ڈاکٹرستیہ پال آنند(کینڈا)
’’چار پانچ برس بڑا ہونا تو کچھ بھی نہیں․․․‘‘ عینی آپا نے کہا تھا ، ’’․․․اور پھر جب ہماری عمر ستّر سے بڑھنے لگتی ہے، تو چار پانچ تو کیا، دس بارہ برس بھی کسی گنتی میں نہیں آتے۔ اور پھر وہ محاورہ بھی تو ہے، عمر بہ عقل است نہ بہ سال!‘‘ پھر فوراً ہی تصحیح کر دی، ’’عقل نہیں، ’بزرگی‘ ہے یہاں، لیکن دونوں کا مطلب تو ایک ہی ہے نا؟‘‘
میں نے کہیں غلطی سے یا جلدی میں یہ کہہ دیا تھا کہ میں ان سے چار پانچ برس چھوٹا ہوں۔
لیکن عینی آپا بخشنے والی نہیں تھیں۔ ’’اس سے یہ نہ سمجھ لینا کہ تم مجھ سے زیادہ عقلمند ہو!ـ‘‘ اور پھراسی سانس میں بولتی چلی گئیں۔ ’’اب خوشونت مجھ سے کافی سینئر ہے، لیکن میں نے کبھی اسے ’ تو ‘ کہہ کر مخاطب نہیں کیا۔‘‘ پھر جیسے ایک خیال کی پیٹھ پر دوسرے کو لادتے ہوئے بولیں، ’’لیکن خوشو نت سے بات ہمیشہ انگریزی میں ہوتی ہے، اور انگریزی میں You is you, whether for one, or for two, or for all present. ‘‘ ایک لحظہ توقف کیا ، پھر مزید ایک پھلجھڑی میری طرف پھینکی، ’’یہ نہ سمجھنا کی صرف تم ہی انگلش کے پروفیسر ہو اور Ph. D. ہو، اور اس کی grammarسے واقف ہو!‘‘
بزرگی اور عقل اور عمر والے محاورے کے سلسلے مجھے پھر بھی خوف رہا کہ اگر تصحیح در تصحیح کر دوں، تو برا نہ مان جائیں۔ برا تو خیر نہیں مانتی تھیں، لیکن موڈ بدل لیتی تھیں۔
فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف صغرا مہدی تھیں۔ چونگے پرہاتھ رکھ کر بولیں، ’’اب لمبی بات چیت ہو گی۔ تم اپنے لیے ایک کپ چائے اور بنا لو۔ میرے لیے مت بنانا․․․․‘‘
(سین ۔ نوئڈا، ان کا اپارٹمینٹ۔ء۹۹۹۱)
ـــــَ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ ــــبہت بڑا جمگھٹا تھا۔کم از کم ایک سو سے کچھ اوپر لوگ تھے۔ واشنگٹن، ڈی سی (امریکا) کے میری لینڈ کے نواحی بلدیاتی علاقے میں ڈاکٹر عطیہ کا گھر ایسا گھر نہیں تھا، جسے صرف گھر کہا جائے ۔
یہ ایک بنگلہ نما محل تھا۔ بڑے کمرے میں، عین سامنے دیوار پر کوئی تین فٹ کے سائز میں ایک تصویر تھی، جس میں فیض احمد فیضؔ اور احمد فرازؔ ’یک جان دو قالب‘ والے محاورے کی زندہ مثال بنے بیٹھے ہوئے تھے ،ڈاکٹر عطیہ کے نفیس ذوق اور شاعر نوازی کی ایک مثال ، لیکن مجھ جیسے بت شکن محمود غزنوی کے لیے کوئی بھی سومنات ہو، میرا تیشہ ہمیشہ میرے ہاتھ میں رہتا تھا۔ اس لیے جونہی ذرا سی مہلت ملی، سامنے کے صوفے پر بیٹھی ہوئی عینی آپا سے میں نے کہا، ’’وہ تصویر دیکھی ہے آپ نے؟‘‘ مسکرائیں زیر لب، ایک خمیدہ تبسم ۔ بولیں، ’’تم کہیں بخشو گے بھی ان دونوں کو؟‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں آپا، مجھے تو ساقی فاروقی کی ایک بات یاد آ گئی۔ اس نے دونوں کو لندن کے اپنے ہی گھرمیں اکٹھے بیٹھے دیکھ کر کہا تھا، ’اب تم دونوں جڑواں تو لگتے نہیں، لیکن یہ فرازؔ تم سے اتنا کم عمر ہوتا ہوا بھی تمہارا نقّال، جسے تم پنجابی ’نقلچی‘ کہتے ہو، اس حد تک ہے کہ اگر تم اپنی کسی نظم یا
