تیسرا ایکٹ
(سین: وہی جو پہلے ایکٹ میں تھا یعنی لاہور میں ایک سجی ہوئی انگریزی وضع کی کوٹھی۔ پہلے اور دوسرے ایکٹ کا درمیانی وقفہ پندرہ منٹ ہے۔ نازلی بیگم آنکھیں ملتی ہوئی کوچ سے اٹھ بیٹھتی ہے اور چاروں طرف گھبرائی ہوئی نظر ڈالتی ہے۔ اس کے چہرے کی مایوسی تعجب سے، تعجب بے اعتباری سے اور بے اعتباری اطمینان سے بدل جاتی ہے۔)
نازلی بیگم: خدا کا شکر ہے کہ یہ محض ایک خواب پریشان تھا۔ (یوسف کے خط کے پرزے پرزے چاروں طرف بکھرے ہوئے پاتی ہے) مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے اسے چاک کیا ہو۔ البتہ ململ کی ساڑھی کو جو میں خواب میں پہنے ہوئے تھی میں نے ضرور پھاڑا تھا۔ ململ کی ساڑھی! (نفرت کے لہجہ میں) میں نے کبھی نہیں پہنی اور نہ کبھی پہنوں گی۔ شکر ہے کہ ابھی تک نکاح کی زنجیر میرے پاؤں میں نہیں پڑی اور اس سے بھی بڑھ کر شکر کا مقام یہ ہے کہ وہ چار ڈراؤنے بچے میرے نہیں ہیں۔ اگرچہ عائشہ کی شکل ضرور پیاری تھی۔ پریس ایکٹ اور اردو اخباروں کی حالتِ زار کے مباحث پڑھنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے۔ پھر بھی اگر یوسف کے ساتھ شادی کرنے سے میرا یہی حشر ہونے والا ہے تو میں نے فیصلہ کر لیا۔ (گھنٹی بجاتی ہے)
دل افروز: کیا حضور نے گھنٹی بجائی تھی؟
نازلی بیگم: ہاں۔ یہ چا کی کشتی اٹھا کر لے جاؤ۔ اور سنو۔ آنریبل مسٹر محمد اسلم آئیں تو انھیں یہاں لے آنا اور کوئی صاحب آئیں تو کہہ دو کہ مجھے فرصت نہیں۔
دل افروز: لیکن بیوی! مجھے خیال پڑتا ہے کہ آپ نے مجھ سے یہ فرمایا تھا کہ مسٹر محمد یو۔۔۔
نازلی بیگم: نہیں دل افروز، میں ان سے نہیں ملوں گی۔ سمجھی؟
دل افروز: جی ہاں حضور۔ خوب سمجھی۔
دل افروز چلی جاتی ہے۔
(دس دن بعد مسٹر محمد یوسف اپنے دفتر میں کوکب صبح کی اگلی اشاعت کے لیے لیڈر لکھنے بیٹھے ہیں جس کا موضوع یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت جارج خامس خلد اللہ ملکہم کی رونق افروزیِ ہند کی یادگار میں بہ تقریب جشن مبارک تاج پوشی قانون مطابع منسوخ ہو جانا چاہیے۔ لاکھ قلم کو دوات میں ڈبوتے ہیں، رہ رہ کر سر کھجاتے ہیں مگر نہ آمد کام دیتی ہے نہ آورد۔ دماغ طرح طرح کے پریشان کن خیالات کی جولانگاه بنا ہوا ہے۔ مجبور ہو کر قلم ہاتھ سے رکھ دیتے ہیں اور اپنے جی سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔)
مسٹر محمد یوسف: میں احمق تھا جو اس بے استطاعتی پر اپنے آپ کو نازلی بیگم کے قابل سمجھا۔ آج کل دنیا پر روپیہ کی حکومت ہے۔ نہ کوئی علم و فضل کو پوچھتا ہے، نہ كمال و لياقت کو۔ محمد اسلم میرے بوٹ کا تسمہ باندھنے کی قابلیت نہیں رکھتا۔ آنریبل ہونے پر اس کی لیاقت کی یہ کیفیت ہے کہ پرائمری تعلیم کو باغیانہ خیالات کا پیش خیمہ سمجھ کر ملک کے لیے مضر قرار دینے کی مضحکہ انگیز لغویت کا اقدام کرتا ہے۔ مگر چونکہ روپیہ والا ہے، اس لیے نازلی بیگم جھٹ اُس کے آغوش میں چلی جاتی ہے۔ میں ایسی بی بی سے باز آیا۔ مجھے میکالے اور ٹنی سن اور اسپنسر پڑھی ہوئی حریت پسند بی بی کی ضرورت نہیں جو اس اعلیٰ تعلیم پانے پر بھی اس درجہ کنیز زر اور غرض پرست ہو۔ مجھے تو وہی پردہ نشین اردو پڑھی ہوئی قرآن کی آیتوں کا مطلب سمجھی ہوئی بی بی چاہیے جو میری شریک رنج و راحت ہو سکے اور میرے دال دلیے کو پلاؤ قلیہ سمجھنے کی قابلیت رکھتی ہو۔
(پردہ گر پڑتا ہے۔)
نوٹ: مندرجہ بالا قصہ اگرچہ اوریجنل نہیں ہے لیکن قرین قیاس ضرور ہے۔ ان آخری مشہور و معروف ضمانت طلبیوں سے ہی کسی ایڈیٹر کا حال محمد یوسف کا سا ہو گیا ہو تو ہمیں کیا معلوم۔ ہز اکسیلنسی لارڈ ہارڈنگ بہادر (جنھوں نے قضیہ کانپور کو ختم کر کے ایک چوتھائی ہندوستان کیوں، کل ہندوستان کے دلوں کو موہ لیا ہے) کاش اس پریس ایکٹ کی طرف بھی توجہ فرمائیں اور اپنے عہد کی یادگاروں میں اس کی تنسیخ کی یادگار بھی چھوڑتے جائیں تو بڑا کام کریں۔ یہ اوراق ہم نے حضور پر نور ہی کے ملاحظہ گرامی کے لیے شائع کیے ہیں۔ ان کا ترجمہ اُن کی نظر سے گذرے گا تو وہ یقیناً بے چین ہو جائیں گے۔ خدا ایسے رحیم و کریم ویسراے کو ہمارے سروں پر مدت تک رکھے اور ہر ادنیٰ اعلیٰ حاکم پر ان کا سایہ ڈالے۔
محمد الواحدی
ایڈیٹر نظام المشايخ دہلی
۲۵؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء