پچھلے دنوں احمد فراز صاحب کے بارے میں ایک پوسٹ نظر سے گزری کہ وہ جس محبوبہ کے عشق میں تیس سال تک مبتلا رہے اور ان پر نہ جانے کتنی غزلیں, نظمیں کہتے رہے جب عرصہ دراز بعد انھی خاتون سے ملاقات ہوئی تو اس کی ہیئت اور گفتگو سن کر ان کا دل چاہا کہ جلد سے جلد چائے کی پیالی ختم ہو اور وہ اس سے رخصت لیں.
اسی تناظر میں جون صاحب کا خیال آیا…مجھے جون صاحب کی چند محبوباوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا…یونہی سوچا اگر فراز انھیں دیکھ لیتے تو شاید شعر کہنا ہی چھوڑ دیتے پر جون واقعی صرف خیال کے آدمی تھے…سخت حسن پرست ہوتے…سب کچھ دیکھتے ہوئے ایک کم شکل و صورت کی لڑکی کو فارہہ جیسا افسانوی نام دیا اور اس کے خیال کو مہمیز کرکے انھوں نے ایسا رومانوی کردار تراشا کہ اپنی شاعری میں امر کردیا…فارہہ کی غزل کے بارے میں فرماتے تھے…”ایک ایک اینٹ چھیل چھیل کے لگائی ہے.” اسی طرح…
کس لیے دیکھتی ہو آئینہ
تم تو خود سے بھی خوب صورت ہو
جیسا شعر ہی نہیں پوری غزل جس لڑکی پر کہی وہ بھی نگاہ سے گزری پر کیا کہیں جون صاحب کو کس کمال سے کس معیار کے ساتھ پیش کیا. آرٹسٹ کو بھلا موجود خوبصورتی سے کیا غرض…یہ کام تو اس کا ذہن ہمہ وقت سر انجام دے رہا ہوتا ہے.
کب اس کا وصال چاہیے تھا
بس اس کا خیال چاہیے تھا
جون کبھی سخت اکتائے ہوئے لہجےمیں کہتے…”تم لوگ مجھ سے تازہ غزل کی فرمائش کرتے ہو…بھئی اس کے لیے کوئی لڑکی تو لاو …اب تمھارا بھائی جون کیا ان میز کرسیوں پر شاعری کرے…؟”
کبھی سوچتا ہوں…کیسی قحط سالی میں جون کیسے کیسے شاہ کار تخلیق کر گئے…کاش کہ ان کو وہ جمالیاتی ماحول و فراوانی میسر ہوتی جو ان کا حق تھا…تو نہ جانے کیا ستم ڈھاتے.