اٹھ گئی آرزو بی بی کھل گئی مہارانی کی آنکھ
ارے ابھی وقت ہی کیا ہوا ہے صرف صبح کے سات ہی تو بجے ہیں ابھی سوجاؤ ابھی تک تمہارا سورج طلوع نہیں ہوا بی بی
تائی امی اسے جلی گھٹی سناتے ہوئے باہر آئی ۔
تائی امی میں تو صبح سے جاگ رہی ہوں آپ کمرے سے نکلی ہی نہیں شاید اس لیے آپ کو پتہ نہیں چلا ہوگا آرزو دھیمی آواز میں منمنائی ۔
چٹاخ ۔پدی سی لڑکی تو مجھے غلط کہتی ہے ۔تائی امی غصے سے آگ بگولا ہوتی اس کے منہ پر تھپڑ مار گئی ۔
نہیں تائی امی میں نے تو آپ کو غلط نہیں کہا ۔آرزو روتے ہوئے بولی
دو ٹکے کی لڑکی تو مجھ سے زبان لڑاتی ہے ۔ماں باپ خود تو مر گئے اسے میرے سر باندھ گئے ۔
ناکام کی نا کاج کی دشمن اناج کی ۔
چل بی بی راستہ ناپ اپنا ۔فٹافٹ ناشا لگا یہاں ۔
اور تامیہ کو جگا۔ تائی امی اسے حکم جھاڑتی اندر کی طرف چلی گئی
اور وہ تامیہ کے کمرے کی طرف آئی ۔
آپی اٹھ جائیں بہت وقت ہوگیا ہے ۔آرزو نے تامیہ کو جگاتے ہوئے کہا
منہوس کہیں کی کتنی بار کہا ہے صبح صبح اپنی گندی شکل مت دکھایا کر مجھے ۔
اب سارا دن بُرا گزرے گا ۔
کس نے بھیجا ہے تجھے میرے کمرے میں امی نے ۔۔۔آج ان کی خبر لیتی ہوں میں ۔
کتنی بار منع کیا ہے صبح صبح اسے میرے کمرے میں نہ بھیجا کریں لیکن پھر منہ اٹھا کے آجاتی ہے یہ ۔ایک تو پیدا ہوتے ہیں اپنے ماں باپ کو کھاگئی دوسرے ہمارے گلے پر گئی ہے ۔
تامیہ کے چلانے کی آواز باہر آرہی تھی۔
اس گھر میں اس کی صبح ایسے ہی ہوا کرتی تھی ۔
ہر کوئی ایسے ہی اس پر اپنی بھڑاس نکالتا تھا
کیونکہ اس گھر میں اس کی صرف یہی اوقات تھی ۔
ماں باپ پیدا کر کے مر گئے ۔
اور یہ ان کے گلے ڈال دی گئی ۔اس گھر میں واحد تایا ابو ہی تھے جو اس کے اپنے تھے
جہنوں نے ماں باپ کے مرنے کے بعد اس کے سر پر ہاتھ رکھا
آٹھ سال تک تو وہ اس گھرمیں رانی بن کر رہی ۔
لیکن پھر تایا ابو کو لکوا مار گیا ۔
اور پھر اس پر شروع ہوا یہ ظلموں کا سلسلہ ۔
تایاابو اس کے لیے آواز نہ اٹھا سکے ۔اور باقی سارے خاندان میں اتنی ہمت ہی کہاں تھی کہ ایک یتیم کا بوجھ اٹھاتے
وہ ناشتہ لگاتے اپنے آنسو چھپانے کی کوشش کر رہی تھی ۔
جب کہ تائی امی اور تامیہ ایک دوسرے کو دیکھ کر مسکرارہی تھی ۔کیونکہ آج بھی اس کے دل کو کورے مار کر انہوں نے اپنے دل کو تسکین پہنچائی تھی ۔
رک جاؤ عون بیٹا آج تمہارے نانا کی برسی ہے ۔میں نے ایک چھوٹی سی قرآن خوانی رکھوائی ہے سبھی بچے گھر پر ہیں تم بھی آج کام پر مت جاؤ ۔تائی امی نے بہت محبت سے اسے مخاطب کیا ۔
