اردو فکشن کے حوالے سے ایک بڑا نام جو گندر پال کا ہے، جواَب ہم میں نہیں رہے۔ وہ جس وقت اور جس دن دنیائے ادب کے کوچوں کو ویران و اداس کر کے رخصت ہوئے وہ ہفتہ کا دن اور ہندستان کے وقت کے مطابق ساڑھے گیارہ بجے تھے اور تاریخ ۲۳اپریل ۲۰۱۶ تھی جب اردو ادب کا چمکتا سورج غروب ہو گیا۔
جوگندر پال کا سنِ پیدایش ۵ ستمبر ۱۹۲۵ ہے۔ وہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، ان کے والد کا نام شری لعل چند سیٹھی تھا۔ ان کی مادری زبان پنجابی تھی۔ ذریعۂ تعلیم اردو تھا انہوں نے مرے کالج، سیالکوٹ سے ۱۹۴۵میں گریجویشن کی تعلیم مکمل کی اور ۱۹۵۵ میں جبکہ وہ استاد کی حیثیت سے کینیا میں ملازمت کر رہے تھے، انھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے خونی واقعہ نے انہیں ہجرت کرنے پر مجبور کیا اور وہ اپنے خاندان کے ساتھ سیالکوٹ سے دہلی آ گئے ۱۹۴۸میں مشرقی افریقہ میں مقیم ہندوستان کی لڑکی کرشنا سے ان کی شادی ہو گئی اور پھر کینیا چلے گئے۔ کینیا میں تقریباً ۸ سال معلمی کے فرائض انجام دے کر سرکاری ملازمت سے سبکدوشی اختیار کر لی اور ہندستان لوٹ آئے کہ اپنا ملک، اپنا ہی ہوتا ہے، ہر لحاظ سے، وطن کی محبت بیکل کرتی ہے تب واپسی کی راہوں کو ہموار کرنا ضروری ہو جاتا ہے، سو ایسا ہی ہوا۔
جوگندر پال کی ۱۹۶۴ میں اورنگ آباد میں انگریزی کے استاد کی حیثیت سے تقرری ہوئی، ان کی نیکی و خلوص، علمیت و قابلیت نے بہت جلد یعنی ۱۹۶۵میں کالج کے پرنسپل کے عہدے پر فائز کر دیا۔ چودہ سال تک اسی کالج میں رہے اور پھر بے قرار طبیعت نے کچھ اور تقاضا کر دیا، لہذا کالج کو اپنی مرضی سے خیرباد کہا اور دہلی کو اپنا مسکن بنا لیا اور تا حیات یہاں کے ہی ہو رہے۔
پال صاحب نے جو پہلی کہانی لکھی اس کا نام ‘‘ تیاگ سے پہلے ‘‘ اور غالباً ۱۹۴۵ میں ماہنامہ ‘‘ ساقی‘‘ دہلی میں شائع ہوئی اور ناقدین کی توجہ کا مرکز بن گئی۔ اس طرح ان کے پہلے افسانوں کے مجموعے کا نام ‘‘ دھرتی کا کال‘‘ تھا۔ جس کی سنِ اشاعت ۱۹۶۱ تھی۔ اس کے بعد ان کے کئی افسانوں کے مجموعے شامل ہوئے جن میں ‘‘ پرندے ‘‘ ‘‘ ، بستیاں ‘‘ ‘‘ ، جوگندر پال کی کہانیاں ‘‘ اور تین ناول اور دو ناولٹ بھی اشاعت کے مرحلے سے گزر چکے ہیں بعنوانات (ناول) ‘‘ نا دید‘‘ ‘‘ ، خواب رو‘‘ اور ‘‘ پار پرے ‘‘ ، (ناولٹ) ‘‘ بیانات‘‘ اور ‘‘ آمدورفت‘‘ تنقید نگاروں سے داد و تحسین وصول کر چکے ہیں۔
ان کے تنقیدی مضامین کے دو مجموعے رابطہ ۱۹۹۷ اور بے اصطلاح ۱۹۹۸میں شائع ہوئے۔ جوگندر پال کی تحریروں کا بہت سی زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور تقریباً پوری دنیا میں وہ افسانہ و ناول نویسی کے حوالے سے اپنی علیحدہ شناخت رکھتے ہیں۔
