اماں میں اس فضول آدمی سے ہر گز ہر گز شادی نہیں کروں گی۔
میں دو سال پہلے اسکی باڈی گارڈ تھی مگر وہ ابھی تک مجھے سب سے یہی کہہ کر متعارف کرواتا ہے کہ میں اسکی باڈی گارڈ ہوں۔
تو تمہیں اس بات کا دکھ ہے کہ میں تمہیں باڈی گارڈ کہتا ہوں۔
زارا معاذ کی آواز سن کر حیران ہوٸ۔ کال تو اس نے اماں کو کی تھی۔
تم۔۔ تم میرے گھر میں کیا کر رہے ہو؟؟
میں تو تمہارے گھر والوں کے انواٸیٹ کرنے پہ آیا ہوں۔
اماں کچن میں تھیں فون انکا میرے پاس پڑا تھا۔ وہ تو میں نے دیکھ لیا کہ ایک ٹانگ والی مرغی کی کال ہے تو میں نے سوچا یقیناً کوٸ سازش کر رہی ہو گی اور دیکھ لو وہی ہوا۔
تم تم نکلو میرے گھر سے۔
سوچ لو میں بتا دوں تمہاری اماں کو پھر کہیں ایسا نہ ہو تمہیں ہی گھر سے نکال دیں۔
کیونکہ میں تو انکا پیارا بیٹا ہوں نہ۔
معاذ اسے مزید غصہ دلا رہا تھا۔
اوکے باۓ۔
ارے ارے اچھا بات تو سنو.
کہو۔۔۔
زارا ضبط کرتے بولی۔
کیا تمہیں سچ میں صرف اس بات کا دکھ ہے کہ میں تمہیں ماٸ لَو کہنے کے بجاۓ باڈی گارڈ کہتا ہوں۔
گو ٹو ہیل۔۔۔
زارا نے غصے سے فون کاٹ دیا اور معاذ ہنستا چلا گیا۔
یہ خود کو آخر سمجھتا کیا ہے؟؟؟؟
زارا کمرے کے چکر کاٹ رہی تھی مگر اسکا غصہ کم نہ ہو پا رہا تھا۔
ادھر معاذ آنکھیں بند کیے اسکی حالت تصور کر رہا تھا اور من ہی من مسکرا رہا تھا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
معاذ کسی فلم کے سلسلے میں جرمنی گیا ہوا تھا۔ اسے ایک ماہ بعد ہی آنا تھا۔
زارا سکون کا سانس لے رہی تھی کہ اب اسے کوٸ تنگ کرنے والا نہ تھا۔
مگر یہ اسکی خام خیالی تھی۔ نہ صرف اماں ابا چچا چچی بلکہ علیشہ اور داٶد بھی اسے روز کالز کر کے معاذ سے شادی کے لیے رضا مند کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یار عالی آخر تم لوگ کیوں میرے پیچھے پڑ گۓ ہو؟؟؟ مجھے سکون سے جینے دو گے یا نہیں۔۔؟؟
زارا زچ ہو کر بولی وہ تنگ آ گٸ تھی روز روز کی بحث سے۔
زاروو ہم سب تمہیں خوش دیکھنا چاہتے ہیں۔ علیشہ رسان سے بولی۔
ہونہہ اس انسان کے ساتھ خوش نہیں رہا جا سکتا۔
زارا کسی طور نہ مان رہی تھی۔ غصے سے اس نے فون بند کر دیا۔
علیشہ بےبسی سے فون کو دیکھ کر رہ گٸ اب وہ معاذ کو کیسے بتاۓ جو سب کو اسے راضی کرنے کے لیے فورس کر رہا تھا۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*
یار وہ مان کیوں نہیں رہی؟؟
معاذ نے سنا تو وہ حد درجہ پریشان ہو گیا۔
اگر تم اسے کم تنگ کرتے تو شاید وہ کچھ سوچ ہی لیتی۔
داٶد نے سارا الزام معاذ کے سر دیا۔
یار زرک تُو ہی کچھ کر۔۔۔۔
میں کچھ نہیں کر سکتا میں زارا کی ضد سے جیت نہیں سکتا تو مجھے معاف ہی رکھو۔
معاذ جرمنی میں بیٹھا انہیں صلواتیں ہی سنا سکتا تھا جو وہ سنا رہا تھا۔ انھیں شرم دلانے کی کوشش کر رہا تھا۔ مگر وہ دونوں منہ سر لپیٹے اس کی باتوں کو ان سنا کر رہے تھے۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*