غزل میں ایک بار ’جاناں‘ لکھو گے، تو یہ تمہارے تتبع میں، لیکن تم سے بازی مار لے جانے کے لیے، دو بار ’جاناں جاناں‘ لکھے گا۔‘‘
’’تم تو وہاں موجود نہیں تھے، کہاں سے سنی تم نے یہ بات؟‘‘ عینی میں موقع واردات پر موجود نامہ نگار کی روح حلول کر آئی۔
’’آپا، خفا مت ہوں مجھ سے۔ ساقی نے ہی مجھے بتائی تھی!‘‘ اور اس سے پیشتر کہ وہ کچھ اور کہہ سکیں، میں نے ایک لقمہ اور دیا تھا۔ ’’ساقی نے فیض کو یہ بھی کہا تھا، کہ اس کے سگریٹ کی راکھ جھاڑنے کا اندازبھی تمہاری نقل ہے۔ اس طرح یہ فیضؔ تو بننے سے رہا، فرازؔبننے کا نصب العین بھی کھو بیٹھے گا۔‘‘
’’بخش دو ان دونوں کو اب!‘‘ آپا نے حکم دیا، ’’کوئی اوربات کرو ․․․،لیکن غزل کی مخالفت کی بات نہیں․․‘‘
پاس بیٹھے ہوئے کئی احباب (صغرا مہدی بھی اتفاقاً موجود تھیں) مسکرائے تھے، کیونکہ اب جھینپنے کی میری باری تھی۔ (سین ۔ میری لینڈ، امریکا ۔ ڈاکٹر عطیہ کا دولت کدہ، ۱۹۸۹ء)
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
نومبر۱۹۶۷ء۔ بمبئی۔ عینی آپا سے پہلی ملاقات ان کے رسالے Imprintکے دفتر میں ہوئی۔ میں ساحر لدھیانوی کے گھر سے (جہاں میں ٹھہرا ہوا تھا) تین بسیں بدل بدل کر بمشکل تمام پہنچا۔ مجھے عینی آپا سے ’’ٹربیون‘‘ چنڈی گڑھ کے لیے ، ان کے ناول ’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ پر ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملنے پر، انٹرویو لینا تھا، اور اس کے لیے انہوں نے مجھے ورکنگ لنچ پرہی اپنے دفتر میں دعوت دی تھی۔
مجھے پہلی نظر میں وہ بے حد حسین اور sexy لگیں۔ (تب تک انہیں آپا کہنے کا رواج ابھی ’’روش عام‘‘ نہیں ہوا تھا!) کشادہ پیشانی لیکن آنکھوں تک پہنچتے پہنچتے ذرا سی خمیدہ، تلوار کی سی کاٹ رکھتی ہوئی تیز زبان، body languageمیں آنکھوں، بھووں اور پیشانی کے اتار چڑھاؤ، لبوں کی سکڑن یا پھیلاؤ، ہاتھوں کی مضطرب حرکت، ۔۔مجھے وہ بہت اچھی لگیں۔
’’آپ ملک راج آنندؔ کے کچھ لگتے ہیں؟‘‘ صحیح جملہ تو یاد نہیں ہے، لیکن کچھ ایسا ہی سوال کیا تھا انہوں نے۔ میں نے فی الفور عرض کیا تھا، جی نہیں، لیکن میں انہیں مُلک چچا کہہ کر بلاتا ہوں۔ ویسے بھی ہماری پنجاب یونیورسٹی کے کیمپس پر ٹیگور پروفیسر آف آرٹس کے طور پر ان کی تقرری اور ان کے ساتھ ہر روز صبح سیر پر جانے والے مجھ جیسے نوجوان انہیں چچا مُلک ہی بلاتے ہیں۔پھر ا ن کے استفسار پر کہ مجھے ان سے کیا پوچھنا ہے، میں نے درجنوں سوال کیے، لیکن بقول ان کے، ہر سوال گھوم پھر کر ایک ہی زمرے میں آ جاتا تھا، کہ ورجنیا ولف اور جیمز جوائس کے طرز تحریر میں لکھے ہوئے ان کے ناول کیا اردو ادب پر ایک مغربی پیوند کاری نہیں ہے؟ اور ان کا جواب ہر بار ایسے ہی کانٹوں سے بھرا ہوا تھا جیسے کہ وہ مجھے یہ سمجھانے کا جتن کر رہی ہیں، کہ اے انگریزی کے پروفیسر ، خدا کے لیے یہ بات سمجھ، کہ اسلوب ایک طرف، اور موضوع، مضمون اور متن دوسری طرف، کیا ایک ناولسٹ کو ان دو چیزوں کو الگ الگ نہ رکھ کر صرف یہ یقینی نہیں بنا سکتا کہ اس کا طرز تحریرایسا ہو کہ اسے ایک کے لیے دوسرے کی قربانی نہ دینی پڑے۔ لیکن اردو کا قاری تو کیا، ایک دو کو چھوڑ کر اردو کا نقاد بھی اس سے آ گاہ نہیں ہے۔
’’آگ کا دریا‘‘ کو عینی آپا کا Magnum Opusکیوں سمجھا جاتا ہے، اس کا علم مجھے اس انٹرویو کے
وقت ہی ہوا۔ عینی نے کئی سوالوں کا جواب جھلا کر مجھے دیا لیکن با ت میری سمجھ میں آ گئی۔ ’’آگ کا دریا‘‘ زمانوں، بلکہ قرنوں پر محیط ہے۔ یہ تاریخ اور وقت کو بر صغیر کے جغرافیہ سے منسلک کرتا ہوا ایک ایساFictional Testamentہے، جو چوتھی صدی عیسویں سے شروع ہوتا ہے، اور آزای کے بعد، یعنی ہندوستان اور پاکستان کے دو الگ الگ ملکوں کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرنے کے وقت تک آگے بڑھتا ہے۔ زمان اور مکان کے اس پھیلاؤ کو سمیٹنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ناولسٹ صدیوں پر محیط اس سفر کے راستوں پر آزادی کے ساتھ گھوم پھر سکے، آس پاس کی پگڈنڈیوں پر گامزن ہو، پیچھے مڑ کر دیکھے اور پھر اپنی کہانی کو سمیٹتا ہوا آگے بڑھ جائے۔ مجھے آج تک عینی کا ایک جملہ نہیں بھولتا۔ ’’ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے؟ کچھ لوگ آج بھی ہندوستان کی تاریخ کو میر قاسم کے سندھ پر حملے سے شروع کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں اس سے پہلے کی تاریخ اور عرب کے دور جاہلیت کی تاریخ میں کوئی فرق نہیں ہے۔‘‘ ان کا جملہ انگریزی میں تھا، لیکن جب میں نے کہا کہ تاریخ ایک تسلسل ہے، تو انہوں نے پھر کہا، ـYes, it is a continuum and the sooner we know this truth, the better it would
be for all of us, and damn it, my novel encompasses four thousand years.
آج جب میں باز آفرینی کے طور پر اس انٹرویو کو یاد کرتا ہوں، تو مجھے عینی آپا کی بات یاد آتی ہے۔ میرے انگریزی کے پروفیسر ہونے کی وجہ سے یا میری ذہنی تربیت کو صیقل کرنے کے لیے انہوں نے ایک انگریزی نقاد کا جملہ دہرایا تھا۔ اس نقاد نے ورجنیا ولف اور جیمز جوائس کی شعوری رو کے بارے میں اور وقت کی رفتار کے نا منقسم ریلے کے آگے بڑھنے یا پیچھے ہٹنے کے بارے میں کہا تھا۔
You can stand still in Time and move back and forth in Space, or stand still in Space and move back and forth in Time.
