شمس الرحمٰن فاروقی(الہ آباد)
شاد عارفی کو خراج عقیدت پیش کرنے کی غرض سے مرتب کی گئی ۸۵۰صفحے کی اس کتاب کو دیکھ کر کہنا پڑتا ہے کہ خدا شاد عارفی جیسا استاد اور مظفر حنفی جیسا شاگرد سب کو نصیب کرے۔ استادی اور شاگردی کا دور ختم ہوجانے سے جہاں ہزاروں فائدے ہوئے وہاں کچھ نقصانات بھی ہوئے۔ شاد عارفی چالیس برس تک اردو ادب کو مالا مال کرتے رہے، لیکن ان پر ڈھنگ کی کوئی کتاب یا مضمون لکھا جانا تو کیا، ان کا کوئی باقائدہ مجموعہ بھی مرتب نہ ہو سکا۔ اگر مظفر حنفی کو حق استادی ادا کرنے کا اتنا خیال نہ ہوتا تو ارود دنیا شاد عارفی کے نام سے تو واقف رہتی لیکن اس سے زیادہ وہ کیا تھے، کم لوگوں کو معلوم ہوتا۔
مظفر حنفی، شاد عارفی کے آخری عمر کے شاگردوں میں سے تھے۔ جس طرح بڑھاپے کی اولاد سب کو عزیز ہوتی ہے، اسی طرح مظفر حنفی بھی شاد صاحب کو بہت زیادہ عزیز تھے۔ (بقول اکبر علی خاں) مظفر حنفی وہ واحد شخص ہیں جن سے شاد صاحب کا جھگڑا نہیں ہوا۔ غالباً اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان دونوں کی کبھی ذاتی ملاقات نہیں رہی، سارے تعلقات خط و کتابت کی بنیاد پر قائم تھے۔ شاگرد بنانے کی داستان بھی دلچسپ ہے۔ شاعری ہی شاد صاحب کا ذریعہ معاش تھی۔ اس لیے وہ شاگردی کے درخواست دہندہ کو ’’انجمن ارباب ادب‘‘ کا رکن بننے کی شرط پیش کرتے تھے، جس کی شرائط رکنیت کی رو سے، تھوڑی سی رقم سالانہ اور کچھ فیس داخلہ پیش کرنی ہوتی تھی۔ شاد عارفی کی مالی حالت ان دنوں کچھ زیادہ ہی خراب تھی، لیکن مظفر حنفی نے اپنی مالی مشکلات کا ذکر کیا اور یہ بھی لکھا کہ اگر شاد صاحب (بوجہ عدم ادائیگی فیس داخلہ وغیرہ) انہیں شاگردی میں قبول نہ کریں گے تو وہ نوح ناروی یا ابر احسنی گنوری کے شاگرد ہوجائیں گے اور اس حقیقت کو تشہیر بھی کریں گے۔ شاد صاحب بڑے بڑوں کو خاطر میں نہ لاتے تھے، لیکن انہوں نے اپنے جواب میں اس تہدید کا کوئی ذکر نہ کیا بلکہ انتہائی محبت سے مظفر حنفی کو شاگرد بنا نا قبول کیا اور ساری رقمیں معاف کر دیں۔ (ص ۸۴۵۔۸۴۴)
شاد صاحب میں تنگ نظری، کم علمی، احساس کمتری، چڑچڑا پن، انتہائی سخاوت، ذہنی اور قلبی فراخ دلی اور فیاضی، جرائت مندی، اخلاص، اعلیٰ ذہانت وجودت طبع جیسی خصوصیات ایک ساتھ پائی جاتی تھیں۔ وہ واقعی ایک زندہ اور حرارت سے بھرپور شخصیت کے مالک تھے۔ وہ دوسروں کے کلام نثر و نظم (بہ شمول نیاز فتح پوری و جوش ملیح آبادی) پر سخت بلکہ کبھی کبھی نا زیبا لہجہ میں اعتراض کرتے تھے۔ اعتراضات اکثر صھیح ہوتے تھے، لیکن خود ان کا کلام کبھی فاحش غلطیوں سے پاک نہیں تھا۔ اس سلسلے میں زیر تبصرہ کتاب میں بھی کوثر چاند پوری، ماہرالقادری، اور اکبر علی خاں کے مضامین کا مطالعہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ جگر کے بارے میں انہوں نے لکھا ’’جگر کے ہاں فنی خامیوں کی بھرمار ہے، اسی لئے وہ بے چارہ کسی بھی مشاعرے میں مجھ سے آنکھ چار نہ کر سکا، بلکہ ہمیشہ میری تواضع میں لگا رہا۔