اپنے کمرے میں لیٹی وہ بہت دیر تک چھت کو گھورتی رہی۔ کسی گہری سوچ میں ڈوبی وہ اپنی زندگی کا تفصیلی جائزہ لے رہی تھی۔ اُس کی سوچوں کا ماضی سے ایک مسلسل ربط تھا۔ ایک ایسا کنکشن جو کبھی منقطع نہ ہوتا تھا،کبھی کبھی کچھ رابطے بہت مہنگے پڑ جاتے ہیں۔ انسان کو نا چاہتے ہوئے بھی اُس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔سب کچھ ایک فلم کی طرح اُس کے ذہن میں چلتا رہا۔ وہ کبھی آنسو صاف کرتی، کبھی خود کو تسلیاں دیتی۔
ادیوا گھر میں سب سے چھوٹی تھی دو بھائیوں کی اکلوتی بہن، ماں اور باپ دونوں کی ہی انتہائی لاڈلی اور بھائیوں کی تو جیسے پوری دنیا اُسی کے گرد گھومتی تھی۔ عمر حیات کے گھر کی رونق تھی ادیوا۔ اسی لیے وہ عام لڑکیوں سے کچھ زیادہ نازک مزاج اور انتہائی حساس تھی۔ اُس کے لیے دنیا میں جیسے ایک ہی جذبہ تھا اور وہ تھا محبت کا۔ زندگی نے اُسے صرف خوشی کا رنگ دکھایا تھا۔ اس کے لیے کسی کے درد کو محسوس کرنا قدرے مشکل کام تھا، کیوں کہ جن جذبوں سے آشنا ئی نہ ہو، بعض اوقات انھیں محسوس کرنے میں وقت لگتا ہے۔
لیکن ادیوا کو وقت نے اتنی بھی مہلت نہ دی اور زندگی نے اُسے اپنے وہ رنگ بھی دکھا دیے، جو اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھے۔
پانچ سال پہلے رونما ہونے والا حادثہ اُس کی پوری شخصیت کو یکسر بدل گیا تھا۔ کبھی وہ ایسی ادیوا تھی کہ جس کی ہنسی سے پورا گھر مسکراتا تھا، وہ جس سمت چلتی، یوں لگتا کہ جیسے بہاروں نے اپنا رُخ موڑ لیا ہو۔ ایک حصار سا تھا، جو سب کو اُس کی گرفت میں کرلیتا۔ وہ بات کرتی، تو یوں لگتا کہ جیسے ساری کائنات محو ہو۔ جتنا پرنُور چہرہ تھا اس کا، ویسی ہی وہ دل کی بھی صاف تھی۔ معصومیت کا پیکر اور حُسن تو جیسے اُس کے چہرے کا طواف کرتا تھا۔ جو بات ادیوا کو اوربھی حسین بناتی، وہ یہ تھی کہ اتنی خوبصورت ہونے کے باوجود وہ غرور سے یکسر بے نیاز تھی۔ جس عاجزی سے وہ مخاطب ہوتی، یوں لگتا کہ جیسے اب یہ کسی کی جان بھی مانگ لے، تو کوئی انکار کرہی نہ پائے گا۔
لیکن بُرا وقت ایک ایسی ظالم چیز ہے جس کو آپ کی صفات سے غرض ہی نہیں ہوتی، جو اذیتیں وہ آپ کے حصے میں لکھ کے بیٹھا ہے، اُسے تو بس آپ کی باری کا انتظار ہے کہ آپ کو آپ کا حصہ ادا کرے اور اپنے فرض سے فارغ ہو جائے۔ اُسے اس سے یکسر کوئی مطلب نہیں کہ آپ کتنے ٹکڑوں میں تقسیم ہوں گے، ان اذیتوں کو اٹھاتے اٹھاتے کتنی بار فنا بقا سے گزریں گے۔
”ادیوا! تم جاگی نہیں اب تک؟ دیکھو میں ناشتہ یہیں لے کر آیا ہوں چلو اُٹھ جاؤ اب جلدی سے۔“
یہ اشعرتھا، جو ادیوا کا سب سے بڑا بھائی تھا اور اُس کا دل و جان سے خیال رکھتا تھا۔