میرے یہاں رکنے سے آپ کی دیورانی کے ابا حضور زندہ ہو جائیں گے نہیں نہ ۔ راستہ چھوڑیں میرااور آج کے بعد اس طرح اسے روکئے گا نہیں ۔
اچھے سے جانتا ہوں مجھے روکنے کے لیے کس نے کہا ہے اس نے اندر سے آتی زبیدہ بیگم کو سخت نگاہ سے دیکھا
مجھے آپ کی دیورانی کے محروم ابا حضور سے کوئی مطلب ہے اور نا ہی آپ کی اس شو آف سے یہ سب تو صرف ایک بہانہ ہے ۔سیدھے سیدھے کہیں نہ کے محلے کی عورتوں کے سامنے اپنی نئی گاڑی کے چونچلے کرنے ہیں
اور جہاں تک بات ہے قرآن خوانی کی اگر آپ دل سے یہ کرواتی تو میں ضرور آتا ۔ اور ایک بات یاد رکھیے اپنے مطلب کے لئے اللہ کا نام استعمال کرنا چھوڑ دیں ۔
اب راستہ چھوڑیں میرا ویسے بھی آپ کی دیورانی کے چاربیٹے ہیں ہی یہاں اور میری ضرورت تو آپ کی دیورانی کو پہلے بھی نہیں تھی اور آگے بھی نہیں ہوگی ۔
وہ انہیں سخت نگاہوں سے گھورتا باہر نکل گیا ۔
بڑی ممی جی عون بھائی تو چلے گئے ۔اب اکبر صاحب کی بیٹی کو کون دیکھے گا ۔کیوں کہ یہ بات تو کلیئر ہے کہ عون بھائی اپنی مرضی کے خلاف شادی نہیں کریں گے ۔
ہانیہ ان کے قریب آ کر بولی ۔
اسی لئے تو چاہتی تھی کہ عون رک جائے لیکن پھر بھی یہ کام پر چلا گیا ۔
اور جاؤ جاکر سمیر سے کہو کہ نئی والی گاڑی اندر گراج میں کھڑی کردے ہم قرآن خوانی کر رہے ہیں زبیدہ کےابا حضور کے لئے کوئی گاڑی کی شو آف تھوڑی نہ کر رہےہیں ۔
اب جو بھی تھا عون کی بات دل پر اثر کر گئی تھی ۔
ٹھیک ہے میں سمیر سے کہتی ہوں ۔
ہانیہ منہ بناتی اندر چلی گئی
زبیدہ تم دل پہ مت لینا تمہیں تو پتہ ہی ہے آجکل ضرورت سے زیادہ چڑچڑھا ہوا ہوا ہے ۔
جانتی ہوں بھابھی اور یہ بھی جانتی ہوں کہ یہ میری غلطیوں کا نتیجہ ہے ۔
زبیدہ دوپٹے سے آنسو صاف کرتی اندر کی طرف بڑگئی
رشتہ ہمیں منظور ہے اور ایک بات سن لو ایک پھوٹی کوڑی نہیں ہے میرے پاس دینے کے لیے ۔رضیہ سامنے بیٹھے بشیر کو دیکھتے ہوئے بولی ۔
ارے رضیہ آپا مجھے کچھ نہیں چاہئے مجھے تو بس آرزو چاہیے ۔
بس اس دل میں آرزو کی آرزو ہے پوری کردو نا وہ اپنے سینے پر ہاتھ رکھے لوفرانہ انداز میں بولا ۔
ارے تو رشتہ پکا سمجھ تیری بہن تیری خواہش کو ضرور پورا کرے گی میرے بچے ۔
لیکن ماموں ابو مانے گے اس رشتے کے لئے ۔تامیہ نے قریب ہو کر پوچھا ۔
وہ کون ہوتا ہے نہ ماننے والا خود تو بستر پر پڑا ہے ۔وہ کچھ نہیں کہہ سکتا تم بالکل پریشان مت ہو میری طرف سے یہ رشتہ پکا ہے ۔
