ابرار جیت کے نشے میں سرشار عین کے قریب آیا۔ عین نے اسے دھکا دینا چاہا۔ تو ابرار نے اس کے منہ پے ایک زوردار تھپڑ جڑ دیا۔اس کے ہونٹ کا کنارا پھٹ گیااس کے باوجود وہ ہمت نہ ہاری اور اسے پرے دھکیلا۔۔لیکن ابرار نے سختی سے اسکے ہاتھ پکڑے۔ اور پیچھے گرایا۔
عین کا ایک ہاتھ ابرار کے ہاتھ سے چھوٹا جو قریب پڑے واس کے ساتھ جا ٹکرایا۔
عین نے آٶ دیکھا نہ تاٶ۔ وہ واس اٹھا کے پوری قوت سے ابرار کے سر پے دے مارا۔ وہ سر پے ہاتھ رکھتا چلاتا ہوا پیچھے ہوا۔ اسی موقعے کا فاٸدہ اٹھاتے ۔ عین نے اسے پیچھے دھکا دیا۔ اسکے سر سے خون بہنے لگا تھا۔
ایک لمحے کی دیر کیے بنا وہ کھلے دروازے سے باہر بھاگی۔ اسے راستے کا علم نہیں تھا۔لیکن وہ جن سیڑھیوں سے اوپر گٸ تھی۔انہی پے بھاگتی ہوٸی وہ نیچے اتر رہی تھی۔ لہنگا سنبھالنا بھی مشکل ہو رہا تھا۔
نظر ایک دم سامنے اٹھی۔ تو دروازے کے اندر آتے شخص پے جا ٹکیں۔ اور اسی ایک لمحے میں اسکا پاٶں پھسلا۔ اور وہ توازن برقرار نہ رکھ پاٸی۔ اور سیڑھیوں سے گرتی ابھی دو سیڑھیاں گری کہ اس شخص نے اک لمحہ لگایا اور اس تک پہنچا۔ اور اسے تھاما۔
عین نے لمبا سانس خارج کیا۔اور آنے والے کو دیکھ کے تشکر کا سجدہ دل ہی دل میں رب کے حضور ادا کیا۔
تم۔۔۔ ٹھیک ہو ناں۔۔۔؟؟؟
عین کو سلامت دیکھ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
فارس نے اسکے گال پے ہاتھ رکھے بہت پرواہ سے پوچھا۔
عین کی آنکھوں کے آنسو بہہ کے گالوں سے گردن تک کا سفر طے کر چکے تھے۔
اسکی ہچکیاں بندھی ہوٸیں تھیں۔
فارس نے اسکی حالت کے پیشِ نظر اسے مزید کچھ بھی نہ کہا۔ اس کے آنسو صاف کیے۔ تو وہ فارس کے گلے جا لگی۔
اور بہت زور سے اسکے گرد بانہیں پھیلاٸیں۔فارس نے اسکی حالت کو سمجھتا اسے خود سے الگ نہ کیا۔
وہ بہت کوشش کے باوجود بھی لیٹ پہنچا تھا۔
وہ ابرار کورنگے ہاتھوں پکڑنے کے چکر میں عین کو بھی تکلیف دے گیا تھا۔
وہ شروع سے اب تک اسکے پیچھے تھا ایک لمحے کو بھی ان کی گاڑی کو نظروں سے اوجھل۔نہ ہونے دیا۔
لیکن یہاں پہنچتے ایک لمحے کو گاڑی نظروں سے اوجھل ہوٸی۔ جس لمحے اس نے زیان کو لوکیشن سینڈکی تھی۔اور پہنچنے کا کہا تھا۔
فارس کی نظر اوپر کھڑے ابرار پے پڑی۔ جس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ لیکن ماتھے پے ہاتھ رکھے وہ غصے سے نیچے آیا۔
آخری سیڑھیوں پے ہی فارس عین کو ساتھ لگاۓ کھڑا تھا۔ فارس کی قہر کی نظر اسی پے تھی۔
جبکہ عین اسکے سینے میں منہ چھپاٸے ابھی بھی ہچکیوں سے روٸے جا رہی تھی۔