ادیوا نے اشعر کی آواز سنتے ہی بستر میں چہرا چھپا لیا۔ وہ جانتی تھی کہ اُس کی آنکھوں سے رات بھر رونے اور جاگتے رہنے کے آثار صاف نمایاں تھے اور وہ اس دُکھ کی شدت سے بھی واقف تھی، جو اشعر کو اُس کی یہ حالت دیکھ کر محسوس ہوتا۔ لہٰذا اس نے دبے لہجے میں کہا۔
”بھائی! مجھے تھوڑی دیر سونے دیں۔ میں اس وقت کچھ کھانے کے موڈ میں نہیں ہوں۔“
اشعر نے یہ جواب سن کر زیادہ اصرار نہیں کیا، کیوں کہ وہ ادیوا کو جانتا تھا کہ وہ ضد کی کتنی پکی تھی۔
کچھ دیر کے بعد وہ اُٹھی، آئینے میں خود کو دیکھا اور سوچنے لگی۔
”کتنا بدل دیا تھا وقت نے اُسے۔“
پہلے کبھی وہ آئینہ دیکھتی، تو دل میں فوراً ایک ہی دعا کرتی۔
”اے اللہ! میرے اندر بھی اتنا ہی نور بھر دے جیسا تو نے میرا چہرہ روشن رکھا ہے۔“
اور اب وہ وہی ادیوا تھی ہی نہیں، کتنی گھٹن کے آثار تھے اس کے چہرے پہ، کتنے کرب تحریر تھے اور آنکھیں صدیوں کی تھکی، نا جانے کتنے ہی سالوں کے رتجگے ڈیرے ڈالے بیٹھے تھے۔ اب وہ آئینے کے سامنے کھڑی اپنی آنکھوں کی مدہم اُداس روشنی کو نظر انداز کرنے لگی دل آج بھی ویسے ہی دعا گو تھا مگر اب بس اتنا کہہ پاتا۔
”اے اللہ! میری روح کو تاریکیوں سے بچا لینا۔“
روح کی تاریکیاں بہت ہی اذیت ناک ہوتی ہیں۔ انسان کو خود میں پنہاہ جلوے بھی دکھائی نہیں دیتے، جو اُس کے رب نے اسے عطا کیے ہیں اور سب وسیلے، سب واسطے ان تاریکیوں میں دفن ہو جاتے ہیں۔ اس لیے اب وہ اور زیادہ اپنے اندر کے اُجالوں کی دعا کرتی۔ابھی وہ انھی سوچوں میں گم تھی کہ اچانک دروازہ کھلا اور مسز عمر اندر آئی۔
”ماما جانی! میں بس آنے ہی والی تھی۔“
ان کے بولنے سے پہلے ہی اس نے کہہ دیا۔
”آپ چلیں …… میں بس فریش ہوکر آئی۔“
ادیوا نے قدرے جھجکتے ہوئے لہجے میں کہا اور وہ جیسے ہی یہ کہہ کر مڑنے لگی، اچانک اسے اس کا ہاتھ ماں کی گرفت میں محسوس ہوا اور وہ ادیوا کے چہرے کو دیکھتی رہیں۔
”ادیوا! مجھے پتہ ہے، تمھارے لیے وہ اذیت، وہ وقت بھلانا بہت مشکل ہے، مگر بیٹی! وقت رک تو نہیں جاتا، سب کچھ اپنے معمول پہ ہے۔ بس دیکھو! تو تم ہی پیچھے رہ گئی ہو۔ ذرا آئینہ دیکھو! کیا حال کردیا ہے تم نے اپنا۔“
اب ان کی آواز بھر آئی تھی۔ مشکل سے آنسو روکتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ پائیں۔
ادیوا کے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ وہ یہی سب کچھ پچھلے پانچ سال سے سنتی آرہی تھی اور شاید اسی لیے اب اس کے پاس بھی کوئی نئی تسلی نہیں تھی، جس سے وہ اپنی ماں کو بہلا سکتی۔ کبھی کبھی زندگی اتنے مشکل موڑ پہ لے آتی ہے کہ انسان چاہ کے بھی اپنے پیاروں کو خوشیاں نہیں دے سکتا اور اسی بے بسی میں وہ سر ہلاتے ہوئے واش روم چلی گئی۔
