روشم جائو یہ ناشتہ ںدرت کو دے آئو۔۔ بے جی نے کچن صاف کرتے اسے کہا۔۔ سب کے ناشتے کے بعد ہی اس گھر کی عورتوں کو کھانا مکتا تھا یہ تو رواج تھا لیکن ندرت کو ان دونوں کے کھانے کے بعد کھانا دینے کا حکم تھا کیونکہ وہ بیوہ تھی اور وڈی اماں کے بقول بیوہ گھر کا بچا ہی کھاتی ہے۔۔
وہ “جی اچھا” کہتی ندرت کے کمرے کی طرف بڑھی۔۔ اس گھر میں اسے آئے دو ہفتے ہو چکے تھے اور ابھی تک اس کا ٹاکرا ندرت سے نہ ہوا تھا۔۔ اول تو ندرت کو ہی کمرے سے نکلنے کی اجازت نہ تھی۔۔ دوسرا بے جی ہی اسے کھانا دیتی تھی۔۔ یہ آج پہلا اتفاق تھا کہ وہ اس لڑکی سے ملنے جا رہی تھی جس کے شوہر کو اس کے بھائی نے مارا تھا۔۔
پتہ نہیں اس کا کیا ری ایکشن ہو گا یہی سوچ سوچ کر روشم کا دل ہول رہا تھا مگر اب تک وہ اتنا ظلم تو سہہ ہی چکی تھی۔۔ اس گھر کے لوگوں کی نفرت کو وہ کافی حد تک اپنے اندر سمیٹ چکی تھی اب اس میں اگر ایک اور فرد کے اضافہ سے اسے فرق نہیں پڑتا تھا۔۔
یہی سوچ کر وہ اس نے دروازہ ناک کیا۔۔ اور اندر سے ” آ جائیں” کی آواز پہ وہ ٹرے پکڑے اندر آ گئی۔۔
کمرہ کھولتے ہی اسے ایک عجیب سا احساس ہوا تھا۔۔ سفید پردے سفید بیڈ شیٹ۔۔ کمرے میں کسی بھی قسم کی کوئی ڈیکوریشن نہ تھی ۔۔ شاید اٹھا لی گئی تھی کیونکہ ان کی خالی جگہیں روشم کا منہ چڑا رہی تھی۔۔ فی الحال کمرے میں صرف تین چیزیں تھی ایک بیڈ اور اس کے ساتھ سائڈ ٹیبل اور دوسرا کبرڈ۔۔
اب اس کی نظر بیڈ پہ پڑی۔۔ بیڈ پہ بیٹھی سفید رنگ کے لباس میں بیٹھی لڑکی اسی منظر کا حصہ لگ رہی تھی۔۔ ویسا ہی بے رنگ لباس اور ویسا ہی خالی چہرہ۔۔ روشم کو اس پہ جی بھر کر ترس آیا۔۔
آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی وہ اس کے پاس آئی۔۔
یہ ناشتہ۔۔ پاس پڑے سائڈ ٹیبل پہ ٹرے رکھتے وہ بولی۔۔ مقصد صرف اسے متوجہ کرنا تھا۔۔
وہ جو آنکھیں بند کیے بیٹھی۔۔ ایک انجان آواز پہ اپنی پلکوں کو وا کیا۔۔ سامنے ایک انجان لڑکی کو دیکھ کر وہ سمجھ گئی تھی کہ وہ کون ہے۔۔ کیونکہ اس کے چہرہ اسے بلکل بے جی اور اپنے جیسا لگا تھا۔۔
یہ چہرہ ہی اس کی شناخت تھا کہ اس کا اس گھر سے کیا تعلق ہے۔۔
تم چھوٹے خان کی ونی ہو؟؟۔۔ آنکھیں کھول کر پہلا سوال یہی آیا تھا۔۔ بیوی کا لفظ اس نے استعمال نہ کیا تھا کیونکہ بیوی کے حقوق و فرائض سے یہاں کے مرد ہی غافل تھی تو وہ اس لفظ کو استعمال کر کے اس کی توہین نہیں کرنا چاہتی تھی۔۔
جی۔۔ روشم نے سر جھکا لیا۔۔
ہمم۔۔ آئو بیٹھ جائو۔۔ اپنے پائوں سمیٹ کر ندرت نے اسے بیٹھے کی جگہ دی۔۔