تیری اتنی جرات کہ تُو مجھے مارے۔۔۔ میں تجھے۔۔۔۔۔۔!! وہ بولتا نیچے اترا تھا۔ لیکن اسکی بولتی فارس کےایک مکے نے چپ کرا دی۔
منہ پے ہاتھ رکھے وہ گرتا گرتا بچتا سامنے دیکھا۔
فارس کو دیکھ اسے کچھ غلط ہونے کا احساس ہوا۔
عین کو پا کے سب بندوں کو چھٹی دے چکا تھا۔لیکن وہ نہیں جانتا تھا۔ وہ کوٸی عام عین نہیں وہ نورالعین ہے۔۔۔ فارس کی نور۔۔۔
وہ جو ایک آتش فشاں ہے۔۔۔
ابرار کو فارس کے روپ میں موت سامنےکھڑی نظر آٸی۔
میری۔۔۔ بچی۔۔۔؟؟؟
فرازصاحب کے دل والی طرف درد اٹھا۔
ماریہ شاہ فوراً آگے بڑھیں۔اور انہیں سنبھالا۔
دعا نے فراز شاہ کو پانی پلایا۔
اسی لمحے زیان کے موباٸیل۔پے بیپ ہوٸی۔ میسج چیک کیا۔ جو کہ فارس کا تھا اور اس نے کوڈورڈ میں لکھا تھا۔ جسے وہ سمجھ گیا۔
بابا۔۔۔۔ بھاٸی کا میسج ہے۔۔۔۔۔ دعا کیجییے گا۔۔۔ میں آتا ہوں۔
زیان کہتے باہر کی جانب بڑھا کہ دلاور شاہ بھی ساتھ ہو لیے۔
زیان نے روکنا چاہا۔ لیکن ۔۔ ان کا غصہ دیکھ چپ کر گیا۔ا ور نہیں ساتھ لیے باہر نکلا۔
لیکن پولیس کو انفارم کرنا نہ بھولا۔
مکا پڑتے وہ ابھی سنبھل نہیں پایا تھا۔ کہ فارس نے آگے ہوتے ایک اور مکا جڑا۔ وہ زمین پے جا گرا۔
عین کھڑی اس ڈیول کو پٹتا دیکھ رہی تھی۔
اور اپنے اندر سکون محسوس کر رہی تھی۔
فارس نے پاس گرا عین کا دوپٹہ اٹھایا۔ اور عین کے پاس آیا۔ جو خود کے گرد بازو لپیٹے کھڑی آنسو ضبط کرنے کی ناکام کوشش کر رہی تھی۔
فارس نے اس کے گرد دوپٹہ پھیلایا۔ تو اسکا جھکا چہرہ اوپر اٹھا۔
اسکی گھنیری پلکیں کاجل سے بھری روٸیں آنکھیں ایک حشر برپا کررہی تھیں۔ فارس کو اپنا دل اسکی آنکھوں میں ڈوبتا محسوس ہوا۔
آنکھوں سے ہوتے نظر اسکے رخسار پے جا ٹہریں۔ جس پے ہاتھ کی انگلیوں کے نشان تھے۔
بے اختیار فارس شاہ کا ہاتھ اسکے نرم و نازک گال کو سہلا گیا۔ لب بھینچے۔ عین نے پلک نہ جھپکی۔ اور نہ فارس کا ہاتھ جھٹکا۔ وہ ساکت سی اسے دیکھے جا رہی تھی۔
عین کے نچلے ہونٹ کا کونہ تھپڑ کی وجہ سے پھٹ گیا تھا۔
فارس نے شہادت کی انگلی سے اسکے ہونٹ کے زخم کو چھوا۔ تو اسکی پلکیں لرز گٸیں۔
اور دل کی دھڑکنوں نے شور ہی برپا کر دیا۔
ے اختیار نظریں جھک گٸیں۔
ابرار سنبھل چکا تھا۔ اس نے فارس پے پیچھے سے وار کرنا چاہا۔ فارس نے اہک جھٹکے سے مڑ کے اسکے وار کو ناکام بنایا۔ اور اس کے پیٹ میں لات ماری۔وہ پھر سے دور جا گرا۔
منع کیا تھا۔۔۔ میری نور۔۔۔ کی طرف آنکھ مت اٹھا کے دیکھنا۔۔۔ لیکن۔۔۔ تم باز نہیں آٸے۔۔۔۔!! فارس جارحانہ انداز میں ابرار کی طرف بڑھا۔
میری نور۔۔۔۔ میری نور۔۔۔۔۔!!