پال جی کے افسانے معاشرے کے حقائق اور سماجی مسائل کے گرد گھومتے ہیں۔ وہ بہترین افسانہ نگار ہیں، انہوں نے لوگوں کا اور لوگوں کی نفسیات کا جائزہ اپنی ناقدانہ نگاہ سے لیا ہے۔ وہ کردار کے باطن میں جا کر اس کی زندگی کے بارے میں کھوج لگا لیتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی بنت، اسلوبِ بیان، کردار نگاری اور فنیّ محاسن اور باریک بینی اور مشاہدات کی آ نچ سے حرارت پاتے ہیں۔ اور اپنے افسانوں کو تجربے کی دھیمی آنچ پر پکنے کے لیے رکھ دیتے ہیں۔ پھر دلوں کو گرمانے والے افسانے وجود میں آ جاتے ہیں۔ زندگی کی روشنی اور توانائی سے بھرپور افسانے ان کی تخلیق ہیں۔ ایسے ہی افسانوں میں ‘‘ ہری کیرتنّ‘‘ ‘‘ ، بسے ہوے لوگ‘‘ ‘‘ ، خود وفاتیہ‘‘ ‘‘ ‘‘ ‘‘ گھات‘‘ اور متعدد دیگر شامل ہیں۔ جوگندر پال کا اندازِ تحریر دلنشیں اور تجسس کی فضا کو پروان چڑھاتا ہے۔
جوگندر پال بڑے ادیب ہی نہیں بلکہ بڑے انسان بھی تھے اس کا ثبوت ان کی پاکستان آمد اور ان کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد، ترقی پسند شاعر و نقاد جناب صبا اکرام کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ دیار غیر سے آنے والے قلمکاروں کے لیے اپنی رہائش گاہ پر یادگار اور شاندار محافل کا انعقاد کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک تقریب میں جو فکشن کی اہم شخصیت جوگندر پال اور ان کی مسز کرشنا پال سے ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا۔
جب ان معز زین کی یادوں کے دیئے روشن کرتی ہوں تو گزرے ماہ و سال یاد آ جاتے ہیں شام کی رخصتی کا منظر کچھ اس طرح نمایاں تھا کہ ملگجا اندھیرا آگے بڑھ رہا تھا اور سورج اپنے آشیانے کی سمت سرخ و نارنجی کے گولے کی شکل میں دوڑتا جا رہا تھا۔ اور رات دبے پاؤں بڑھ رہی تھی اور ہندوستان سے آئے ہوے مہمانوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے بے قرار تھی۔ اہلِ قلم اپنی اپنی کرسیوں پر براجمان تھے۔ صدرِ مجلس اور مہمانانِ خصوصی اپنی اپنی مسندوں پر تشریف فرما تھے، جوگندر پال سے باتیں کرنا چاہتے تھے، انہیں سننا چاہتے تھے۔ کراچی کے اہم نقاد، ادیب و شاعر ایک جگہ جمع تھے اور وہ سوالات کے کے ذریعے پال صاحب کی زندگی اور ادب کے بارے میں جاننا چاہتے تھے۔ سب نے سوالات کئے، انہوں نے دھیمے لہجے میں ان کے جوابات دئے۔ میرا سوال ان کے ناول‘‘ ، نادید‘‘ کے حوالے سے تھا، ان دنوں ‘‘ نادید‘‘ کا بہت چرچا تھا۔ میں نے اپنا تعارف کرایا۔ اس سے قبل جناب علی حیدرملک یہ فریضہ انجام دے چکے تھے۔ جوگندر پال کےا چھے اخلاق اور انکساری کے باعث مجھے یوں محسوس ہو رہا تھاجیسے میں انہیں برسوں سے جانتی ہوں اور وہ بھی مجھ سے عرصہ دراز سے واقف ہیں۔ انہوں نے کھڑے ہو کر میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔ میرا سوال تھا کہ آپ کا ناول ‘‘ نادید‘‘ نا بینا حضرات کے حوالے سے ہے، اور جسے آپ نے ہر لحاظ سے بے حد اچھا لکھا ہے، آپ کا یہ ناول کامیاب ناولوں کی صف میں شامل ہے اور آپ ماشا اللہ بینا ہیں، آپ نے نا بینا لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں کس طرح لکھا، کردار نگاری، نیت، ماحول سازی الفاظ کا انتخاب اور ان کا آپس میں گفتگو کا طریقہ، چیزوں کو چھو کر محسوس کرنے کا اندازاس بات کو ظاہر کر رہا تھا کہ اس ناول کے کردار بینائی سے محروم ہیں۔ یقیناً یہ بڑا منفرد ناول ہے آپ نے ایسا مشکل کام کس طرح انجام دیا۔ وہ میرے سوال کے جواب میں مسکرائے، بتایا کہ ناول لکھنے سے پہلے انہوں نے بہت سارا وقت ان لوگوں کے ساتھ گزارا۔ ان کے بولنے، چلنے، رہنے، بسنے کے انداز کو سمجھا۔ تب یہ کام پایۂ تکمیل کو پہنچا۔
تقریب کے اختتام کے بعد وہ بہت دیر تک باتیں کرتے رہے میری افسا نہ نگاری اور مصروفیات کے بارے میں پوچھتے رہے، اس دوران کرشنا بھابھی نے مسکرانے پر اکتفا کیا۔ بہت کم بولیں، لیکن ضروری سوالوں کے جوابات بے حد خلوص و محبت کے ساتھ دیے۔ یہ میری جوگندر پال صاحب سے پہلی اور آخری ملاقات تھی۔ پھر جب وہ ہندوستان لوٹے تو انہوں نے افسانوں کا مجموعہ ‘‘ جوگندر پال کی کہانیاں ‘‘ اور ناول ‘‘ نادید‘‘ بذریعہ ڈاک ارسال کیا۔ جس کی مجھے بے حد خوشی تھی اور میں نے اپنے خط میں اپنی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ مصروفیات کی وجہ سے زیادہ عرصہ خط و کتابت نہیں ہو سکی، ۲۰۰۷ میں میں نے اپنا ناول ‘‘ نرک‘‘ بذریعۂ ڈاک ان کی خدمت میں پیش کیا تھا لیکن نا معلوم انہوں نے رسید کیوں نہیں دی۔ شاید ڈاک کے ناقص نظام کے باعث کتاب ان تک نہ پہنچی ہو۔ جوگندر پال اس دنیا سے رخصت ہو گئے لیکن وہ علم و ادب کا ایک بہت بڑا خزانہ اپنے پیچھے چھوڑ گئے جس سے ادب کا قاری استفادہ کرے گا۔
٭٭
‘‘ میں نے سر اٹھا کر اپنے دوست کی ساتھی کی طرف دیکھا تو میرے ذہن میں گویا کئی خوش رو، خوش پوش کہانیاں کھیلتی کھیلتی بے خیالی میں آ گئیں اور انہیں دیکھ دیکھ کر مجھے یہ بھی نہ سوجھی کہ انہیں مقید کر لوں۔۔ میں آزاد کہانیوں کو چپکے سے مقید کر لیتا ہوں اور پھر جب وہ باہر آنے کے لئے میرے ذہن کا دروازہ پیٹ پیٹ کر چلانا شروع کر دیتی ہیں تو انہیں حرف حرف آزاد کئے دیتا ہوں۔۔ مگر سیما سے ملتے ہوئے میں ان کھلنڈری کہانیوں کو دیکھتا رہ گیا یعنی ان کی جانب ایک ٹک دیکھتے چلے جانے پر بھی ان کی طرف میرا دھیان نہ گیا، اور وہ کھیلتی کھیلتی میرے ذہن میں داخل ہو کر میرے ذہن سے نکل بھی گئیں۔ ‘‘
(جوگندر پال کے ناولٹ ‘‘ بیانات ‘‘ سے اقتباس)
٭٭٭