کوئی زیادہ پرانی بات نہیں۔ چند دن قبل میںدیگر خواتین و مرد حضرات کے ساتھ ڈکسی اونٹاریو میں واقع گرجا، ’’دی انگلیکن چرچ آف سینٹ جان دی بیپ ٹیسٹ‘‘ (The Englican Church of Saint John Baptist) میں موجود تھی۔ وہاں سو سے زائد افراد کی موجود گی نے مجھے اپنے شہر مسی ساگا کے بسنے والوں کی معاشرتی بیداری اور احساسِ ذمے داری سے ما یوس ہونے سے بچالیا۔ میں بے حد مصروف ہونے کے باوجود وقت نکال کر وہاں پہنچی تھی۔ میری طرح دیگر نے بھی اپنی مصروفیات کو درگزر کرتے ہوئے وقت نکالا ہوگا۔ اس یادگار قومی و سماجی تقریب کا انعقاد اونٹا ریو ہیر یٹیج ٹرسٹ (Ontario Heritage Trust) کی جا نب سے کیا گیا تھا۔ اس تقریب کا مقصد اونٹاریو کے سابق پریمیئر جیمس کارور کی قبر پر ’’مارکر‘‘ کی تنصیب تھی۔ اس نوع کی شاید یہ اٹھارہویں تقریب تھی۔ یہ ایک رسمی تقریب تھی جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ ہم اپنے آپ کو مہذب انسان کے معیار پر کھرا ثابت کریں۔ نہ تو مجھے اور نہ ہی وہاں مو جود کسی بھی شریکِ تقریب کو، کسی ایسے و قوعے کا گمان بھی نہیں ہوگاجو وہاں پیش آیا اور جس نے اس کو غیرمعمولی اور انتہائی غیرمتوقع بنا دیا۔ مجھے اس سے انکار نہیں کہ وہاں موجود خواتین و مرد کچھ زیا دہ متأثر اور جذباتی ہو رہے تھے، کیوںکہ سابق پریمیئر جیمس کارور (James Carver) کو اس دنیا سے اور خاص طور پر اونٹاریو سے رخصت ہوئے پانچ عشروں سے زیادہ ہوچکے تھے یعنی نصف صدی، اور نصف صدی ایک بڑی مدت ہو تی ہے ۔
جیمس کارور جو اونٹا ریو کے معمولی کسان تھے، وہ اپنے کھیتوں کی دیکھ بھال کرتے، اور اپنے ساتھی کسانوں کے مسائل کو اجتماعی طور پر سلجھاتے ہوئے اونٹاریو کینیڈا کی سیاسی ہما ہمی اور گہماگہمی میں داخل ہوئے۔ کینیڈا کے پار لیمان کی رکنیت جیتی۔ اپنے کر دار کی مضبوطی کی اساس پر اور عملی جدوجہد اور سعیِ پیہم سے بہت جلد صوبائی وزارت سے نوازے گئے۔ سب سے پہلے انھوں نے وزارتِ زراعت (Ministry of Agriculture) کا قلم دان سنبھالا۔ اور اپنے بھائی کسانوں کو ثابت کر دیا کہ وہ اوّل اور آخر مٹی کے بیٹے ہیں۔ ڈکسی کے ایک چھوٹے سے دیہات کی خاک سے ان کا خمیر اٹھا تھا۔ انھوں نے کینیڈا کے زراعتی اُفق کو روشن سے رو شن تر کیا اور اس کو کامیابی کی راہ پر لگا کر اونٹاریو کی خدمت میں ہمہ تن مصروف ہوگئے۔ اونٹاریو کے لوگوں نے بھی ان کو اور ان کی خدمات کو پچاس سالہ مدت گزرنے کے باوجود بھی فراموش نہیں کیا۔
تقریب معمول کے مطابق شروع ہوئی ۔ اکابرینِ مسی ساگا و اونٹاریو نے تقاریر کی اور جیمس کارور (James Carver) کو خراجِ تحسین پیش کیا گیا۔ ان کے پوتے رُکنِ پارلیمنٹ سیم کارور (Sam Carver) نے انتہائی شگفتہ مزاجی سے اس حقیقت کی جانب حاضرین کی توجہ دلائی کہ اس کے دادا نے معمولاتِ زندگی سے ریٹائر ہونے کے اتنے برسوں بعد بھی ایک وسیع و عریض ہال کو اپنے چاہنے والوں سے بھر دیا ہے۔ سیم کارور نے یہ بھی کہا، ’’میرے دادا کو لوگ ’مارشل‘ بھی پکارتے تھے۔‘‘ ’جنگِ عظیم‘ میں ان کی خدمات کے حوالے سے پوتے نے یاد دلایا۔ ’’دادا جیمس کارور وہ شخص تھے جنھوں نے ۱۹۳۰ء کے عشرے میں شمالی اونٹاریو میں بجلی کی فراہمی کو ممکن بنایا اور ۱۹۴۰ء کے عشرے میں دیگر کے ساتھ مل کر ’اونٹاریو فوڈ ٹر مینل‘ کو خواب سے حقیقت کا روپ دیا۔‘‘