عین کے کانوں میں فارس کے ان لفظوں کی بازگشت ہونے لگی۔
بے یقینی سے سامنے کھڑے اپنے ساٸبان کو دیکھا۔
جو گھنی دھوپ میں اسکا ساٸبان تھا۔ اسکا ہمسفر۔۔۔ اسکی دھڑکنوں کا محافظ۔
زیان پولیس کے ساتھ وہاں پہنچا۔ پولیس نے فارس کوپیچھے کیا۔ ابرار کو اس سے چھڑانا چاہا۔ لیکن وہ قابو ہی نہیں آرہا تھا۔
اور بے ہوش ہوۓ ابرار کو بھی نہیں بخش رہا تھا۔
زیان نے فارس کو پکڑا۔
Leave me ziyan. I will kill him…
فارس نے غصے سے خود کوچھڑایا۔
دلاور شاہ فوراً سمٹی سمٹاٸی عین کے پاس آۓ۔ اور اسے اپنے ساتھ لگایا۔
وہ انکے گلے لگ کے پھر سے آنسو بہانےلگی۔
بس۔۔ میرا بچہ۔۔۔۔!! بابا آگۓ ہیں۔۔ رونا نہیں۔
دلاور شاہ نے اسے تھپکی دی۔۔پولیس بے ہوش ہوٸے ابرار کو اٹھا کے لے گٸ۔
لیکن فارس کا غصہ ابھی بھی کم۔نہیں ہو رہا تھا۔ وہاں موجود ہر چیز کو تہس نیس کر دیا تھا۔
بھاٸی۔۔۔۔!! پلیز۔۔۔۔!! زیان نے فارس کے قریب آتے منت والے لہجے میں کہا۔
زیان کا چہرہ دیکھ فارس پل بھر کو رک گیا۔ اسے اپنے سامنے پاتے فارس کو کچھ سکون سا محسوس ہوا۔
زیان نے فارس کو گلے سے لگا کے Calm down کیا۔
اسے کبھی بھی اپنے غصے کی حالت میں خود پے قابو نہیں رہتا تھا۔ اور یہی اسکی ایک عادت تھی۔ جو بری تھی۔
مہمانوں سے گھر بھر گیا ہے۔ابھی تک انکا کوٸی پتہ نہیں۔۔۔۔!!
الماس بیگم نے پریشانی سے کہا۔
فراز شاہ مہمانوں کے پاس تھے۔ انہیں دل بڑا کرنا تھا۔ اور دل ہی دل میں وہ اپنی بیٹی کی سلامتی کی دعا مانگ رہے تھے۔
اتنے میں گاڑی حویلی کے بیک ساٸیڈ کے چھوٹے گیٹ سے اندر داخل ہوٸی۔
ماریہ شاہ فوراً سے بیشتر آگے بڑھیں۔ گاڑی سے عین کو صحیح سلامت اترتا دیکھ انہوں نے وہیں زمین پے گر کے شکر کا سجدہ اداکیا تھا۔ وہ وہیں بیٹھے بے تحاشا رو دیں۔ عین نے بڑھ کے ماں کو گلے سےلگایا۔
ماریہ شاہ دیوانوں کی طرح اپنی بیٹی کاچہرہ چومنے لگیں۔ آنسو تھے کہ تھم ہی نہ رہے تھے۔ فارس لب بھیچے گھر کے اندرونی حصے کی جانب بڑھ گیا۔
دلاور شاہ سے اس نے کوٸی بات نہ کی تھی۔ وہ ناراض تھا ان سے۔
وہ جانتے تھے۔ لیکن فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ گھر مہمانوں ے بھرا ہوا تھا۔وہ سب کوکوٸی نیا تماشا نہیں ہاتھ میں دینا چاہتےتھے۔۔ایک بار پہلے بھی عین کی شادی کولےکے لوگوں کی بہت سی باتیں وہ سن چکے تھے۔
ابھی انہیں صبر سے کام لینا تھا۔
ماریہ شاہ اور دعا عین کو لیے اندر آگٸے۔
کبیر شاہ کاکہیں اتہ پتہ نہ تھا۔ دردانہ بیگم مہمانوں کے بیچ میں چھپ کے ببیٹھیں تھیں۔
فاریہ بھی انہی کے ساتھ تھی۔ لیکن وہ پریشان بھی تھی۔کیونکہ ابرار کال۔نہیں اٹھا رہا تھا۔
روم میں آتےہی فارس نے سب سے پہلے شاور لیا ۔ اور خود کو ٹھنڈا کیا۔ اسکاغصہ یوں ہی عود کر آتا تھا۔
ہاتھ جو ابرار کو مار مار کے زخمی ہو گیا تھا۔ اس پے بے اختیار نظر جا ٹہری۔
ایک بار پھر سے نور کا چہرہ یاد آگیا۔
فارس۔۔۔!! بیٹا۔۔۔۔!!
اسکا غصہ بڑھتا کہ الماس بیگم۔کی آواز اس پے ٹھنڈی پھوار بن کے برسی۔پلٹ کے ماں کو دیکھا۔
جوپیاربھری نظروں سے بیٹے کودیکھ رہی تھیں۔ فارس نے ہاتھ چھپاناچاہا۔ لیکن
انکی نظر سے فارس کے زخمی ہاتھ چھپ نہ سکا۔
آج۔۔ ہمیں اپنے بیٹے پے بہت مان محسوس ہو رہا ہے۔۔
آج۔۔ ۔۔ آپ نے ہمارا سر فخر سے بلند کر دیا۔ بیٹا۔۔۔!! اپنی بیوی کی حفاظت کر کے آپ نے اپنا فرض بخوبی نبھایا ہے۔۔۔۔!
i m proud of u my son.
