سردیوں میں راتیں بہت لمبی اور سرد ہوتی ہیں شہر کا جو علاقہ کم آبادی پر مشتمل ہوتا ہے اس کے اکثر راستے اور سڑکیں سنسان ہوا کرتیں ہیں ؛ ویران اور سنسان علاقوں میں کوئی بھی واقعہ اور حادثہ پیش آسکتا ہے
ایسے ہی دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی ایک شام جب وہ اپنے کام سے فارغ ہو کر گھر واپس آرہا تھا تو اس کو راستے میں ایک لڑکی بیہوش پڑی ملی تو فوراً اس کے پاس جاکر اسے دیکھا۔۔۔۔اس کو دیکھتے ہی اس کے ہوش اڑ گئے لیکن اس نے جلدی سے اس نوجوان لڑکی کو اٹھاکر اپنی گاڑی میں ڈالا اور گھر لے آیا وہ اس کو اپنے کمرے میں بیڈ پر سلا کر خود اپنے گھر کے لان میں جا بیٹھا۔۔۔۔۔
آنکھوں میں اک انجانی تصویر سجائے اور چہرے پر حیرانی لیے وہ دور پہاڑوں کی طرف ڈوبتے ہوئے سورج کی سرخی مائل رنگت کو دیکھتے ہوئے ماضی کی کسی یاد میں کھو گیا جب اسی طرح ایک دن کچھ سال پہلے دسمبر کی ایک ایسی ہی سرد شام کو وہ بہت ہی خوبصورت لباس پہنے اس سے ملنے آئی تھی اور آکر اس کے سامنے لان میں پڑی ایک کرسی پر بڑے انہماک سے بیٹھ کر بات کی تھی۔
معصوم ایسی کہ بس اک ہی نظر میں دل موہ لے جبکہ اس کی شرارت بھری باتیں کسی کو بھی دیوانہ بنا دینے کے لیے کافی تھیں دونوں ایک دوسرے کے آمنے سامنے بیٹھے گھنٹوں باتیں کرتے رہے ؛ باتوں باتوں میں کب رات ہوگئی، کب چاند نکل آیا پتہ ہی نہیں چلا ، چاندنی رات اپنے پورے جوبن پر تھی اور چاند کی روشنی چھن چھن کر اس کے چہرے پر پڑ رہی تھی جس کی وجہ سے وہ بے حد حسین شہزادی لگ رہی تھی پھر وہ گھڑی آئی جس نے ان دونوں معصوم دلوں کی قسمت میں ہجر کو دان کردیا ہمیشہ کی جدائی کو خوش آمدید کہا تھا اس نے احمر سے کچھ اس طرح مخاطب ہو کر کہا کہ
احمر میں تم سے آج آخری بار ملنے آئی ہوں پھر تمہیں مرا چہرہ دیکھنے کو میسر نہیں ہوگا
میں کبھی تمہارے من آنگن دستک نہیں دوں گی
مجھے معلوم ہے تمہیں کچھ دیر کو بہت اذیت
سہنی پڑے گی
تمہارے ذہن کے دریچوں پہ غم کی بارش
جل تھل کردے گی ۔
تمہارے دل کے روزنوں سے چاندنی روٹھ جائے گی ۔
محبت کی نگری پہ تنہائی اور اداسی کا پہرہ لگ جائے گا ۔
جس سے تمہیں بہت رنج پہنچے گا ۔
جو شاید کسی بھی محبت کے احساس میں گندھے انسان کی برداشت سے باہر ہے۔
لیکن تمہیں ہر صورت مری غیر موجودگی کو قبول کرنا ہوگا میری محبت کو بھولنا ہوگا ۔
اے مرے دل کے شہ !!
کچھ دن ، کچھ لمحے ہماری روحوں کو چھلنی کرنے کے لیے ہماری زندگی میں وارد ہوتے ہیں۔
اور پھر سدا کے لیے اک تڑپا دینے والی یاد بن کے رہ جاتے ہیں ۔
جو ہمارے سنگ سنگ سفر کرتے ہیں۔
ہمارا ان جھلسا دینے والی یادوں کے سنگ چلنا محال ہو جاتا ہے ۔
جن کی تپش ایام کی گردش بھی کم نہیں کر پاتی !!
