آہل۔۔نبیل کو ہوش آگیا ھے۔۔۔۔ حسان نے آہل کو بتایا آہل سرخ آنکھوں کہ ساتھ i.c.u میں داخل ھوا۔۔۔نبیل کہ ہونٹوں پر اب بھی ایک نام تھا اور وہ تھا آئمہ۔۔آہل شعلے برساتی آنکھوں کہ ساتھ وھاں سے اُٹھ کہ چلا گیا..
نبیل آہل کا بچپن کا دوست تھا دونوں کی دوستی بھت گھری تھی ایک دوسرے کہ لیے کچھ بھی کر گذرنے کہ لیے تیار رھتے تھے۔۔۔ آہل اور نبیل کلاس فیلو بھی تھے۔۔۔آہل گریجوائیٹ مکمل کر کہ لنڈن چلا گیا تھا اور نبیل پاکستان میں ھی تھا۔۔۔نبیل نے گرجوائیٹ کر کے اپنا بزنس جوائین کرلیا تھا آہل کو بزنس میں انٹریس نہیں تھا اس لیے وہ لنڈن چلا گیا تھا ھائر اسٹیڈیز کہ لیے۔۔۔1 سال بعد سمیر کی کال پہ آج وہ پاکستان کہ مشھور ھاسپیٹل آغا خان آئی سی یو کہ باھر کھڑا تھا اور اس وقت اس کی آنکھیں شولے برسا رھی تھیں اپنے جان سے عزیز دوست کو اس حالت میں دیکھ کہ آہل کا خون خول اُٹھا تھا۔۔۔اور اب وہ بدلا چاھتا تھا آئمہ سے۔۔۔
نبیل کو لنڈن کہ مھشور ھاسپیٹل میں ایڈمٹ کروا دیا تھا وھاں اس کا اچھا علاج ھو رھا تھا اور وہ ریکور ہو رھا تھا۔۔۔یہاں آہل آئمہ کی تلاش میں لگا تھا۔۔۔
حسان پتا لگا آئمہ کہ بارے میں۔۔۔ہاں نبیل کی فیس بوک آئڈی میں ایک آئمہ نام کی لڑکی ایڈ تو ھے پر کنفرم نہیں کہ یہ وھی ھے۔۔۔۔حسان تو پاگل ھے وہ آئمہ کہ لیے خودکشی کر رھا تھا ۔۔دوسری بار وہ کوئی اور نہیں وھی ھوگی پتا لگا اب اس کا۔۔۔ہاں میں لگاتا ہوں۔۔۔
کچھ دن بعد حسان آہل کہ پاس ایک ایڈریس کہ ساتھ کھڑا تھا اور وہ ایڈریس یقینً آئمہ کا تھا۔۔آہل کے لبوں پے ایک تیکھی مسکراھٹ آگئی۔۔۔آہل وہ ایڈریس لے کہ روانا ھوگیا۔۔۔۔آہل ایڈریس کہ مطابق حیدرآباد میں موجود تھا۔۔۔لیکن وہ اس بات پہ حیران تھا جو ایڈریس تھا وھاں ایک عام سا مکان تھا کچھ بھی ایسا خاص نہیں تھا تو کیوں نبیل نے ایسی جگھ پریفیئر کی۔۔۔لیکن حسان کہ کہنے کہ مطابق وہ لڑکی امیر تھی اور یہاں امیری جیسا آہل کو کچھ نہیں دیکھا۔۔۔اس کا مطلب اس لڑکی نے نبیل سے جھوٹ بولا۔۔اصل میں اسے ایک امیر ذادہ چاھئے تھا۔۔ لیکن نبیل اتنا امیر نہیں تھا۔۔۔اب میں تمہاری زندگی اجیرن کردونگا تمہیں امیر ذادہ چاھئے تو وہ تمہیں ملے گا۔۔۔آہل مکان کہ باہر کھڑا اپنی سوچوں میں مگن تھا۔۔۔۔
