’’ ڈھلتی ہوئی دوپہر میں روہی کی تپش اپنے عروج پر تھی۔ ایسے میں کچی بستی سے باہر جنڈ کے بڑے درخت کی گھنی چھاؤں تلے میاں جی ایک چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ پہلے یہیں اچھی خاصی محفل جما کرتی تھی۔ لوگ میاں جی کے پاس آ جاتے اور گفتگو کا سلسلہ دراز ہو جاتا۔ لیکن سانول کے قتل ہو جانے کے بعد بہت ہی کم لوگ میاں جی کے پاس آتے تھے۔ یہاں تک کہ اب وہ سارا د ن تنہا ہی ہوتے۔ صرف نماز پڑھنے مسجد جاتے۔ مغرب ہو جانے کے بعد عشاء تک وہیں رہتے اور پھر مسجد سے ملحقہ حجرے میں چلے جاتے۔ اکثر وہ اپنی شب مسجد میں ہی گزارتے تھے۔ رزق کے معاملے میں وہ بہت قناعت پسند تھے۔ مل گیا تو الحمد اللہ۔۔۔ نہ ملا تو سبحان اللہ۔ بس یہی سلسلہ چل رہاتھا کہ چند دنوں سے ایک چھوٹا سا بچہ آتا اور انہیں دوپہر کے وقت کھانا دے کر چلا جاتا۔ پہلے دن انہوں نے پوچھا تھا کہ یہ کھانا کس نے بھجوایا ہے تو اس بجے نے صرف اتنا کہا تھا ’’ مہرو نے‘‘ پھر ا س کے بعد انہوں نے اگلا سوال نہیں کیا تھا۔ ۔ تاہم انہوں نے اس پر بہت کچھ سوچا تھا کہ آخر مہرو کے دل میں کیا آئی تھی کہ اس نے ایسا کیا۔ اس دوپہر بھی وہ لاشعوری پر اس بچے کے انتظار میں تھے جو ابھی تک نہیں آیا تھا۔ عصر ہو جانے میں ابھی تھوڑا وقت باقی تھا۔ انہی لمحات میں انہیں دور سے مہرو آتی ہوئی دکھائی دی۔ لمحہ بہ لمحہ ، قدم بہ قدم وہ انہی کی جانب بڑھ رہی تھی یہاں تک کہ وہ ان کے پاس آ گئی اور بڑے ادب سے سلام کیا۔ میاں جی نے سلام کا جواب دے کر اسے دعائیں دیں تو اس نے کھانے کی پوٹلی آگے کردی۔
’’ میاں جی۔۔۔ آپ کے لئے۔‘‘
’’ آج وہ بچہ کیوں نہیں آیا۔‘‘ میاں جی نے پوٹلی پکڑتے ہوئے کہا۔
’’ اس لئے کہ آج میں نے آپ کے پاس آنا تھا۔ میں نے آپ سے باتیں کرنی ہیں۔‘‘ مہرو نے دھیمے لہجے میں ادب سے کہا۔
’’ باتیں۔۔۔؟‘‘ میاں جی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے عام سے لہجے میں کہا۔ چند لمحے سوچتے رہے اور پھر بولے۔’’ کیسی باتیں کرنی ہیں۔ بیٹی مہرو؟‘‘ یہ کہتے ہوئے میاں جی نے کھانے کی پوٹلی ایک جانب رکھ دی۔
’’ میاں جی۔۔۔ کوئی ایک بات تو ہے نہیں، آپ کو پتہ ہے نا کہ بندے کی سوچیں کتنی ہوتی ہیں۔ اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی، اچانک یہ سب ہو گیا۔ کتنا کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا۔ اب تو باتیں ہی رہ گئی ہیں نا۔‘‘ مہرو نے رندھے ہوئے گلے سے غم ناک لہجے میں کہا۔
’’ہاں بیٹی۔۔۔ تو ٹھیک کہتی ہے۔ قصور کسی کا بھی نہیں لیکن نفرتیں اس کچی بستی میں ہی نہیں، اس پورے علاقے میں اپنا آپ منوا رہی ہیں جب ظلم، خوف اور خود غرضی کی ہوائیں چل رہی ہوں تو وہاں نفرت پھیل ہی جاتی ہے۔‘‘ میاں جی نے دکھ بھرے انداز میں کہا تو مہرو بولی۔