ہمارا ساتھ بھی کچھ ان چند لمحوں کی مرہون منت ہے ۔
جو اپنی خوش بختی پر نازاں بھی نہ ہوسکا ۔
اور جدائی مقدر ٹھہری !!
لیکن !!
میں کیا کروں اور کیا کہوں ۔
کہ جس سے محبت کا انجام بدل جائے ۔
یہ پل ٹھہر جائیں ، قہر آلود شام بدل جائے
اور اے کاش !!
ہماری طے شدہ نسبت کو نکاح نصیب ہو جائے
اے مرے روح کے ساتھی !!
ہمارے سرپرستوں کے دلوں میں نفاق گھر کر چکا
رشتے انا کی بھینٹ چڑھ گئے
اور ہماری محبت کو غربت کا سیلاب لے ڈوبا !!
اس سے بڑا اور دکھ کیا ہوگا کہ
مرے ہاتھ مہندی لگنے سے پہلے بیوگی کوپیارے ہوگئے۔
تمہاری دلہن پہ” رئیسی ” نے کوڑیوں کی مہر ثبت کردی ہے ۔
مجھ بد قسمت کو معاف کرنا ۔
کیونکہ کسی کی شان تو کسی کی عزت کی خاطر خود پر جبر کرنا ہے ۔
میں اک بہت مجبور و بے بس بیٹی ہوںجسے ہر صورت قربان ہونا ہے
اے مرے پیارے !
خدا تمہاری عمر دراز کرے اٰمین
اے مرے ہم نفس تجھے ہمیشہ کے لیے الوداع!!
وہ رندھی ہوئی آواز میں بولتی چلی گئی اور وہ چپ چاپ اس ٹوٹتی ہوئی قیامت کے نظارے کو نہ چاہتے ہوئے بھی دیکھتا رہا آگے بڑھ کر روکنے کی سکت کھو گئی دل کی دھڑکن رکی اور گفتار چھن گئی تھی ۔
بیچارہ احمر اس کی تیزاب اگلتی باتیں سن کر سکتے کی حالت میں وہیں پر بیٹھا رہ گیا جب ہوش میں آیا تب تک وہ جا چکی تھی۔۔۔ابھی اسی سوچ میں گم بیٹھا تھا کہ اچانک سارے آسمان پر گہرے کالے بادل چھا گئے اور چاند بادلوں سے گھر گیا ، زور و شور سے بارش برسنے کے ساتھ ساتھ بجلی بھی چمکنے لگی ؛ بجلی کی زور دار گرج سے احمر چونک کر ماضی کی یادوں سے باہر آیا تو اس نے دیکھا کہ وہ پوری طرح بارش میں بھیگ چکا ہے وہ فوراً وہاں سے اٹھ کر اپنے میں کمرے گیا اور کپڑے بدل کر اس لڑکی کے پاس کرسی سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا ؛ وہ لڑکی اور کوئی نہیں اس کی پہلی اور آخری محبت جان سے پیاری عریش تھی جو اس کو اس بیہوشی کی حالت میں سڑک پر پڑی ملی تھی احمر عریش کے سرہانے بیٹھ کر اس کو پیار بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بے صبری سے اس کے ہوش میں آنے کا انتظار کرنے لگتا ہے
ابھی اسے وہاں بیٹھے چند منٹ ہی ہوئے تھے کہ دروازے کی گھنٹی بج اٹھتی ہے اور وہ جلدی سے باہر جاکر دیکھتا ہے تو پولیس کھڑی ہوتی ہے احمر گھبراہٹ کی وجہ سے دروازہ کھولنے میں ہچکچا جاتا ہے اور فوراً کمرے سے اسٹول لاکر دیوار کے پاس رکھ کے اوپر سے جھانک کر ساری صورت حال کا جائزہ لیتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ پولیس جیپ میں اس کا دوست ذیشان بیٹھا ہوا تھا اسٹول سے نیچے اتر کر پرسکوں ہو وہ گیٹ کھول کر اس کا استقبال کرتا ہے ۔
ذیشان اسے کافی عرصے بعد ملنے آتا ہے احمر اس سے اتنی دیر رات آنے کے بارے میں دریافت کرتا ہے تو وہ بتاتا ہے بارش کی وجہ سے تمہارے گھر کے پاس ہی اس کی گاڑی خراب ہو گئی اور اسے یہاں کے لوگوں سے دھکا لگوا کر تمہارے گیٹ تک لانا پڑا وہ تو شکر ہے تم گھر پہ مل گئے ورنہ مجھے سڑک پہ گاڑی میں ہی رات گزارنی پڑتی کیونکہ یہاں سے تھانہ بہت دور ہے ،ذیشان کی خاطر تواضع کرنے کے بعد وہ پھر سے عریش کے کمرے میں آکر بیٹھ جاتا ہے
لیکن اسے یہ سوچ چین نہیں لینے دیتی کہ جسے وہ دنیا میں سب سے زیادہ چاہتا تھا اس کی ایسی حالت کیسے ہوگئی کیوں وہ سرد رات میں ننگے پاؤں سڑک کے بیچ ،زندہ نعش کی طرح بے سدھ پڑی تھی
یوں ہی سوچتے سوچتے اسے نیند آجاتی ہے اور پھر صبح جب اس کی آنکھ کھلتی ہے تو اسے بیڈ خالی ملتا ہے وہ عریش عریش پکارتا ہوا دیوانہ وار پورا گھر چھان مارتا ہے لیکن اس کا کہیں کوئی سراغ نہیں مل پاتا ، بیچارہ احمر ایک بار پھر اسے اپنے اتنے پاس پا کر کھو دیتا ہے
باہر کا گیٹ کھلا دیکھ کر اسے ذیشان کا خیال آتا ہے کہ رات کو اسے بھی مہمان خانے میں ٹھہرایا تھا ، شاید وہاں اس طرف ان کے پاس بیٹھی ہو لیکن وہاں جانے پر اسے معلوم ہوتا ہے کہ مہمان خانے میں تو کوئی بھی نہیں ہے پھر احمر اپنے دفتر سے چھٹی کر کے ذیشان سے ملنے تھانے پہنچتا ہے تو وہاں عریش کو حوالات میں بند دیکھ کر اسے بہت زور کا جھٹکا لگتا ہے اور زور سے عریش کو پکار کر کہتا ہے، تم یہاں کیا کر رہی ہو؟
تمہیں معلوم ہے میں نے تمہیں کتنا ڈھونڈا ہے تمہیں بیڈ پر نہ پاکر مری جان حلق میں اٹک گئی تھی ، اور تم ذیشان پاگل ہوگئے ہو کیا جو اسے حوالات میں بند کرکے بیٹھے ہو اس نے ایسا کیا جرم کیا ہے ؛ ذیشان اسے پریشان دیکھ کر چپ کرواتے ہوئے کہتا ہے ارے ارے سانس تو لو کیوں آتے ہی اتنا شور مچادیا ہے ،کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑا ہے یہ لڑکی مجھے چوری کے کیس میں مطلوب تھی یہ مجھے تمہارے گھر پہ مل گئی تھی اس لیے آسانی سے گرفتار کر پایا ہوں ، تم ادھر مرے ساتھ آو، اور یہاں بیٹھ کر بات کرو کیوں اس طرح چیخ چلا رہے ہو ٹھنڈے دماغ سے پر سکون ہو کر بات کرو تاکہ تمہیں سمجھانے اور مجھے تمہاری بات سمجھنے میں آسانی ہو ، یار یہ جھوٹ ہے عریش ایسا کام کبھی نہیں کر سکتی ہے میں اسے بہت اچھی طرح جانتا ہوں
اچھی طرح جانتا ہوں سے کیا مراد ہے (ذیشان متجسس ہو کر پوچھتا ہے )مطلب یہ کہ وہ مری چچا زاد ہے جس سے مری نسبت طے ہوئی تھی اور بد قسمتی سے اس کا ساتھ مجھے نہ مل سکا !!
