھا مرا چوم لیں
فیض صاحب اٹھیں اور نچھاور کریں ، داد کی پتیاں ، کوئی ایسی غزل
آتے جاتے ہوئے راستوں میں جسے گنگنایا کریں کالجی لڑکیاں
پارٹیوں میں جسے مل کے گایا کریں ، نازنیں خمریاں ،کوئی ایسی غزل
فتنہ پرداز ، حاسد تری دوستیں ، تجھ سے جلنے لگیں اور جلتی رہیں
سوچتا ہوں کہوں میں ترے حسن پر اے مری جانِ جاں ، کوئی ایسی غزل
بے حیاؤں کے شر سے پنہ مانگتا ، کہنے والا کہے ” کَیدَ کُنّ عظیم”
اور حمایت میں “لا ریب فیہٖ” کہیں ، یہ زمیں آسماں ، کوئی ایسی غزل
سارہ ، ثروت ، شکیب اور آنس وغیرہ کے حق میں دلیلیں ہیں بے فائدہ
خود کشی کے حوالوں کے رد میں لکھو ، یعنی عبرت نشاں ، کوئی ایسی غزل
آج کہہ دوں اگر اپنے اندر چھپے، آدمی کے ہوسناک جذبوں کا سچ
سننے والے کہیں ، خوف کھاتے ہوئے ، الاماں الاماں ، کوئی ایسی غزل
کاش میں کہہ سکوں ، ارضِ کشمیر کے جلتے سینوں کا دکھ ، بہتی آنکھوں کا غم
پچھلے ستر برس کا خلاصہ کرے ، ان کہی داستاں، کوئی ایسی غزل