’’میاں جی۔۔۔ کسی کا کیا گیا، زندگی تو میری تباہ ہو گئی۔ سانول کی محبت نے تو میرے دامن میں سارے زمانے کی نفرتیں ڈال دی ہیں۔ سانول تو چلا گیا لیکن میں زندہ ہوں مگر شاید یہ زندگی موت سے بھی بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔‘‘
’’حوصلہ رکھو مہرو۔۔۔ اللہ سائیں نے سب ٹھیک کر دینا ہے۔ کیا تمہیں اس کا یقین نہیں۔ کیا تم اپنا سبق بھول گئی ہو؟‘‘ میاں جی نے اپنے لہجے کو پر عزم بناتے ہوئے مہرو کو تسلی دی۔
’’سبق تو سارے ہی بھول گئے ہیں۔‘‘ مہرو نے کھوئے ہوئے انداز میں کہا جیسے وہ کہنا کچھ چاہتی ہو لیکن کہہ کچھ رہی ہو۔ پھر چونکتے ہوئے بولی۔ ’’میاں جی۔۔۔ میں نے سوچا تھا کہ میں اس بستی کی ہی نہیں، اس پورے علاقے میں اکیلی پڑھی لکھی لڑکی ہوں گی۔ آپ جانتے ہیں کہ میں نے کس طرح حالات کا مقابلہ کیا ہے۔ مگر میاں جی۔۔۔ اس علاقے کی ہوائیں جو ہیں نا، اس میں کچھ ایسا زہر ہے جو۔۔۔‘‘
’’نہیں اتنا مایوس نہیں ہوتے بیٹی اور نہ ہی اتنا تلخ ہو جاؤ کہ تمہارے اپنے اندر نفرت کا زہر پھیل جائے۔ نہ۔۔۔ نہ میرا بچہ۔۔۔ میرا سبق نفرت تو نہیں ہے۔‘‘
’’پھر میرے ساتھ ہی نفرت کیوں۔۔۔؟ میری سگی خالہ نے منگنی توڑ کر مجھے دھتکار دیا۔ میری بھائی رب نواز نے اپنی غیرت میں آ کر سانول کا قتل کر دیا۔ میں نے اسے نہیں کہا تھا کہ وہ سانول کو قتل کر دے۔ سانول مجھے اغوء کر کے لے گیا، تو لوگ طعنے مہنے دیتے ہیں کہ میں جان بوجھ کر بھاگی تھی اور ایک رات۔۔۔ محض ایک رات اس کے ساتھ ویرانے میں رہنے کا خمیازہ شاید اب میں ساری زندگی بھگتوں گی۔ حالانکہ سانول نے ایک بار بھی میلی آنکھ سے میری طرف نہیں دیکھا۔‘‘ مہرو یہ کہتے ہوئے رو دی تو میاں جی نے کہا۔
’’مہرو۔۔۔ یہ جان لو کہ جو کچھ کسی کے پاس ہوتا ہے نا، وہ وہی دے سکتا ہے نا، ان کے پاس نفرت کے سوا کچھ نہیں تو وہ نفرت ہی دیں گے۔‘‘
’’مگر میاں جی۔۔۔ میرے پاس تو محبت بھی نہیں ہے۔‘‘ مہرو نے انتہائی دکھ سے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ تبھی میاں جی نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’کوئی اگر تم سے بہت زیادہ محبت کرتا ہو تو کیا تم اس کی محبت کا جواب محبت سے نہیں دو گی۔‘‘ میاں جی نے کہا تو مہرو چونک گئی۔ اس نے انتہائی حیرت سے پوچھا۔
’’کون ہے جو مجھ سے محبت کرتا ہے۔‘‘
’’اللہ سائیں۔۔۔‘‘ میاں جی نے کہا اور پھر لمحہ بھر مہرو کے رنگ بدلتے چہرے کی طرف دیکھ کر کہا۔ ’’کیا تم اللہ سائیں سے محبت کرو گی تو اس یقین کے بعد دنیا بھر کی نفرت تمہارے سامنے کیا حیثیت رکھے گی۔ اس کا تصور کر سکتی ہو تم۔۔۔؟‘‘ میاں جی کے لہجے میں کچھ ایسا تھا کہ جس سے مہرو پوری جان سے لرز گئی۔ اس سے ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔ کتنی ہی دیر تک وہ یونہی خاموش رہی تو میاں جی کہتے چلے گئے۔ ’’مہرو بیٹی۔۔۔ ہمیں اور ہمارے اردگرد انسانوں کو اپنے بارے میں پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ کیا ہیں، ان کا اصل مقصد کیا ہے، یہاں اس دنیا میں آنے کا۔ اک سیدھی سی بات اپنے ذہن میں رکھو۔ اگر ہم ایک چھوٹی سی شے بھی بناتے ہیں نا تو اس کا ایک مقصد ہوتا ہے۔ اب انسان کی تخلیق اللہ سائیں نے کی ہے تو اس کا مقصد تو ہے۔ کیا ہے؟ بحث اس سے نہیں، بات اصل یہ ہے کہ جب ہم اس کی طرف رجوع کریں گے تو ہی وہ ہمیں اپنے مقصد کی جانب خود بخود بھیج دے گا۔‘‘
’’تو میاں جی۔۔۔ میں بھی کسی مقصد کے لئے یہاں اس دنیا میں ہوں۔‘‘ مہرو نے حیرت سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ کسی بھی عمارت میں ہراینٹ پوری عمارت نہیں ہوتی، مگر پوری عمارت کا وجود انہیں اینٹوں کی وجہ سے ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کون سی اینٹ کہاں لگی۔ عظیم عمارتوں میں اینٹیں بھی بہت اچھی لگتی ہیں۔ کچی، ادھ پکی اینٹ عظیم عمارتوں کے لئے نہیں ہوتیں۔ اس وقت جو صورت حال ہے، تم اسے جس نگاہ سے دیکھو، مگر مجھے یقین ہے کہ یہ حالات کسی عظیم عمارت کی تخلیق کی طرح ہیں۔ جس میں تم اور میں کسی اینٹ کی مانند ہیں۔ یہ فیصلہ وقت نے کرنا ہے، تمہاری جگہ کہاں تھی اور میری جگہ کہاں اور یہ بھی ممکن ہے عمارت بنانے والا مہندس ہمیں قبول ہی نہ کرے۔‘‘ میاں جی نے دھیرے دھیرے اسے سمجھاتے ہوئے کہا تو وہ بولی۔
’’کیا ہم اتنے ہی مجبور محض ہیں۔‘‘
’’یہ تو ہم سمجھتے ہیں نا، بات تو راضی بہ رضا ہونے کی ہے اور اس کا صحیح عمل یہ ہے کہ بس خود کو قبول ہو جانے کے قابل بنانے کے لئے کوشش کرتے رہنا۔‘‘ میاں جی نے حتمی سے انداز میں کہا تو مہرو سوچوں میں کھو گئی جیسے میاں جی نے کوئی گتھی اس کے سامنے رکھ دی ہو اور وہ اسے فوراً ہی نہیں سلجھانا چاہتی ہو۔ اک تصور جو اس کے ذہن میں بن گیا وہ ابھی تک اسی میں الجھی ہوئی تھی۔ کوئی ایک ایسی بات تھی جو وہ کہنا چاہتی تھی لیکن اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہنا ہے۔ اسے اپنا وجود بے وزن محسوس ہونے لگا تھا۔ اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ سوچ کس قدر طاقتور ہوتی ہے، وہ نہ صرف اس وجود کو بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جس میں یہ ہوتی ہے بلکہ باہر کی دنیا کو بھی تبدیل کر دینے کی قوت رکھتی ہے۔ روہی کی اس کچی بستی میں رہنے والی جو ابھی اپنا سبق بھی اٹک اٹک کر پڑھتی تھی۔ اسے شعور ہی نہیں تھا کہ ابھرنے والی سوچ کے ساتھ اس میں تبدیلی کا عمل کس حد تک شروع ہو گیا ہے۔ سوچ تو وہ احساس کی لہر ہے جو شعور کو وجود دینے قوت رکھتی ہے۔ یہ ساری باتیں تو عالموں کے مباحث میں واضح ہو کر سامنے آتی ہیں۔ لیکن انسانی وجود میں تو فطری معاملات چلتے رہتے ہیں۔ وہ انسانی وجود شعور رکھتا ہو یا نہ ر کھتا ہو۔ مہرو بھی کچھ ایسے ہی عمل سے گزر گئی۔ اک احساس تھا جو پورے وجود پر اپنے اثرات دکھا رہا تھا۔ مگر اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ سب کیا ہے؟ وہ تو اس بات کی تلاش میں تھی جو کہنا چاہتی تھی لیکن اسے پتہ نہیں تھا کہ وہ کیا بات ہے۔ تب اچانک اس نے کہا۔
