ایک چھٹی کا دن ہوتا تھا اور آج اس دن میں بھی ماما جان نے اسے عجیب وحشت و بے چینی سے دوچار کر دیا تھا۔ کمرے میں پہنچ کر اس نے ڈائری بددلی سے میز پہ رکھی، دماغ کچھ کرنے یا سوچنے کی حالت میں نہیں تھا۔ کتنی ہی دیر وہ کمرے میں چکراتا رہا۔
“معتداء سے شادی۔۔ میں کیسے اس سے شادی کر سکتا ہوں۔؟” وہ خود سے مخاطب ہوا۔
“مانا کہ ہادی اب نہیں رہا لیکن وہ تو اب بھی اسے پسند کرتی ہو گی۔۔” وہ تھک ہار کر بیٹھ گیا۔ ڈائری اٹھائی کھولی اور جیسے ایک نئی دنیا میں پہنچ گیا۔ ہادی کی معمول کی زندگی، اس کی چھوٹی چھوٹی باتیں، کوئی قول کوئی شعر۔۔ جیسے ایک سنجیدہ فوجی کی نہیں ایک شوخ نوجوان کی داستان پڑھ رہا ہو۔ کئی جگہ وہ مسکراہٹ دبا نہیں پایا تھا۔ آنکھیں اسے یاد کرکے نم تھیں تو ہونٹ اس کا لکھا پڑھ کر مسکرا رہے تھے۔ اور پھر وہ دن آئے جب وہ شادی کے بعد واپس گیا تھا۔
17،دسمبر۔۔
“عدی بھائی۔! اتنے دن سے جو بات دل میں دبائے بیٹھا ہوں اب اگر آج بیان نہ کی تو مجھے لگتا ہے کہ اس بات کے بوجھ سے میرا دل پھٹ جائے گا۔ یہاں لائن آف کنٹرول پہ حالات بگڑتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ اور میں اللہ سے ہر روز ہر وقت یہی دعا مانگتا ہوں کہ مجھے شہادت دے۔ اور بھائی!”
وہ جو سر جھکائے پڑھ رہا تھا ایک دم سیدھا ہو بیٹھا۔
“اس دن آپ سے گلے ملتے وقت مجھے میرے دل نے کہا تھا، ہادی! آج آخری بار ہے کہ تم اپنے بھائی کے سینے سے لگ رہے ہو۔ پھر یہ کشادہ سینہ میسر نہیں آئے گا۔ کیا آپ کو ایسا نہیں لگا تھا بھائی؟ آپ کی چھٹی حس تو بہت کچھ بتا دیتی ہے آپ کو۔” عدی نے محسوس کیا اس کا چہرا بھیگتا چلا جا رہا تھا۔ وہ شوخ و شریر سا ہادی نجانے کہاں کھو گیا تھا۔ اب جس ہادی کو وہ پڑھ رہا تھا یہ تو کوئی اور ہی تھا اور اس سے تو عدی واقف ہی نہیں تھا۔
“ہائے ہادی۔!” کتنے ہی آنسو اس روشنائی کو مدھم کرتے چلے گئے تھے۔ اور تقدیر کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے؟ ڈائری بند کرکے اس نے سوچا تھا۔
“ماما جان!” وہ ظہر کی نماز کے لیے نیچے آیا تو ان کے کمرے تک آیا۔ دستک دی اور انھیں پکارا۔ وہ جائے نماز پر بیٹھی دعا میں مشغول تھیں۔ اس نے اندر قدم نہیں رکھے وہیں دروازے سے انھیں پکارا تھا۔
“صوفیہ خالہ سے بات کر لیجیے گا۔” وہ بات مکمل کرکے ان کے تاثرات دیکھنے کے لیے رکا نہیں تھا۔ سعدیہ نے دروازہ بند ہونے کی آواز سنی اور بے اختیار سجدے میں چلی گئی تھیں۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“موتیا۔!” دونوں وقت ملتے درخت کے نیچے مت بیٹھا کرو بیٹا۔”صوفیہ، سعدیہ سے بات کرکے آئی تھیں۔ خوشی ایک ایک لفظ سے عیاں تھی۔ لہجے کی کھنک اس نے بھی محسوس کی تھی۔
“کیا ہوا امی جان! بہت خوش ہیں۔؟” وہ مسکرا دیں اور اسے لیے اندر کی طرف بڑھیں۔