بعینہ یہی فارمولہ عینی آپا کے ناولوں پر منطبقہوتا ہے۔ ’’ٹائمز لٹریری سپلیمنٹ‘‘ نے اس کتاب کے انگریزی ترجمے River of Fire پر تبصرے میں ایک ناقابل فراموش جملہ لکھا تھا، جسے میں یہاں درج کر رہا ہوں۔ “River of Fire” is to Urdu fiction what “A Hundred Years of Solitude ” is to Hispanic literature. ۔ یہ بات یاد رکھنا ضروری ہے کہ عالمی سطح پر عینی آپا کی وہی حیثیت ہے جو Milan Kunderaکی یا Gabriel Garcia Marquzکی ہے۔ سلمان رشدی وغیرہ ’چھٹ بھیئے‘ عینی کی گرد کو بھی نہیں پہنچتے۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
جن لوگوں نے ’’آگ کا دریا‘‘ اور اس کے بعد کے تین ناول پڑھے ہیں، وہ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ جہاں کئی حالتوں میں ’’آگ کا دریا‘‘ عام قاری کے لیے نا قابل عبور ہو جاتا ہے،وہاں ’’آخر شب کے ہمسفر‘‘، ’’گردش رنگ چمن‘‘ اورآخری ناول ’’چاندنی بیگم‘‘ کا پڑھنا نسبتاً آسان ہے۔ یہ شاید ایک لا شعوری عمل تھا جس کے تحت انہیں اپنی تحریر میں عام فہم ، روز مرہ کی زبان کا استعمال (جو پہلے کم کم تھا) لے آنے کی ضرورت پیش آئی۔ امریکا میں ہوئی بات چیت میں مجھے، معصومیت کے ساتھ، لیکن اپنے گستاخ لہجے میں یہ پوچھنے میں کچھ برا نہیں لگا ، کہ کیا وجہ ہے کہ ’’آگ کا دریا‘‘ کے ٹائیٹل میں کوئی اضافت نہیں تھی ، یعنی اسے ’’دریائے آتش‘‘ یا ’’جوئے آتش‘‘ بھی کہا جا سکتا تھا، لیکن بعد کے ناولوں میں اضافتیں موجود ہیں۔ ’’آخر شب کے مسافر‘‘ میں ایک اضافت ہے، جب کہ ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں دو ہیں۔ کچھ حیرت زدہ سی رہ گئیں تھیں عینی آپا! کہنے لگیں،’’ میں نے اس طرف کبھی دھیان نہیں دیا، لیکن تم پروفیسر لوگ تو مین میخ نکالتے ہی رہتے ہو ۔‘‘ اور تب میں نے وہ بات کہی جو میں بہت پہلے کہنا چاہتا تھا۔ ’’بر عکس اس کے، ان ناولوں کے اسلوب میں زبان کا روز مرہ سے انسلاک ایک قدرتی بہاؤ کی طرح ہے، جو’’ آگ کے دریا‘‘ میں نہیں تھا۔ یعنی آپ کو ، لا شعوری طور پر ہی سہی، یہ احساس ضرور ہوا ہے کہ ان ناولوں کے پڑھنے والے اوسط درجے کے تعلیم یافتہ لوگ ہیں، اور وہ چاہے وقت اور فاصلے کی قلابازیو ں کو برداشت کر لیں، زبان کے سلسلے میں ناول نگار سے کوئی سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘
بہت بڑی بات کہہ گیا تھا میں! وہ مسکرائی تھیں ، اور دیگر سننے والوں سے (بے نیاز نہیں بلکہ با نیاز) مجھے کہنے لگیں۔ ’’تم اس پر ایک مضمون لکھو تو مجھے ایک نقل ضرور بھیجنا۔ اب چونکہ میں مختصر افسانے بہت کم لکھتی ہوں، بلکہ لکھتی ہی نہیں، اس لیے رسالے مجھ تک نہیں پہنچتے۔ مجھے خوشی ہوگی۔‘‘
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․
قرۃالعین حیدر، یعنی عینی آپا،کو انگریزی ہجوں میں Annie Apa بنا لیا گیا تھا، اس لیے کہ انگریزی میں double “A” سے الفاظ شروع نہیں ہوتے، اور Annieتولڑکیوں کا ایک عام نام ہے۔