اُسے بالکل سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اب اس زندگی کے ساتھ وہ کیا سلوک کرے، اُس کے پاؤں میں جیسے کئی بیڑیاں ایک ساتھ ڈال دی گئی تھیں۔ ایک طرف بے پناہ محبت کرنے والے رشتے تھے کہ جن کی تمام تر خوشیاں اُس کے ہی دم سے تھی اور ساتھیہ کہ ڈ پریشن میں اُٹھایا گیا کوئی انتہائی قدم اور اُس کے نتیجے میں اللہ کی ناراضی کا ڈر، یہ دونوں مسلسل اُس کے احصاب پہ سوار رہنے والے خیالات تھے ورنہ وہ زندگی کے ساتھ بھی ویسا ہی سلوک کرنا چاہتی تھی، جو زندگی نے اُس کے ساتھ کیا تھا، بدلہ لینے کی طاقت رکھتے ہوئے بھی وہ بے بس تھی۔
”ادیوا! ناشتہ کرکے تیار ہو جاؤ۔آج ہم کچھ دن کے لیے مری جارہے ہیں، تمھارے پاپا نے وہی ریسٹ ہاؤس بُک کروایا ہے، جو تمھیں لاسٹ ٹائم بہت پسند آیا تھااور اچھا ہے تمھاری آؤٹنگ ہو جائے گی، ویسے بھی پورا دن اپنے کمرے میں پڑی رہتی ہو۔ تمھارے پاپا بہت پریشان ہیں تمھارے لیے۔“
ادیوا جانتی تھی کہ صرف پاپا ہی نہیں اُس کے لیے گھر کا ہر فرد پریشان تھا۔
”جی ماما! میں پیکنگ کرتی ہوں۔“
یہ کہہ کر اُس نے چائے کا کپ اُٹھایا اور کمرے میں آگئی۔
یہ تو ادیوا جانتی تھی کہ مری جانے کے سفر سے لے کر وہاں رہنے تک کا سارا وقت کسی کرب مسلسل سے کم نہیں ہوگا۔ ایک وہ وقت تھا کہ ایسی جگہوں سے عشق تھا اُسے، قدرتی مناظر دیکھ کر زندگی اور بھی خوبصورت لگنے لگتی تھی۔ شاید ہی اُس کی زندگی میں کوئی ایسا موقع جو اُسے ملا اور اُس نے گنوایا ہو۔ لیکن اب وہاں جانے کاسوچ کے ہی عجیب سی گھٹن محسوس ہونے لگی تھی۔ مگر وہ چاہ کر بھی انکار نہیں کرسکتی تھی، اُسے پتہ تھا یہ اُس کے گھر والوں
کی ایک اور کوشش ہے اُسے واپس زندگی کی طرف لانے کی
وہ کسی کو بھی اس کوشش سے نہیں روک سکتی تھی۔ آخر پانچ سال کا عرصہ بہت لمبا عرصہ تھا۔ وہ سب تھک چکے تھے مگر ہمت ہارنے کو تیارنہیں تھے۔ ایک کے بعد ایک کوشش کرتے رہے۔ خیر ادیوا نے اپنے کچھ سوٹ نکالے اور مردہ سے دل سے پیکنگ کرنے لگی۔ اتنے میں حادی کا فون آیا۔ حادی ادیوا کا بھائی تھا، جو اشعر سے چھوٹا تھا۔
”کیسی ہو میری سویٹو سی بہنا! تمھیں کیسا لگا پاپا کا سرپرائز؟ جلدی سے ریڈی ہو جاؤ۔ میں نے ایک ہفتے پہلے ہی چھٹیاں اپلائے کردی تھیں، آج ہی منظور ہوئی ہیں۔ بس میں 3 بجے تک گھر پہنچ جاؤں گا اور پھر……“
اتنے میں اُسے احساس ہوا، ادیوا بہت خاموش تھی۔ وہ بولتے بولتے رُکا اوربات اُدھوری چھوڑ کے پھر سے ادیوا سے مخاطب ہوا۔
”ادیوا! تم خوش تو ہو ناں؟“
”حادی! میں بالکل ٹھیک ہوں میرے بھائی! در حقیقت بہت خوش ہوں کہ ہمیں ماما پاپا کے ساتھ اتنے عرصے بعد وقت گزارنے کا موقع ملے گا۔“