او ہو احمر اگر تم دونوں کی تو شادی ہونی قرار پائی تھی تو یکدم ایسا کیا ہوا کہ دونوں کے راستے جدا ہوگئے
یہ تو میں بھی نہیں جانتا کہ عریش نے کس مجبوری کے تحت جدائی جیسے زہر کو پیا( احمر بہت غمگین لہجے میں ذیشان کو بتاتا ہے ) دو سال پہلے جو کچھ ہوا میں اس سے انجان ہوں مگر میں اس سے پوچھنا چاہتا ہوں ، ہماری شادی کیوں ٹوٹی آخر ایسی کیا وجہ تھی کہ وہ بچپن کی محبت اور نسبت کو چھوڑنے کے لیے آمادہ ہوگئی
لیکن فی الحال تم اسے ضمانت پہ چھوڑ دو اور مجھے رپورٹ درج کروانے والے کی تفصیل بھی دو تاکہ میں اصل حقیقت کا پتہ لگا کر اسے بے گناہ ثابت کرسکوں !!
چلو ٹھیک ہے تم اسے لے جاسکتے ہو اور میں تمہیں ایف آئی آر درج کروانے والے کی تمام تفصیل میسج کر دوں گا
عریش کی ضمانت کروا کے احمر اپنے گھر لے جاتا ہے اور جب وہ اس کی حالت زار کے بارے میں سوال کرتا ہے تو بیچاری معصوم عریش پھوٹ پھوٹ کر رو دیتی ہے احمر کاش کہ میں تمہیں اپنی روح پہ لگے زخم دکھا سکتی اور تمہیں محسوس کروا سکتی کہ اس جہنم میں ، میں نے کتنی اذیت کو جھیلا ہے ، کتنے زخم کھائے، کتنی تکالیف برداشت کی ہیں
تم مجھے کچھ بتاؤ گی تو ہی مجھے معلوم ہوسکے گا نا کہ تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے اور اس دن بھی تم مجھے پوری بات بتائے بنا الوداع کہہ کر رخصت ہوگئیں ، اور میں تنہا رہ گیا ، میں اورمری محبت بنا کسی قصور کے سولی چڑھا دئیے گئے (احمر اس سے التجائی لہجے میں سوال کرتا ہے ) مجھے معاف کردو میں بہت بے بس تھی والدین کی عزت کا شملہ ،زبردستی مرے ہاتھوں میں تھما دیا گیا تھا ؛ نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے تمہاری عریش کا گلا گھونٹا پڑا جسے مجھے ہمیشہ کے لیے تمہاری دہلیز پہ ہی دفن کرکے جانا پڑا !!
عریش تم پہلیاں مت بھجواؤ صاف صاف بتاؤمرا دل بہت بے چین ہے اذیت سے روح چھلنی چھلنی ہو رہی ہے کیوں تم نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا
میں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا لیکن تم ایسی غائب ہوئی جیسے اندھیرے میں سوئی ؛ کیوں خود پر ظلم سہتی رہی اور کسی کو خبر تک نہیں ہونے دی!
کیا مری محبت پہ تمہارا یقین ڈگمگا گیا تھا
یا مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ تم اپنی زندگی کی مشکلات مجھ سے بانٹ سکو !
بتاتی کیوں نہیں ہو برائے مہربانی کچھ تو کہو !
