“کام ہوگیا انکل” شزا کے الفاظ پر ایک گہری مسکراہٹ شبیر زبیری کے لبوں کو چھوئی تھی۔
“ویل ڈن شزا۔۔۔۔۔۔ ویل ڈن۔۔۔۔۔ تم جانتی نہیں ہو کہ آج جو تم نے کیا اس کا ہونا کتنا اہم تھا۔۔۔۔ اگر ایسا کچھ نہ ہوتا۔۔۔۔۔ اگر میرا راز وائے۔زی کے ہاتھ لگ جاتا۔۔۔۔”
“ارحام شاہ کی بیٹی!…………اس کا کیا تعلق ہے آپ سے اور اس کمزوری سے جو اگر ارحام شاہ کے ہاتھ لگتی تو آپ مشکل میں پھنس جاتے؟۔۔۔۔بتائیے انکل مجھے جاننا ہے۔۔۔۔ اور ارحام شاہ کی کوئی بیٹی بھی تھی؟۔۔۔اس کا کیا تعلق ہے آپ سے؟” شزا کے سوالوں کی بوچھاڑ پر انہیں اپنا دم گھٹتا محسوس ہورہا تھا۔۔۔ کیا وہ سچ تک پہنچ چکی تھی؟۔۔۔۔۔ اسے کیسے معلوم ارحام شاہ کی بیٹی کا۔۔۔۔۔
“تم۔۔۔تمہیں کیسے معلوم ارحام شاہ کی بیٹی کا؟” اس کی نظروں سے بچتے اپنی پاکٹ گن لوڈ کیے انہوں نے سوال کیا تھا۔ پیٹھ اسکی جانب تھی۔
“وہ ڈیوڈ۔۔۔۔ وہ وائے۔زی کو بتانے والا تھا۔۔۔مگر اس سے پہلے وہ اپنی بات مکمل کرتا میں نے فائر کردیا تھا۔۔۔۔ میں نہیں جانتی کہ ارحام شاہ کی بیٹی کا اور آپ کا آپس میں کیا کنکشن ہے۔۔۔مگر یہ آپ کا راز تھا,آپ کی کمزوری جس کا فائدہ وہ لوگ اٹھا سکتے تھے۔۔۔اسی لیے ڈیوڈ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی میں نے فائر کردیا تھا” شزا کے تفصیلی جواب پر انہوں نے گہری سانس خارج کی تھی۔۔۔
“تم نے بہت اچھا کام کیا شزا۔۔۔۔ مجھے خوشی ہوئی جان کر کہ تم نے میرے راز کی قدر کی اور خود پر بھی اسے عیاں نہیں ہونے دیا۔۔۔۔ اور جہاں تک بات رہی میرے اور ارحام شاہ کے بیٹی کے درمیان کے تعلق کے متعلق۔۔۔۔ تو بےفکر رہو میں نے کبھی اپنی بیوی کو دھوکا نہیں دیا۔۔۔۔ اور رہی بات ہمارے درمیان کے کنکشن کی تو ان شاء اللہ بہت جلد تمہیں اس سے بھی روشناس کرواؤں گا۔۔۔۔ اب جاؤ حماد آنے والا ہوگا آفس سے” اپنی بات مکمل کرتے انہوں نے دروازے کی جانب اشارہ کیا تھا جس پر سر ہلائے وہ وہاں سے چل دی تھی۔
اس کے جاتے ہی شبیر زبیری کے لبوں پر ایک زہر خند مسکراہٹ در آئی تھی جو بہت جلد ایک مکروہ قہقے میں بدل گئی تھی۔
“تم مجھ سے کبھی بھی جیت نہیں سکتے ارحام شاہ۔۔۔۔کبھی بھی نہیں” لہو چھلکاتی آنکھیں, وہ زہرخند لہجے میں بولا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کیا مطلب ہے تمہارا غائب ہوگئی؟۔۔۔۔کہاں غائب ہوگئی؟۔۔۔زمین کھاگئی یا آسمان نے اٹھا لیا اسے؟۔۔۔۔سنو ڈاکٹر مجھے وہ لڑکی ہر حال میں زندہ چاہیے۔۔۔۔ چاہے جیسے مرضی مگر اسے زندہ ڈھونڈ کر لاؤ” فہام جونیجو کی دھاڑ پر وہاں موجود ڈاکٹرز کی پوری ٹیم لرز اٹھی تھی۔
معتصیم کے جانے کے بعد فہام جونیجو نے بدلے کی خاطر ماورا کو مینٹل ہسپتال منتقل کروادیا تھا جہاں اسے دن رات الیکٹرک شاکس دیے جاتے تھے۔۔۔۔۔ اور پھر یونہی اچانک ایک رات ماورا کا غائب ہوجانا۔۔۔۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔۔۔ سی۔سی۔ٹی۔وی فوٹیج بھی ہیکنگ کے باعث غائب تھی۔ اور اب وہ ان ڈاکٹرز پر برس رہا تھا جن کے انڈر ماورا تھی۔۔۔۔
“صرف چوبیس گھنٹے, فقط چوبیس گھنٹے ہیں تم لوگوں کے پاس اسے ڈھونڈ کر لاؤ میرے پاس” ایک آخری دھاڑ کے ساتھ وہ ٹیبل کو ٹھوکر مارتا وہاں سے نکل گیا۔
اس لڑکی کی وجہ سے فہام جونیجو نے کتنا بڑا نقصان اٹھایا تھا۔۔۔۔۔ اس فیکٹری کو جلا دیا جس میں موجود لڑکیوں کو بیچ کر وہ اربوں کھربوں کا مالک بن جاتا۔۔۔۔ مگر نہیں اس ایک لڑکی کی وجہ سے سب چلا گیا۔۔۔۔ سب برباد۔۔۔۔۔ وہ اسے جتنی اذیت دیتا کم تھی۔
“بس ایک بار میرے ہاتھ لگ جاؤ۔۔۔۔وہ حشر کروں گا کہ دنیا کے لیے عبرت کا نشان بن جاؤ گی تم”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بھائی آپ کہی جارہے ہیں؟” صبح صبح ناشتے کی ٹیبل پر سنان کا پیک بیگ دیکھ کر وہ چونکی تھی۔ سنان کو دیکھا جو خاصہ پریشان تھا اور موبائل پر کسی کو میسجز کرنے میں مصروف تھا۔
“ہممم ایمرجینسی لندن جارہا ہوں۔۔۔۔ تم اپنا دھیان رکھنا۔۔۔۔ ایک دو ہفتوں میں واپس آجاؤں گا۔۔۔۔ کریم!!!” اس کے سر پر بوسہ دیے اس نے کریم کو آواز دی تھی۔
“مگر دو دن بعد میری برتھڈے۔۔۔۔” اس کے الفاظ منہ میں ہی دب گئے تھے۔