ایک معروف اہل قلم سجّاد حیدر یلدرم کی صاحبزادی، ناز و نعم میں پلی ہوئی،بے حد حسین و جاذب نظر، متناسب خال و خد، جو اگر انگریزی میں لکھتی تو اس کا نام اور کام عالمی سطح پر تسلیم کیا جاتا اور Booker Prize تو کیا ، شاید نوبل پرائز کی بھی حقدار مانی جاتی۔ جب اردو، یعنی ’’ایک نادار ملک کی نادار زبان ‘‘ (فیضؔ) کا پلّوپکڑ کر یہ لڑکی جوان ہوئی، تو یہ زبان شاعری میں تو نہیں، لیکن فکشن کے تناظر میں ابھی ایام طفلی میں تھی۔ یہ اس خاتون کی ہمت تھی کہ اس نے وہ راستہ اختیار کیا جو ترقی پسندی کا راستہ نہیں تھا، (’’آخر شب کے ہم سفر‘‘ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے!) اور جسے ترقی پسند نقادوں نے سرمایہ دارانہ نظام کا Camp Followerکہہ کر مسترد کر دیا تھا۔
لکھنؤ کے Isabella Thorburn College کا گریجؤیٹ ہونا خود میں ہی ایک بڑی بات تھی، لیکن عینی کی نظر تو دور اس افق پر ٹکی ہوئی تھی، جسے اسے سر کرنا تھا۔ہجرت کر کے پاکستان پہنچی، کہ اس نئے ملک کو تو اس جیسے معماروں نے ہی تراش کر ایک نئے روپ میں سجانا تھا، لیکن مارشل لاء کے بعد، اور مقامی اہل قلم کا بدلتا ہوا وہ رجحان دیکھ کرجو ادب برائے اسلام کی طرف جھک گیا تھا، ہندوستان لوٹ آئی۔ یہاں آ کر کھلی فضا میں سانس لیا۔ Imprintکی مدیر کے طور پر ۴۶۹۱ ء سے ۸۶۹۱ ء تک کام کیا، پھر اپنی دل پسند ملازمت، یعنی السٹریٹد ویکلی آف انڈیا میں خوشونت سنگھ کے ساتھ سات برسوں تک رہی۔ وزیٹنگ پروفیسر کے طور پر کئی یونیورسٹیوں، اور شہروں، مثلاًکیلیفورنیا، شکاگو، وسکانسن، اور ایریزونا میں تدریسی فرائض سر انجام دئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دہلی کی خان عبدالغفارخان چیئرکی پروفیسر امیریٹس Professor Emeritus رہی۔ ناول لکھے، افسانے لکھے، لیکچر دیے، سیمناروں میں شرکت کی اور وہ سب کچھ کیا جو وہ کرنا چاہتی تھی۔ ’’پاکستان میں رہ کر میں کیا کرتی؟ ایک غیر شادی شدہ عورت اس معاشرے میں ایک فاضل پرزہ بھی ہے اور شک کی نظر سے بھی دیکھی جاتی ہے۔‘‘
انعاموں اور ایوارڈوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ میں پورے تو چیک نہیں کر پایا، مگر جو یاد آ رہے ہیں، وہ لکھ رہا ہوں۔ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی ایوارڈ، بھارتیہ گیان پیٹھ ایوارڈ ۱۹۸۹ء میں ان کے ناول ’’آخر شب کے مسافر‘‘ پر ملا۔ اس سے بہت پہلے ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ۱۹۶۷ء میں مل چکا تھا۔ سوویت لینڈ نہرو ایوارڈ ۱۹۶۹ ء میں دیا گیا۔ ۱۹۸۵ء میں غالب ایوارڈ تفویض ہوا۔ ۲۰۰۵ء میں سرکار ہند کی طرف سے’ پدم شری‘ دیا گیا۔ کچھ برسوں کے بعد انہیں ’پدم بھوشن ‘دیا گیا جو ایک ہندوستانی شہری کے لیے تیسرے نمبر کا سب سے بڑا اعزازہے۔ ’’روپے تو ، ظاہر ہے استعمال میں لائے جاتے ہوں گے، مگر ان شیلڈوں اور Plaquesکا آپ کرتی کیا ہیں۔؟‘‘ میں نے پوچھا تھا۔ ’’سجا کر رکھتی ہوں۔۔۔تم ان کا کیا کرتے ہو؟‘‘ ترکی بہ ترکی جواب تھا۔