مجھے بہت افسوس ہے میرے بھائی نے جو بھی کیا۔۔ لیکن انہوں نے جان بوجھ کر کچھ نہیں کیا۔۔ وہ سب ایک غلطی تھی جس میں آپ کا نقصان ہوا۔۔
اب وہ بیٹھ گئی تھی تو کچھ بولنا تو تھا ہی۔۔ اس کا نرم رویہ دیکھ کر اس نے اپنی طرف سے اس کے زخموں پہ مرہم رکھنے کی ناکام سی کوشش کی۔۔
اس کی بات پہ ندرت مسکرائی۔۔
نقصان؟۔۔ تمہارے بھائی نے میرا سب سے ذیادہ فائدہ کر دیا ہے لڑکی۔۔ مجھے اب کسی زانی کے ساتھ نہیں رہنا پڑ رہا۔۔ جسم کے ساتھ ساتھ میری روح بھی اب زخموں سے نہیں بھرتی۔۔ روز اپنے کردار پہ گالیاں نہیں سننی پڑتی۔۔ تمہارے بھائی نے تو میری زندگی آسان کر دی ہے۔۔ کبھی ان سے دوبارہ ملو تو شکریہ کہنا۔۔ مجھے دوسری زندگی دینے کا شکریہ۔۔
پہلے تو روشم نے اس کی باتوں پہ اسے حیرت سے دیکھا یوں جیسے وہ پاگل ہو گئی ہو۔۔ لیکن پھر اس گھر کے مردوں کا رویہ اسے یاد آ گیا۔۔ جو عرش میر اس کے ساتھ کرتا ہے وہی تو عرشمان بھی کرتا ہو گا۔۔
جیسے میں خودکشی کا سوچتی ہوں ویسے اس نے بھی تو سوچا ہو گا۔۔ باشبہ وہ دونوں ایک ہی تصویر کے دو پہلو تھے۔۔ اس لیے روشم کو اپنی حیرت پہ قابو پانے میں بلکل بھی وقت نہ لگا تھا۔۔
اب جائو۔۔ اس سے پہلے کہ میرے کمرے میں ذیادہ دیر رہنے میں وڈی اماں ہنگامہ کھڑا کر دے۔۔ وہ اپنی ہی سوچوں میں گم چپ بیٹھی تھی جب ندرت نے اسے جانے کا کہہ کر دوبارہ آنکھیں موند لیں۔۔
روشم نے ایک نظر مدرت کو دیکھا جس کا چہرہ تو خالی تھا لیکن ایک سکون کی داستان رقم تھی وہ سکون جو ایک لمبی مسافت کے بعد آتا۔۔
وہ خاموشی سے اٹھی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔۔ اندر اور باہر رہنے والی دو عورتوں میں صرف پاسٹ اور فیوچر کا فرق تھا۔۔
فجر کا وقت تھا ہر سو تاریکی اور سناٹا تھا۔۔ فضا میں موجود آذان کی آوازیں ہر سو پھیلی ہوئی تھی۔۔ کہیں آذان کے بعد نعت رسول پڑھی جا رہی تھی۔۔ وہ جو فجر کی نماز پڑھ کر کچن میں جانے کا ارادہ رکھتی تھی۔۔ لان میں نماز پڑھتی بے جی کو دیکھ کر وہی رک گئی۔۔
اس سارے منظر میں وہ کالی چادر میں لان میں نماز پڑھتی اسی منظر کا حصہ لگ رہیں تھیں۔۔ وہ کتنی دیر سے ان کے چہرے کو دیکھ رہی تھی مانو اس نے اتنا پرنور چہرہ اپنی زندگی میں کبھی نہ دیکھا ہو۔۔ اسے وہ بلکل اماں جیسی لگتی تھی۔۔ اماں کے بارے میں سوچ کر ماضی کی ایک ریل اس کی نظروں کے سامنے چل پڑی۔۔
***
وہ نماز پڑھ رہیں تھیں جب وہ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی وہ اب ان کے نزدیک آ گئی تھی۔۔ نیچے گھاس پہ بیٹھ کر اپنے گٹنوں پہ ہاتھ رکھا۔۔ اب وہ ان کا چہرہ مزید نزدیک سے دیکھ سکتی تھی۔۔
اس کے دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے سلام پھیرا تھا۔۔ اس کی موجودگی تو وہ محسوس کر ہی چکی تھی۔۔ اپنے اتنے قریب اسے بیٹھا دیکھ کر مسکرائی۔۔ اور روشم نے ان کے مسکرانے پہ اپنا سر انکی گود میں رکھ دیا۔۔
صبح بخیر جاناں۔۔ اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتی وہ مسکرائی۔۔
صبح بخیر۔۔ ان کے ہاتھوں کو چومتی وہ بھی جواباً مسکرائی۔۔
کیا مانگتی ہے آپ خدا سے۔۔ ان کے ہاتھوں کی انگلیوں سے کھیلتی وہ پوچھ رہی تھی۔۔
تمہارے نمل کے اور ابان کے اچھے نصیب اور خوشیاں۔۔ اب کی بار انہوں نے اس کی پیشانی بھی چومی۔۔
نمل آپی کی تو شادی ہو گئی ہے اور وہ خوش بھی بہت ہے۔۔ ابان بھائی بھی ماشاء اللہ سے اب جرنلسٹ بن چکے ہیں اور وہ بھی خوش ہے۔۔ اور جہاں تک بات ہے میری تو میرا بھی ایم اے میں اڈمینشن ہو گیا تو میں بھی خوش ہی ہوں۔۔
بات کرتے کرتے وہ ایکدم خاموش ہو گئی۔۔ ان کی ہاتھوں کی حرکت بھی رک گئی یوں جیسے وہ اگلا سوال جانتی ہوں۔۔
تو تم کہنا چاہ رہی ہو اب سب کچھ سیٹ تو اور کیا مانگنا ہے۔۔ ہے نا۔۔ وہ اس کے دل کا سوال جان گئیں تھیں۔۔ آخر ماں جو تھیں۔۔
ہاں۔۔ مجھے لگا آپ کہیں گی میں شکر ادا کر رہی تھی۔۔ وہ بھی سیدھی ہو کر بیٹھ گئی تھی۔۔ اس کی بات پہ وہ مسکرائی۔۔
وقت کا کبھی پتہ چلا ہے چندا۔۔ اس کی ٹھوڑی کو ہاتھ میں لیے وہ پوچھ رہی تھی۔۔
وقت کا پتہ نہیں چلا لیکن کچھ نہ کچھ تو ہم پریڈیکٹ تو کر ہی لیتے ہیں نا اماں۔۔ نیا سوال۔۔ جس کی توقع انہیں تھی۔۔
اور وہ پریڈیکشن کتنے پرسنٹ ٹھیک ہوتی ہے۔۔ وہ اسے پیار سے سمجھانا چاہ رہی تھی۔۔
ذیادہ نہ سہی پر کچھ حد تک ٹھیک ہوتی ہے۔۔ جیسے میں نے سوچا تھا کہ میرا اس یونی میں ایڈ میشن ہو جائے گا اور ہو بھی گیا۔۔ وہ پتہ نہیں کس بات پہ انہیں قائل کرنا چاہتی تھی۔۔
تم نے تو یہ بھی سوچا تھا کہ تم میڈیکل کرو گی۔۔ کیا تم سے ایم کیٹ کلیئر ہوا؟؟۔۔ ان کی بات پہ وہ چپ کر گئی۔۔
دیکھو میری جان۔۔ دعائیں جانتی ہو کیوں مانگی جاتی ہے۔۔؟؟۔
کیونکہ اسے پسند ہے کہ اس سے مانگا جائے۔۔ اب کہ دوبدو جواب آیا تھا۔۔
ہاں بلکل۔۔ اسے پسند بھی ہے۔۔ لیکن مجھے لگتا ہے ہمیں اس لیے مانگتے رہنا چاہیے تا کہ ہمیں ہماری حیثیت معلوم ہوتی رہی۔۔ ایک بھکاری جب بھیک مانگتا ہے تو وہ عاجز ہو جاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس در کے علاوہ اسے کوئی در نہیں ملے گا۔۔ اگر وہ اکڑ دکھائے گا تو اسے نہ ہی کچھ ملے گا بلکہ اسے نکال بھی دیا جائے گا۔۔ اسی طرح انسان ہے۔۔ جب وہ مانگتا ہے تو عاجز رہتا ہے۔۔ وہ جانتا ہے اس کی اوقات کچھ نہیں ہے جب تک وہ اسے نہ دیتا رہے۔۔ اور یہی عاجزی اللہ کو پسند ہے اس لیے وہ کہتا ہے مجھ سے مانگو۔۔