الماس بیگم کے الفاظ گھنی دھوپ میں فارس کے لیے چھاٶں ثابت ہوٸے تھے۔ اسکا غصے کہیں دور جا سویاتھا۔ فارس نے پر سکون ہو کے ماں کو دیکھا۔
آپ۔۔ کیوں رو رہی ہیں۔۔؟؟
الماس بیگم کے آنسو صاف کیے۔
خوشی کے ہیں پاگلے۔۔۔۔!! آنکھیں موندتے وہ بیٹے کے سینے سے لگ گٸیں ۔
فارس نے انہیں بانہوں کے حلقے میں لیا۔
دروازے پے کھڑے دلاور شاہ نم آنکھوں سے مسکرا دیے۔
اک ماں ہی تھی۔ جس کے آگے یہ شخص اپنی ہر ضد اور انا مار دیتا تھا۔
زیان اندر داخل ہوا دلہے والی پگڑی ہاتھ میں تھامے وہ تیار شیار ہو کے آیا تھا۔
میرا پیارا بھیا آج بنے گا۔۔۔ کسی کا سیاں۔۔۔!!
فارس کے سر پے پگڑی پہناتے وہ ساتھ میں گنگنایا۔
تو الماس بیگم نے بھی خوش ہوتے کھڑی ہوٸیں۔
شادی بہت بہت مبارک ہو بھاٸی۔۔۔ زیان نے مسکراتے فارس کو گلے سے لگایا۔ فارس کے چہرے پے بھی مسکان آگٸ۔
الماس بیگم کی آنکھیں نم ہوٸیں۔
دلاور شاہ کی آمد سونے پے سہاگہ کر گٸی۔
آگے بڑھ کے بیٹے کو گلے سے لگایا۔
فارس کے چہرے پے ابھی بھی دھیمی مسکان سجی ہوٸی تھی۔
ان سب کو ایک ساتھ خوش دیکھ فارس کا دل بھی پرسکون ہوا تھا
لیکن کبیر شاہ اوراسکی فیملی سے حساب پوراکرنے کاپوراارادہ رکھتا تھا۔
دعا نے عین کو دوبارہ سے تیار کیا۔ اور اسکی بہت ڈھارس بھی بڑھاٸی۔
عین دعا کے ساتھ باتیں کرتی جلد ہی ریلیکس ہوگٸ۔
آپی۔۔۔!! آپ تو ایک لپ اسٹیک لگا لیتیں۔۔۔ تو قیامت ڈھا دیتیں۔۔۔ فاریہ چڑیل کے ساتھ پارلر جانے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔؟؟
دعا نے برا سا منہ بنایا۔ فاریہ کے لیے۔
ہمیں۔۔۔ کیا پتہ تھا۔۔۔؟؟ ہمیں۔۔ تو ممانے بھیج دیا۔۔۔ ورنہ ہم نے بہت منع کیا تھا۔۔۔ اور وہ ہمیں۔۔۔ ؟؟ کہتے کہتے عین چپ ہوگٸ۔
کیونکہ گھر کے اندر انٹر ہوتے ہی فاریہ نے دور سے ہی معافی میں ہاتھ جوڑے تھے۔ وہ رو رہی تھی۔ کہ کسی کو کچھ نہ بتاٸے۔ اور عین کا دل بھی اسکی طرح معصوم۔ اسکے آنسو پے وہ چپ ہوگٸ۔
کچھ کہہ رہی تھیں آپ۔۔۔۔!!
عین کے سر پے بھاری کام والا دوپٹہ سیٹ کرتے دعا نے مزید بات کرنے پے اصرار کیا۔
وہ۔۔۔۔ بہت گندا ڈیول ہے۔۔۔ اس نے ہمیں۔۔ مارا تھا۔۔۔
عین بات کو پلٹ گٸ۔
دعا ایک لمحے کو چپ سی ہوگٸ۔
لیکن جب فارس شاہ۔۔۔۔ دل کی دھڑکن اس کا نام لینے سے شور مچانے لگی۔
فارس۔۔۔۔ شاہ۔۔۔وہاں۔۔۔۔ پہنچے۔۔۔ اور وہ دھول چٹاٸی اس ڈیول کو۔۔۔ بہت۔۔مزا آیا۔۔۔ عین نے خوش ہوتے کہا۔
اینڈ یو نو۔۔۔ دعا۔۔۔۔!! جب وہ گندا ڈیول ہمارے پاس آیا تو۔۔۔ ہمیں لگا۔۔۔ہم۔مر جاٸیں گے۔۔۔ !