دروزہ بجانے سے ایک بوڑھا آدمی کھانستا ہوا نمودار ھوا۔۔۔۔۔اس نے آہل سے سوال کیا کون ہو بیٹا کس سے کام ھے۔۔۔آہل چپ چاپ اس بزرگ کو دیکھتا رھا اور پہر چلا گیا۔۔۔۔وہ بزرگ بڑی حیرانی سے آہل کو جاتا دیکھ رھے تھے۔۔۔۔کون تھا بابا آئمہ نے اپنے دادا جی اندر آتے دیکھا تو پوچھا۔۔۔پتا نہیں بیٹا کچھ بتایا نہیں ایسے چلا گیا۔۔۔بابا شاید کچھ خیرات مانگنی ہو۔۔۔آئمہ نے معصیت سے کہا۔۔۔نہیں بیٹا اس کہ برابر میں بڑی گاڑی کھڑی تھی وہ خیرات مانگنے والا نہیں لگتا تھا۔۔۔چلو چلا گیا۔۔۔اچھا بابا۔۔۔۔
عابد صاحب کا چھوٹا سا گھرانا تھا ایک بیوی اور ایک پوتی بیٹا اور بہو ایک حادثے میں سپرد خاک ہو گیے تھے تب سے آئمہ میں ان دونوں کی جان بستی تھی آئمہ 2 سال کی تھی جب سے اسے دادا دادی نے پالا تھا۔۔۔انہوں نے آئمہ کو پلکون پے بچھا کہ رکھا ھوا تھا ہر فرمائش پوری کرتے تھے دادا جی کی اچھی پینشن آجاتی تھی کبھی انہیں پیسوں کی تنگی نہیں ہوئی تھی عابد صاحب نے آئمہ کہ لیے پراپرٹی جمع کی ہوئی تھی تاکہ اسے کبھی زندگی میں کوئی مشکل نا آئے۔۔۔آئمہ بھت نیک اور صادت مند تھی نماز کبھی نہیں چھوڑتی تھی اور اس کی یہی بات عابد صاھب کو بہت پسند تھی۔۔۔ ۔۔۔آئمہ نبیل کی کلاس فیلو تھی یونیورسٹی کی یونیورسٹی کہ بعد وہ کبھی نبیل سے نہیں ملی تھی۔۔۔۔نبیل اسکی آئی ڈی میں ایڈ تھا
____________
آہل کا دماغ گھوم رھا تھا یہ سوچ کہ اتنے سادے لوگ اور ایسی حرکتیں کوئی اتنا دکھاوا کیسے کر سکتا ھے۔۔۔اور اس لڑکی نے اپنے بزرگون کا بھی نہیں سوچا کہ اگر اس کی اصلیت ان پہ کھل گئی تو انکا کیا حال ھوگا۔۔۔بہرحال آئمہ تمہیں تمہارے ہر کئے کی سزا ملے گی
__________
آہل نبیل تمہیں بلا رھا ھے بار بار۔۔۔حسان نے آہل کو بتایا۔۔۔آہل نے سر ھلایا اور ائیر لائین کال کی۔۔۔سیٹ کنفرم کی لنڈن کی۔۔۔اور اسی شام آہل روانا ہو گیا۔۔۔
ہاسپیٹل پہنچ کہ وہ نبیل کہ پاس گیا۔۔۔نبیل نے آہل کو دیکھ کے آنکھیں کھولیں۔۔۔آہل اس کی آنکھوں میں نمی محسوس کر سکتا تھا۔۔۔۔آہل آئم سوری یار۔۔۔۔نبیل جانتا تھا اس کی اس حرکت سے اگر کسی کو فرق پڑا تھا تو وہ تھا آہل۔۔۔نبیل۔۔۔کیا وہ لڑکی مجھسے بھی ذیادہ عزیز ھے اس کہ لیے تو نے خدکشی کا سوچا میرے لیے جینے کا نہیں سوچا۔۔۔۔آہل ایک ایک لفظ پہ زور دے کہ کہہ رھا تھا۔۔۔نبیل کی آنکھوں میں نمی بھر آئی۔۔۔۔بس بہت ہوا اب رونے کی باری اس کی۔۔۔۔نہیں آہل اسے کچھ مت کہنا وہ میری زندگی ھے۔۔۔۔آہل کو بھت غصہ آیا پر وہ خاموش رھا۔۔۔۔نبیک اس نے کیا کیا۔۔۔۔اور تم لوگ کہاں ملے اور اس نے تجھے کیوں چھوڑا۔۔۔آہل نے ایک ساتھ سارے سوال پوچھ ڈالے یونیورسٹی میں مے تھے ہم وہ مجھ سے بہت محبت کرتی ھے پر اس کہ گھر والے اس کی شادی کہیں اور کر رھے ھیں۔۔۔تو نے اسے بات نہیں کی آہل نے نبیل سے پوچھا۔۔۔