’’ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘
ایک تاثر،ایک احساس
ماں ایک ایسا رشتہ ہے جو اپنے اندر محبت کا سمندر سمیٹے ہوئے ہے،اور بلاشبہ ماں کی محبت دنیا کی سب سے پرخلوس اور بے لوث اور انمول شے ہے جسکا کوئی نعم البدل نہیں ہے-
’’ ہماری امی مبارکہ حیدر‘‘اسی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے جو مشہور شاعر اور ادیب حیدر قریشی کے پانچوں بچوں کے اشتراک سے ان کے بڑے بیٹے شعیب حیدر کی مرتب کردہ کتاب ہے ۔ اس کتاب میں حیدرقریشی کے مختلف افسانوں، خاکوں،یادوں،سفرناموں،انشائیوں اور انٹرویوز سے مبارکہ حیدر کے متعلق مواد نکال کر اسے کتابی شکل دی گئی ہے – عام طور پر ہمارے دانشوروں، ادیبوں اور شاعروں کے ہاں ماں کی عظمت کا اعتراف تو نظر آجاتا ہے مگر بیوی کا نہیں ذکر نہیں ملتا۔حیدرقریشی کے ہاں بھی ماں کی محبت کا بہت ذکر ملتا ہے۔لیکن ماں، بہن کے ذکر کے ساتھ حیدر قریشی نے اپنی شریک حیات مبارکہ حیدر کو اپنی تحریروں میں شامل کر کے ایک اچھی روایت قائم کی ہے –
کہتے ہیں کہ محبت کسی اظہار کی محتاج نہیں ہوتی مگر میں اس بات پر بھی یقین رکھتی ہوں کہ اگر اسی محبت کو لفظوں کے ہار میں پرو دیا جائے تو یہ آپ کے تن بدن کو ہمیشہ مہکائے رکھتی ہے اور یہی خوبصورت کام حیدر قریشی نے کیا ہے۔ مبارکہ حیدر کی محبت کو اپنی تحریروں میں ہمیشہ کے لیے امر کر دیا ہے …کیوں کہ انسان رہے نہ رہے لفظ ہمیشہ زندہ رہتے ھیں اور زندہ رکھنے کا ہنر بھی جانتے ہیں اور یہی لفظ اگر دل کی گہرائیوں سے نکلے ہوں تو سونے پہ سہاگہ ہو جاتا ہے…
حیدر قریشی سر سے میرا رابطہ مارچ 2016 میںہواتھا جب میں ایم اے کے مقالے کے لیے ’’ماہیا‘‘پر کام کر رہی تھی اور تب ہی ٹیلیفونک رابطے کے ذریعے میری مبارکہ حیدر سے ملاقات بذریعہ تصاویر ہوئی جو حیدر سر نے مجھے بھجوائی تھیں-جب کہ حیدر سر کی تحریروں میں مبارکہ حیدر کا رنگ اتنا گہرا ہے کہ وہ کسی تعارف کی محتاج نہیںر ہیں۔وفاداری ،شگفتگی،لحاظ داری ،خلوس، ان کی شخصیت کے وہ اوصاف ہیں مبارکہ حیدر کو دوسروں سے نمایاں کرتے ہیں اور اس بات کی تصدیق کرتے ہیںکہ اگر شریک حیات باوفا اور پر خلوص ہو تو پھر خوش حالی ہو یا تنگ دستی،زندگی ہر صورت میں خوبصورت ہے۔
استعارے تو کجا سامنے اس کے حیدر
شاعری ایک طرف اپنی دھری رہتی ہے
’’فاصلہ اور قربت ایک دوسرے کے لیے اسی طرح لازم و ملزوم ہیں جس طر ح ایٹم کا ہرپارٹیکل اور اینٹی پارٹیکل،رات اور دن ‘‘(’’فاصلے اور قربتیں‘‘ سے اقتباس۔)مذکورہ شعر اور نثری الفاظ حیدر قریشی کے ان جذبات کی ہلکی سی عکاسی کر تے ہیں جو ان کے دل میں مبارکہ حیدر کے لیے تھے- محبت کی ایسی مثالیں بہت کم ملتی ہیں اور بہت ہی کم مرد ادیب،دانشورہوں گے جنھوں نے اپنی شریک حیات سے محبت کا اعتراف یوں کھلے لفظوں میں کیا ہو ..خداوند اس محبت کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے — آج مبارکہ حیدر ہمارے درمیان نہیں رہیں مگر دلوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گی ….:
“میری امی مبارکہ حیدر “ایک نایاب تحفہ ہے جو حیدر قریشی اور ان کے خاندان کی مبارکہ حیدر سے محبت کا امین ہے اور ایک ماں کو اسکی محبت کے بدلے میں دیا جانے والا تحفہ ہے۔بے شک ماں کو اس کی محبت کا بدلہ کبھی نھیں دیا جا سکتا ہاں مگرایسی چھوٹی چھوٹی چیزوں سے ماں کو خوشی دی جا سکتی ہے .ویسے یہ کتاب اتنی چھوٹی خوشی بھی نہیں ہے۔..حیدرقریشی کے بچوں نے یہ نیک کام کیا ہے اور دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کی ہے۔
’’پسلی کی ٹیڑھ‘‘ کے عنوان سے مبارکہ حیدر کا جاندار خاکہ لکھنے والے حیدرقریشی نے مبارکہ کے بارے میں اسی حوالے سے کیا ہی عمدہ ماہیا کہا ہے۔
اک روح کا قصہ ہے
میرے بدن کا ہی
جو گم شدہ حصہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