عین کی آنکھوں میں آنسو جگمگاٸے۔
دعا نےاسکاہاتھ تھام لیا۔ اسکاجی چاہا وہ سامنے ہو اور دعا اسے تابڑ توڑ مارے۔
پھر۔۔۔ ہم نے ناں۔۔ واس اس کے سر پے دے مارا۔ اس کے سر سے خون نکلا۔
تب بھی ہم ۔۔بہت ڈر گۓ۔۔۔ ہمیں لگا وہ مر ۔۔۔۔گیا۔۔لیکن وہ۔۔۔ ہمارے پیچھے آیا۔۔۔!!
عین کے چہرے پے تمام بات بتاتےایک ڈر بھی تھا۔
لیکن۔۔۔ ان کے وقت پے آجانے سے انہوں نے مجھے بچا۔۔۔لیا۔۔۔! عین منہ نیچے کیے دھییرے سے مسکاٸی۔دعا کو اسکی مسکان دیکھ گونا سکون محسوس ہوا۔۔
اور اسے گلے سے لگایا۔!!
میری عین آپی تو بہت بہادر نکلی۔۔۔ !
دعا کی آنکھیں بھی نم ہوگٸیں۔
اور دل سے اپنی بہن کی خوشیوں کے لیے دعا کی۔
آپی۔۔۔۔!! میں نے ہمیشہ ۔۔۔آپ کے لیے عفان بھاٸی کی آنکھوں میں محبت دیکھی۔۔
احترام دیکھا۔
عزت دیکھی۔۔
لیکن۔۔۔فارس بھاٸی کی آنکھوں میں۔۔۔
میں نے۔۔۔ آپ کے لیے۔۔۔ جنون دیکھا ہے۔۔۔
اور وہ جنون سب پے بھاری پڑگیا ہے۔۔۔
دعا یہ سب سوچ سکی۔ عین کو کہہ نہ پاٸی۔ آج کے دن عفان کا زکر کر کے وہ عین کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔
سب کی دعاٶں میں نور العین رخصت ہوتی حویلی کے اک حصے سے دوسرے حصے میں آگٸ۔
لیکن اب کی بار وہ مطمٸین تھی۔
اس کے اندر فارس کو لے کے جو ڈر بیٹھا تھا۔وہ کہیں دور جا سویا تھا۔
اسے کچھ رسموں کے بعد فارس کے روم میں پہنچا دیا گیاتھا۔
اور وہ دل کی دھڑکن کو سنبھالتے فارس کا انتظار کر رہی تھی۔ جس کا ارادہ روم میں جانے کا تھا ہی نہیں۔۔ وہ تو بمشکل سب مہمانوں کے جانے کاانتظار کرتا اب حویلی کے سب سے بڑے ہال میں کھڑا سب کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا۔
بابا۔۔۔۔!! آپ خود فیصلہ لیں گے۔۔۔؟؟ یا۔۔میں۔۔۔لوں۔۔؟؟
وہ فارس تھا۔۔۔ اسے ڈنکے کٕی چوٹ پے ہر کام کرنا آتا تھا۔
بیٹا۔۔۔!! کبیر شاہ کو آلینے دو۔۔۔ پھر ہی کوٸی فیصلہ کرتے ہیں۔۔۔ نجانے وہ کہاں۔۔ہے۔۔۔؟؟ دلاور شاہ نے کچھ وقت کے لیے بات کو ٹالنا چاہا۔
لیں۔۔۔ آگٸے۔۔۔۔!! فارس نے دروازے سے انٹر ہوتے کبیر شاہ کی طرف دیکھتے سرد لہجےمیں کہا۔ ان کا سر جھکا ہوا تھا۔
مل آٸے اپنےبیٹے سے۔۔۔؟؟ فارس کی سرد آواز پے سبھی نے اسے حیرانی سے دیکھا۔ کہ وہ کیسے جانتا تھا کہ وہ اپنے بیٹے سے مل کے آیا ہے۔۔۔۔!!
کبیر شاہ کی آنکھیں نم تھیں ۔ وہ روتے ہوۓ دلاور شاہ کے پاس گۓ۔
اور ان کے آگے ہاتھ جوڑ دٸیے۔
بھاٸی صاحب۔۔۔۔!! معاف کردیں۔۔۔ بخش دیں۔۔ میرے بچے کی جان۔۔۔۔!!