بھت بار کی پر وہ کہتی ھے لرکا بھت امیر ھے وہ اسے بھت خوشیاں دے گا۔۔۔۔یہ اس نے کہا۔۔۔آہل نے حیرت کہ عالم میں پوچھا۔۔۔ھاں۔۔۔۔اور تو اب بھی کہہتا ہے وہ تجھے محبت کرتی ھے۔۔۔۔وہ لڑکی کہاں کہان کی ھے۔۔۔یار میں تجھے نہیں بتا سکتا تو اسے نقصان پہنچائے گا۔۔۔ھھھمممم اچھا تیری طبیعت کیسی ہے اب۔۔۔اور اگر میرے لیے دل میں ذرا بھی پیار ہے تو آئندہ کبھی ایسی کوئی حرکت مت کرنا۔۔۔وعدہ آئندہ کبھی ایسا نہیں کرونگا بس مجھے آئمہ لادے۔۔۔۔ھممممم اچھا میں کچھ ٹائم کہ لیے پاکستان جا رھا ھوں تو یہیں رھنا۔۔۔یہ میرے گھ کی چابیاں ھیں جو بھی چاھئے لے لینا اور کیش کی ضرورت ہو تو میری چیک بک میری کبٹ میں رکھی ھے اس کی چابی بھی ھے اس میں۔۔جتنا چاھے لے لینا۔۔۔میں کچھ ٹائم اپنے پاکستان والے گھر میں رھون گا۔۔۔۔اپنا خیال رکھنا۔۔۔نبیل کہ کہنے پہ آہل نے بس اتنا کہا اس کی ضرورت تجھے ھے اور چلا گیا۔۔۔نبیل جانتا تھا آہل اس سے ناراض بے۔۔۔
آہل پاکستان پہنچ کی سیدھا حسان کی طرف گیا۔۔۔حسان اس لڑکی کی ٹائمنگ پتا کی ھے۔۔۔ہاں وہ اب کہیں پرائوٹ جوب کر ربی ھے صبح 8 بجے جاتی ھے اور 2 بجے آتی ھے۔۔ٹھیک گھر میں کون کون ھے۔۔۔بس دادا دادی ھیں۔۔۔۔اور کوئی نہیں۔۔۔آہل نے حسان کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔۔نہیں دادا کی ٹھیک ٹھاک پراپرٹی ھے پینشن بھی اچھی ھے شوق میں جوب کرتی ھے لڑکی۔۔۔۔اچھا دادا دادی کیسے لوگ ھیں۔۔۔بہت اچھے اور سادے لوگ۔۔۔جس سے بھی پوچھا وہ یہی کہتا ہے۔۔۔۔ان کی بیٹی کو اغوا کرنا صحیع رھےگا۔۔۔۔آہل نے ایک دم حسان سے پوچھا۔۔۔میرے خیال سے نہیں۔۔۔ایک ھی پوتی کے سہارے جیتے ھیں دونوں انہیں کچھ ہو گیا تو ہم سے غلط ہو جائیے گا۔۔۔ھممم آہل کچھ سوچنے لگا۔۔۔اور پہر اس نے نبیل کو کال ملائی۔۔۔کال چھوٹتے ھی آہل نے نبیل سے کہا مجھے کچھ پوچھنا ھے تجھ سے۔۔۔ھاں۔۔نبیل نے سنجیدگی سے کہا۔۔۔۔تجھے مجھ میں اور اس لڑکی میں کیسی کو چنا پرے تو کسے چنے گا۔۔۔نبیل گھری خاموشی کہ بعد بولا تجھے۔۔۔۔ٹھیک ھے کہہ کہ آہل نے کال رکھ دی اب آہل کہ دماغ میں جو آیا تھا سے اس پہ عمل کرنا تھا۔۔۔۔۔اس نے اپنے مما بابا کو کال ملائی۔۔۔۔۔آہل اپنے مان باپ کا اکلوتا تھا اور ایک بہن تھی جو بچپن میں چھت سے گر کے چل بسی تھی۔۔۔آہل کے مما پاپا ایک گاؤن میں رھتے تھے آہل کہ پاپا اس گاؤن مے سربراھ تھے۔۔۔وہ گاؤں اس کے پاپا کا تھا۔۔۔آہل نے بھت بار کہا تھا اپنے پاپا سے کہ وہ اس کہ ساتھ لندن چلیں پر انہیں اپنے گاؤن میں ھی سکون ملتا تھا وہ نھایت سادہ تھے پر ان کہ آگے پورے گاؤن میں کسی کی نہیں چلتی تھی آہل دنیا میں صرف اپنے پاپا سے ڈرتا تھا۔۔۔۔آہل شروع سے شھر میں رھتا تھا۔۔۔۔آہل کی پڑھائی کی وجھ سے فراز صاحب نے اپنے لختے جگر کو اپنے سے دور رکھا