دیکھ زارا کان کھول کر سن لے۔ اگر معاذ سے شادی نہیں کرنی تو گھر میں تمہارا داخلہ بھی بند ہے سمجھی۔
مگر اماں۔۔۔
افففف یہ ماٸیں بھی نہ۔۔۔
زارا حسرت سے فون دیکھتی رہ گٸ۔
پورا مہینہ گزر گیا مگر زارا کی نہ ہاں میں نہ بدلی۔
گھر والوں نے اس سے باٸیکاٹ کر رہا تھا۔
بھابھی آخر اس گھونچو میں ایسا کیا ہے کہ میرے گھر والے میرے ہی خلاف ہوۓ پڑے ہیں۔
تو زری اگر وہ نہیں مانتے تو تم ہی مان جاٶ۔
سب کے مان جانے سے بہتر ہے کہ اکیلی تم مان جاٶ۔
ندا بیچاری بری پھنسی تھی اب کیا کرتی سو اپنی سی کوشش کرنی چاہی۔
ایک وہ ہی تو تھی جس سے زارا کا رابطہ تھا۔
معاذ کی واپسی کی فلاٸیٹ تھی۔
وہ بے دلی سے پاکستانی کے لیے روانہ ہوا تھا۔
ابھی فلاٸیٹ نے ٹیک آف ہی کیا تھا کہ۔۔۔۔
*-*-*-*-*-*-*-*-*
ناظرین آپ کو بتاتے چلیں جرمنی سے پاکستان آنے والی فلاٸیٹ حادثے کا شکار۔
فلاٸیٹ نے آج پاکستان پہنچنا تھا مگر وہ راستے میں ہی حادثے کا شکار ہو گٸ۔
بتایا جا رہا ہے کہ جہاز میں 562 مسافر سوار تھے۔
زخمیوں کی حالت تشویشناک بتاٸ جا رہی ہے جبکہ ہلاکتوں کی تعداد 300 سے تجاوز کر گٸ ہے۔
زارا آفس میں تھی کہ علیشہ کی کال آٸ۔
زارووو وہ۔۔۔ وہ بے تحاشہ رو رہی تھی۔
کیا ہوا عالی سب ٹھیک تو ہے تم رو کیوں رہی ہو داٶد ادا ٹھیک ہیں نہ۔۔۔۔
زاروووو معاذ کی فلاٸیٹ۔۔۔۔ وہ پلین کریش ہو گیا ہے۔۔۔۔
اور زارا کو لگا آسمان اس پہ آگرا ہو۔۔۔
نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔۔۔
وہ ہسٹریاٸ انداز سے چیخنے لگی۔
معاذ اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے وہ ایسے اسے چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔
زارا ہوش و ہواس سے بے گانہ ہو چکی تھی۔
تین گھنٹوں بعد اسے ہاسپٹل میں ہوش آیا۔
آفیسر زارا واٹ ہیپنڈ آپ نے تو ہمیں پریشان کردیا تھا۔
مگر زارا انکی کچھ بھی سنے بغیر بس روۓ جا رہی تھی۔
دیکھیں آپ کے لیے رونا ٹھیک نہیں ہے۔
ڈاکٹرز نے سٹریس لینے سے منع کیا ہے۔
وہ سمجھ رہے تھے کہ یقیناً کچھ بڑا سانحہ اس پہ گزرا تھا ورنہ زارا یوں پھوٹ پھوٹ کر رونے والوں میں سے نہ تھی۔
*-*-*-*-*-*-*-*
دو دن زارا کی حالت خراب رہی تھی۔
گھر والے تو دوہری اذیت کا شکار تھے۔ ایک تو معاذ کی خبر نہ مل رہی تھی اور زارا کی حالت بھی کچھ ٹھیک نہ تھی۔
دو دن بعد اسے گھر لے گۓ تھے۔ مگر زارا پہ چھایا حزن کسی طرح دور نہ ہو رہا تھا۔
دس دن ہو چکے تھے۔ مگر معاذ کی خبر نہ تھی۔ زارا نے خود کو کمرے میں بند کر لیا تھا۔
اسکا ملال ہی ختم نہ ہو رہا تھا کہ اس نے معاذ کو انکار کیا تبھی وہ اس سے بچھڑ گیا۔
ستم تو یہ تھا کہ میڈیا پر بھی اسکے متعلق کچھ خبر نہ تھی۔
کہاں ڈھونڈوں میں تمہیں معاذ پلیز کم بیک پلیز۔۔۔
ہر رات کی طرح زارا پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی۔
زری تیار ہو جاٶ۔