“شائد یہ کام بہت ضروری ہے۔” سر جھکائے وہ بڑبڑائی تھی۔۔۔۔ آنکھوں میں انچاہے آنسوؤں جمع ہوگئے تھے۔۔۔۔۔ کتنی خوش تھی یہ سوچ کر کہ یہ خاص دن وہ کسی اپنے کے سنگ گزارے گی۔
“میم ناشتہ۔۔۔ ٹھنڈا ہوگیا ہے تازہ بناکر لادوں؟” میڈ کے سوال پر وہ آہستگی سے سر نفی میں ہلائے وہاں سے اٹھ کر چل دی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولا سے نکلتی دو تین گاڑیوں کو دیکھ ایک کونھ میں موجود بلیک مرسیڈیز میں موجود وہ شخص مسکرایا تھا۔
اگلی اور پچھلی گاڑیوں میں موجود گارڈز اور درمیان میں موجود سنان اور کریم۔۔۔۔۔
“لگتا ہے یہ سالا ۔۔۔۔ اوپس میرا مطلب ہونے والا سالا سب گارڈز کو ساتھ لیکر جارہا ہے۔۔۔۔چچچ۔۔۔۔ کتنے افسوس کی بات ہے۔۔۔ میری پرنسز کے پاس کوئی سکیورٹی نہیں؟۔۔۔۔کوئی بات نہیں میں تو ہوں نا” وہ شخص کھل کر مسکرایا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم اب گھر جاؤ کریم۔۔۔۔ اور ہاں زویا, اس کا خیال رکھنا!” ائیر پورٹ پر فلائیٹ کی اناؤنسمنٹ سنے اس نے کریم کو ہدایت دی تھی جس پر اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
“سر” اسے جاتے دیکھ کریم نے آواز دی تھی
“وہ ٹھیک ہوجائے گا” کریم کی بات سن اس کی آنکھوں کے گوشے گیلے ہوئے تھے۔
“دعا کرنا کریم اسے کچھ نہ ہو ورنہ مجھے کچھ ہوجائے گا” گہری سانس خارج کیے, آنکھوں پر گلاسز چڑھائے وہ اپنی منزل کی جانب رواں ہوچکا تھا۔
“اللہ نگہبان” دعا کیے وہ پارکنگ کی جانب مڑ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد کشمیر کی صاف شفاف فزا میں سانس لیے اس نے شال کو اچھے سے اپنے گرد لپیٹا تھا۔۔۔۔۔ زرا بلندی پر بنے اس کوٹیج کے دروازے پر کھڑی وہ پتھر کی بنی سیڑھیاں اترتی نیچے باغیچے کی جانب وہ بڑھی تھی جس کے آگے موجود پکی سڑک پر موجود بارہ سے سولہ سال کی لڑکیاں بکریاں چراتی آپس میں ہنستی کھیلتی وہاں آرام کی غرض سے رک گئیں تھی۔
ماورا نے دھیمی مسکراہٹ لیے انہیں دیکھا تھا۔۔۔۔ جو ایک دوسرے میں لگتی, ادھر ادھر بھاگتی آنکھ مچولی کھیل رہیں تھی۔۔۔۔ ایک جانب بکریاں گھاس چرنے میں مگن تھی,دوسری جانب وہ کھیلتی بچیاں اور تیسری جانب ان سب میں سب سے بڑی اٹھارہ سال کی وہ لڑکی جو ایک درخت سے ٹیک لگائے ایک نگاہ بکریوں پر اور دوسری ان بچیوں پر ڈال کر دوبارہ ہاتھ میں موجود کتاب کی جانب متوجہ ہوجاتی۔
ماورا نے آنکھیں چھوٹی کیے اس کے ہاتھ میں موجود کتاب کو گھورا تھا۔۔۔۔ وہ شائد سائیکولوجی کی کوئی کتاب تھی,اس کی مسکراہٹ تھمی تھی اور چہرہ اب سرد و سپاٹ ہوگیا تھا۔
کاٹیج کی کھڑکی سے کافی پیتے معتصیم نے گہری نگاہو کے حصار میں اسے رکھا تھا۔۔۔۔ آج انہیں یہاں دوسرا دن تھا مگر ماورا کچھ نہیں بولی تھی۔۔۔۔۔ نہ ہی اسے یہاں لانے پر کوئی تاثر دیا تھا۔۔۔۔ گہری سانس خارج کیے پردے برابر کرتا وہ کچن کی جانب چل دیا تھا۔
وائے۔زی کے ساتھ ہوئے حادثے کو لیکر وہ مکمل طور پر لاعلم تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“کہاں ہے وہ؟” ہسپتال میں داخل ہوتے ہی سنان کی ملاقات اس کے رائٹ ہینڈ سے ہوئی تھی۔
“کنڈیشن تو شکر اللہ کا سٹیبل ہے مگر خون کافی بہہ چکا تھا اسی لیے انڈر ابزرویشن رکھا گیا ہے سر کو۔”
“کس کا کام ہے یہ؟”
“ڈیوڈ” سنان کے سوال پر اس نے فوراً جواب دیا تھا۔۔۔۔ سنان کے قدم رکے تھے۔
“کیا تمہیں یقین ہے؟”
“جی۔۔۔۔ سو فیصد۔۔۔۔ سر نے اسے ٹائم دیا تھا کہ وہ خود سر کے حوالے وہ کلب کردے۔۔۔۔ کل ٹائم ختم ہوگیا تو سر گئے تھے وہاں۔۔۔۔میں بھی ساتھ تھا مگر مجھے انہوں نے باہر ہی رکنے کو کہاں تھا۔۔۔۔ اچانک پچھلی جانب سے آتی گولی کی آواز پر میں بھاگ کر وہاں گیا تو سر کو زمین پر گرے پایا جبکہ ڈیوڈ کے تمام آدمی سر کا گھیراؤ کیے کھڑے تھے۔۔۔ سو فیصد یہ اسی کی حرکت ہے تاکہ کلب سر کو نا دینا پڑے” اس کے تفصیل پر سنان نے سر نفی میں ہلایا تھا۔
“نہیں یہ کام ڈیوڈ کا نہیں۔۔۔۔۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی بھی تمہیں وائے۔زی کو یوں آسانی سے نہ لیجانے دیتا بلکہ۔۔۔۔ شائد تمہیں بھی مار دیتا۔۔۔۔ یہ کوئی اور ہی ہے”