وہ رورہے تھے۔اور وہاں موجود کی کو سمجھ نہ آیا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں۔۔۔؟؟
کبیر شاہ۔۔۔ !! جو ابرار نے کیا۔۔ وہمعافی کے لاٸق ہے نہیں۔۔۔! دلور شاہ بھی سنجیدگی سے بولے۔
جانتا ہوں۔۔۔ لیکن غلطی ساری میری ہے۔۔۔ شاید ۔۔۔میری تربیت میں ہی کوٸی کمی رہ گٸ۔۔ جو وہ ایسا بن گیا۔۔۔!! پلیز۔۔۔ رحم کر دیں۔۔وہ ہاسپٹل میں ہے۔۔۔!!
فارس کی طرف دیکھا۔
بہت بری طرح مارا ہے اسے۔۔۔۔!
کہتے ہوٸے ان کا دل کٹ سا گیا۔
اب معاف کردیں۔ پولیس کے حوالے نہ کریں۔۔کبیر شاہ نے منت بھرے لہجے میں کہا۔
گھر کی بہو بیٹی کے ساتھ اگر کوٸی اسطرح کی حرکت کرے تو اسے مر ہی جانا چاہیے۔
فراز شاہ نے غصے سے کہا۔
نننہیں۔۔۔۔۔ آپ آخری غلطی سمجھ کے معاف کردیں۔۔
میں ۔۔۔وعدہ کرتی ہوں۔۔۔آج کے بعد وہ کبھی ایسا کچھ نہیں کرے گا۔۔۔
دردانہ بیگم نے بھی فوراً شوہر کی ہاں میں ہاں ملاٸی۔
فارس شاہ سپاٹ انداز میں کھڑا یہ میلوڈی ڈرامہ دیکھ رہا تھا۔
دلاور شاہ نے ایک نظر فارس پے ڈالی۔ جس کی آنکھوں کا مفہوم وہ واضح انداز میں سمجھ گٸے تھے۔
ٹھیک ہے۔۔۔ لیکن۔۔۔ اب ابرار اس گھر میں نہیں رہ سکتا۔۔۔!!
وہ۔۔ وہ یہاں۔۔۔ نہیں آۓ گا۔۔ میں ۔۔اسے بہت دور بھیج دوں گا۔۔۔ وعدہ ہے میرا بھاٸی صاحب۔۔۔ بس۔۔۔ آپ اسے معاف کردیں۔۔
میں اپنے بیٹے کی طرف سے آپ سب سے معافی مانگتا ہوں۔ سب کی طرف دیکھتے سر جھکا کے کہتے وہ رو دٸیے۔
ناچاہتے ہوٸے بھی دلاور صاحب نے کبیر شاہ کا کاندھا تھپکا۔ جو بھی تھا۔ وہ انہیں بھی عزیز تھا انہوں نے کبیر شاہ کو ہمیشہ بھاٸی ہی سمجھا تھا۔
ببہت۔۔۔ خوب۔۔۔ ہو گیا۔۔۔ آپ کا ڈرامہ ختم۔۔۔؟؟ فارس نے غصیلی نظروں سے کبیر شاہ کو دیکھا۔
بیٹے کی زندگی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔۔ بیٹی کے لیے بھی کچھ بچا کے رکھ لیں۔
فارس کی بات پے سب کو سانپ سونگھ گیا۔ وہیں فاریہ کو پیروں تلے سے زمین کھسکتی ہوٸی محسوس ہوٸی۔
فاریہ۔۔۔۔؟؟ فاریہ نے کیا کیا۔۔۔؟؟
فاریہ کا دل بہت زوروں سے دھڑکا تھا۔
یہ تو آپ اپنی چہیتی بیٹی سے ہی پوچھ لیں۔۔ جو ۔۔ نور کو لے کے گٸ تھی ابرار کے پاس۔۔۔
فارس نے جیسے بم۔پھوڑا تھا سب کے سروں پے۔
دعا کو تو شاک لگا۔ یہ بات عین نے اس سے بھی چھپالی تھی۔
کیا۔۔۔۔ یہ سچ ہے۔۔۔؟؟ کبیر شاہ نے کڑے تیوروں سے بیٹی سے پوچھا۔
فاریہ گڑبڑا گٸ۔
بابا۔۔۔۔وہ۔۔۔۔؟؟
جوپوچھا اسکا جواب چاہیے۔۔۔۔
کبیرشاہ کی آواز اونچی ہوٸی۔ فارس نے منہ پھیر لیا۔
بابا۔۔۔۔میرا قصور نہیں۔ مجھے بھاٸی نے مجبورکیا تھا۔۔۔ جان کی دھمکی دی تھی۔۔۔ وہ روتے ہوۓ بول پڑی۔ کبیرشاہ کا اس پے ہاتھ اٹھ گیا۔
نہیں۔۔ شاہ صاحب۔۔۔!!بیٹی ہے وہ۔۔۔!دررانہ بیچ میں آگٸیں۔
کاش۔۔۔ ایسی اولاد سے بے اولاد ہوتا تو اچھا ہوتا۔۔۔ !!آج کسی کے سامنے منہ دکھانے کے لاٸق نہ چھوڑا انہوں نے۔۔۔
ایک بار وہ پھت افسردگی سے سر ہلاتے رہ گٸے۔
فاریہ کے آنسو ہی نہیں تھم رہے تھے۔