وہ کس لیے بھابھی۔۔؟؟؟
ابا تمہارا نکاح کر رہے ہیں۔۔
ندا نے دھماکہ کیا۔
نن نکاح مم مگر کس سے کیوں؟؟؟
کیونکہ ہم تمہیں اس گھر سے بھیج رہے ہیں۔ اور کس سے تو اسکا جواب یہ ہے کہ تمہیں فرق نہیں پڑنا چاہیے۔ تم نے معاذ کے لیے انکار کر دیا تھا۔ تو پھر تمہیں تو فرق نہیں پڑنا چاہیے نہ کہ کس سے ہو رہا ہے۔
چپ چاپ تیار ہو جاٶ۔ اور ہاں تمہارے ابا نے تاکید کی ہے کہ ڈرامہ نہ ہو۔
اور پھر تمہیں کس بات کا روگ لگا ہے تمہیں تو معاذ پسند ہی نہ تھا۔
اماں اسے باتیں سنا کر چلی گٸیں۔
بھابھی نے ترس آمیز نظروں سے دیکھا اور کپڑے پکڑا دیے۔
زارا کی تو جیسے روح نچوڑ لی گٸ ہو۔ کیا اسکے انکار کی وجہ سے معاذ کی موت ہوٸ کیا وہ قصوروار ہے جو اسکے ماں باپ اسے اسطرح گھر سے نکالنے پہ تلے ہیں۔
بے تحاشہ رو کر وہ کپڑے بدل کر آگٸ۔
ندا اسے تیار کرنے لگی۔ زارا غاٸب دماغی سے بیٹھی رہی۔
ندا نے اس پہ دوپٹہ ڈالا۔
پتا نہیں کون کون کمرے میں تھا۔
نکاح خواں نے معاذ کا نام لیا تو زارا کو ہوش آیا۔
اس نے فوراً دوپٹہ ہٹایا۔
اماں نے سر پیٹ لیا کیا مجال کہ یہ لڑکی کوٸ کام ڈھنگ کا کر لے۔
نکاح خواں ابا کا منہ دیکھنے لگا۔
ندا نے فوراً دوپٹہ واپس ڈالا۔
نکاح ہونے کے بعد زارا نے غصے سے دوپٹہ ہٹایا تو علیشہ اور ندا موجود تھیں۔
کیا ہو رہا ہے یہ سب؟؟؟؟
اسکے تیور خطرناک تھے۔
آہاں تمہارے دولہے کا نام بھی معاذ ہے۔
علیشہ فوراً اسکی پہنچ سے دور ہوٸ۔
اچھا اسکا نام بھی۔۔۔
زارا نے کشن پکڑے اور ندا اور علیشہ کی شامت آٸ۔
کیا کر رہی ہو یار اپنے دلہناپے کا ہی خیال کر لو۔
یار زری میری عنایہ تو چھوٹی سی ہے ابھی۔ ندا نے دہاٸ دی۔
کیا ہو رہا ہے یہ۔
چچی اندر آٸیں تو پورا کمرہ ابتر حالت میں تھا۔
وہ وہ۔۔۔
کیا وہ وہ نیچے لے آٶ اسکو۔
جی ابھی لاۓ۔
زارووو پلیز انسان بن جاٶ اور چلو اور ہاں تھوڑی سی شرما لو۔
ویسے آتی تو نہیں ہے شرم تمہیں مگر پھر بھی شرما لینا۔
زارا علیشہ کو جواب دیتی مگر وہ مہمانوں کے سامنے پہنچ گٸیں تو زارا کو تمیز دکھانی پڑی۔
مگر یہ کیا دولہے کی جگہ معاذ چوہدری تو نہ تھا۔
زارا کو دھچکا لگا۔
تو کیا سچ میں۔۔۔۔
اسکے قدم من من کے ہو گۓ۔
گھونگھٹ آگے کر کے وہ لاٶنج میں آٸ۔ معاذ اپنی جگہ سے فوراً اٹھا۔
ہاتھ آگے کیا۔
زارا نے کرب سے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ جو بھی تھا اب یہ شخص ہی اسکا سب کچھ تھا۔
وہ اسکے پہلو میں بیٹھی۔
کچھ ہی دیر میں رخصتی کا شوراٹھا۔
زارا کا دل جیسے کسی نے مٹھی میں لیا۔ دونوں بیٹیوں کے نکاح عجیب طریقے سے ہوۓ۔
زارا تو کمرہ نشین تھی سو اسے خبر نہ ہوٸ۔ ورنہ تیاریاں تو ایک ہفتے سے شروع تھیں۔
سارا راستہ وہ خاموش آنسو بہاتی رہی۔ اسکے ساتھ بیٹھا اسکا ہمسفر جس سے وہ یکسر انجان تھی۔
دو گھنٹوں کی ڈراٸیو کے بعد گاڑی ایک گھر کے سامنے رکی۔
چلیں۔
زارا گھونگھٹ کیے اسکی ہمراہی میں چل دی۔