“کون؟” اس کے سوال پر سنان نے کندھے اچکائے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔
“اس سوال کا جواب وہ ڈیوڈ ہی دے گا۔۔۔۔ بھلے گولی اس نے نہیں چلائی مگر وہ کہی نہ کہی اس حادثے میں انوالو ہے۔۔۔۔ بس ایک بار وہ شخص میرے ہاتھ لگ جائے گردن دبا ڈالوں گا اس کی میں۔۔۔۔۔۔ اس رات کی تمام فوڑیج نکلواؤ کوئی بھی ثبوت بچنا نہیں چاہیے”
“سر” سر ہلائے وہ سنان کے ہمراہ کمرے کی جانب بڑھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ناشتہ نہیں کیا آپ نے؟” کریم کی آواز پر وہ چونک کر ہوش میں آئی تھی۔
“ہوں؟” اس نے حیرانگی سے اس کی جانب دیکھا تھا
“ناشتہ کیوں نہیں کیا آپ نے؟”
“وہ موڈ نہیں تھا” سر جھکائے اس نے جواب دیا تھا۔
“اور موڈ کیوں نہیں تھا؟”
“معلوم نہیں” اس نے کندھے اچکائے۔
“کوئی پرابلم ہے تو شئیر کرلیجیے۔۔۔۔ شائد میں کوئی مدد دے دوں؟” اس کی بات سن زویا نے سر اٹھائے اسے دیکھا اور نفی میں سر ہلائے وہ اندر کی جانب بڑھ گئی تھی۔
اپنے کندھے اچکاتا کریم بھی آفس کی جانب بڑھ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میرا وعدہ ہے تم سے وائے۔زی تمہارے مجرم کو بخشوں گا نہیں میں ۔۔۔۔۔۔ اسے ایسی سزا دوں گا کہ وہ دنیا کہ لیے نشانہ عبرت بن جائے۔۔۔۔۔۔ بس ایک بار مجھے معلوم ہوجائے وہ کون ہے” بےہوش وائے۔زی کا ہاتھ تھامے وہ بڑبڑایا تھا۔
“سر” اسکا آدمی بنا ناک کیے عجلت میں اندر آیا تھا۔
“سر کچھ دکھانا ہے آپ کو” سانسیں پھولی ہوئی تھی۔
“یہ؟” فوٹیج دیکھ سنان کی آنکھیں پھیلی تھی۔۔۔۔ فوٹیج میں صاف صاف کسی انسان کی پرچھائی کو جھاڑیوں کھ پیچھے دیکھا جارہا تھا مگر اس کی شکل کو دیکھنا مشکل تھا۔۔۔۔۔
“معلوم کرو کون ہے یہ جلد از جلد اور اس ڈیوڈ کی بھی ملاقات کرواؤ مجھ سے مگر میرے سٹائل میں” سنان کی بات پر سر ہلائے وہ وہاں سے نکل گیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالکونی میں کھڑی وہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکو کو محسوس کرتی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی۔
شبیر زبیری سے اجازت لیکر وہ حماد کی غیر موجودگی میں کلب کا چکر لگا آئی تھی۔۔۔
جاننا چاہتی تھی کہ وہ مر گیا یا بچ گیا۔۔۔۔ اس نے کچھ نئے اور انجان چہروں کو بھی کلب میں دیکھا تھا جو عام تو بالکل نا تھے۔۔۔۔ اپنے تئی معلوم کرنے پر علم ہوا تھا کہ وہ وائے۔زی کے خاص آدمی تھے جو اس پر گولی چلانے والے کو ڈھونڈ رہے تھے۔
“اففف۔۔۔۔۔تھک گیا آج تو میں۔۔۔۔۔ یہ ڈیڈ بھی نجانے کون سے بدلے نکال رہے ہے مجھ سے۔۔۔۔ اتنا کام” پیچھے سے اسے اپنی گرفت میں لیے حماد تھکے ہارے لہجے میں بولا تھا۔
“حماد” شزا چونکی تھی۔
“جی آپ کا بیچارہ شوہر حماد”
“آپ کب آئے؟”
“جب آپ ہمیں یادوں میں بسائے ہوئے تھی”
“ہونہہ! خوشفہمی جناب کی” وہ ناک سکیڑے بولی تھی۔
“اسے خوشفہم ہونا نہیں عاشق ہونا کہتے ہے۔۔۔۔ جو میں تمہارا ہوں” اس کے کندھے پر لب رکھے وہ مسکرایا تھا۔
“حماد ۔۔۔۔ یو لوو می نا؟” اچانک اس نے سوال کیا تھا۔
حماد شزا کو سختی سے شبیر زبیری کا ساتھ دینے سے منع کیا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ اب شزا کو مزید ان کے کھیل کا حصہ نہیں بننے دینا چاہتا تھا۔ اور اب شادی کے بعد وہ جو کچھ بھی کررہی تھی وہ سب حماد سے پوشیدہ تھا۔
“آفکورس آئی لوو یو” اس کا رخ اپنی جانب کیے اس کے ماتھے پر اپنے لب رکھے وہ بولا تھا۔
“تو اگر میں کبھی کچھ ایسا کردوں جو تمہیں پسند نہ ہو۔۔۔۔ مگر ایسا کرنا میری مجبوری ہو تو کیا تم مجھے معاف کردو گے؟” شزا کے سوال پر اس کے ماتھے پر کچھ بل پڑے تھے۔
“کیا تم کچھ ایسا کرچکی ہو؟” حماد کے سوال پر وہ گڑبڑائی تھی۔
“نن۔۔۔۔نہیں ایسا کچھ نہیں۔۔۔وہ تو بس یونہی”
“ایسا کچھ ہونا بھی نہیں چاہیے شزا۔۔۔۔ورنہ۔۔۔ خیر میں چینج کرکے آیا”
حماد کا ورنہ ہی شزا کو اچھے سے اس کا مطلب سمجھا چکا تھا۔۔۔۔ بس اب وہ شبیر زبیری کی مزید کوئی مدد نہیں کرے گی۔۔۔اپنے حصے کا کام وہ کرچکی تھی۔۔۔۔۔ ارحام شاہ کے بیٹے کو گولی مار کر وہ بدلا بھی لے چکی تھی اور اب مزید بدلے کی خاطر وہ اپنی حماد کے سنگ اس خوبصورت زندگی کو خراب نہیں کرسکتی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم جانتی ہو شزا تم کیا کہہ رہی ہو؟”