“تمھاری خوشی کا سوچتی ہوں تو خود بخود خوش ہو جاتی ہوں۔” خوش رہنا اپنے بس میں کب ہوتا ہے بھلا؟ وہ محض سوچ کر رہ گئی تھی۔ وہ اسے لیے، اسی کے کمرے میں چلی آئیں۔ پلنگ پہ تسلی سے بیٹھ کر اسے بتایا۔
“سعدیہ کا فون آیا تھا۔ وہ عدی سے تمھاری شادی کا کہہ رہی تھی۔”
“کیا؟؟ عدی بھائی؟” اسے دو سو واٹ کا جھٹکا لگا تھا۔
“خالہ ایسی بات سوچ بھی کیسے سکتی ہیں امی جان؟!” حیرت و صدمے سے اس کی آنکھیں پھٹی جا رہی تھیں
“میری شادی ہو۔۔”
“تمھاری شادی ختم ہو چکی ہے موتیا!” صوفیہ نے اس کی بات کاٹ کر کہا تھا۔
“ہادی اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ اور عدت تمھاری پوری ہو چکی ہے۔”
“لیکن امی جان! مجھے شادی نہیں کرنی۔” اس نے زور و شور سے نفی میں سر ہلایا تھا۔
“بچکانہ باتیں مت کرو موتیا! آج نہیں تو کل شادی تو بہرحال تمھیں کرنی ہی ہے۔ ہم آج ہیں کل نہیں۔ اور یہ پہاڑ سی زندگی اکیلے نہیں گزرتی۔”
“موت جوان یا بوڑھے کو کب دیکھتی ہے امی جان۔! اب ایسے تو ان کی بھی عمر نہیں تھی جانے کی۔” اس کا اشارہ ہادی کی طرف تھا۔
“بےشک موت جوان یا بوڑھے کو نہیں دیکھتی لیکن کوئی بھی ماں باپ کبھی یہ نہیں سوچیں گے کہ ان کی اولاد، ان سے پہلے دنیا سے چلی جائے۔” اب کے اس سے کوئی جواب نہ بن سکا تھا۔
“عدی بہت اچھا ہے موتیا! تم بھی رہی ہو وہاں، اس کی عادات سے واقف ہو ہی گئی ہوں گی۔” اس نے ہاں میں سر ہلایا۔
“بلاشبہ وہ بہت اچھے ہیں لیکن میں نے انھیں کبھی اس نظر سے نہیں دیکھا اور پھر اسی گھر میں، میں ان کے بھائی کی بیوی بن کر۔۔”
“موتیا میری بچی۔!” انھوں نے اس کے ہاتھ پکڑے۔
“اس نظر سے دیکھا تو تم نے ہادی کو بھی نہیں ہو گا۔ جب رشتہ پکا ہوا تو دیکھنے کا انداز بدل گیا تھا۔ ایسے ہی اب عدی کے بارے میں سوچو گی تو دل مطمئن ہو ہی جائے گا۔” ان کی بات درست تھی لیکن وہ ابھی بھی تذبذب کا شکار تھی۔
“ہادی اب اس دنیا میں نہیں ہے موتیا! تمھارا اور اس کا جو حوالہ تھا وہ ختم ہو چکا ہے۔ زندگی ایک نکتے پہ رکی نہیں رہتی، تبدیلی فطرت کا قانون ہے۔ شادی کہیں نہ کہیں کرنی ہی ہے۔ تو یہیں کیوں نہیں؟ جہاں کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ تم یہاں خوش رہو گی۔” اس کا ہر اعتراض، ہر دلیل رد کرتے ہوئے انھوں نے اٹھنے تک اسے یہ باور کروا دیا تھا کہ وہ اس شادی کے لیے خود کو تیار کر لے۔ اور وہ ان سے کہہ نہیں پائی تھی کہ کیا دل کو تیار کرنا بھی اتنا ہی آسان ہے جتنا کہہ دینا؟ اگلے بہت سے دن اس کے دل و دماغ میں یہی جنگ چھڑی رہی تھی۔ وہ قہقہے، وہ ہنسنا اور وہ شرارتیں تو کب سے خواب و خیال ہوئی تھیں۔ پہلے جو ذرا بول لیتی تھی۔ اب وہ بھی نہیں رہا تھا۔ وہ اس کی آواز سننے کو ترس گئی تھیں۔
“اگر وہ نہیں مان رہی تو ضد مت کرو صوفیہ۔!” وہ باورچی خانے سے نکلی تھی جب اس نے پیچھے سے ابو جان کو کہتے سنا۔
“میں ضد نہیں کر رہی! آج نہیں تو کل اس کی شادی کرنی تو ہے۔ پھر یہیں کیوں نہیں؟ دیکھا بھالا لڑکا ہے۔ غیروں میں شادی کا رسک کیوں لوں؟” صوفیہ کا مطمع نظر واضح تھا۔
“لیکن وہ خوش نہیں ہے۔” حیدر کی آنکھوں میں اس کا اداس چہرہ گھوم گیا تھا۔
“وہ اس رشتے کو لے کر ناخوش نہیں ہے حیدر! وہ ابھی تک اس غم سے خود کو نکال نہیں پائی ہے۔ عدی بہت اچھا لڑکا ہے، سلجھا ہوا اور خوب سیرت۔۔ وہ موتیا کو خوش رکھے گا اور آپ دیکھیے گا کہ ایک وہی ہماری بیٹی کو اس غم سے نکالے گا۔” ان کا لہجہ تیقن سے بھرپور تھا۔
“اچھا میں خود اس سے بات کروں گا۔” اس نے حیدر کی آواز سنی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اب ابو سے کیا کہتی؟ انکار کی کوئی وجہ تو تھی نہیں بس یہ کہ اسی گھر میں پہلے ہادی کی بیوی بن کر جانا اور اب عدی کی؟؟ دل یہی قبول کرنے کو تیار نہیں تھا۔ لیکن دل کا کیا ہے ایسے ہزار دل ان محبت کرنے والے ماں باپ پہ قربان۔۔ وہ سوچتے ہوئے وہاں سے چلی آئی تھی لیکن شام میں اس نے صوفیہ کو کہہ دیا
“امی جان! آپ خالہ جان کو ہاں کہہ دیجیے گا۔” صوفیہ کے پریشان چہرے پر مسکراہٹ چمک گئی تھی۔ انھوں نے بےساختہ اسے گلے لگایا تھا۔
“اللہ تمھارا دامن دائمی خوشیوں سے بھر دے بیٹا۔!” کتنے ہی آنسو اس کا چہرہ بھگو گئے تھے۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
شادی کے دن قریب آنے لگے تھے۔ عدی کے بارہا کہنے کے باوجود کہ سادگی سے شادی کریں انھوں نے اس کی ہر بات پس پشت ڈال دی تھی۔ پر نجانے کیا سوچ کر وہ یہ بات مان گئیں کہ صوفیہ کو شادی کے لیے اسلام آباد آنے پہ تیار کر لیں۔ مہمان دونوں طرف کے برابر ہی تھے۔ تو صوفیہ کو بھی کوئی اعتراض نہیں ہوا اور شادی سے چند دن قبل ہی وہ ایک گھر کرائے پہ لے کر اسلام آباد آ گئی تھیں۔ باقی سعدیہ کا، عدی کی شادی سادگی سے کرنے والی بات پہ، عمل کا کوئی ارادہ نہیں تھا وہ اپنا ہر ارمان پورا کرنا چاہتی تھیں۔ دور نزدیک کے سبھی رشتہ داروں کو بلا لیا تھا۔ عدی کا دل ابھی تک اس تبدیلی کو قبول نہیں کر پا رہا تھا۔ بات ہادی کی بیوہ سے شادی کی نہیں تھی وہ کسی کو پسند نہیں کرتا تھا تو معتداء ہوتی یا کوئی اور، کیا فرق پڑتا تھا۔؟ بات صرف یہ تھی کہ اس کے منصوبوں میں اگلے چار پانچ سال تک شادی کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ وہ بڑا حساب کتاب والا بندہ تھا کب کھانا پینا ہے، کب سونا جاگنا ہے، اس کا کہنا تھا کہ جب آپ کچھ بننا چاہتے ہیں تو وقت کی سوئیوں سے بھی تیز رفتاری اختیار کرنی پڑتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس کا سارا وقت گھڑی کی سوئیوں کی طرح نپا تلا ہوتا تھا۔
وہ طب کے میدان میں خود کو منوانا چاہتا تھا۔ اسے ایک بہترین ڈاکٹر بننا تھا۔ ہادی کی شادی کے بعد اس نے شکر کا سانس لیا تھا۔ کہ ماما جان اب اس کی شادی کے لیے اصرار نہیں کریں گی۔ اور وہ سکون سے مزید کورسز کرے گا۔ لیکن تقدیر کے لگائے ایک جھٹکے نے اس کی ساری منصوبہ بندی کو تہس نہس کر دیا تھا۔ اور اب اسے ماما جان کی خوشی کی خاطر اپنے منصوبوں سے ہٹ کر عمل کرنا پڑ رہا تھا۔ اس نے بیڈ پہ رکھے سفید شلوار سوٹ اور ساتھ سیاہ ویسٹ کوٹ کو دیکھا۔ آج جمعہ کی نماز کے بعد اس کا نکاح تھا۔ اس نے سر جھٹکا اور کپڑے اٹھائے تھے۔ نماز کا وقت ہونے ہی والا تھا۔
اس کے منصوبے، ارادے۔۔ سب کچھ دھرا کا دھرا رہ گیا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“قبول ہے” موتیا کے منھ سے وہ الفاظ ادا ہوئے تھے کہ صوفیہ نے اسے گلے سے لگایا تھا۔ آنکھ اگرچہ نم تھی لیکن دل ہر احساس سے عاری تھا۔
“اے اللہ! مجھے اس رشتے میں، اپنے شوہر کے ساتھ وفادار رکھنا۔ آمین۔” آنسوؤں کو چہرے پر بہنے کی اجازت دیتے اس نے تہ دل سے دعا مانگی تھی۔
“مبارک ہو” چاروں طرف سے مبارک سلامت کا شور اٹھ رہا تھا۔ عدی نے نکاح نامے پر دستخط کیے تھے اور اٹھ کر ابراھیم سے بغل گیر ہوا۔
ابراهيم کو ہادی یاد آیا، یاد تو اسے بھی آیا تھا وہ بھولتا ہی کب تھا۔
“اللہ تمہیں ہمیشہ خوش اور آباد رکھے۔” ایک باپ نے سچے دل سے بیٹے کو دعا دی تھی اور اس بیٹے نے بھی پورے خلوص سے “آمیــــن” کہا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
“کہاں جا رہے ہو عدی؟” سعدیہ نے اسے گاڑی کی چابی اتارتے دیکھا تو پوچھا تھا۔ وہ ابھی تک اسی سفید سوٹ میں ملبوس تھا۔ وجیہہ اور پرکشش۔۔
“ہسپتال جا رہا ہوں ماما جان!” اوپر موڑ رکھی آستین کو نیچے کرکے اس کے بٹن بند کرتا وہ مصروف سا بولا تھا۔
“رات کو مہندی کا فنکشن ہے عدی۔! اور تم۔۔۔ لوگ کیا کہیں گے؟ ” انھیں غصہ آ گیا تھا۔ جسے دبانے کی انھوں نے کوشش محسوس نہیں کی تھی۔
“یہ خالصتاً عورتوں کا فنکشن ہے ماما جان! میرا ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا اور نہ مجھے اس قسم کی محافل سے کوئی دلچسپی ہے اور نہ لوگوں ہی کی پروا ہے۔” بٹن بند کرکے انھیں باور کروایا تھا۔
“تمھاری شادی ہے عدی تو تمہیں اس محفل کا حصہ بننا ہی ہو گا۔” وہ اس کے قریب ہوتے، پہلے کی نسبت قدرے نرمی سے بولیں۔
“شادی کل ہے نا ماما جان! اور تب میں کہیں نہیں جاؤں گا۔ بےفکر رہیے۔” ان کے کندھے پہ تسلی بھرا ہاتھ رکھا تھا۔
“تمھارا کیا بھروسہ کل بھی ایمرجینسی کا کہہ کر غائب ہو جاؤ۔” وہ جل کر بولیں۔ وہ مسکرا دیا۔
“عدی! خوش ہو؟” اس کے ہاتھ پہ ہاتھ رکھتے، سعدیہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔
“اب یہ سوال عبث ہے ماما جان! لیکن میرا یقین رکھیے رشتہ جوڑا ہے تو آخر دم تک نبھاؤں گا۔ بس اس تبدیلی کو قبول کرنے میں تھوڑا سا وقت تو لگے گا نا!” ان کا ہاتھ ہاتھوں میں لیے وہ انھیں بتا رہا تھا۔