ان کی بات پہ اسے چپ لگ گئی تھی۔۔ نجانے کیوں کبھی کبھی اس کی سوچیں بھٹک جاتی تھیں۔۔
ایسی بات ہے تو وہ یہ کیوں نہیں کہتا مجھ سے محبت کرو۔۔ محبت میں تو مانگنے کا طرز ہی کچھ اور ہوتا ہے۔۔ وہ کیوں کہتا ہے ڈرو مجھ سے۔۔ ڈر کر مانگنے میں کیا مزہ۔۔
اب کے نیا سوال آیا تھا۔۔
تمہیں کس نے کہا ہے کہ انسان ڈر سے مانگتا ہے۔۔ انسان امید سے مانگتا ہے۔۔ جہاں اسے امید ہوتی ہے کہ اسے کچھ مل جائے گا۔۔ وہاں سے مانگتا ہے۔۔ ان کے جواب پہ وہ جزبز ہو گئی تھی۔۔
پھر بھی وہ محبت کا کیوں نہیں کہتا۔۔ ڈر کا کیوں کہتا ہے۔۔ پھر نیا سوال۔۔ اب کہ وہ مسکرائی۔۔
کیونکہ محبت ہر بندے کا کام نہیں۔۔ ہر بندہ عشق نہیں کر سکتا۔۔ لیکن ہر بندہ ڈرتا ضرور ہے۔۔ چاہے کسی نہ کسی چیز کا سہی اسے ڈر ضرور ہوتا ہے۔۔ اس لیے وہ کہتا ہے میرا ڈر پال لو تا کہ سب برائیوں سے دور رہ سکو۔۔
اپنی بات کہہ کر انہوں نے اس کا ماتھا چوما۔۔ اور جائے نماز سمیٹ کر اندر چل دی۔۔ جبکہ وہ کتنی دیر پیچھے ان کو جاتا دیکھتی۔۔
***
وہ اپنی ہی سوچوں میں کب ان کے قریب آ کر پاس پڑی لان چئیر پہ بیٹھی اسے خود بھی پتہ نہ چلا۔۔ چونکی تو تب جب بے جی نے سلام پھیر کر اسے مخاطب کیا۔۔
اتنی محو ہو کر کیا دیکھ رہی ہو۔۔ جائے نماز کا کونا فولڈ کر کے وہ اسی طرف مڑی۔۔
آپ کو۔۔ کرسی کی بیک پہ سر ٹکائے وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی۔۔
مجھے کیا۔۔ اس کے انداز پہ وہ مسکرا اٹھی۔۔ آج انہیں وہ عجیب سی بہکی بہکی لگ رہی تھی۔۔
ان کی بات پہ وہ کرسی سے اٹھ کر ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گئی۔۔ شاید اسی احساس کو وہ دوبارہ محسوس کرنا چاہتی تھی جو اسے اماں کی گود میں سر رکھ ملتا تھا۔۔
مجھے دو ماہ ہو گئے ہیں یہاں۔۔ اور ان دو ماہ میں ظلم برداشت کرتے میری امید کئی بار ٹوٹی ہے۔۔ لیکن آپ ہمیشہ ایسے ہی رہتی ہیں۔۔ بائو جی اور وڈی اماں جتنا بھی برا کرے آپ کے ماتھے پہ شکن نہیں آتی۔۔ بلکہ آپ میری بھی ہمت بندھاتی ہیں۔۔ آخر کیسے کرتی ہیں آپ یہ سب۔۔
ان دو ماہ میں جو اس نے آبزرو کیا تھا وہی اب ان سے شئیر کر رہی تھی۔۔ اس کی بات پہ وہ مسکرائی۔۔