اور عریش اس سے کہتی ہے
احمر کیا بتاؤں تمہیں ؟
کہ چچا اور چچی جان نے جہیز کی مانگ کی تھی جو کہ مرے والدین نہیں دے سکتے تھے ؛ یا یہ بتاؤں کہ انہوں نے ہمیں پورے محلے کے سامنے مفلسی کے طعنے دئیے ، ہمیں سب کے سامنے رسوا کیا مگر ہم سب پھر بھی چپ سادھے سب سنتے رہے مرے ابو نے ان کے پاؤں پکڑ رشتہ قائم رکھنے کی بھیک مانگی مگر چچا جان نے انہیں دھتکار کر دور ہٹادیا اور ایسے سردلہجے کی وجہ سے ان کی عزت نفس کو بہت چوٹ پہنچی جو کہ مری والدہ برداشت نہیں کر سکیں اور ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ہارٹ اٹیک کی وجہ سے انتقال کر گئیں تمہارے والدین نے بھی رشتہ توڑنا مناسب سمجھا بجائے اس کے جہیز کو بھول جاتے !
لیکن اس دن سب کے سامنے جو ہماری جگ ہنسائی ہوئی اس کا خمیازہ مجھے بھگتنا پڑا اس شہر کے سب سے بڑے رئیس خاندان میں ساٹھ سال کے آدمی سے مری شادی کر دی گئی ، جس دن میں تمہیں الوداع کہنے آئی اس سے اگلے دن مری شادی تھی۔
اس رشتے داری کی وجہ سے مرے والدین کا بھی امیر خاندانوں میں شمار تو ہونے لگا لیکن اس کی جو قیمت میں نے چکائی اس پر کسی نے اف تک نہیں ، عریش کی بات سن کر احمر کہتا ہے کہ تم نے ایک بار بھی مجھے بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ مرے والدین کی وجہ سے ہماری شادی ٹوٹی اور تمہیں اتنے عذاب کو جھیلنا پڑا ، تم نے ایسا کیوں کیا احمر کے سوالوں پر چونک کر کہتی ہے کہ یہ تم کہہ رہے ہو کیا؟
تمہارے والدین کی خواہش تمہیں کیسے معلوم نہیں ہوئی اور اگر تم نہیں بھی جانتے تھے تو میں بتا کر تمہیں ان سے دور کرنے کی مرتکب نہیں ہو سکتی تھی۔
یہ سب میں نہیں جانتا تھا کہ مرے امی ابو ایسا کچھ سوچ رہے ہیں خیر اب تو وہ اس دنیا میں ہی نہیں ہیں اگر ہوتے تو میں ان سے پوچھ لیتا تمہارے جانے کے دوسرے دن ہی ان کا روڈ ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔
اور بہت افسوس ہوا سن کر خیر اب مجھے جانا چاہیے میں ایسے یہاں نہیں رک سکتی عریش جانے لگتی ہے تو احمر آگے بڑھ کر اسے روک کر کہتا ہے تم کہیں نہیں جا سکتی ہو اور ابھی تک تم نے یہ نہیں بتایا ، تم پہ چوری کا الزام کیسے لگا اور تم اتنی رات کو سڑک پہ کیسے پہنچی !!
احمر تمہیں یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے تو جواباً وہ کہتا ہے کہ مجھے کیوں ضرورت نہیں ہے میں اب کی بار تمہیں نہیں کھو سکتا جو بھی بات ہے تم مجھے بتاؤ میں اس کا حل نکالوں گا ، احمر کیوں ضد کر رہے ہو ؟
تم مجھے پاکر کیا کروگے اس دیمک زدہ وجود اور زخموں سے چور روح تمہارا ساتھ دینے کی سکت کھو چکی ہے تمہارے قدم سے قدم ملا کر چلنے والی لڑکی تو کب کی مٹی کا ڈھیر ہو چکی ہے !!