جیمس کارور کے بھتیجے آرتھر ملر کارور نے بھی اس یاد گار جلسے سے خطاب کیا اور حاضرین کو بتایا، ’’میرے چچا سے لوگ محبت کرتے تھے اور انھیں محبت سے ’اونٹاریو کا بوڑھا‘ پکارتے تھے۔‘‘ بھتیجے آرتھر ملر کارور کے اس فقرے پر ہال کے کسی کونے سے آواز آئی، ’’یہ جھوٹ ہے جیمس کارور ایک پتھر دل شخص تھا۔‘‘ آواز نسوانی تھی۔ جس عورت نے یہ فقرہ ادا کیا تھا وہ کہہ کر خاموش ہوگئی۔ جلسے میں کچھ دیر سناٹا چھا گیا— ایسا سناٹا اگر ایک تنکا بھی فرش پر گرتا تو اس کی آواز ہال میں گونج جاتی، لیکن کسی جانب سے کوئی اور آواز نہیں گونجی۔ ہال میں کامل سکوت رہا۔ کسی نے آرتھر ملر کارور کے کان میں کچھ کہا اور اس نے اپنی تقریر جاری رکھی۔ جیمس کارور کے بھتیجے آرتھر ملر کارور نے اپنے مرحوم چچا کے بارے میں مزید عقیدت مندانہ باتیں کیں اور آخر میں کہا، ’’میرے چچا جیمس کارور ایک صاحبِ کردار اور بااصول شخص تھے، وہ ساری عمر اس الوہی ہدایت پر عمل پیرا رہے: ’اپنے پڑوسیوں کو ایسی محبت دو جتنی خود کو دیتے ہو۔‘
تقریب میں کارور خاندان کے ایک درجن سے زائد افراد شریک تھے۔ ان کے علاوہ شہر کے کونسلرز، میئر، اس کے علاوہ دیگر معززین بھی موجو د تھے۔ کسی معتبر شریک صاحبہ نے جیمس کارور کی مختصر سی رُودادِ حیات بھی پیش کی۔
جلسہ مقامِ مدفن پر تنصیب کی جانے والی تختی کی نقاب کشائی کے بعد اپنے اختتام کو پہنچا۔ جب میں دیگر شرکاے جلسہ کے ساتھ کار پارکنگ کی جانب روانہ ہوئی توکارپارکنگ کے احاطے میں وہ واقعہ پیش آیا جس نے اس رسمی تقریب کو معمولی سے غیرمعمولی بنا دیا۔
میری اور دیگر چند دیکھنے والوں کی نظروں کے سامنے ایک خاتون جن کا چہرہ ایک باریک سیاہ جالی سے روپوش تھا چلتے چلتے کارپارکنگ کے سیاہ ٹائلز والے فرش پر گر پڑیں۔ میں دوڑ کر ان کے قریب گئی، دیکھا وہ نیچے گر کر ماہیِ بے آب کی طرح تڑپ رہی تھیںاور ساتھ ہی چیخ چیخ کر کہہ رہی تھیں ’’وہ ظالم تھا میری ماں اس کی یاد میں تمام عمر روتی رہی۔‘‘ میرا دل چاہا بڑھ کر اس خاتون کا سر اپنی آ غوش میں لے لوں اور اس کو تڑپنے اور چیخنے سے نجات دلائوں، لیکن یہ میرا ملک نہ تھا ایک مغربی ملک تھا جس میں ہر طرح کی آزادی ہونے کے باوجود اس کی آزادی نہ تھی کہ ایک فرد دوسرے فرد کے معاملات میں بغیر اجازت دخل اندازی کرے۔ وہ تنہا ہوتی تو شاید میں اس کو اپنی آغوش میں سمیٹ بھی سکتی تھی، لیکن اس کے ساتھ ایک نوجوان لڑکا تھا جو شاید اس کا بیٹا تھا۔ اس نے نائن الیون کو فون کر دیاتھا کیوںکہ پلک جھپکتے میں سائرن سنائی دینے لگے۔ میں اور لوگوں کے ساتھ موقعے سے علاحدہ ہٹ گئی اور میرے قدم اپنی پارک کی ہوئی گاڑی کی جا نب بڑھنے لگے۔