‘‘ اس سے ذرا پہلے لکھا ہے:’’روش صدیقی اور عدم تو ٹھیک ہیں، مگر نشور واحدی اور جذبی دونوں کافی غلط گو ہیں، یہ بات تو ظاہر ہے کہ جگر صاحب بڑے، بلکہ بہت بڑے شاعر تھے، اور شکیل، مجروح کی خاک پا کو نہیں پہونچتے۔ لیکن شاد عارفی صاحب نے شکیل کو مجروح سے بڑھا دیا۔ اس طرح کی خام تنقیدی رائیں ان کی ادبی فہم و فراست کو مشکوک بناتی ہیں۔ ص ۵۶۷۔۵۶۵سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ الف وصل اور الف ساقط میں فرق نہیں کرتے تھے۔ زبان پر ان کو جو مہارت حاصل تھی وہ وہبی تھی، اکتسابی نہیں، لیکن احساس کمتری کی وجہ سے انہوں نے ہمیشہ خود کو بڑا عربی فارسی اور اردو داں کہا۔ اسی احساس کمتری نے ان سے رومان کراچی کو بھیجی ہوئی غزل پر ’’پورا صفحہ‘‘کی ہدایت لکھوائی (عکس تحریر ص ۱۸اور صفحہ ۲۰کے بیچ میں) غزل اچھی ہے تو جہاں بھی اور جس طرح چھپے گی اپنا لوہا منوا لے گی، لیکن شاد صاحب کو اس میں اپنی ہیٹی نظر آتی ہے کہ ان جیسے استاد کا کلام ایک کالم میں چھپے۔ (اس مرض میں ہمارے بہت سے شعراء مبتلا ہیں، ایک شاد عارفی پر موقوف نہیں، لیکن اس مکرر ہدایت کے پیچھے سے ان کا یہ کوف جھلک رہا ہے کہ شاید مدیر رومان شاد عارفی کی غزل کو پورے صفحے کے لائق نہ سمجھتے ہوں)
شاد عارفی صاحب بہرحال ایک عہد ساز شاعر تھے، ان کے بعد آنے والے ہر شاعر اور علیالخصوص نئی غزل کے ہر شاعر نے ان سے اکتساب فیض کیا ہے۔ زمانے نے ان کی خاطر خواہ قدر نہیں کی۔ اس کتاب میں بھی کم زور ترین تنقیدی آراء کا ہے۔ زیادہ تر لوگوں نے سرسری لکھا ہے، ادھر ادھر کے مضامین مختصر اقتباسات ہیں۔ اردو شاعر کی یہ بڑی بد نصیبی ہے کہ جب تک وہ کسی سیاسی یا تہذیبی ادارہ سے منسلک نہ ہو، اس کی قدر شناسی خاطر خواہ نہیں ہوتی۔ شاد صاحب کو دونوں طرح کی محرومیاں ملیں، نہ گھر کے فارغ البال اور کوش و خرم اور نہ ادبی دنیا میں باقاعدہ حسب مرتبہ قدرومنزلت۔ لیکن مجھے محصوس ہوتا ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو شاید ان کی شاعری میں بھی یہ دم خم، یہ تیور اور یہ اکھڑ پن نہ ہوتا۔
’’ایک تھا شاعر‘‘ شاد عارفی کے ظاہر و باطن کی عبرت ناک، ادبی حیثیت سے قابل قدر اور تاریخی حیثیت سے اہم دستاویز ہے۔ ان کی شخصیت پر لکھے ہوئے مضامین میں خلیل الرحمٰن اعظمی کا مضمون سب سے بہتر ہے، کیوں کہ ان کی شاعری پر بھی تنقیدی اشارے مل جاتے ہیں۔ مسعود اشعر کا مضمون بھی قابل ذکر ہے۔ منظومات میں مظفر حنفی کی نظم ’’وصیت‘‘ اردو کے اہم مرثیوں میں شمار ہونے کے لائق ہے۔ طنز اور افسردگی کا ایسا امتزاج کم دیکھنے میں آتا ہے۔ شاد عارفی خود اپنا مرثیہ اس سے نہ بہتر کہہ سکتے۔
شاد عارفی کو کم از کم خراج عقیدت جو پیش کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہر ایک اس کتاب کو خریدے اور پڑھے۔