جانتی ہو ایسا کیوں ہے۔۔ کیونکہ میرا اللہ کہتا ہے کہ میں ہر انسان کو اتنا ہی آزماتا ہوں جتنی اس کی استطاعت ہوتی ہے۔۔ اور مجھے اس بات کا یقین ہے کہ وہ مجھے میری برداشت سے ذیادہ نہ آزمائے گا۔۔ مجھ میں اتنی برداشت ہے تو ہی اس نے مجھے اس امتحان میں اپنے اعتماد سے اتارا ہے۔۔ اور میں اس امتحان میں فیل ہو کر اس رب کریم کا اعتماد نہیں توڑنا چاہتی۔۔ اور جہاں تک بات ہے عدل کی۔۔ تو اس کا وعدہ ہے عدل اور رزق کا۔۔ اس بارے میں مجھے پریشان ہونے کی ضروت ہی نہیں ہے۔۔ مجھے یقین ہے وہ اب نہیں تو قیامت کے روز مجھ پہ کیے گئے ہر ظلم کا حساب لے گا۔۔
اس کے بالوں میں ہاےھ پھیرتی وہ ایک یقین سے بول رہی تھی۔۔ اور روشم کو لگ رہا تھا ان کا لہجہ ان کی باتیں اس کے کانوں میں رس گھول رہیں ہیں۔۔
آپ بہت اچھی ہیں۔۔ آنکھیں کھول کر اس نے اس پرشفقت اور نرم چہرے کو دیکھا۔۔ ان کو دیکھ کر روشم کو یقین ہوتا تھا کہ اللہ نے واقعی عورت میں برداشت کا مادہ ذیادہ رکھا ہے۔۔
میری تعریفیں بعد میں کرنا۔۔ ابھی اٹھو اندر جا کر ناشتہ بھی بنانا ہے۔۔ اس کا سر اپنی گود سے اٹھا کر انہوں نے جائے نماز سمیٹا۔۔
ویسے میرے پاس ایک پلان ہے۔۔ کھڑے ہو کر اپنے کپڑے جھاڑتی وہ بولی۔۔
کیسا پلان۔۔ جائے نماز سمیٹ کر وہ لان میں پڑے ٹیبل پہ رکھ چکی تھی۔۔ اس کی بات پہ اچنبے سے پوچھا۔۔
میں سوچ رہی ہوں۔۔ آج ناشتے میں زہر ڈال دیتے ہیں۔۔ سب سے ایک ہی بار میں جان چھوٹ جائے گی۔۔ پھر میں آپ اور ندرت سکون سے رہیں گئے۔۔
بے جی کی وجہ سے وہ کبھی کبھی پرانی روشم بن جاتی تھی۔۔ وہی جو تھوڑی تھرلنگ اور پاگل سی تھی۔۔ اس کے شرارتی انداز پہ وہ مسکرائی ۔۔ لیکن پھر مصنوعی غصے سے اسے دیکھا۔۔
باز آ جائو لڑکی۔۔ آنکھوں سے وارن کرتی وہ بولی۔۔ جبکہ روشم کے بچوں جیسے شکل بنانے پہ ان کی ہنسی نکل گئی۔۔ بلاشبہ روشم کے آنے کے بعد وہ کبھی کبھی ہنس دیتی تھی۔۔ اس کی عادتیں ہی اتنی پیاری تھی جو اسے بلکل کسی کا عکس دیتی تھی۔۔
***
آج وہ کتنے دن بعد کافی خوش تھی۔۔ اسے ابھی بائو جی کی فون کال سے پتہ چلا تھا کہ عرش میر اسلام آباد گیا ہے اور کسی کام کے سلسلے میں دو دن تک وہی رہنے کا ارادہ ہے۔۔
جب سے اس نے سنا تھا اس کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہ تھا۔۔ سارے کام بھی اس نے آج خوشی خوشی کیے تھے۔۔ دن میں تو جیسے تیسے رہنا ہی تھا۔۔ لیکن رات اس کی پرسکون گزرے گی یہ سوچ ہی اس کے لیے خوش کن تھی۔۔
اسی خوشی میں اس نے وڈی اماں کی ڈانٹ پہ بھی کوئی رد عمل نہ کیا تھا بلکہ رات کے سارے کام جلدی جلدی سمیٹ کر وہ وقت سے پہلے ہی اپنے کمرے میں تھی۔۔
ایل ای ڈی کمرے میں موجود تھا پر اس نے کبھی دیکھنے کی جرات نہ کی تھی۔۔ عرش میر کی موجودگی میں وہ سانس مشکل سے لیتی تھی کجا کوئی من مانی کرتی۔۔