ادیوا نے حادی کا مان رکھتے ہوئے بہت خوبصورتی سے اپنے جذبات چھپالیے۔
حادی اُس کا یہ جواب سن کر مطمئن ہوا اور فون رکھتے ہوئے بولا۔
”ٹھیک ہے۔ پھر شام کوملتے ہیں۔“
”کتنا مشکل ہوتا ہے ناں! اپنوں کا مان رکھنا، مردہ دل سے ہنستے رہنا،اپنا آپ ان کی خوشیوں کے لیے مار دینا۔“
وہ دل ہی دل میں سوچتی رہی۔
دوپہر کے کھانے پر سب موجود تھے۔ بس اشعرکا انتظار ہورہا تھا، اتنے میں ڈور بیل ہوئی اور اشعر داخل ہوا۔ کچھ تھکا اور افسردہ سا لگا۔
”اشعر بیٹے! تم ٹھیک تو ہو۔“
سب کے چہروں پہ ایک پریشان کن تجسس تھا۔
”جی پاپا! وہ کل ہمارا Deligation آرہا ہے امریکہ سے اور مجھے Presentation تیار کرنی ہے، مجھے لگتا ہے میں آپ لوگوں کے ساتھ نہیں جاسکوں گا لیکن یہاں کام ختم ہوتے ہی ممکن ہے کہ میں آجاؤں گا، میں اس میٹنگ میں ہر حال میں شرکت کرنا چاہتا ہوں، مس نہیں کرسکتا۔“
”مگر بھائی! ہم آپ کے بغیر جا کے کیا کریں گے۔“
وہ تو پہلے ہی چاہتی تھی کسی طرح یہ پلان بس کینسل ہو جائے۔
اشعر نے ادیوا کی فوراً تردید کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں، نہیں ادیوا! تم لوگ جاؤ۔ میں جلد سے جلد آنے کی کوشش کروں گا اور ابھی حادی کی بھی چھٹی منظور ہوگئی ہے، اس لیے یہ موقع ضائع نہیں ہونا چاہیے۔“
پھر اس کے بعد اس ٹاپک پر مزید بات نہیں ہوئی۔سب نے کھانا کھایا اور اتنے میں ڈرائیور نے گاڑی میں سامان رکھا۔
”فرح بیگم! آپ کا کیا خیال ہے ادیوا خوش تو ہے نا ہمارے اس اچانک پلان سے۔“ عمر صاحب نے قدرے محتاط انداز میں بیوی سے پوچھا۔
”مجھے تو اس لڑکی کی کچھ سمجھ نہیں آتی عمر! یہ کیا کرنا چاہتی ہے اپنے ساتھ، میں ماں ہوتے ہوئے بھی سمجھ نہیں پا رہی، سچ پوچھیں تو مجھے تو اب اس کے چہرے پہ خوشی اور دکھ کے رنگوں میں کوئی فرق ہی محسوس نہیں ہوتا۔ میں تو اپنے رب کے آگے اس کے حق میں دعائیں کرکر کے تھک چکی ہوں۔“
”وہی ہے جو کوئی معجزہ کردے۔“
اتنے میں حادی اور ادیوا کو سیڑھیوں سے اُترتا دیکھ کے مسز عمر نے کسی اور موضوع پہ بات شروع کردی اور کچھ ہی دیر بعد سب مری کے سفر پر روانہ ہوگئے۔
گاڑی کے اندر حادی نے بہت پُرجوش ماحول بنا رکھا تھا۔ تمام نئے گانوں کی سی ڈیز ایک کے بعد ایک پلے ہورہی تھی۔
سب اپنے ہی قصےکہانیوں میں مصروف تھے اور ادیوا مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ ہر منظر کتنی تیزی سے گزررہا تھا، پر وہ شاید کسی اور منظر کے پس منظر میں تھی۔ وہ گہری سوچوں میں گم پانچ سال پہلے کی زندگی میں پہنچ چکی تھی۔ وہ اُس احساس کو اتنی شدت سے محسوس کررہی تھی، جو اسے صفان کے ساتھ انھی راستوں میں آتے جاتے محسوس ہوا تھا۔ وہ ایک حصار ایک طلسم کی گرفت میں آتی چلی گئی۔ پھر سے وہی سب یادیں تازہ ہوتی گئیں اس سے پہلے کہ وہ کسی اور دنیا میں پہنچ جاتی کسی مانوس سی آواز نے اُسے جھنجوڑ دیا۔
”ادیوا! کہاں گم ہو بھئی، حادی کتنی دیر سے بُلا رہا ہے۔ ایک تم ہو کہ باہر دیکھنے سے فرصت نہیں۔ یہ دیکھو! تمھارے فیورٹ موتیے کے گجرے ……“
”ماما جانی! وہ میں ……میں ……“
ادیوا یوں بوکھلائی، گویا پانچ سال کی مسافت دو لمحوں میں طے کرکے پہنچی ہو۔
”یہ پھول پسند نہیں اب مجھے ماما جانی! ان سے الرجی محسوس ہوتی ہے۔“
اُس کا دل پھولوں کو دیکھتے ہی ایک خیال نے مَسل کے رکھ دیا۔ اُس کا جی چاہا کہ پھول نوچ کرباہرپھینک دے۔
کچھ چیزیں جتنی ہی پسند کیوں نہ ہوں جب کسی دُکھ دینے والے سے منسوب ہو جاتی ہیں، تو پھر سکون نہیں دیتی بلکہ کلیجہ چیر دیتی ہیں۔
وہ گجرے غالباً روڈ پہ کھڑابچہ بیچ رہا تھا ادیوا اُسے بہت اُلجھے سے انداز میں دیکھتی رہی اُس کی شکل اُس بچے سے بالکل مختلف تھی جس سے صفان نے گجرے لیے تھے۔ وہ ایک دم سے جھنجلائی جیسے کوئی بہت ممنوعہ سوچ اُس کے ذہن میں در آئی ہو۔ وہ ان باتوں پہ ایسے پریشان ہوتی جیسے اب زندگی میں اور بھی کوئی طوفان آنے باقی تھے۔ وہ کبھی بھی ایسی نہ تھی جیسا اب حالات نے اُسے بنا دیا تھا۔
پنڈی سے مری کا راستہ تقریباً 2گھنٹے میں طے ہوگیا، ریسٹ ہاؤس پہنچتے پہنچتے شام کے 7 بج چکے تھے سب فریش ہوئے اور ڈائننگ ہال میں بیٹھ کے کھانا کھانے کے بعد حادی نے مال روڈ پر واک کرنے کا مشورہ دیا۔ لہٰذا سب کھانے سے فارغ ہوکر مال روڈ کی طرف روانہ ہوئے۔
موسم بہت ہی خوشگوار تھا۔ ہوا میں ایک عجیب سے پُر اسراریت تھی یا شاید اکتوبر کی ہوائیں کچھ مخصوص ہی ہوتی ہیں۔
واک کرتے ہوئے اچانک حادی کو یونیورسٹی کے کچھ دوست مل گئے اور وہ سب سے معذرت کرکے دوستوں سے گپ شپ میں مصروف ہوگیا۔
مسز عمر نے حادی کے جاتے ہی ادیوا کو اپنی طرف متوجہ کیا اور اُسے
اِدھر اُدھر کی باتوں میں اُلجھائے رکھا تاکہ اس کا دھیان کسی اور طرف نہ جائے۔
”ادیوا! تمھیں پتہ ہے، شجاع بھیاکا فون آیا تھا، وہ لوگ جمعرات کو پاکستان پہنچ رہے ہیں اور عنائیہ بھی ساتھ آرہی ہے۔ اسے سمسٹر بریک ہے، تو تمھارے ماموں نے سوچا کہ بچوں کو پاکستان کا ویزٹ کروا دیں۔“
ادیوا چپ چاپ سنتی رہی۔