وہ اسے بیڈ روم میں چھوڑ کر نجانے کہاں چلا گیا۔
وہ بیٹھی انتظار کرتی رہی۔
نیند آنے لگی تو چینج کرنے کے ارادے سے اٹھی۔
تبھی کمرے کا دروازہ کھلا۔
معاذ اندر آیا۔
زارا نے کرب سے آنکھیں بند کیں۔
پہلے ہی چینج کر لیں گی۔۔۔۔۔ اپنی منہ دکھاٸ نہیں لینی کیا مرغی۔
اس طرزِ تخاطب پہ زارا جھٹ سے مڑی۔
اسکا رنگ لٹھے کی مانند سفید پڑ گیا۔
تو کیا یہ سچ میں معاذ چوہدری تھا تو پھر وہ۔۔۔۔
معاذ اسکی حالت کا لطف اٹھا رہا تھا۔
ویسے مجھے نہیں پتا تھا کہ مجھے کھونے کا تمہیں اس قدر درد ہو گا کہ تم ہوش و ہواس چھوڑ دو گی۔
ویسے شادی کر ہی لی نہ تم سے میں نے۔
زارا ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگی مگر جلد ہی اسے معاذ کی ساری کارستانی سمجھ آگٸ۔
وہاں صوفے پر کوٸ اور بیٹھا تھا مگر زارا کے گھونگھٹ کرتے ہی معاذ آگے بڑھا تھا اور اسے صوفے تک لایا تھا۔
اسکے بعد تو زارا کو ہوش ہی نہ تھا۔
زارا نے پاس پڑی چھری اٹھا لی تھی۔
معاذ آج میں تمہیں مار ڈالوں گی۔
ارے ارے پاگل ہو گٸ ہو کیا۔ وہ بیچارا دولہا بنا پورے کمرے میں بھاگ رہا تھا اور زارا اسکے پیچھے چھری لے کر لگی ہوٸ تھی۔
ارے بس کر دو۔
معاذ نے ہوشیاری سے چھری اسکے ہاتھوں سے لی۔
فوراً اسے بازو سے تھاما۔
تمہیں میں مار دوں گی۔
بس کر دو یار اور کیا کرتا تم مان نہیں رہی تھی۔
ہاں یہ اچھا کیا پتا بھی ہے مجھ پر کیا گزری۔میں کتنا روٸ۔ کتنی دعاٸیں کی۔ مجھے لگا میں نے تمہیں کھو دیا۔
زارا مزاحمت کرتی آخر میں اسکے سینے پہ سر رکھ کر رو دی۔
کدھر تھے تم۔
اسنے اسے مکا جڑا۔
یار میری وہی فلاٸیٹ تھی مگر جیسے ہی میں بیٹھا۔
ایکسیوز می سر آپ کی فلاٸیٹ کی ٹاٸمنگ چینج ہیں۔
آپ نے شاید دھیان نہیں دیا۔
مگر میں سارا پراسیس کرا کے آیا ہوں۔
ام سوری سر ہمارے سٹاف سے مسٹیک ہوٸ ہے آپکی فلاٸیٹ صبح کی نہیں شام کی ہے۔
میری زندگی تھی تو میں بچ گیا۔
ورنہ تم ابھی بیٹھ کر رو رہی ہوتی۔
اور پھریہ زرک کا پلان تھا کہ تمہیں بتایا نہ جاۓ۔
ہونہہ بتایا نہ جاۓ مجھے ایسی بورنگ شادی نہیں کرنی تھی۔
ایک تو اماں ابا کو پتا نہیں سرپراٸز نکاح کا کیا شوق چڑھا ہے۔
زارا منہ پھلا کر بولی۔
ارے زرک کا پلان تو بس نکاح کا تھا۔ مگر میرا دل بغاوت کر گیا اور پھر مشکل سے تو ہاتھ آٸ تھی پھر منع کر دیتی تو۔
پلیز یار چاہے روز لڑ لینا مگر اب معاذ چوہدری زارا کے بغیر نہیں رہ سکتا۔
معاذ جزب سے بولا۔
اور وہ سم ون سپیشل کون ہے؟؟؟
کون؟؟؟
معاذ ناسمجھی سے اسے دیکھنے لگا۔
وہی جس کے لیے عالی کی مہندی میں گانا گا رہے تھے۔
اوہ تو یہ وجہ تھی انکار کی ارے یار تم ہی ہو میری سم ون سپیشل میری مرغی۔۔۔۔
معاذ نے شرارت سے لٹ کھینچی تو اس نے اسکے بازو پہ زور سے دھموکا جڑا پھر سر اسکے سینے سے ٹکا لیا۔
لڑاٸیاں تو اب روز ہی ہونی تھیں دونوں کی مگر زندگی شاندار ہونی تھی انکی۔
ختم شد
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...