عینی آپا نے ایک درجن ناول اورچار افسانوی مجموعے لکھے۔بہت سا کام ایسا کیا جو ترجمے کے زمرے میں آتا ہے۔۱۹۴۸ ء میں جب ان کی عمر صرف ۲۲ برس کی تھی، ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ستاروں سے آگے‘‘ چھپا۔پھر اس کے بعد کتابوں کی ایک لمبی فہرست ہے۔ ’’شیشے کے گھر‘‘ اور ’’میرے بھی صنم خانے‘‘ نے انہیں بام عروج پر پہنچایا ۔ ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں ناول نگار نے سارے عالم کی مختلف النوع تہذیبوں کو یکجا کر کے ، ایک Jigsaw puzzleبنا کر پیش کیا ہے۔ اس ناول کی خوبصورتی یہ ہے کہ بغیر کسی نتیجے پر پہنچے، بغیرکسی conclusion پر پہنچے، یہ ناول ختم ہو بھی جاتا ہے اور نہیں بھی ہوتا، کیونکہ زندگی تو بہرحال کسی نقطۂ اختتام تک پہنچ کر بھی ختم نہیں ہوتی۔
․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ میری عینی آپا سے آخری ملاقات دہلی میں ہوئی۔ میں پاکستان کے ایک ماہ کے دورے سے لاہور، پنڈی، میر پور، پشاور، سرگودھا، کراچی ہوتاہو ا لوٹا تھا۔ دہلی میں سات دنوں کے لیے ایک ایسے مہمان خانے میں مقیم تھا، جو ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی وساطت سے مجھے مہیا کیا گیا تھا اور ایک کار بھی میری تحویل میں تھی۔ عینی آپا کو فون کیا تو بہت خوش ہوئیں۔ دوسری صبح کا وقت مقرر ہوا۔ میں پہنچا تو ریحانہ ملی۔ ریحانہ اور عینی کا رشتہ مالکن اور نوکرانی کا نہیں بلکہ ماں اور بیٹی کا ہے۔ وہ ان کو نہلاتی ہے، سر پر مہندی کی رنگت کی تیزی یا ہلکے پن کا خیال رکھتی ہے، کپڑے استری کرتی ہے، کھانے پینے کا خیال رکھتی ہے۔ فالج دائیں طرف گرا تھا، اس لیے ابھی فعال تھیں۔ بول کر لکھواتی تھیں، ایک نوجوان صبح اور ایک شام کو ان کے فلیٹ میں dictation لینے کے لیے آتا تھا۔ جب ٹائپ کر کے لاتا، تو اس کی پروف ریڈنگ خود کرتی تھیں۔
میں ان کے پاس دو گھنٹے ٹھہرا۔ بیچ بیچ میں بولتے بولتے وہ تھک گئیں، تو مجھے کہنے لگیں،’’اب تم کچھ کہو۔‘‘ جن امور پر بات ہوئی، ان میں ایک سر فہرست رہا، اور ہم بار بار اس کی طرف لوٹ کر آتے رہے۔ یہ امر تھا ساٹھ اور ستّر کی دہائی میں پاکستان میں ’’آگ کا دریا‘‘ کے تناظر میں ایک فضول قسم کی گرما گرمی ، جس میں ان کے مخالفین نے یہ الزام لگایا کہ وہ پاکستان کے وجود کو ہی تسلیم نہیں کرتیں، اور ’’آگ کا دریا‘‘ در اصل پاکستان نہیں، بلکہ ’’ہندو ستان، یعنی بھارت‘‘ کی تاریخ کو کھنگالتا ہے۔ وہ پاکستان میں بسنے کے ارادے سے گئی تھیں، لیکن اس قسم کی گفتگو نے، جو بآواز بلند تقاریب میں اور اخباروں یا ادبی رسالوں کے اداریوں میں کی گئی، ان کے دل کو اچاٹ کر دیا، اور وہ انڈیا لوٹ آئیں۔ کہنے لگیں، ’’کسی کا کیا قصور تھا؟ اس وقت ’ادب برائے اسلام ‘ کے ریلے میں کچھ پرانے ترقی پسند ادیب بھی بہہ گئے تھے۔