لیکن آج وہ ہر طرح کی من مانی کر سکتی تھی۔۔ بیڈ پہ بیٹھ کر اس نے پہلے بیڈ کہ ملائمت کو محسوس کیا۔۔ سخت زمین پہ سو سو کر وہ تو اس پر آسائش چیز کو بھول ہی چکی تھی۔۔
ٹی وی دیکھتے دیکھتے کب اس کی آنکھ لگی اسے کچھ خبر نہ تھی۔۔ لیکن چونکہ سونے سے پہلے وہ اسے سلیپ موڈ پہ لگا چکی تھی اس لیے وہ اس کے سونے کے کچھ دیر بعد ہی بند ہو گیا۔۔ اسے آج کی رات اپنی زندگی کی خوش ترین رات لگ رہی تھی۔۔
***
رات کی کالی تاریکی میں وہ پر سکون سوئی ہوئی تھی بچوں کی سی معصومیت اس کے چہرے سے چھلک رہی تھی اور کیوں نہ خوش ہوتی آج پورا بیڈ اس کا تھا۔۔
وہ کروٹ کے بل سوئی تھی جب اسے اپنی گردن پہ ہاتھوں کا لمس محسوس ہوا۔۔ اپنا وہم سمجھ کر وہ سونا چاہتی تھی جب ہاتھوں کا لمس ہونٹوں کے چھونے میں تبدیل ہو گیا۔۔
اس نے فٹ سے اپنی آنکھیں کھولیں۔۔ مگر اس کے آنکھیں کھولتے ساتھ ہی عرش میر نے اس کی گردن کو اپنے دانتوں میں دبوچا۔۔ پکڑ اتنی مضبوط تو نہ تھی کہ کوئی زخم ہوتا پر اتنی نرم بھی نہ تھی کہ اسے تکلکف نہ ہوتی۔۔
سی۔۔ ہلکی چھبن کے احساس سے اٹھ کر اس نے عرش میر کو پیچھے کرنا چاہا۔۔ مگر وہ آج اسے ذہنی ٹارچر سے کچھ ذیادہ دینے پہ مائل تھا۔۔
خان پلیز۔۔ اپنے آنسوؤں کو روکتی وہ اسے پیچھے کرنے کی جدوجہد میں ہلکان ہو رہی تھی۔۔
کیا پلیز۔۔ اس کے بازو کو سختی سے دبوچ کر وہ غصے سے بھری آنکھوں سے پوچھ رہا تھا۔۔
ایسا مت کریں۔۔ مجھے یوں پامال نہ کریں۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی کچھ ضدی آنسوؤں کے قطرے آنکھوں سے نکل ہی آئے تھے۔۔ آخر نکلتے کیسے نہ۔۔ آج سوال اس کی عزت کا تھا۔۔
اس کی بات وہ ہنسا۔۔ استہزئیہ ہنسی۔۔ جیسے اس کی بات کا مذاق اڑا رہا ہو۔۔
یوں فرمائشیں من چاہی بیویاں کرتی ہیں مسز عرش میر خان۔۔ لیکن تم من چاہی نہیں ہو۔۔ تم ایک خون بہا میں آئی لڑکی ہو۔۔ اور خون بہا میں آئی لڑکی کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔۔ یہ بات تمہیں اب تک سمجھ آ جانی چاہئے ۔۔
اس کو اپنی مضبوط مگر سخت حصار میں بھینچتا وہ اسے مکمل طور پہ قید کر چکا تھا۔۔ ایسا حصار جس میں نرمی کا شائبہ تک نہ تھا۔۔
روشم نے اپنے آنسوؤں کو روکنے کے لیے اپنے ہونٹوں کو دانتوں میں دبا لیا۔۔ جتنی سختی وہ اس پہ ڈھا رہا تھا اتنی ہی سختی سے وہ اپنے ہونٹوں کو دانتوں سے کاٹ رہی تھی۔۔ یہاں تک کہ نرم ہونٹوں سے خون کی دھاریاں نکلنا شروع ہوگئی تھی۔۔ مگر سامنے والے کو کیا پروا تھی۔۔
***
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...