’’میاں جی۔۔۔ کیا علی کا یہاں آنا اور پھر چلے جانا بھی کسی ایسے مقصد۔۔۔‘‘ اس نے الجھے ہوئے انداز میں پوری بات کہنا چاہی لیکن صحیح طرح سے کہہ نہیں پائی۔ تب میاں جی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ممکن ہے ایسا ہی ہو۔۔۔ اور یہ بھی ممکن ہے نہ ہو۔۔۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے وہ دوبارہ کبھی ادھر کا رخ نہ کرے اور ہو سکتا ہے وہ آ جائے۔۔۔ بیٹی۔۔۔ میں نے کہا ہے نا کہ حالات گزرتے چلے جاتے ہیں اور یہ وقت فیصلہ کرتا ہے کہ کون ، کس جگہ کیا تھا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہوئے، مہرو الجھی رہی۔ تب انہوں نے کہا۔
’’زیادہ دماغ پر بوجھ مت ڈالو۔ تمہیں سب سمجھ میں آ جائے گا۔ بس اللہ سائیں سے اپنے غم کہو۔ اللہ سائیں سے کہو کہ ربا تو ہی میرے حال کا محرم ہے۔ وہ سارے معاملات ٹھیک کر دینے والا ہے۔ وہ قادر ہے۔ سب ٹھیک ہو جائے گا بیٹی ۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ میاں جی نے کہا تو مہرو اٹھتے ہوئے بولی۔
’’میاں جی۔۔۔ میں اب چلتی ہوں۔ میرے لئے دعا کیجئے گا۔‘‘
’’تم اپنے لئے سب سے اچھی دعا کر سکتی ہو۔ اللہ سائیں سے ساری باتیں کر لو۔۔۔‘‘ میاں کے یوں کہنے پر مہرو نے ان کی طرف دیکھا اور پھر بنا کچھ کہے وہاں سے چل دی اور میاں جی نجانے کیا سوچنے لگے۔
*۔۔۔*۔۔۔*
تھکا ہوا پیر سیدن شاہ اپنے اس کمرہ خاص میں آ بیٹھا جو جدید طرز پر سجا ہوا تھا اور اس میں چند مخصوص لوگوں کے علاوہ کسی کو اندر آنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہ صوفے پر پھیل کر بیٹھا ہوا تھا اور اس کا مرید خاص پیراں دتہ مؤدب انداز میں اس کے سامنے کھڑا تھا۔
’’پیر سائیں۔۔۔ لگتا ہے کہ آج آپ بہت تھک گئے ہیں۔‘‘ پیراں دتہ نے ادب سے اس کے چہرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو پیر نے خیالوں میں کھوئے ہوئے لطف لینے والے انداز میں کہا۔
’’ہاں۔۔۔ تھکن تو بہت ہو گئی ہے لیکن مزاؔ بھی تو بہت آیا ہے نا شکار کا۔‘‘
’’سائیں۔۔۔ کتے بھی میں نے بہت شوق سے پالے ہیں۔ بڑی محنت کی ہے ان پر۔‘‘ پیراں دتہ نے داد طلب نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے ہنکارہ بھرا پھر بولا۔ ’’ٹھیک ہیں۔۔۔ مگر وہ۔۔۔ کیا نام ہے اس کا، ہاں۔۔۔ بھورل۔۔۔ وہ تو مجھے آج بیمار سا لگا ہے، اس میں پہلے والی تیزی نظر نہیں آئی پیراں د تہ۔۔۔؟‘‘
’’سائیں۔۔۔ وہ بھورل بیمار نہیں ہے، ویسے ہی وہ زیادہ عمر کا ہو گیا ہے۔‘‘ پیرادتہ نے دھیمے سے انداز میں کہا تو سیدن شاہ انتہائی نخوت سے بولا۔
