اسی لمحے زور دار آواز کے ساتھ تہہ خانے کا اکلوتا دروازہ بند ہو گیا۔
خود بخود… اچانک… جاوید کے حلق سے بھیانک چیخ نکلی۔ وہ گرتا پڑتا اوپر چڑھ رہا تھا اور ٹھٹھرائی ہوئی آواز میں چیخ رہا تھا۔
’’کھولو… میں مر جاؤں گا… کون ہے …؟ دروازہ کھولو… میں مر جاؤں گا… میرا دم… گھٹ رہا ہے … خدا کے لیے مجھے باہر آنے دو…‘‘
اسے ایک ہنستی ہوئی آواز سنائی دی۔ جاوید آواز کو پہچان کر لڑکھڑا گیا۔ ’’آ… آصف… آصف…؟‘‘
’’ہاں … میں آصف… جس کو تم نے مار ڈالا تھا…‘‘ اوپر سے آواز آئی۔
’’تو کیا… یہ تمہاری روح ہے …؟‘‘ جاوید قریب المرگ ہو گیا تھا۔
’’ہنہ… بے وقوف…‘‘ ڈانٹتی ہوئی آواز آئی۔ ’’روح کا بھلا زمین پر کیا کام…؟ روح تو تب نکلتی ہے جب آدمی مرتا ہے … میں مرا ہی کب تھا۔‘‘
’’تم… جھو… جھوٹ بول رہے ہو ہم نے خود تمہاری لاش دیکھی تھی۔‘‘ جاوید بے یقینی کے عالم میں بولا۔
’’تم نے مجھے دیکھا ضرور تھا، لیکن اس وقت میں مرا نہیں تھا زندہ تھا… جب تم تینوں مجھے دیکھنے آئے تھے تو میں نے سانس روک لی تھی۔ تم جانتے ہو کہ مجھے سانس کی پریکٹس ہے۔ تم نے مجھے مردہ سمجھا اور بند کر کے چلے گئے۔ یہ درست ہے کہ میں بہت زخمی تھا۔ بھوکے چوہوں نے مجھے کئی جگہ سے کاٹ کھایا تھا، لیکن میں زندہ رہا۔ میں لاکھ بزدل سہی، مگر توہم پرست نہیں ہوں اور میں جانتا تھا کہ تم تینوں بہادر تو ہو، مگر ساتھ ساتھ بلا کے توہم پرست اور ضعیف العقیدہ بھی ہو۔ تم لوگ مجھے مرا ہوا سمجھ کر اپنا جرم چھپانے کے لیے مجھے بند کر کے چلے گئے۔ تم لوگوں کے چلے جانے کے بعد میں نے پر زور آزمائی شروع کر دی، کیوں کہ بہرحال مجھے یہاں سے باہر نکلنا ہی تھا۔ تم لوگوں نے میرے ساتھ جان لیوا مذاق کیا تھا۔ میری قسمت تھی کہ میں بچ گیا۔ میں نے اسی رات فیصلہ کر لیا تھا کہ میں بھی کچھ ایسا ہی مذاق تم لوگوں کے ساتھ بھی کروں گا۔ اگر قسمت نے تمہارا ساتھ دیا تو تم لوگ بچ جاؤ گے، جیسے میں بچ گیا، ورنہ تم لوگ قاتل تو ہو ہی۔ قتل تو بہرحال میرا تم لوگوں نے اپنی دانست میں کر ہی ڈالا تھا۔ اور جو من گھڑت کہانی تم نے میرے گھر والوں اور پولیس کو سنائی ہے، وہ بھی میں خوب جانتا ہوں۔ بے فکر رہو پیارے جاوید… تم لوگوں نے نادانستگی میں میری مشکل آسان کر دی ہے۔ تم سے نمٹنے کے بعد میں گھر جاؤں گا اور بتاؤں گا کہ میں بڑی مشکلوں سے ڈاکوؤں کے چنگل سے بچ کر نکلا ہوں۔ میں تب سے ڈاکوؤں کی قید میں تھا۔ لوگ آسانی سے یقین کر لیں گے، کیوں کہ تم نے بھی ایسی ہی کہانی گھڑی تھی۔ ہاں تو میں دروازے پر زور آزمائی کرتا رہا، لیکن دروازہ زنگ آلود ضرور ہے، مگر ہے بہت مضبوط اور موٹے لوہے کا میں اسے دھڑدھڑاتا رہا۔ اس امید پر کہ شاید کوئی اگر اتفاق سے عمارت کے قریب سے گزر رہا ہو تو سن لے۔ یہاں کہانیوں جیسا اتفاق ہوا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تقدیر میرے ساتھ تھی۔ اسی عمارت کا سابقہ چوکیدار جو یہاں کافی دنوں بعد آیا تھا، اس نے دروازہ پیٹنے کی آواز سن لی اور یوں میں باہر نکل گیا۔ چوکیدار میرا محسن تھا، اس لیے میں نے اس بوڑھے کو ساری کہانی بلا کم و کاست سنا دی۔ چوکیدار بوڑھا بنگالی تھا اور اسے سفلی علم سے بھی خاصی شد بد تھی۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں اپنے تینوں دوستوں سے بھیانک انتقام لینا چاہتا ہوں، کیوں کہ انہوں نے مجھے مارنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور مجھے یونہی ’’بے گور و کفن‘‘ چھوڑ کر بھی چلے گئے۔ میں اس کے ساتھ ہی اس کے گھر رہنے لگا۔ تقریباً بیس دن اس نے مجھے خاموش رہنے کا کہا اور خود بھی کچھ نہیں کیا۔ اس کے بعد اس نے عمل شروع کر دیا۔ تم تینوں کے زبانی کوائف میں اسے دے چکا تھا، اس لیے بابا کو عمل کرنے میں دشواری پیش نہیں آئی۔ ادھر ایک رات کامران پر جادو شروع ہو گیا۔ اسے میرا سایہ نظر آنے لگا اور آواز بھی، لیکن وہ سب سفلی علم کی بدولت ہو رہا تھا۔ کامران کا پتلا بابا کے قبضے میں تھا، اس لیے وہ ہی کچھ کرتا رہا، جس کے لیے اسے مجبور کیا جاتا رہا۔ تم بھی کامران کی حادثاتی موت کے بارے میں جانتے ہو۔ اسی طرح راشد کا بھی پتلا بنا کر اسے ختم کیا گیا۔ پھر تم کو مجبور کیا گیا کہ تم یہاں آؤ اور دیکھ لو جاوید… تم یہاں آ چکے ہو… اب تم مرو گے … سسک سسک کر… تڑپ تڑپ کر… بھوکے پیاسے … اور ہاں وہ جو تم ڈھانچا دیکھ چکے، وہ ہم نے قصبے کے قبرستان سے حاصل کر کے یہاں پہنچایا تھا… کہو … کیسی لگی اسٹوری…؟ دوست گھبرانا بالکل نہیں … یہ تو صرف مذاق ہے … دس پندرہ دن بعد آ کر میں خود یہاں سے نکال لوں گا۔‘‘
آصف تفصیل بتا کر ہنسنے لگا اس تمام تفصیل کے دوران جاوید روتا پیٹتا رہا تھا۔ فریادیں، التجائیں کر رہا تھا۔ معافیاں مانگ رہا تھا۔ نہ جانے کس کس کے واسطے دیتا رہا، لیکن آصف کے کان پر جوں نہ رینگی۔ وہ اپنی سناتا رہا۔ مزے لے لے کر جیسے کوئی دل چسپ اور سنسنی خیز کہانی سنا رہا ہو۔
’’گڈ نائٹ فرینڈ… یہی کہا تھا نا تم لوگوں نے …‘‘ آصف کے قدموں کی آوازیں دور ہوتی چلی گئیں۔
جاوید دھاڑیں مارتا رہ گیا۔ بلکتا، سسکتا، خوفزدہ سا۔ ٹارچ پتا نہیں کب اور کہاں گر گئی۔ تہہ خانے میں بھوکے چوہے ادھر ادھر پھدکتے پھر رہے تھے۔ شاید اپنے شکار پر حملہ کرنے کی پلاننگ کر رہے تھے۔
آصف باہر نکلا۔ ایک درخت کے نزدیک بوڑھا چوکیدار کھڑا تھا۔ وہ تیزی سے آصف کے پاس آیا۔
’’بند کر دیا اسے …؟‘‘ بوڑھے کی آواز میں خباثت رچی ہوئی تھی۔
’’ہاں … اور اب تو وہاں سے صرف اس کی روح ہی نکلے گی۔‘‘ آصف پر سکون اور شادمان لہجے میں بولا۔ ’’چلو بابا… اب چلتے ہیں … ویسے ہی آج کل قصبے میں چوریاں بہت ہو رہی ہیں … گھر اکیلا ہے … جلدی چلو… کل پرسوں تک تو میں بھی واپس چلا جاؤں گا۔‘‘
’’پھر واپس یہاں نہیں آئے گا تو…؟‘‘ بوڑھے نے پوچھا۔
’’کیسے نہیں آؤں گا بابا… ضرور آؤں گا… بھلا تم کو بھول سکتا ہوں اور پھر اپنے پیارے دوست کی لاش بھی تو دیکھوں گا… اس سے وعدہ کیا ہے دس پندرہ دن بعد آ کر اسے نکالوں گا… دس پندرہ دن…‘‘ آصف ہنس پڑا۔
اس کی ہنسی میں بوڑھے کی مکروہ ہنسی بھی شامل ہو گئی۔
وہ دونوں قصبے کی جانب روانہ ہو گئے۔ ابھی انہوں نے آدھا فاصلہ طے کیا تھا کہ انہوں نے بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں سنی تھیں، لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے بھاگنے والے کو دیکھ نہ سکے۔ دونوں ابھی کچھ سمجھ نہیں پائے تھے کہ اندھیرے میں زور دار دھماکوں کے ساتھ شعلوں کی لکیریں کوندیں اور ان دونوں کو چاٹ گئیں۔ آصف اور بوڑھا خاک و خون میں لتھڑ کر لوٹنے لگے۔ آن کی آن میں دونوں ایک ساتھ موت کے منہ میں پہنچ گئے۔
سامنے سے اندھیرے نے کئی آدمی اگلے وہ سیدھا دونوں لاشوں کی طرف آئے۔ ان کے ہاتھوں میں بندوقیں تھیں۔ ان کی نالوں میں سے دھوئیں نکل رہے تھے۔
’’مر گئے … یہ دیکھو یہ پڑے …‘‘ آگے والے آدمی نے دوسروں کو بتایا۔
’’کب تک بچتے … بڑے دنوں سے تنگ کر رکھا تھا… پر جبارے ذرا دیکھ تو۔ تھے کون یہ دونوں چور…؟‘‘
’’اوئے کوئی بھی ہوں … چور بس چور ہوتا ہے … سمجھا کہ نہیں …؟‘‘
’’اندھیرا بہت ہے چلو اٹھا لے چلو انہیں … اب قصبے میں سکون ہو جائے گا… بڑی چوریاں کی ہیں انہوں نے …‘‘
یہ قریبی قصبے کے لوگ تھے، جو قصبے میں ہونے والی چوریوں سے تنگ تھے اور ٹولیاں بنا کر راتوں میں چوروں کو تلاش کرتے تھے۔ آصف اور بوڑھے کو دیکھ کر اُنہوں نے چور سمجھا اور گولیاں مار دیں۔
برائی کا بدلہ برائی سے لے کر بھلا آصف کیسے بچ پاتا۔
وہ لوگ دونوں ’’چوروں‘‘ کو اٹھا کر قصبے کی جانب روانہ ہو گئے۔
٭٭٭
متن کتاب ایپ سے حاصل ہوا
ای بک سے تبدیلی، تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید