یہ کیسی دھُند سی پھیلی ہے
میرے چار سُو
کچھ بھی نظر آتا نہیں
چاروں طرف مہکے ہوئے، پھیلے ہوئے
شادابیوں، زر خیزیوں کے
کتنے ہی منظر ہیں
لیکن دھُند نے سارے مناظر
اپنے دامن میں کچھ اِس ڈَھب سے چھُپائے ہیں
مری نظریں کسی منظر کو بھی چھو ہی نہیں پاتیں
مگر کانوں میں سارے منظروں کی
مدھ بھری جھنکار پیہم گونجتی ہے
کوئی انجانی (یا شاید جانی پہچانی سی)
راحت بخشتی ہے
صدا جھنکار اور چہکار کی صورت
رگِ جاں تک اُترتی ہے،لہو میں بولتی ہے
روح میں رس گھول دیتی ہے
مگر دل میں نہیں آتی
کہ دل کے دیس میں آنے کے سارے راستے
آنکھوں سے آتے ہیں
یہ کیسی دھُند ہے جس نے مجھے تقسیم کر کے رکھ دیا ہے
مِرا دل میری جاں کی
اور مِری جاں، میرے دل کی جستجو میں ہے
مگر دونوں میں کوئی ربط ہو پایا نہیں جیسے
عجب سی دھُند پھیلی ہے
سبھی منظر صدا کے رُوپ میں ہی مجھ سے ملتے ہیں
یہ دلکش دھُند
دو قطروں کی صورت
جب سے اِن پلکوں پہ ٹھہری ہے!
ہوا سفاّک لہروں کی طرح
یخ بستہ تِیروں سے مسلسل حملہ آور ہے
میں اپنے بند کمرے میں مسہری پر
رضائی لے کے بیٹھا ہوں
مِری بیوی مِرے پہلو میں بیٹھی ہے
شعیب، عثمان، ٹیپو، مانو، رضوانہ۔
ہمارے سامنے
پہلو
بہ پہلو دائرے کی شکل میں بیٹھے
ہماری مُورتیں ہم کو دکھاتے ہیں
ہمارا گمشدہ بچپن ہمارے سامنے
ان پانچ رنگوں میں چہکتا ہے