پر وہ چاھتے تھے آہل اپنا بزنس جوئن کرے پر وہ منع کر کہ لنڈن چلا گیا تھا۔۔۔اور نبیل کبھی کبھی جاتا تھا ان سب سے ملنے۔۔۔
______________
آہل نے جب اپنے فیصلے کا حسان کو بتایا تو وہ سدمے میں آگیا۔۔۔آہل تم ایسا کیسے کر سکتے ہو نبیل کو پتا چل گیا تو وہ تو مر جائگا۔۔۔۔نبیل کو کوئی کچھ نہیں بتائے گا۔۔۔۔اور میں اسے شوق میں شادی نہیں کر رہا مجبوری ھے اغوا کر کے میں اپنے وجھ سے کسی بی گناہ کی جان نہیں لے سکتا قسور اس لڑکی کا ھے اس کے داد دادی کا نہیں اس لیے اسے شادی کر کہ لاؤں گا پہر اسے زندگی کا اصل مزہ چکھاؤنگا۔۔۔لیکن شادی حسان کی حیرت اب بھی کم نہیں ہو رھی تھی۔۔۔ھاں ۔۔۔تو تم کسی اور کو بھی کہہ سکتے ہو شادی کا۔۔۔۔نہیں اگر میں کسی اور سے اس کی شادی کروا بھی دوں تو اس بات کی کیا گارنٹی کہ وہ اسکی زندگی اجیرن کریگا۔۔۔اور بعد میں اسے طلاق بھی دے گا۔۔۔۔میں خود کہ علاوہ اور کسی پہ یقین نہیں کر سکتا اس بارے میں۔۔۔لیکن تمہارے بابا کو پتا چلا تو وہ کبی تمہیں طلاق نہیں دینے دین گے۔۔۔۔انہیں کبھی پتا نہیں چلے گا اسے پہلے میں اسے نکال دونگا۔۔۔۔تو شادی مما پاپا کہ بغیر کیسے کروگے۔۔۔لوگ ھائر کرونگا۔۔۔آہل اطمینان سے کہہ رھا تھا جبکہ حسان کی حیرت بڑھتی جا رھی تھی۔۔۔۔
آہل نے اپنے کہنے کہ مطابق کچھ لوگون کو ھائیر کر کہ آئمہ کہ گھر رشتہ بھیجا تھا اب جواب کا منتظر تھا۔۔۔اور وہ جانتا تھا جواب ھاں میں ھی ھوگا۔ ۔۔اس لیے مطمعیں تھا۔۔۔
.
آہل کہ رشتے سے آئمہ کہ دادا دادی بہت خوش تھے انہیں اپنی جان سے عزیز بیٹی کا اتنا اچھا رشتہ انہوں نے کبھی سوچا نہیں تھا وہیں آئمہ پریشان تھی کہ اچانک کوئی انجان کیسے رشتہ لے کہ آسکتا ھے پر اپنے دادا دادی کو خوش دیکھ کہ چپ تھی۔۔۔پر انجانے خوف کہ۔سائے اسے گھیرے ہوئے تھے۔۔۔دادی آئمہ کے پاس آئیں تو اس. ے اپنی پریشانی دادی کو بتائی۔۔۔اس پہ دادی نے کہا بیٹا لڑکا بہت اچھا ھے میری بیٹی راج کریگی۔۔۔اور بیٹا ہم بوڑھا بوڑھی کا کیا بھروسا ہم چاھتے ھے اپنے زندگی مین تمہیں بسا دیکھ لیں اور آئمہ چپ کر کہ ھاں کہہ کہ چلی گئی۔۔۔
آہل کو ھان ھو گئی تھی آئمہ کے گھر میں شادی کی تیا ریاں شروع ہوگئیں تھی لیکن آہل کہ پاس ایسا کچھ نہ تھا ۔۔۔اب تک آہل نے نہ آئمہ کو دیکھا تھا نہ ھی آئمہ نے آہل کو اور دونوں میں دیکھنے کی چاھ بھی نہیں تھی۔۔۔۔