“جی انکل بالکل ٹھیک بول رہی ہوں میں۔۔۔۔۔ ایم سوری مگر میں مزید اس کھیل میں آپ کا ساتب نہیں دے سکتی۔۔۔۔آپ کو مجھ سے جتنی مدد چاہیے تھی اس سے زیادہ مدد کی ہے میں نے مگر اب مزید نہیں۔۔۔۔ حماد کو میں تکلیف دینے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔۔۔۔ امید ہے آپ سمجھ گئے ہوگے” شزا کی بات مکمل ہوتے ہی اس شبیر زبیری نے ہنکارہ بھرا تھا۔۔۔۔۔
“ٹھیک ہے تم جاؤ اور فکر مت کرنا” وہ جبرا مسکرائے تو وہ بھی انہیں مسکراہٹ سے نوازتی جاچکی تھی۔
“اب جب تم مزید میری مدد نہیں کرسکتی, میرے کسی کام کی نہیں تو تمہارا اس دنیا میں ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔ تمہیں اب اپنی ماں کے پاس چلے جانا چاہیے شزا ارحام سلطان شاہ!” ایک مکروہ قہقہ اس کمرے میں گونجا تھا۔
کھڑکی سے سر ٹکائے، اپنے ساتھ اڑتے بادلوں کو دیکھ شزا نے گہری سانس خارج کیے اپنے کندھے پر سر رکھے سوئے حماد کو دیکھا تھا۔
وہ اس وقت حماد کے ساتھ اپنے ہنی مون پر جانے کے لیے جہاز پر سوار تھی۔ شبیر زبیری کو وہ صاف الفاظ میں انکار کرچکی تھی اور خوش بھی تھی کہ انہوں نے اس پر زیادہ زور نہ دیا تھا۔
جو تکلیف ارحام شاہ نے اس کے ماں باپ کو مار کر اسے دی تھی وہی تکلیف شزا نے وائے۔زی کو گولی مار کر ارحام شاہ کو پہنچائی تھی۔
اب وہ مرگیا تھا یا بچ گیا تھا اس سے اسے کوئی سروکار نہیں تھا، وہ اپنے گمنام ماضی میں جینے کی بجائے اپنے خوشحال حال کو جینا چاہتی تھی اپنی محبت کے سنگ، اپنے حماد کے سنگ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
جلے پیر کی بلی بنا شبیر زبیری یہاں سے وہاں تو کبھی وہاں سے یہاں چکر کاٹ رہا تھا، شزا اس کے کھیل کا سب سے طاقتور اور اہم مہرہ تھی۔۔۔۔ اب شزا کا یوں بیچ کھیل میں اسے چھوڑ دینا اسے بھاری بھرکم نقصان سے دوچار کرسکتا تھا۔۔۔۔۔۔
“انکل آپ نے بلایا؟” جازل دروازہ ناک کیے اندر داخل ہوا تھا۔
“ہاں آؤ جازل ایک بہت اہم کام ہے تم سے مجھے، امید ہے تم میری مدد ضرور کرو گے!”
“جی کہیے انکل۔۔۔ مجھ سے جو ہوسکا میں کروں گا!” جازل کی بات پر وہ مسکرائے تھے۔
“تمہیں میرے لیے ایک کام کرنا ہوگا نہایت راز داری سے، بس یہ سمجھ لو اس کام کا ہونا بہت ضرروی ہے۔”
“جی انکل آپ حکم کیجیئے”
“تمہیں ڈیوڈ کو مارنا ہوگا جازل!” ان کی بات سن اس کی آنکھیں پھیلی تھی۔
“ڈیوڈ؟ آپ کا دوست ڈیوڈ وہ کلب کا مالک؟ مگر کیوں؟”
“کیونکہ اس نے مجھے دھوکا دیا، ہماری اہم معلومات اس نے ارحام شاہ اور اس کے آدمیوں کے حوالے کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ اس نے پہلے بھی ایسا کرنے کی کوشش کی اور اب دوبارہ کرے گا۔۔۔۔۔ اس سے پہلے وہ ہمیں کوئی بھاری نقصان پہنچائے تمہیں اسے مارنا ہوگا۔ سمجھ رہے ہو نا؟” ان کی بات پر جازل نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
ویسے بھی ڈیوڈ نے ان کے ساتھ پہلے بھی دھوکا کیا تھا، وہ کلب ان کا بھی تھا جس پر وہ قابض تھا اور فہام جونیجو کی مدد کی بدولت وہ کلب بھی ان کے ہاتھ سے جاچکا تھا۔
“وائے۔زی اس کا کیا؟”
اس کے سوال پر وہ مسکرائے تھے۔
“اس کی فکر مت کرو شزا اسے اس کے ٹھکانے تک پہنچا چکی تھی، اب تمہاری باری ہے، اس آدھے ادھورے کام کو تمہیں ہی پورا کرنا ہوگا۔ سمجھے!” ان کی بات پر اس نے جھٹ سر ہلایا تھا۔
“آپ فکر مت کرے انکل آج رات تک آپ کا کام ہوجائے گا”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“آہ!” تکلیف کے مارے اس کا پورا جسم دکھ رہا تھا، آنکھوں کے پردے بھاری ہوئے تھے جنہیں کھولنا اسے ناممکن لگ رہا تھا۔
“سر!” اسکے پاس موجود نرس اسے ہوش میں آتے دیکھ فورا اس کی جانب بھاگی تھی۔
جسم اور اٹھتی ٹیس کو رد کیے اس نے آنکھیں وا کی تھی۔
“شکر سر آپ کو ہوش آگیا میں ڈاکٹر کو بلاتی ہوں!” بولتی وہ تیزی سے کمرے سے نکلی تھی جبکہ وائے۔زی درد کو پس پشت ڈالے اس کمرے کو گھور رہا تھا۔
تھوڑی ہی دیر میں ڈاکٹر اس کا چیک اپ کرچکے تھے۔
“اب کیسا محسوس کررہے ہو تم نوجوان؟”
“پہلے سے تھوڑا بہتر!” اپنے سینے پرہاتھ رکھے وہ بڑبڑایا تھا۔
یہاں کیسے پہنچا اسے سب یاد آگیا تھا۔
“اب آرام کرو تمہارا بھائی آتا ہوگا تھوڑی دیر میں۔”
“بھائی؟” وائے۔زی حیران ہوا تھا بھلا اس کا کوئی بھائی کب، کہاں کس جگہ سے ٹپک گیا تھا۔ مگر اس کا جواب بھی اسے آدھے گھنٹے تھے سنان شاہ کا مکا دے چکا تھا۔
“کیا سوچ کر تم اس ڈیوڈ سے اکیلے ملنے گئے تھے؟ خود کو کیا سمجھ رکھا ہے تم نے؟ کیا عقل نام کی کوئی شے تم میں پائی نہیں جاتی؟” سنان کی بھڑاس پر وہ مسکرایا تھا۔
“تمہیں تکلیف ہوئی؟ مجھے یوں دیکھ کر؟” اس نے کمینی مسکراہٹ لیے سوال کیا تو سنان کی گھوریاں جواب میں ملی تھی۔
“گولی کس نے چلائی معلوم ہوا؟”
“نہیں۔۔۔۔فوٹیج دیکھی تھی مگر کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے یہ کام ڈیوڈ کا لگتا ہے!” سنان نے اسے اپنی سوچ سے آگاہ کیا تھا۔
“اگر وہ ایسا کرتا تو مجھے یہاں نہ پہنچاتا!” اشارہ ہسپتال کی جانب تھا۔
“مگر وہ کہی نا کہی، کسی نا کسی طریقے سے ان سب میں ملوث ہے اور سچ تک میں پہنچ کر ہی دم لوں گا!”
“تو اب کیا کرو گے تم؟” وائے۔زی نے جانچتی نگاہوں سے سوال کیا تھا۔
“کچھ نہیں بس ڈیوڈ سے ایک چھوٹی سی ملاقات کا سوچ رہا ہوں!” وہ مسکرایا تھا۔
“اور ملاقات کا اختتام کیا ہوگا؟” وائے۔زی مانو جیسے اس کی سوچ سمجھ چکا تھا۔
“تمہیں تو جیسے معلوم نہیں نا!” سنان کے طنز پر وہ کھل کر ہنسا تھا مگر ساتھ ہی اپنے سینے پر ہاتھ رکھ لیا تھا اس نے تکلیف کے باعث۔
“اور جانے سے پہلے ایک آخری سوال!۔۔۔۔۔ معتصیم کہاں ہے وائے۔زی؟” سنان کی بات سن اس نے بامشک تھوک نگلا تھا۔
“معلوم نہیں” معصوم بچہ بنے اس نے کندھے اچکائے تھے سنان نے آنکھیں چھوٹی کیے اسے گھورا تھا۔
وہ کافی دنوں سے معتصیم کو کال کرنے کی کوشش کررہا تھا مگر لاحاصل۔
معتصیم دبئی کے بعد دوبارہ لندن آیا تھا، سنان کو نہیں معلوم تھا کہ اس کی زندگی میں کیا چل رہا تھا مگر جو بھی تھا وہ سب اس کے ماضی سے جڑا تھا اور معتصیم اپنے زندگی کے اس باب کو جتنی جلدی بند کردے اتنا ہی اس کے لیے اچھا تھا۔
“سنان!” اسے جاتے دیکھ وائے۔زی نے پکارا
“ہوں؟”
“وہ ڈیوڈ۔۔۔۔۔ اس کے پاس ارحام شاہ کا کوئی راز ہے۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے وہ مجھے ان کی بیٹی۔۔۔۔۔۔ ہاں ان کی بیٹی کے متعلق کچھ بتانے والا تھا۔۔۔۔۔۔۔ وہ راز شبیر زبیری سے جڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے کلب کے بدلے بتانے والا تھا مگر اس سے پہلے ہی گولی چلائی گئی تھی مجھ پر!” وائے۔زی کی بات پر سنان کی آنکھیں پھیلی تھی۔
“شٹ وائے۔زی مجھے ابھی جانا ہوگا اس شخص کے پاس” تیزی سے وہ کمرے سے بھاگا تھا۔
دماغ میں بس ایک جملہ گردش کررہا تھا
ارحام شاہ کی بیٹی
ارحام شاہ کی بیٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہلکی ہلکی رم جھم کے ساتھ وہ دونوں سڑک پر چلتے خاموش سے اس موسم سے لطف اندوز ہورہے تھے۔
اتنے دنوں میں پہلی بار ماورا نے باہر نکلنے کی خواہش ظاہر کی تھی مگر خواہش اکیلے آنے کی تھی جو معتصیم پوری نہیں کرسکتا تھا اسی لیے اس کے ساتھ چلا آیا۔
اس نے ماورا کو ایک نظر دیکھا جس کی آنکھیں بےتاثر تھی مگر ماتھے پر موجود اس بات کا گواہ تھا کہ اسے معتصیم کا ساتھ آنا بالکل پسند نہیں آیا تھا۔
“کچھ چاہیے؟ مطلب کچھ کھاؤں گی؟”
“ہاں تم سے دوری۔” معتصیم کے پوچھنے پر وہ دل میں بڑبڑائی تھی۔
سر نفی میں ہلائے اس نے واپسی کے لیے قدم موڑے تھے، معتصیم گہری سانس بھر کر رہ گیا تھا۔
وہ اسے کوئی موقع نہیں دے رہی تھی نا کسی قسم کی وضاحت کا اور نہ ہی معافی تلافی کا۔
نجانے کیوں مگر معتصیم کو یہاں آنا بےکار لگا تھا۔
راہ میں موجود پتھر کو ٹھوکر مارے وہ اس کے پیچھے پیچھے چل دیا تھا۔
کوٹیج میں داخل ہوتے ہی وہ ناک کی سیدھ میں اپنے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی، معتصیم کا ارادہ بھی اپنے کمرے میں جانے کا تھا جب اس کے موبائل پر کال آئی تھی۔
یہ نمبر صرف وائے۔زی کے پاس تھا جو اس نے صرف اس صورت میں استعمال کرنے کو کہا تھا جب کوئی ایمرجینسی ہو۔
“ہیلو؟” معتصیم نے موبائل کان سے لگایا تھا مگر آگے جو خبر وائے۔زی کے وفادار نے اسے دی تھی وہ معتصیم کو غصہ دلانے کو کافی تھی۔
فہام جونیجو ایک آوارہ کتے کی طرح ہر جگہ ماورا کی تلاش میں تھا۔ وائے۔زی کے ہوش میں آتے ہی اس کے آدمی نے اسے یہ خبر سنائی تھی جسے اب معتصیم تک پہنچانا نہایت ضروری تھا۔
“وائے۔زی کہاں ہے؟” معتصیم نے سپاٹ لہجے میں دریافت کیا تھا۔
اس کے آدمی سر زرا موڑے وائے۔زی کو دیکھا تھا جو ڈاکٹر کے ہاتھ میں موجود سرینج کو خونخوار نگاہوں سے گھور رہا تھا۔ جب تک وہ بیہوش تھا اسے کوئی مسئلہ نہیں تھا مگر اب انجیکشن وہ کسی صورت خود کو لگوانے نہ دیتا۔
“سر! وہ دراصل سر کا ایک چھوٹا سا ایکسیڈینٹ ہوا تھا تو وہ انجیکشن۔۔۔۔۔۔” اس نے بات مکمل نہ کی تھی اور دوسری جانب معتصیم کے لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی تھی۔
وائے۔زی اور اس کا انجیکشن فوبیا۔
“ٹھیک ہے اسے بتادینا معتصیم نے یاد کیا تھا!”
“اوکے سر” کال کاٹے وہ وائے۔زی کی جانب متوجہ ہوا تھا جو اب ڈاکٹر پر چیخ چلا رہا تھا اسے برباد کرنے کی دھمکی دے رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تم، تم مجھ سے کیا چاہتے ہو؟” بری حالت میں زمین پر کھانستے ہوئے ڈیوڈ نے جاننا چاہا تھا۔
“وہی سچ جو تم وائے۔زی کو بتانے والے تھے” اس کے سامنے بیٹھے سنان سخت لہجے میں بولا تھا
“میں۔۔۔۔میں نہیں جانتا کچھ بھی قسم سے۔۔۔۔۔ کوئی سچ، کوئی راز نہیں ہے میرے پاس” خون تھوکتے وہ بولا تھا۔
کلب کے پیپرز پر سنان زبردستی سائن کرواچکا تھا اور اب ڈٰیوڈ اسے سچ بتانے کے موڈ میں نہ تھا۔
“تو تم منہ نہیں کھولو گے ہاں؟” اس کو بالوں سے پکڑے سنان نے ابرو اچکائی تھی۔
“تمہاری دو بیٹیاں ہیں نا؟ اور ایک کم عمر بیوی بھی جس سے تم بہت محبت کرتے ہو؟۔۔۔۔۔۔۔ اگر تم نے اب منہ نہ کھولا تو میں اس بات کا پورا پورا خیال رکھوں گا کہ تمہاری بیٹیاں اور بیوی کسی اچھے طوائف اڈے پرمہنگے داموں میں بکے اور روزانہ رات ان کی بولی لگائی جائے۔” سنان کی بات پر خوف سے اس کی آنکھیں پھیلی تھی، سر تیزی سے نفی میں ہلا تھا۔
“نہیں انہیں کچھ مت کہنا وہ۔۔۔۔ وہ معصوم ہیں!” اس کی آنکھیں نمکین ہوگئیں تھی۔
“تو اچھے بچوں کی طرح مجھے بتاؤ سچ کیا ہے، ورنہ۔۔۔۔” ڈیوڈ نے خوف سے تھوک نگلا تھا۔
“وہ ارحام شاہ کی بیٹی۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“تیز چلاؤ ہمارے پاس وقت نہیں ہے!” جازل غصے سے دھاڑا تھا۔
اسے کسی بھی طرح ڈیوڈ تک پہنچ کر اس کا کام تمام کرنا تھا۔ اپنے انکل سے کیا وعدہ پورا کرنا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ شبیر زبیری بچپن سے اس کے آئیڈیل رہے تھے وہ ہمیشہ ان کے جیسا بننا چاہتا اسی لیے ہر وہ کام کرتا جو انہیں پسند ہوتا اور ان کی شاباشی اس کا دل خوش کردیتی۔۔۔۔ وہ اس قدر شبیر زبیری بننے میں گم تھا کہ ان کے دوست اس کے دوست اور ان کے دشمن اس کے دشمن تھے۔
شزا کو وہ تب تک کوئی اہمیت نہ دیتا جب تک شبیر زبیری نے کوئی اہمیت نہ دی تھی مگر اب حماد سے شادی کے بعد شبیر زبیری نے جس مقام پر شزا کو بٹھایا تھا وہاں جازل بھی اسے اہمیت دینے لگا تھا۔
اور اب ڈیوڈ کو مار کر وہ ایک بار پھر سے شبیر زبیری کی آنکھوں میں اپنے لیے ستائش دیکھنا چاہتا تھا۔
“سر!” ڈرائیور کی آواز اس ہوش میں لائی تھی۔۔۔۔۔۔ کلب کو سامنے پاکر وہ گارڈز کو اشارہ کرتا تیزی سے گن لوڈ کیے اندر داخل ہوا تھا اس وقت رش نہ ہونے کے برابر تھا۔
پورے کلب کو چھانتا وہ اب بیک سائڈ پر آگیا تھا جہاں سے اسےکراہنے کی آواز آئی تھی۔
یہ ایک قدرے سنسان علاقہ تھا جہاں یا تو قتل ہوتے یا ریپ۔
دھیمی چال چلتے دیوار کی اوٹ میں چھپے اس نے سر تھوڑا سا باہر نکالے وہاں دیکھا تھا۔
“وہ ارحام شاہ کی بیٹی۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔” ڈیوڈ کے الفاظ سن اس نے فورا اس کے سینے کا نشانہ لیے فائر کھولا تھا۔
“گارڈز!”