اوہ۔۔۔۔ہیلو۔۔۔!!بس بہت ہوگٕیا۔۔۔ یہ ڈرامہ۔۔۔ اپنا سامان پیک کرو۔ اور نکلو۔۔۔ یہاں سے۔۔۔! فارس نے ایک منٹ میں فیصلہ سنایا۔
کبیر شاہ نے حیرت اور پریشانی سے دیکھا۔
بیٹا۔۔۔۔!! بھاٸی صاحب۔۔۔۔
وہ فارس سے کہتے کہتے دلاور شاہ کی طرف مڑے۔
ہم۔۔کہاں۔۔ جاٸیں گے۔۔۔ ؟؟ پلیز معاف کردیں میرے بچوں کو۔۔۔۔ کبیر شاہ پھر سے رو دٸیے۔
میں بہت سخت شرمندہ ہوں۔ کبیر شاہ کے ہاتھ پھر سے معافی کے لیے دلاور شاہ کے سامنے جڑے تھے۔
دلاور شاہ نے ان کے ہاتھوں پے اپنے ہاتھ رکھے۔
یہ آخری بار ہے کبیر شاہ۔۔۔۔ !!
بابا۔۔۔۔؟؟ فارس نے کچھ کہنا چاہا۔ لیکن دلاور شاہ نے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا۔
اگلی بار ایسا کچھ نہ ہی ہو۔۔ تو ۔۔آپ سب کے لیے بہتر ہے۔۔۔ !! اپنی فیملی کو لے کے اندر جاٶ۔۔۔دلاور شاہ نے کہا۔ تو شکریہ ادا کرتا اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ لیے اندر چلا۔گیا۔
بابا ۔۔!! آپ نے صحیح نہیں کیا۔۔۔!! فارس نے انہیں احساس دلانا چاہا۔
بیٹا۔۔۔!! کچھ فیصلے مصلحت کے تحت کرنے پڑتے ہیں۔۔ او ر اس میں ہی مصلحت ہے۔۔ وقت کے چلتے آپ کو احساس ہوجاۓ گا۔
اب آپ سب جاٸیں آرام کریں۔۔ رات کافی ہوگٸ ہے۔
کہتے ساتھ ہی دلاور شاہ نے سب کو دیکھتے کہا تو وہ سب وہاں سے اپنے اپنے روم کی جانب بڑھ گٸے۔ سواۓ فارس أور دلاور شاہ کے۔ وہ باپ سے خفا تھا۔ اور وہ یہ بات جانتے تھے۔
دھیرے سے آگے بڑھے۔
بیٹا۔۔۔!! مانتا ہوں۔۔ آپ صحیح ہیں۔۔ لیکن پوری طرح غلط ہم بھی نہیں۔۔۔
بھروسہ رکھو۔۔۔ اس میں بھی ہمارے لیے بہتری ہی چھپی ہے۔
پیار سے سمجھایا۔
بابا ۔۔۔!! اب اگر کچھ بھی برا کیا انہوں نے ۔۔ تو انجام کے زمہ دار یہ خود ہوں گے۔۔۔
اوکے ماٸی سن۔۔۔!! دلاور شاہ فارس کی بات پے مسکرا دیے۔ شکر تھاکہ وہ بولا تو صحیح۔
اب آ پ بھی جاٸیں۔۔۔ نٸ دلہن کو زیادہ انتظار نہیں کراتے۔
فارس شاہ گڈ ناٸیٹ کہتا انکی بات کو نظر انداز کرتا اوپر کی جانب بڑھ گیا۔
جہاں وہ اپنے ہوشربا روپ کے جلوے بکھیرے سج سنور کے اسکے انتظار میں بیٹھی تھی۔
روم کے اندر انٹر ہوتے ہی نظر سیدھی اس پے جا ٹہری جو اس کا انتظار کرتے کرتے نیند کی وادیوں میں کھو گٸ تھی۔
فارس نے سر جھٹکا اور چینجنگ روم کی جانب بڑھا۔
دروازہ قدرے زور سے بند کیا۔ کہ وہ معصوم ڈر کے اٹھ بیٹھی۔
اور ہوش وحواس بحال۔کرتی اسے اندازہ ہوا کہ وہ اپنے روم میں نہیں ہے۔۔
اسکادل زوروں سے دھڑکنے لگا۔
فارس کا ڈر ایک بار پھر سے دل میں کنڈلی مارنے لگا۔
وہ ڈریس چینج کرتا باہر آیا۔
اسے اگنور کیے وہ بازو کے کف موڑتا شیشے کے آگے کھڑا ہوا۔
ہاں۔۔ تو ۔۔ محترمہ۔۔۔ کیسا۔۔ لگا۔۔ اپنی محبت پا کے۔۔۔؟؟ بہت نپے تلے انداز میں بات شروع کی۔
عین نے دھیرے سے پلکیں اٹھا کے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
وہ اسکی جانب پلٹا۔ اور ڈریسنگ ٹیبل سے ٹیک لگاٸی۔
اس میں اتنا حیران ہونے والی کیا بات ہے۔۔۔؟؟ یہی تو تم چاہتی تھی۔۔۔
میری لاٸف میں آنا۔۔۔!!