اس لیے ضد مت کرو مجھے مرے حال پر چھوڑ دو عریش احمر کو بہت ٹالنے کی کوشش کرتی ہے مگر آخر کار اسے ہار ماننا پڑتی ہے ۔
بہت ضدی ہو تم اس دن کو سوچتی ہوں تو ایک بھیانک منظر مری آنکھوں کے سامنے دوڑ جاتا ہے کہنے کو تو ایک عالی شان محل میں بیاہ کر گئی تھی لیکن محل پہنچنے کے بعد پتہ چلا کہ وہ گھر نہیں ایک کاروباری مرکز ہے جس میں معصوم چڑیوں کی خریدوفروخت کا بازار لگایا جاتا ہے اک ایسا قید خانہ جس میں کوئی پرندہ بھی اگر غلطی سے چلا جائے تو اس کے پر نوچ کر اسے سونے کے پنجرے میں قید کرلیا جاتا ہے اسی طرح مجھے بھی اس محل میں قید ہونا پڑا چپ چاپ کٹھ پتلی کی طرح ان سب کے اشاروں پہ ناچنا پڑا گھر کے نام پہ جہنم کا گڑھا ہے جہاں عیاشی کے لیے ہر دوسرے دن ایک معصوم کو نکاح کے نام پر خرید کر لایا جاتا ہے اور حیوانیت کے سیر ہونے کے بعد بیجان چیز سمجھ کر نوچ کر سسک سسک کر مرنے کے لیے پھینک دیا جاتا ہے اور پھر وہ حیوان نما انسان کسی اور نئے شکار کی تلاش میں سرگرداں ہو جاتے ہیں مجھے بھی ایسے ہی خرید کر ارمانوں کی سیج سجائی گئی اور جی بھر جانے کے بعد طلاق دے کر بھیڑیوں کے نوچنے کے لیے چھوڑ دیا گیا میں بہت تگ و دود کے بعد اس دلدل سے بھاگنے میں کامیاب ہوئی تھی اور پھر تم مجھے بیہوشی کی حالت میں اپنے گھر لے آئے وہ بتاتے بتاتے اس قدر تکلیف میں تھی جیسے کوئی گرم گرم سیخ بدن پر لگانے سے جسم جھلس جائے اورروح بھی تڑپ کر رہ جائے بیچاری زارو قطار روتے ہوئے اپنے حواس کھو دیتی ہے اور کھڑے کھڑے سیدھا زمین پر آ گرتی ہے احمر اسے لان سے اٹھا کر بیڈ پہ سلا دیتا ہے اور اس کی ایسی حالت دیکھ کر تلملا کر رہ جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں ان بیغیرتوں کو نہیں چھوڑوں گا ، جنہوں نے مری معصوم سی عریش کی عزت کو داغدار کیا ؛ اس کو ایذاء دی ، نہ جانے اکیلی نے کس طرح بھیڑیا صفت لوگوں کے درمیان اتنے دن گزارے ہوں گے وہ بچیں گے نہیں تڑپا تڑپا کے ماروں گا اور پھر ذیشان کی سینڈ کی گئی معلومات کے ذریعے ان سب کے بارے میں تحقیقات کرکے ان کے خلاف ثبوت اکھٹے کرنا شروع کردیتا ہے کچھ ہی دنوں میں عریش کی حالت میں بھی سدھار ہونے لگتا ہے اور وہ اپنی روٹین کی نارمل زندگی میں واپس ا?نا شروع کردیتی ہے
لیکن احمر ایک دن بھی سکون سے نہیں بیٹھتا وہ ذیشان کی مدد سے اس پورے گروہ کو رنگے ہاتھوں پکڑوا کر وہاں موجود بہت سی معصوم لڑکیوں کو اس جہنم سے آزاد کرواتا ہے
لیکن عریش کے سابقہ شوہر نے گرفتار ہونے کے بعد اپنے چھپے ہوئے کارندوں کے ذریعے احمر کی گاڑی میں بم رکھوا کر اسے مارنے کی کوشش جو کہ اس کی خوش قسمتی تھی بم اس کے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے پھٹ گیا اور کچھ کنکر اس کی آنکھوں میں پڑے جس کی وجہ سے اس کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی اور عریش ہسپتال کے کمرے کے باہر دروازے کے شیشے میں جھانک کر دیکھتے ہوئے سوچتی ہے کہ کاش احمر دنیا میں صرف تمہارے جیسے لوگ ہی ہوتے تو کسی بہن ، کسی بیٹی اور کسی عریش کی عزت داغدار نہ ہوتی کوئی اور عریش برباد نہ ہوتی !!!
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...