(Last Updated On: )
کبھی یہ حسرت بھری نگاہیں
قرار پائیں تو اِس بھرم میں
تری گلی کا طواف کر لیں
کہ ہم بھی تو ہیں ازل سے تیرے
یقیں رسیدہ پجاریوں میں
کبھی جو تیرے رُخِ مقدس کی
ضو فشانی جہان بانی
نگہ میں آتی تو ہم بھی دل کے
یقینِ محکم بسرّ و چشماں
سراپا مستی و بے خودی میں
بہشت و عالم ترے لبوں پہ
غریق ہو کے نثار کرتے
تری ہی قربت کے لمس میں ہم
حواس کھو کے جنوں گزیدہ
حسین زلفوں کی بیڑیوں سے
اُلجھ اُلجھ کے بڑی ہی مستی سے رقص کرتے ہوا میں اُڑتے
یہ لمس ہونٹوں کا حوضِ کوثر کا
جام گویا پیام گویا
تری جبیں پہ شعاعِ یزداں کی
ثبت قائم ہے ربط دائم
کہ وصل تیرا خدا کی معراج کا وسیلہ
تمام عالم کی رونقوں کو ثبات تم سے
کہ لوحِ دل پہ تری ہی چاہت کے نقش قائم ہیں ضبط دائم
ترا ہی درشن مجھے حیاتِ دوام بخشے
ترے لقاء میں خدا کے چہرے کی
اِک جھلک ہے
تُو جب تلک ہے خدا بحق ہے
٭٭٭