سنان جو ڈٰیوڈ کی جانب متوجہ تھا اسے گولی لگتے دیکھ فورا دھاڑا تھا۔۔۔۔۔۔ چہرے پر نقاب چڑھائے جازل وہاں سے بھاگ نکلا تھا جب کہ گارڈز اس کے پیچھے ہولیے تھے۔
“ڈیوڈ!۔۔۔۔مجھے سچ بتاؤ۔۔۔۔۔ بنا راز بتائے تم نہیں مرسکتے!” سنان نے اس کا چہرہ تھپتھپایا تھا۔
“وہ ارحام شاہ کی بیٹی۔۔۔وہ”
“ہاں وہ؟”
“وہ، وہ زندہ ہے۔۔۔”
“زندہ ہے؟” سنان کے لب پھڑپھڑائے جیسے یقین نہ آیا ہو۔
“کہاں ہے وہ کیا معلوم ہے تمہیں بتاؤ مجھے کہاں ہے وہ؟” سنان نے دوبارہ اس کا چہرہ تھپتھپایا تھا۔
ڈیوڈ کا سر اثبات میں ہلا تھا
“کون ہے وہ؟”
“وہ۔۔۔۔وہ شبیر زبیری کے پاس۔۔۔۔شبیر زبیری کے پاس ہے وہ۔” لفظ ادا کرتے ہی اسکی روح اس کے جسم کا ساتھ چھوڑ چکی تھی۔
ڈیوڈ کو وہی چھوڑے سنان اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
بےبسی سے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔
اسے یقین نہیں آیا تھا اس کی بہن ، اس کی گڑیا زندہ تھی۔۔ اور شبیر زبیری کے پاس تھی؟
پہلے زویا اور گڑیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ارحام شاہ کے دشمنوں نے اسے بہت اچھے سے مات دی تھی۔
زویا تک تو قسمت نے اس کا دروازہ اپنے آپ کھول دیا تھا مگر اب گڑیا تک کیسے پہنچنا تھا اس کا اسے کوئی علم نہیں تھا۔
اس بات کا بھی یقین تھا کہ وائے۔زی پر حملہ اور ڈیوڈ کی موت دونوں میں وہ شخص شامل تھا۔۔۔
مگر کیوں؟ صرف ایک کلب کی خاطر؟ نہیں بات کچھ اور تھی۔۔۔۔ وجہ کوئی اور تھی۔
ماضی کی کوئی ایسی تلخ حقیقت جو آج تک اس سے مخفی تھی۔
اب وقت آگیا تھا، ہاں اب وقت آگیا تھا کہ ارحام شاہ سے سوال جواب کیے جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہیں کٹہرے میں لا کھڑا کیا جائے۔
وقت آگیا تھا کہ پاکستان واپس جایا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کروٹوں پر کروٹیں بدلے اس نے وال کلاک کی جانب دیکھا تھا۔۔۔۔ بارہ بجنے میں ابھی ڈیڑھ گھنٹہ باقی تھا۔۔۔۔ ڈیڑھ گھنٹے بعد وہ اٹھارہ کی ہوجاتی مگر اس وقت اس کے ساتھ اس کے پاس کوئی نہ تھا اس کی اس خوشی کو منانے کے لیے۔
بےبسی سے آنکھوں سے آنسوؤں جاری ہوئے تھے۔
سنان نے بھی تو وہاں جاکر اسے کال کرنے کی یا بات کرنے کی کوشش نہ کی تھی۔۔ کیا بھائی ایسے ہوتے ہیں؟ اس وقت اسے سخت قسم کا غصہ اور رونا آرہا تھا۔
نم آنکھیں میچے، بنا آواز روئے وہ بہت جلد نیند کی وادی میں گم ہوگئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیٹی کی میٹھی سے دھن بجائے وہ لاؤنج میں داخل ہوا تھا۔۔۔۔۔ ہاتھ میں موجود گھڑی پر وقت دیکھے اس کے لب پھیلے تھے۔۔۔۔۔ بارہ بجنے میں صرف پانچ منٹ رہ گئے تھے۔
سر ہلکا سا موڑے اس نے باہر گارڈز کو دیکھا تھا جو چوکنا سے پہرہ دینے میں مگن تھے مگر پھر بھی وہ اسے پکڑ نہ پائیں تھے۔۔۔۔
دھیمے قدم اٹھاتا وہ سب سے پہلے گیسٹ روم میں داخل ہوا تھا جہاں کریم مزے سے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہا تھا۔
ایک مسکراتی، مگر جتاتی نگاہ اس کے سوئے وجود پر ڈالتا وہ لاؤنج سے ہوتا ہوا اس کے کمرے کے سامنے آرکا تھا۔
ہلکے سے ناب گھماتا وہ اندر داخل ہوا تھا اور لائٹ اون کی تھی۔۔۔۔۔ بیڈ پر سوئی وہ اسے کسی ریاست کی شہزادی معلوم ہوئی تھی۔
ہاں شہزادی تو وہ واقعی تھی مگر صرف جہانگیر عرف جیک کی۔
اسے کیا لگا تھا وہ جیک سے پیچھا چھڑوا لے گی مگر یہ ناممکن تھا۔۔
فزا میں بسی اس کی خوشبو کو ناک کے ذریعے اندر کھنچتا شیر کی چال چلتا اس کے پاس پہنچا تھا۔
بیڈ پر بیٹھا وہ مزے سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جہاں خشک آنسوؤں کے چند نشان تھے۔
“بہت روتی ہو جان!” اس کے چہرے پر ہاتھ پھیرتا وہ بڑبڑایا تھا۔
نیند میں اپنے چہرے پر کچھ محسوس کرتے زویا نے نامحسوس انداز میں اس کا ہاتھ جھٹکا اور کروٹ لی تھی۔