” نکاح کے دو بولوں میں بہت طاقت ہوتی ہے بیٹا۔! مجھے یقین ہے تم بہت جلد اس تبدیلی کو قبول کرو گے۔”
“آپ کہہ رہی ہیں تو مان لیتا ہوں کہ ان دو بولوں میں طاقت ہوتی ہے۔ ورنہ یقین نہیں ہے۔” اسے جیسے کچھ یاد آیا تھا۔
“کیوں؟”
“اس طاقت نے ہادی کو زیر کیوں نہیں کیا تھا ماما جان؟”
“کیا مطلب؟” وہ بہت کچھ سمجھ کر بھی انجان بن گئیں۔ عدی نے انھیں دیکھا اور عجیب سے انداز میں مسکرایا
“آفرین ہے آپ کی اداکاری پہ ماما جان!” ان کا ہاتھ چومتے اس کی ہر ادا میں ستائش تھی۔
“دل کو ایسے ہی رازوں کا قبرستان ہونا چاہئے نا ماما جان! جیسے ایک ماں کا دل اپنے اندر ہر اولاد کے راز چھپائے رکھتا ہے۔” اس کی باتیں بھی اس کی طرح عجیب ہوتی تھیں سعدیہ نے سوچا۔
“اچھا میں چلتا ہوں۔ کوشش کروں گا جلدی آ جاؤں۔”
“اس ڈائری میں کیا تھا ہادی!؟” انھوں نے پوچھا تھا۔ وہ جاتے جاتے رکا، پلٹ کر انھیں دیکھا اور مسکرا کر بولا:
“راز کو راز ہی رہنے دیں ماما جان! اگرچہ آپ جانتی ہوں۔”
“اس راز کو سنبھالنے سے اگر تمہیں دائمی خوشیاں نصیب ہوں گی تو میں یہ راز قبر تک دل میں چھپائے رکھنے کو تیار ہوں۔” اس کی پشت کو دیکھتے انھوں نے سوچا تھا اور رات کے فنکشن کی تیاری کرنے چل دیں جہاں اب موتیا کی مہندی کی رسم عدی کے بغیر ہی ہونی تھی۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
چہرے پہ ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارتے اس نے تھکن کے آثار ختم کرنے کی کوشش کی۔ اور گاڑی کی چابی اٹھاتے ہسپتال سے نکلا۔ وہ رات گیارہ بجے واپس آیا تھا۔ لان میں تقریب کے مٹے مٹے آثار اب بھی موجود تھے۔
“اب بہتر ہو گا کہ فضول سوچوں کو ذہن میں جگہ دینے کی بجائے کمرے میں جا کر سکون سے سو جانا۔ تاکہ دلہا بنو تو چہرے پہ بارہ نہ بج رہے ہوں۔” اس کا ہاتھ دروازے کے دستے پہ تھا جب سعدیہ کی آواز اس کی سماعتوں میں پہنچی تھی۔
“آپ کو کیا لگتا ہے کہ میرا چہرا سب کہانی کہہ دے گا؟” وہ پلٹ کر دلفریب مسکراہٹ ہونٹوں پہ سجائے ان سے پوچھ رہا تھا۔
“خود کو اتنا سخت جان بھی مت بناؤ عدی۔!” انھوں نے سمجھایا
“جب آپ کو پتھر سمجھ لیا جائے تو پتھر بننے میں ہی عافیت ہے۔” سعدیہ پریشانی سے اسے دیکھ کر رہ گئی تھیں۔
“صبح ملتے ہیں ماما جان!” اس سے پہلے وہ کچھ کہتیں وہ کمرے میں جا چکا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
7 دسمبر کی صبح ابراھیم ولا میں بہت رونق اور گہما گہمی لے کر اتری تھی۔ آخر کو ڈاکٹر عدی ابراهيم کی شادی تھی سبھی بہت پر جوش تھے وہ جو عام سے حلیے میں بھی دل کو لبھاتا تھا، آج دلہا بنا تھا تو نظریں بلائیں لیتے نہ تھکتی تھیں۔ سفید پاجامے کے ساتھ سیاہ رنگ کی اچکن میں دراز قد اور گندمی رنگت کچھ اور نکھر گئی تھی۔ سر پہ کلاہ اور گلے میں پھولوں کا ہار پہنے وہ شاہانہ انداز میں چلتا سٹیج تک آیا تھا۔