بہت۔۔۔ محبت کرتی ہوناں۔۔ مجھ سے۔۔۔!!
دھیرے دھرے چلتا وہ اس کے پاس پہنچا۔
وہ تو مانو بت بن کے بیٹھی تھی۔
اور اسی۔۔۔ محبت نے۔۔۔ عفان کی جان لے لی۔۔۔۔!!
غصے سے وہ پھنکارا۔
اس کے الفاظ عین کے دل کے پار ہوٸے۔
اسے سمجھ ہی نہ آٸی وہ کیا کہہ رہا ہے۔۔
کیا۔۔۔ کیا۔۔ کہہ رہے ہیں۔۔۔؟؟ آپ۔۔۔۔؟؟ ہکلاتے ہوٸے پوچھا۔
شادی۔۔ ہوٸی ہے آج ہماری۔۔۔ جھٹکے سے بازو سے پکڑ کے اسے اٹھایا۔ اور اپنے مقابل کھڑ اکیا۔
عین نے اسکی لال انگارہ ہوتی آنکھیں دیکھیں تو ڈر سے کانپ گٸ۔
لیکن۔۔۔ بربادی نہ بنا دیا تمہارے لیے تو۔۔۔میرا نام فارس
شاہ نہیں۔۔۔۔۔!! جھٹکے سے بیڈ پے چھوڑتا وہ پیچھے ہٹا۔
عین کی إنکھیں پانیوں سے لباب بھر گٸیں۔
ہمممم۔۔۔۔ہم۔۔۔نے۔۔کیا۔۔۔۔؟؟ اس کو بولنےمیں مٸسلہ ہو رہا تھا۔
ارے۔۔۔۔ ایک منٹ۔۔۔ منہ دکھاٸی کیا لو گی۔۔۔؟ لو۔۔ میں تو وہ بھول ہی گیا۔۔۔
فارس نے طنز کیا۔
اور سرد نظروں سے اسے دیکھتا۔دراز کی جانب بڑھا۔
اور وہی خط نکال سامنے کیا۔
ہر دلہا کچھ نہ کچھ اپنی دلہن کو منہ دکھاٸی میں تحفہ دیتا ہے۔۔
لیکن ۔۔میں ۔۔ فارس شاہ۔۔۔ اپنی دلہن۔۔۔ کو۔۔۔ منہ دکھاٸی۔۔۔میں۔۔ وہ خط دوں گا۔۔۔ جو ہمارے ملن کی وجہ بنا۔۔۔
جس کی وجہ سے ۔۔۔تم میری۔۔۔ زندگی میں آٸی۔۔!!
لو۔۔۔پڑھو۔۔۔ !! فارس نے سپاٹ لہجے مں اسکے کانپنے وجود کی پرواہ کیے بغیر اسے خط تھمایا۔
عین نے لرزتی پلکوں سے ایک نظر فارس کے غصیلے چہرے کو دیکھا۔ اور خط کھولا۔
نظریں پہلی لاٸن پے جا ٹکیں۔
ایک منٹ۔۔۔!!فارس نے پھر ٹوکا۔ اور مغرور چال چلتا صوفے پے جا بیٹھا۔
میری خواہش ہے۔۔۔ کہ تم اسے اونچی آواز میں پڑھو۔۔۔
صوفے کی بیک پے بازو پھیلاتے وہ اس معصوم اور پاکیزہ دل والی کو اندر تک دہلا کے رکھ گیا۔
پیارے۔۔۔۔ فان۔۔۔۔!!
پہلی لاٸن پے ہی اسکے رونگٹے کھڑے ہوگٸے۔ اس کو اپنے پاٶں پے کھڑا رہنا مشکل لگ رہا تھا۔
آگے۔۔۔۔ پڑھو۔۔۔۔!!