عنائیہ، ادیوا سے دو سال بڑی تھی مگر دونوں میں کافی اچھی دوستی تھی۔ ادیوا کو کبھی بھی بہن کی کمی محسوس نہیں ہوتی تھی، مگر کچھ سالوں سے وہ سب سے کٹ کے رہ گئی تھی۔ شجاع ماموں پچھلے 35سال سے کینیڈا میں ہی رہائش پذیر تھے۔ عنائیہ دو بہنیں اور ایک بھائی تھا۔ ذریاب شجاع عنائیہ سے دو سال چھوٹا اور ادیوا کا ہم عمر تھا۔ لیکن پڑھائی اور کیرئیر پہ کبھی سمجھوتا نہ کرتا۔ اس لیے پاکستان بہت کم چکر لگتا۔ وہ آخری بار 8 سال پہلے پاکستان آیا تھا۔ ممانی نے بچوں کی پرورش بہت اچھی کی تھی۔ مڈل کلاس فیملی سے ہونے کے باوجود بچوں کو ایسا براٹ اپ کیا کہ شاذونادر ہی اُن کی شخصیت میں کوئی نقص نظر آتا۔ تعلیم کے لحاظ سے بھی اور اخلاقی اقدار کے لحاظ سے بھی ان کے سب بچے اپنی مثال آپ تھے۔
کچھ دیر تک اُن لوگوں نے حادی کا انتظار کیا اور پھر واپس ریسٹ ہاؤس آگئے۔ حادی نے بعد میں اپنے دیر سے آنے کی اطلاع فون پر دے دی تھی۔
ادیوا کے کمرے کی بالکونی سے ویو بہت خوبصورت تھا مگر رات کے اندھیرے کی وجہ سے کچھ بھی اتنا واضح نہیں تھا۔ دور مال روڈکی سٹریٹ لائٹس بہت دھندلی سی دکھائی دے رہی تھی۔ سامنے لان میں ایک مدہم سی لائٹ روشن تھی۔ ادیوا کافی کاکپ لیے وہیں بالکونی میں آکر بیٹھ گئی۔ اُس کی بلیک کافی کی عادت بہت پختہ ہو چکی تھی، دن کے 5،6 کپ تو کچھ بھی نہیں تھے اس کے لیے۔ وہ کڑوی بلیک کافی سے جانے کتنی تلخیوں کا زہر مارتی تھی۔ یا شایدکچھ نشے ضروری ہو جاتے ہیں جب انسان تنہا اور سفر کی تھکان زیادہ ہو۔
٭٭٭
صفان سے پہلی ملاقات …… اُس کی وہ آخری سوچ ہوتی جو وہ اکثر دن کے اختتام پر سوچتی۔ کبھی کبھی انسان خود کو تکلیف دینے کا اتنا عادی ہو جاتا ہے کہ ذرا بھی تاخیر ہو جائے اذیت میں، تو جسم سے جیسے روح کھینچنے لگتی ہے۔
وہ دسمبر کی شام آج بھی اسی طرح ذہن میں تازہ تھی جب یونیورسٹی سے گھر آتے ہوئے اسے کسی ضروری کام سے بنک جانا پڑا۔
درمیانی لمبائی والے کھلے بال اور Fringes cut میں وہ اور بھی معصوم لگتی۔ اُسے دیکھ کر بالکل ویسے ہی پیار آتا جیسے کسی بچے کی معصومیت
پر آتا ہو۔ انتہائی نازک، دُبلی پتلی سی، سیاہ قمیض کے ساتھ بلیو جینز اور پاؤں میں Sneekers بالکل ہلکی سی پنک لپ سٹک کے ساتھ وہ اتنی پرکشش لگ رہی تھی کہ ممکن ہی نہ ہو تاکہ کوئی دیکھے اور نگاہ پھیر لے۔ سیاہ جالی کا ڈوپتہ سنبھالتے ہوئے بے دھیانی میں سیڑھیاں چڑھتی ہوئی وہ بینک میں داخل ہوئی۔ چونکہ اسی بنک میں عمر حیات کے فیکٹری اکاؤنٹس تھے، لہٰذا برانچ منیجر ادیوا کو بہت اچھے طریقے سے جانتا تھا۔
ادیوا بے دھیانی میں والٹ کھولتی ہوئی کیش کاؤنٹر کی طرف جارہی تھی کہ اچانک ذور دار ٹکراؤ محسوس ہوا، سامنے ایک دُبلا پتلا لمبے قد کا نوجوان جو ادیوا کی طرف رُخ پھیرے کسی سے فون پر بات کرنے میں مشغول تھا۔ جیسے ہی بے دھیانی میں وہ اُس سے ٹکرائی اُس نے فوراً پیچھے پلٹ کے ادیوا کو دیکھا، جو Sorry کہہ کر زمین سے اپنے والٹ سے گری کچھ Invoices اُٹھانے میں مصروف تھی۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...