اور اس کی فکر مت کرو عثمان سے میں ابھی جا کے بات کر لوں گی تم بس نکاح کی تیاریاں کرو ۔
رضیہ یہ کہتے ہوئے ۔اندر کی طرف آگئی
بدبخت ۔۔۔۔۔۔۔۔عورتتتت۔ ۔۔۔تمہاری ہمت۔۔۔۔۔۔ کیسے ہوئی میری بچی۔۔۔۔۔ کا نکاح۔طے۔ ۔۔ کرنے کی ۔۔عمر دیکھی ۔۔۔۔ہے اس کی ۔۔۔۔۔۔چالیس سے۔،۔۔۔ اوپر ہے ۔
میری بچی۔۔۔۔۔۔۔ تو ابھی 18 ۔۔۔۔۔سال کی بھی۔۔۔۔۔۔ نہیں ہوئی ۔
اگلے مہینے ہو جائے گی تمہاری لاڈلی 18سال کی اور ویسے بھی آج ہی نکاح کر کے حوالے نہیں کر رہی میں ایک مہینہ انتظار کروں گی ۔ جہاں اتنا بوجھ اٹھایا ہے وہاں ایک مہینہ اور سہی ۔رضیہ ڈھنائی سے بولی۔
ارے بدبخت۔۔۔۔۔۔ عورت مجھے ۔۔۔۔۔۔نہیں کرنی۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی بیٹی۔۔۔۔۔۔۔۔ کی شادی تیرے۔۔۔۔۔۔۔ بھائی کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔وہ آوارہ آدمی ۔۔۔۔۔۔۔میری بچی۔۔۔۔۔۔ کو بیچ کھائے ۔میں اپنی بیٹی کی شادی ۔۔۔۔۔۔۔ایسے انسان سے۔۔۔۔۔۔۔۔ کروں گا جو۔۔۔۔۔۔۔ اس کے قابل ہوگا ۔۔۔۔تایاابو غصے سے بولے
ہاں ہاں بستر پہ لیٹے لیٹے سوچو اور دیکھو اپنی بیٹی کے سہانے خواب ایسی لڑکیوں کے رشتے نہیں آتے ۔وہ تو میرے بھائی کا احسان مانوکے دل آ گیا ہے اس پر ۔
بکواس بند۔۔۔۔۔۔ کرو کیا تم ۔۔۔،۔۔۔اپنی بیٹی ۔۔۔۔۔۔۔کا ہاتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسے شخص۔۔۔۔۔۔۔۔ کے ہاتھ میں۔۔۔۔۔۔۔ دے سکتی ہو جو۔۔۔۔۔۔۔۔ دن رات شراب۔۔۔۔۔۔۔ میں ڈوبارہے ۔۔۔۔۔۔۔جسے کھانے۔۔۔۔۔۔۔ پینے کا ہوش۔۔۔۔۔۔۔ بھی نہ ہو اپنا ۔۔۔۔۔۔۔احساس نہ کسی اپنے۔۔۔۔۔۔ کا کیااسے۔۔۔۔۔۔۔ انسان کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنی بیٹی۔۔۔۔۔۔ کا ہاتھ۔۔۔۔۔ دو گی ۔
ہائے ہائے اس منہوس بھتیجی کے لیے تم اپنی بیٹی کو بددعا دے رہے ہو ذرا شرم کرو ۔۔
رضیہ ہاتھ ملتے ہوئے بولی
میں کسی ۔۔۔۔کو بد دعائیں۔۔۔۔۔۔۔ نہیں دے۔۔۔۔۔۔۔ رہا بس۔۔۔۔۔۔ مجھے یہ رشتہ ۔۔۔۔۔۔منظور نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے اگر تم اس رشتے کو قبول نہیں کرتے تو ٹھیک ہے میں اور میرے بچے چلے جائیں گے یہاں سے ہمیشہ کے لیے تمہیں اپنی بھتیجی کے ساتھ یہی رہومیں اس لڑکی کو اس گھرمیں مزید برداشت نہیں کر سکتی بس بات ختم ۔
ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔اگر جانا ۔۔۔۔چاہتی ہو تو ۔۔۔۔۔۔۔چلی جاؤ ۔۔۔۔۔میں نہیں روکوں۔۔۔۔۔ گا میں اپنی بیٹی ۔۔۔۔۔۔کو کبھی ایسے جاھل انسان کے ۔۔۔۔۔۔حوالے نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کروں گا سن رہی ۔۔۔۔۔ہو تم تایاابو چلاتے ہوئے بولے
تایا ابو کےچلانے کی آواز باہر تک آ رہی تھی ۔
وہ تو ہمیشہ سے ہی اس گھر پر بوجھ تھی ۔ہمیشہ سے ہی تایاابو کے لیے مشکلیں پیدا کرتی رہی اور آج اس کی وجہ سے ان کی بیوی اور ان کے بچوں انہیں چھوڑ کر جا رہے تھے۔
دماغ۔۔۔۔ خراب ہوگیا ۔۔۔۔ہے تمہارا۔۔۔۔۔۔۔ تمہارا تایا۔۔۔۔۔۔ ابھی زندہ ہے وہ۔۔۔۔۔۔۔ لڑ سکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔تمہارے لیے ۔۔۔۔۔خبردار جو ایسی۔۔۔۔۔ بات دوبارہ۔۔۔۔۔۔ کی ۔۔۔تایاابو غصے سے بولے
نہیں تایاابو آپ میرے لئے نہیں لڑیں گے ۔
میں نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے اس گھر میں مزید کوئی بدمزگی پیدا ہو ۔بس تائی امی جہاں کہہ رہی ہیں آپ رشتے کے لئے ہاں کردے مجھے منظور ہے ۔وہ آنسو صاف کرتے ہوئے بولی
لیکن ۔۔۔۔تیرےتایا کو ۔۔۔۔۔۔منظور نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ میری بچی میں تیرے۔۔۔۔۔۔۔۔ ساتھ اس ۔۔۔۔۔۔طرح کا کوئی ۔۔۔۔۔۔۔ظلم نہیں ہونے ۔۔۔۔۔دوں گا ۔۔۔۔۔یہ لوگ ۔۔۔۔۔۔تجھ سے ۔۔۔۔۔۔۔دن رات کام کرواتے ۔۔۔۔۔۔۔۔ہیں تجھ پہ۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھ اٹھاتے۔۔۔۔۔۔ ہیں اس کے لئے تو۔۔۔۔۔۔۔ میں کبھی کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں بول پایا ۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن تیری زندگی۔۔۔۔۔۔ برباد نہیں ۔۔۔۔۔ہونے دوں گا ۔۔
میں آپ سے کچھ مانگوں آپ دینگے آرزو روتے ہوئے بولی۔
ہاں میری۔۔۔۔۔۔۔۔ بچی تو کیا ۔۔۔۔۔۔چاہتی ہے بتا۔۔۔۔۔۔۔ تو سہی ۔
تائی امی کو گھر چھوڑسے مت جانے دیجیے گا پلیز میں یہ بوجھ نہیں سہہ سکوں گی ۔
آپ رشتے کے لئے ہاں کردی مجھے منظور ہے ۔وہ تایا ابو کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
وہ کالج کی لڑکے والے کیس کا کیا ہوا عون نےاندر قدم رکھتے ہوئے پوچھا ۔
ہاں اس کی ڈیٹیل نکال کر میں نے آپ کے آفس میں رکھی ہیں سر ۔آپ چیک کر لیجئے گا ۔
تم تو چھٹیوں پر جانے والے تھے گئے کیوں نہیں ۔عون نے اپنی کرسی پے بیٹھتے ہوئے پوچھا ۔
جی سر آج سے میں چھٹیوں پے جا رہا ہوں وہ تو میں آپ کو یہ کارڈ دینے آیا تھا ۔کنسٹیبل نے کارڈ ٹیبل پر رکھا ۔
شادی مبارک ہو ۔میں آنے کی کوشش کروں گا ۔عون نے کارڈ دیکھا ۔
سرایک پرسنل سوال پوچھوں بُرا سے نہیں مانیں گے ۔
یہ وقت پرسنل سوالوں کا نہیں ہے ریان لیکن پوچھ لو برا نہیں مانوں گا ۔وہ مسکراتے ہوئے بولا ۔
آپ شادی کب کریں گے سر ۔ریان نے معصومیت سے پوچھا
کیوں تم نے میری شادی پر بھنگڑے ڈالنے ہیں ۔
بھنگرے بھی ڈال لیں گے سر آپ شادی تو کریں ۔ریان نے مسکرا کر کہا ۔
جب کوئی لڑکی لگےگی اس قابل کہ شادی کرلوں تو کرلوں گا ۔عون نے مسکرا کر جواب دیا ۔
سر آپ کو کس ٹائپ کی لڑکی چاہیے ۔میرا مطلب ہے آپ کی بڑی امی کہہ رہی تھی کہ پوچھ لوں ریان بولا
اب وہ بات کی تہہ تک پہنچا تھا تم فکر مت کرو ریان انہیں میں خود جواب دے دوں گا اب تم جاؤ اسے جانے کا آرڈر دے کر وہ پھر سے اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
___________
انہیں روکیں تایا ابو میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز انہیں گھر چھوڑ کے مت جانے دیں آزرو تایا ابو کے سامنے ہاتھ جوڑتی تائی کی طرف بھا گی
بند کر یہ ڈرامے ۔تیری وجہ سے ہی ہوا ہے یہ سب کچھ تیری وجہ سے ہی تو میرا شوہر مجھے گھر سے نکال رہا ہے یہی چاہتی تھی نہ تو جس دن سے آئی ہے میرا سکون برباد کر رکھا ہے تو نے ۔
میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گی آرزو میرے بھائی کا رشتہ آیا ہے اور تو نخرے دکھا رہی ہے میں جانتی ہوں یہ آگ تو نے ہی لگائی ہے ۔
تو یہ مت سوچنا کے میں تجھے ایسے ہی معاف کر دوں گی گھوٹ گھوٹ کے مرےکی تو بد دعا ہے میری تجھے ۔تائی اونچی آواز میں چلاتی ہوئی بولی۔آرزو بھاگ کر تایا ابو کی کرسی کے قریب آئی ۔
تایا ابو روک لیں میں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتی ہوں پلیز نہ جانے دیں ۔
روک لیں وہ عثمان کے سامنے بیٹھی ہاتھ جوڑتے ہوئے رونے لگی ۔
میں شادی کے لیے تیار ہوں میری وجہ سے تائی امی کو نہ جانے دیں ۔۔آپ کو میری قسم تایا ابو ۔
مجھے اپنی….. قسم نہ دے …….اور جانے دے ……ان لوگوں کو یہاں …..سے یہ اپنے لئے ….. مجھ سے تیری …..قربانی مانگتے….. ہیں
تایا ابو میں آپ کو اپنی قسم دے چکی ہوں۔اب آپ کچھ نہیں بولیں گے آزرو بھاگتے ہوئے تائی کے قریب آئی خدا کے لیے میں بشیر ماموں سے شادی کروں گی آپ گھر سے نہیں جائیں ۔
میں شادی کے لئے تیار ہوں ۔آپ بے شک آج انہیں بلاکر میرا نکاح پڑھا دیں پر آپ یہ گھر چھوڑ کے مت جاہیں۔
رضیہ نے فاتحانہ نظر اپنے شوہر کو دیکھا ۔
ٹھیک ہے …..اگر آزرو شادی کے…….. لئے تیار ہے…….. ۔تو مجھے بھی…… منظور ہے لیکن ……میری ایک ……شرط ہے ۔
جب تک ………….آرزو کی تعلیم…… مکمل نہیں…… ہو جاتی…… تب تک یہ رخصت ……..نہیں ہوگی
جہاں تک ……سوال نکاح…….. کا ہے ۔…….تو جب تم……………. چاہو نکاح کروا…….. دینا ۔
کیونکہ ……تمہارا بھائی ………صرف نکاح………… کرے گا کھلانے کی ……..ہمت نہیں ہے اس ……………میں ۔کم ازکم ……….میری بچی ……میں اتنا ………….حوصلہ تو ہو ……..کہ وہ خود ……..کما سکے ۔
تایا ابو نے بہت مشکل سے اپنی زبان کی لڑکھڑاہٹ پر قابو کیا تھا آج ان کے اپنے بچوں کی وجہ سے ان کی یتیم بھتیجی کی زندگی برباد ہو رہی تھی ۔
کیا کہا ہے آپ نے ریان سے۔۔۔۔۔ آج کے بعد میرے ورکر کے سامنے آپ ایسی کوئی بات نہیں کریں گی سمجھی آپ ۔وہ گھر آتے ہی تائی امی کے کمرے میں آیا تھا ۔
ارے بیٹا میں نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی ۔وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے چوبس گھنٹے میں نے سوچا اس سے پوچھ لوں تمہیں کس قسم کی لڑکی پسند ہے تائی امی نے کہا ۔
مجھے جس قسم کی لڑکی پسند ہوگی میں اسے اپنے گھر لے آؤں گا۔
اس لئے بہتر ہوگا کہ آپ اس معاملےسب سے دور رہے آئی بات سمجھ میں ۔
ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتا اپنے کمرے میں چلا گیا ۔
جبکہ تائی امی زبیدہ کے کمرے میں آئی آخر اسے اس کے بیٹے کا پیغام جو دینا تھا
یہ گھر راحت صاحب کا تھا ۔جن کے دو ہی بیٹے تھے
خالد اور خالق ۔ان دونوں کی شادی اسی خاندان میں ہوئی تھی ۔
راحت صاحب نے اپنے دونوں بیٹوں کی شادی اپنے چاچا ذاد بھائیوں کی بچیوں سے کرائی تھی ۔
وہ دونوں بھی آپس میں کزن تھی ہمیشہ سے اچھی بنتی تھی ۔
انیسہ اور زبیدہ دونوں نے ہنسی خوشی ان کا گھر سنبھال لیا ۔
جلد ہی زبیدہ کے گھر خوشخبری آگئی ۔انیسہ نے ہر ممکن طریقے سے اس کا خیال رکھا ۔
وہ ہر وقت اس کے ساتھ رہتی ۔
زبیدہ کے گھر چار بیٹے اور پیدا ہوئے ان کا گھر ان کےبچوں سے مہکتا خوشگوار ہو گیا تھا جبکہ انسیہ کی طرف سے کوئی خبر نہ آئی ۔
علاج کروانے کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ انیسہ کبھی ماں نہیں بن سکتی
انیسہ کےلئے یہ صدمہ بہت بڑا تھا وہ اندر ہی اندر گھٹنے لگی ۔
اسے زبیدہ کے بچے اچھے لگتے تھے وہ ان کے ساتھ وقت گزارنا چاہتی تھی لیکن زبیدہ کو اپنے بچوں کو اپنے ساتھ لگانے کی عادت تھی اسے پسند نہیں تھا کہ اس کے بچوں کو کوئی دوسرا اس سے زیادہ پیار کرے ۔
اسی لئے آہستہ آہستہ اسے بے اولادی کے طعنے مارنے لگی ۔اس کے طعنے انیسہ کو دل کو لگتے لیکن خاموش ہو جاتی وہ اپنی اس کمی کا کچھ نہیں کرسکتی تھی ۔
اسی طرح پتا چلا کہ زبیدہ پھر سے ماں بننے والی ہے ۔
جس پر خالق کا کہنا تھا کہ مزید بچے نہیں چاہتے اور نہ ہی وہ مزید کوئی ذمہ داری اٹھا سکتا ہے ۔
زبیدہ کو بھی مزید بچے کی خواہش نہ تھی اس نے ہر ممکن طریقے سے اس بچے کو دنیا میں نہ لانے کا سوچا لیکن جس کی روزی خدا نے دنیا میں لکھی ہوتی ہے وہ دنیا میں ضرور آتا ہے اور عون بھی ایک ایسا ہی بچہ تھا ۔
اس کی پیدائش پر زبیدہ کو کافی تکلیف سہنی پڑی ۔
جبکہ ان چاہی اولاد ہونے کی وجہ سے زبیدہ اور حالق دونوں نے پر دھیان نہ دیا ۔
جب اسے والدین کی ضرورت تھی تب وہ اس سے دور رہتے۔ وہ سات سال کی عمر میں ہی سمجھ گیا تھا کہ اس گھر میں اس کی اہمیت ویسی نہیں جیسی باقی بچوں کی ہے ۔
دادا ابا اس سے بہت پیار کرتے تھے ۔
گھر میں اپنی اہمیت نہ دیکھتے ہوئے وہ دس سال کی عمر میں ہوسٹل چلا گیا ۔وہ گھر نہیں آتا تھا اسے سب لوگ عجیب سی چڑ تھی
سب سے زیادہ خاروہ خارث سے کھاتا تھا جو اس کی ماں کا سب سے لاڈلا بچہ تھا ۔
جب عون ان سے دور ہونے لگا تو انہیں بھی احساس ہونے لگا کہ وہ ان کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے وہ ان سے دور ہو رہا ہے ۔
دادا اکثر گھر میں یہ بات چڑ دیتے تو نتیجہ یہ نکلتاکہ وہ آپ کا لاڈلا ہے اس لیے اس کی بہت سائیڈ لیتے ہیں جبکہ سب سے زیادہ بگڑا ہوا وہی ہے ۔
ابا کو اکثر ہی عون کی وجہ سے کافی سنی پر جاتی ۔جس کے بعد وہ عون کو ڈانٹ دیتے اور پھر عون سوچتا کہ اس سے کوئی پیار نہیں کرتا ۔
لیکن پھر ایک دن تائی امی نے بتایا کہ وہ ان چاہی اولاد ہے اس لئے اس سے کوئی پیار نہیں کرتا ۔
عون کے چھوٹے ذہن کے لیے یہ جھٹکا بہت تھا ۔لیکن انیسہ کی نیت ایسی نہ تھی ۔وہ کوئی زبیدہ سے انتقام نہیں لینا چاہتی تھی ۔
وہ تو بس عون کے آنسو صاف کررہی۔ کہ زبیدہ وہاں آ کر اسے طعنے مارنے لگی کہ وہ اس کی اولاد کو اس سے دور کرنا چاہتی ہے ۔
جس پر انیسہ نے کہا کہ میں ایسی اولاد کو تم سے کیا دور کروں گی جیسے تم پیدا ہی نہیں کرنا چاہتی تھی۔تم نے خود اسے خود سے دور کر رکھا ہے بے دھیانی میں نجانے کب اس کے منہ سے ایسی بات نکلی ۔
عون اس لفظ کا مطلب بھی نہیں سمجھا تھا ۔لیکن گالی سے کم نہ لگی
اور عون کی دنیا ہل گئی ۔اسے اپنی ذات سے نفرت ہونے لگی ۔ایک آن چاہی اولاد یہ سوچ بھی اسے خود سے نفرت کرنے پر مجبور کر دیتی ۔
بعد میں انیسہ کے گھر بھی باری باری دو بیٹیاں پیدا ہوئیں بےاولادی کا وہ طعنہ تو ختم ہوگیا لیکن عون کی زندگی پر لگا ان چائی اولاد کا الزام نہ ختم ہوا
پھر وہ بدتمیز ہوگیا ۔ہر بات میں گھر والوں سے لڑائی جھگڑا کرنے لگا ۔شروع شروع میں اس نے بہت مار کھائی پھر دادا نے اسے بچانے کے لیے اسے ہوسٹل بھیج دیا ۔
وہ گھر میں دادا کا لاڈلا مشہور تھا ۔سب بچے دادا کے قریب ہونے کی کوشش کرتے لیکن عون انہیں سب سے زیادہ پیارا تھا۔
بہت چھوٹی عمر میں ہی وہ اس کی جذبات سے آگاہ ہوگئے تھے۔ دادا یہ بات سمجھ چکے تھے کی اپنی چھوٹی سی عمر میں وہ بہت بری باتوں کا مطلب سمجھ چکا ہے ۔
اس نے ایک جگہ پڑھا تھا اس عورت کو ماں کہلانے کا حق نہیں جو اپنی اولاد کو قتل کرنا چاہے ۔اس دن کے بعد اس نے زبیدہ کو ماں کہہ کر نہیں پکارا تھا ۔
اور سب سے زیادہ بدتمیزی بھی وہ اسی سے کرتا تھا ۔باقی گھر میں کسی کو منہ لگانا پسند نہیں کرتا تھا لیکن ماں کو جلانے کے لیے تائی کے قریب رہتا جبکہ کبھی کبھی اسے بھی منہ نہ لگاتا۔
اس کی ماں سے نفرت دیکھ کر وہ زبیدہ کو سب سے زیادہ عزیز ہو گیا۔ زبیدہ اسے اہمیت دینے لگی گھر میں سب سے زیادہ اسے چاہنے لگی لیکن اسے اہمیت کی ضرورت نہ تھی۔
کیونکہ اب عون کے دل میں اس کے لیے کوئی گنجائش نہ بچی تھی ۔
گھر میں سب اسے کہتے ہیں کہ عون اتنا بے حس ہے کہ اگر اس کی ماں مر بھی جائے تو بھی وہ اس کے قریب نہیں آئے گا
لیکن ان سب بچوں کی نفرت کا نشانہ تب بنا جب دادا نے مرنے سے پہلے اپنا گھرعون کے نام لکھ دیا ۔
اس کے بعد سب ہی بہن بھائیوں کو اس سے چڑ ہو نے لگی تایا ابو کو لگتا تھا کہ ان کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے وہ اس لیے اس سے نفرت کرتے تھے ۔
جبکہ ابو کا کہنا تھا کہ ان باقی بچوں کے ساتھ نا انصافی ہوئی ہے ۔
لیکن ان سب کے باوجود بھی عون کو ان سب کی بات سے کوئی فرق نہ پڑا تھا دادا کے مرنے کے بعد اس پر جو کچھ پابندیاں تھیں وہ بھی ختم ہو چکی تھی ۔
وہ اب زیادہ بدتمیز ہو چکا تھا وہ کسی کی کوئی بات نہیں مانتا تھا ۔
پڑھائی میں اپنے سارے بہن بھائیوں میں سب سے زیادہ ہوشیار تھا
ابا ایسے ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے ۔
لیکن اس نے پولیس فورس جوائن کرلی ۔