جیک کی آنکھیں اس کے اس عمل پر پھل بھر میں لال ہوئی تھی۔
“ہیپی برتھڈے پرنسز!” اس کے کان میں سرگوشی کیے جیک نے اس کا رخ اپنی جانب کیا تھا۔
جیب سے ایک گلاب نکالے اس کے گال پر پھیرتا وہ اسے اس کے بالوں میں ٹکا گیا تھا۔
اب کے چہرے پر ایک نرم گرم احساس محسوس کرتی، گلاب کی خوشبو کو سونگھتے، مسکراتے ہوئے اس نے آنکھیں کھولیں تھی یوں جیسے وہ کسی خواب میں ہو!۔
مگر وہ خواب اگلے ہی لمحے ایک تلخ حقیقت ثابت ہوا تھا جب جیک نے اپنے ہاتھ کی پشت سے اس کا گال سہلایا تھا۔
ایک زور دار چیخ اس کے منہ سے برآمد ہوئی تھی۔
جیک کھل کر مسکرایا تھا۔
“مائی پرنسز۔۔۔۔ مائی کیٹ۔۔۔۔ مائی زویا!” اس کی آواز سن زویا کو یقین آگیا تھا کہ سامنے موجود وہ شخص حقیقت تھا ناکہ کوئی برا خواب۔
سر نفی میں ہلاتی، گالوں کو بھگوتے آنسوؤں۔۔۔۔ وہ اسے دھکا دیے تیزی سے چلاتی کمرے سے باہر نکلی تھی۔۔۔۔ جیک نے بھی اسے روکنے کی کوشش نہ کی تھی جیسے وہ خود یہ چاہتا تھا۔
اس کی چیخیں سنتے جہاں گارڈز الرٹ ہوئے تھے وہی کریم ہڑبڑا کر اپنی نیند سے جاگا تھا۔۔۔۔
کمرے سے نکلتا وہ تیزی سے اس کی جانب بڑھا تھا۔
“زویا میم کیا ہوا؟ آپ ٹھیک ہے؟ یوں اس وقت کمرے سے باہر؟”
“وہ۔۔۔۔وہ میرے کمرے میں۔۔۔وہ، وہ آیا تھا۔۔۔۔۔ مجھے نہیں چھوڑے گا۔۔۔وہ، وہ وہی ہے!” شدت سے روتے اس کی ناک سرخ ہوچکی تھی۔
“کون کس کی بات کررہی ہے آپ؟” کریم نے حیرت سے سوال کیا۔
بھلا اتنی ٹائٹ سکیورٹی میں کوئی کیسے آسکتا تھا۔
“جج۔۔۔۔جیک۔۔۔” نام لیتے اس کے چہرے پر اتنا خوف تھا وہی کریم کی آنکھیں پھیلی تھی۔
“نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ ایسا کیجیئے میرے ساتھ آئیے میں دیکھتا ہوں”
“نہیں مت جاؤ وہ بہت ظالم ہے مار دے گا تمہیں” اس کا ہاتھ تھامے وہ التجائی انداز میں بولی تھی۔
“وہ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا میم۔۔۔۔آپ بےفکر رہے اور میرے ساتھ آئیے!” ڈرتے ڈرتے وہ اس کی سنگت میں کمرے میں داخل ہوئی تھی جہاں مکمل اندھیرا تھا۔
“وہ۔۔۔۔وہ یہی ہے کمرے میں اندھیرا نہیں تھا پہلے۔” اسے لگا جیسے جیک نے جان بوجھ کر لائٹ اوف کی تھی تاکہ وہ خود کو بچاسکے۔
کریم نے لائٹ اون کی تھی مگر زویا کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں تھی کمرے میں کوئی نہ تھا۔
“وہ۔۔۔۔۔وہ یہی تھا۔۔۔۔۔ اس کے ہاتھ میں گلاب تھا۔۔۔۔۔کہاں گیا۔۔۔یہی بیڈ پر تھا!” اس کی بات سنتے پورے کمرے میں نظر دوڑائے اس نے واشروم تک چیک کیا تھا مگر وہاں کوئی بھی نہ تھا۔
“آپ کو شائد کوئی غلط فہمی ہوئی ہے میم۔۔۔۔۔ میں نے پورا کمرہ دیکھا ہے مگر کوئی نہیں ہے اس کمرے میں۔۔۔۔۔ شائد کوئی برا خواب دیکھا ہو آپ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب آپ ریسٹ کیجیے!” اسے ہدایت دیے وہ دروازے کی جانب بڑھا تھا۔
“مگر۔۔۔” وہ خواب نہیں حقیقت تھا، لیکن وہ کہاں جاسکتا تھا، وہ کوئی بھوت نہیں تھا جو چھپ جاتا۔
“سنے پلیز رک جائے۔۔۔مم۔۔۔مجھے ڈر لگ رہا!” کریم کو جاتے دیکھ اس کی روح فنا ہوئی تھی۔
کریم گہری سانس بھرتا اس کی جانب متوجہ ہوا تھا۔
“میں انعم(میڈ) کو آپ کے پاس بھیج دیتا ہوں۔۔۔وہ آج رات رک جائے گی آپ کے پاس!” کریم کی بات پر لب کچلتے اس نے سر اثبات میں ہلایا تھا۔
زویا کو ہدایت دے وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا تھا جب بےفکری کی جگہ فکر نے لے لی تھی۔۔۔۔۔ کوئی تو تھا جو اس کے کمرے میں داخل ہوا تھا مگر کون؟ اور غائب کیسے ہوا؟
وہ زویا کو سچ بتاکر مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا اسی لیے جھوٹ کا سہارا لیے اسے امید دلوائی تھی۔
“تم جو کوئی بھی ہو بہت جلد میرے شکنجے میں آنے والے ہو!” خود سے بولے وہ بیڈ کی جانب بڑھا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...