دادا دادی نے اپنے سارے ارمان شادی مین پورے کیے اور آج وہ اپنی جان سے عزیز بیٹی کو رخست کر رھے تھے۔۔۔آئمہ چپ تھی۔۔۔بس اپنے دادا دادی کا مان رکھا تھا اس نے۔۔۔۔آہل کی آنکھیں سرخ پڑ رھی تھیں کوئی نہیں جانتا تھا اس شہزادے جیسے شخص کہ دل میں اس وقت کیا چل رھا تھا۔۔۔
آہل آئمہ کو لے کہ آہل مینشن پہنچا۔۔۔اور گاڑی سے نکل۔کہ سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔۔۔آئمہ کافی دیر ایسے گاڑی میں اکیلی بیٹھی رھی پہر ڈراور نے اسے کہا آپ کو صاحب بلا رھے ہیں۔۔۔اور وہ مرتے قدموں کہ ساتھ آہل مینشن میں داخل ہوئی سامنے آہل بیٹھا تھا اس نے چینج کرلیا تھا اور اب وہ کیں سے دولہا نہیں لگ رھا تھا آئمہ اسے سامنے دیکھ کہ سوچ میں پڑ گئی ہ کیا یہ دولہا ہے کیونکہ آئمہ نے اب تک آہل کو نہیں دیکھا تھا۔۔۔۔آئمہ وہیں رک کہ اس شخص کہ بولنے کا انتظار کرنے لگی جبکہ وہ شخص آئمہ کو آج پہلی بار دیکھ کہ آپنے آپ کھو بیٹھا تھا۔۔۔اور سوچ رھا تھا اتنا نورانی چھرا۔۔۔۔کیسے۔۔۔۔۔وہ سوچوں میں غرق تھا جب ھی آئمہ نے اسے مخاطب کیا۔۔۔آپ آہل ھیں۔۔۔۔کیوں تم کسی اور کو ایسپیکٹ کر رھی تھیں آہل کہ جواب سے آئمہ کی آنکھیں پھٹی رھ گئیں۔۔۔کیا مجھے جاءِ نماز اور رخ کا بتا سکتے ہیں میں نے عشاء کی نماز نہین پڑھی اب تک اس کہ بات پر آہل کو گھرا جھٹکا لگا۔۔۔۔کچھ دیر اسے دیکھنے کہ بعد آہل نے کہا۔۔۔۔یہ سب ڈرامے کس لیے۔۔۔۔آئمہ بس اتنا کہہ پائی نماز میں کوئی ڈرامہ ہوتا ھے اسکا اتنا کہنا تھا کہ آہل اپنی جگھ سے اُتھا اور زور دار تھپڑ آئمہ کہ منہ پہ جڑ دی آئمہ دور جا گری۔۔۔گال پہ ھاتھ رکھے بے یقینی سے اپنی ہونے والی تذلیل کو برداشت کر رھی تھی پر وہ چپ تھی۔۔۔آہل دھاڑا۔۔۔نکل جاؤ میری نظر سے دور ورنہ آج ھی میرے ھاتھ سے تمہارا قتل نہ ہو جائے۔۔۔آئمہ ضبط برداشت کہ ساتھ بولی۔۔۔میرا قسور بتا سکتے ہیں آپ مجھے۔۔ آئمہ کا اتنا کہنا تھا کہ آہل غصہ سے پاگل ہوا اس کی طرف لپکا۔۔۔اور ایک اور تھپڑ اس کہ ملائم گال پے جڑ دی آئمہ کی گالوں پہ آہل کی انگلیوں کہ نشان چھپ گئے۔۔۔۔بیشرم لڑکی اب تمہارا قسور بھی تمہیں میں بتاؤں آئمہ کانپنے لگی تھی آج تک اس کہ دادا دادی نے کبھی اس پہ ھاتھ نہیں اُتھایا تھا آج آہل نے اپنے مردانا ھاتھ سے اسے 2 جڑ دی تھیں اور وہ سہمی کھڑی رو رھی تھی آہل نکلتا باھر چلا گیا۔۔۔اور آئمہ سوچنے لگی اس سے ایسا کیا گناھ سرذرد ہوا ھے جس کی اسے سزا ملی ہے۔
__________