‘‘ میں نے کہا، ’’لیکن یہ بات تو انتظار حسین نے کہی تھی کہ آپ نے ’’آگ کا دریا‘‘ میں تقسیم ہند کو ہندو مسلم مشترکہ ورثے کی شکست قرار دیا، اور انتظار حسین تو ادب برائے اسلام کا حامی نہیں ہے۔‘‘ بولیں، ’’ہوں، یہ بات تو درست ہے، لیکن جو کچھ اس نے کہا تھا ،اس کو صحیح تناظر میں سمجھا ہی نہیں گیا، اور اس بات کو Taken for grantedمان لیا گیا کہ میں اینٹی پارٹیشن ہوں۔‘‘ پھر کہنے لگیں، ’’اچھا ہی ہوا، میں لوٹ آئی۔ وہاں بہت دوست احباب تھے، لیکن سبھی بے بس۔ یوں بھی اس معاشرے میں اکیلی عورت کے لیے، جولکھتی بھی ہو، اور سماجی جانورsocial animalبھی ہو، رہنا مشکل ہو جاتا ہے۔ لوگ طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں ۔یہاں میں ایک بھرپور زندگی جی سکی ہوں۔‘‘
میں نے ’’کار جہاں دراز ہے‘‘ کا ذکر کیا اور کچھ کہنے ہی والا تھا، کہ وہ بول اٹھیں، ’’اب لوگوں کو بھی میری درازیٔ عمر کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا، اللہ تو کیا کرے گا!‘‘
میں نے رخصت چاہی کہ گیسٹ ہاؤس کی کار کی واپسی کا وقت مقرر تھا۔ بولیں، ’’گڈ بائی۔۔‘‘ ’بائی‘ کو انہوں نے یوں لمبا کر کے ختم کیا کہ ان کی سانس ہی اٹک گئی اور وہ کھانسنے لگیں۔ میں رک گیا، لیکن ریحانہ نے مجھے اشارے سے سمجھایا کہ میں خاموشی سے رخصت ہو جاؤں۔ پانی سے بھرے کپ میں ایک چمچ دوا ملا کر پلاتی ہوئی ریحانہ کی اور عینی آپا کی وہ تصویر اب تک میرے دل پر نقش ہے اور مجھے ساحر لدھیانوی کی چار سطریں یاد آ رہی ہیں۔
ہر چیز تمہیں لوٹا دی ہے
ہم لے کے نہیں کچھ ساتھ چلے
پھر دوش نہ دینا ، جگ والو
ہمیں دیکھ لو، خالی ہاتھ چلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۶ ؍اگست ۲۰۰۷ء
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قرۃالعین حیدرسے دو بار ملاقات ہوئی۔ایک بار جب وہ پہلی بار پاکستان آئیں تو ان کے اعزاز میں فیصل آباد کے چناب کلب نے ایک ادبی تقریب کا بھی اہتمام کیا تھا۔میں اس میں شریک ہوا تھا اور تقریب کے بعد بھی ان کے ساتھ تھوڑی سی گفتگو ہوئی تھی۔تاہم اس ملاقات کا حاصل فوٹو سیشن رہا۔کشور ناہید لاہور سے ان کے ساتھ آئی تھیں۔ میں نے دیکھا کہ وہ جو بڑے بڑے مردوں کے سامنے مردانہ وار گفتگو کرتی ہیں وہی کشور ناہید ان کے سامنے سراپا نیاز بنی ہوئی تھیں۔قرۃالعین حیدر سے دوسری ملاقات سال ۲۰۰۰ء میں لندن میں ہوئی۔یہاں بھی ایک کانفرنس چل رہی تھی اور یہاں بھی سلام دعا،پہلی ملاقات کا ہلکا سا ذکراور فوٹو سیشن۔فیصل آباد والی تصویرانہیں دنوں میں ماہنامہ ماہِ نَو لاہور میں چھپی تھی اور لندن والی تصویر تو انگلینڈ اور جرمنی کے رسالوں میں چھپ چکی ہے۔ پہلی ملاقات میں وہ زور آور دکھائی دی تھیں جبکہ اس بار وہ بہت کمزور لگ رہی تھیں۔تاہم ان کے ساتھ ملنا بھی میرے لئے ملاقاتِ مسیحا و خضر جیسی بات تھی۔ (حیدر قریشی کی کتاب کھٹی میٹھی یادیں کے تشکیل کراچی میں زیرِ اشاعت باب ۔۔ادبی کائنات میں رنگ سے اقتباس)