“موتیا! کیا شاندار شوہر پایا ہے اب بھی تم نے۔” قریب بیٹھی کسی عزیزہ نے دلہن بنی گہرے سرخ لہنگے میں ملبوس موتیا کے کان میں سرگوشی کی تھی۔ اس کا دل، اس بات پہ الجھ گیا
“اب بھی۔۔!” حسد تھا یا رشک وہ سمجھنے سے قاصر تھی۔ آنکھوں میں ڈھیروں پانی جمع ہوا تھا۔
“اللہ۔! میں نے کب ایسا چاہا تھا؟ کہ شوہر ہی بدلتی رہوں۔” اس نے تیزی سے پلکیں جھپک کر آنسوؤں کو بہنے سے روکا تھا۔ عدی اس کے پہلو میں بیٹھا۔ اس کے پرفیوم کی مسحور کن خوشبو نے پل بھر کو ہر شے سے بیگانہ کر دیا تھا۔ ذہن میں صوفیہ کی بات گونجی۔
“جو گزر گیا سو گزر گیا موتیا! ماضی کی لکیر کو پیٹتی مت رہنا۔ عدی بہت اچھا ہے، تم اس کے ساتھ ہمیشہ خوش رہو گی۔ گزرا وقت بھولنا آسان نہیں ہے لیکن اچھے مستقبل کے لیے اسے فراموش کرنا ہی بہتر ہوتا ہے۔” شادی بات طے ہونے سے لے کر آج رات تک صوفیہ اسے یہی سبق گھول گھول کر پلاتی رہی تھیں۔
“تمھارے لیے عدی کو نئے رشتے میں قبول کرنا مشکل ہو رہا ہے تو یہی حال کم و بیش اس کا بھی ہو گا۔ تم نے شوہر کھویا تھا تو اس نے بھی بھائی کھویا ہے۔ اور بھائی کا تعلق زیادہ قریبی تھا۔” اسے ایک ایک بات یاد آ رہی تھی۔
“اچھی بیوی بن کر اس کا ہر غم بانٹ لینا، ہر دکھ سمیٹ لینا۔” فوٹوگرافرز کے کیمرے مسلسل حرکت میں تھے۔ ہر کسی نے ان کے جوڑے کی تعریف کی تھی لیکن وہ وہاں ہو کر بھی وہاں نہیں تھی۔ ایک سال پہلے یہی مقام تھا جب وہ ہادی کی دلہن بنی بیٹھی تھی اور آج اسی جگہ عدی کے پہلو میں براجمان تھی۔ دل جیسے کانوں میں دھڑک رہا تھا۔ سردی کے باوجود ہتھیلیاں پسینے میں بھیگ رہی تھیں۔ اس نے اپنے احساسات ٹٹولنے چاہے، کچھ عجیب سی حالت تھی دل کی۔ عدی کا یوں اتنے قریب بیٹھنا۔۔ اسے عجیب سے احساس ست روشناس کروا رہا تھا۔
“اس رشتے میں بہت طاقت ہوتی ہے موتیا! اور اسے مزید طاقتور عدی سے تمھاری محبت کرے گی۔” صوفیہ نے ہر ممکن کوشش کرکے اس کے دل و دماغ کو عدی کے لیے ہموار کیا تھا۔ اور اب عدی کے پہلو میں بیٹھے، اس کے کپڑوں سے اٹھتی مسحور کن خوشبو کو محسوس کرتے موتیا کو لگ رہا تھا کہ صوفیہ اپنی کوشش میں کسی حد تک کامیاب ہو چکی تھیں۔ رخصت ہو کر ہال سے عدی کے اور اب اپنے کمرے میں آنے تک وہ ایک لمحے میں دل کی اس بغاوت پہ حیران ہی ہوتی رہی تھی۔ آج اس کا دل چاہا کہ اس کا شوہر آئے اس کے سامنے بیٹھے اسے دیکھے، اسے سراہے اور اس کے حسن کے قصیدے پڑھے۔
“السلام علیکم!” وہی مسحور کن خوشبو لیے عدی اندر داخل ہوا تھا۔ اس نے اپنے دل کو زور و شور سے دھڑکتے سنا تھا۔
**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔۔**۔۔**
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...