’’تو پھر کیوں رکھا ہوا ہے اس کو۔ ختم کر دو اسے اور اس کی جگہ کوئی نیا نسل دار کتا لاؤ۔ تمہیں تو پتہ ہے پیراں دتہ جو شے ہمارے کام کی نہ رہے ہم اسے اپنے پاس برداشت نہیں کرتے۔‘‘
’’جی سائیں۔۔۔ میں آج ہی ا سے گولی مار دوں گا۔‘‘ اس نے جلدی سے کہا۔ اتنے میں ایک ملازمہ نے باہر دروازے پر دستک دی۔ پیراں دتہ فوراً اس طرف لپکا اور پھر مشروبات کی ٹرے ہاتھوں میں اٹھائے واپس آ گیا۔ اس نے ایک گلاس بھرا اور سیدن شاہ کو دیتے ہوئے کہا۔
’’سائیں۔۔۔ نئے کتے سے مجھے یاد آیا۔ وہ رب نواز کے بارے میں آپ نے کیا سوچا ہے؟‘‘
’’وہ۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا اور پھر گلاس سے گھونٹ بھرنے کے بعد بولا۔ ’’تمہارے خیال میں کیسا بندہ ہے وہ۔۔۔؟‘‘
’’ہے تو کام کی چیز۔۔۔ لیکن اس میں اکڑ بہت ہے۔ بہادرہے، جی دار ہے، لیکن اپنی من مرضی کرنے والاہے۔ اسے اپنے انداز میں لانے پر تھوڑی محنت کرنا پڑے گی۔‘‘ پیراں دتہ کویہ سوجھ نہیں رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ رب نواز کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے تھوڑا لڑکھڑا گیا تھا۔ سیدن شاہ نے اس کی طرف دیکھا اور گلاس خالی کرتے ہوئے کہا۔
’’اگر وہ کام کا ہے تو ٹھیک ہے، ورنہ اسے حویلی کے قریب بھی نہ بھٹکنے دینا۔ وہ جو شہری لڑکا علی تھا، اس کے پیچھے اگر پولیس آ سکتی ہے تو رب نواز نے پھر بھی قتل کیا ہے۔ اس کا معاملہ سیدھا نہیں ہے۔ میں علاقے میں تھوڑی بہت بے چینی محسوس کر رہا ہوں۔‘‘
’’جی سائیں۔۔۔ میں نے سنا ہے کہ خان محمد بھی سر اٹھا رہا ہے، پولیس اس رات اس کے ڈیرے پر سے ہو کر گئی ہے۔‘‘ پیراں دتہ نے جلدی سے کہا۔
’’تو پھر۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے سوچتے ہوئے کہا، چند لمحے یوں خاموش رہا اور پھر بولا۔ ’’کوئی کچھ کرتا بھرے، رب نواز نے سانول کو قتل کیا ہے اور اس کا مدعی کوئی نہیں۔ صرف وہ مائی فیضاں ہی ہو سکتی ہے۔ اگر ہوئی تو۔۔۔ تم کسی وقت اسے سمجھا دینا۔ ویسے اس کی بھی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’پیر سائیں۔۔۔ گستاخی معاف ہو تو اک بات کہوں۔‘‘
’’بولو۔۔۔‘‘ سیدن شاہ نے اس کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’میں نے کبھی آپ کو ایسے چھوٹے موٹے قتل پر پریشان ہوتے نہیں دیکھا۔ یہ معاملہ ہمارے بارے میں بھی نہیں لیکن پھر بھی۔۔۔‘‘ اس نے فقرہ جان بوجھ کر ادھورا چھوڑ دیا۔ جس پر سیدن شاہ نے اس کی طرف دیکھا اور پھر اسے سمجھاتا ہوا بولا۔
’’یہ معاملہ اس طرح نہیں ہے، جس طرح تم سمجھ رہے ہو۔ پہلی بار پولیس نے میری حویلی میں قدم رکھا ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بات صرف قتل کی نہیں، اس علاقے پر ہماری حکومت کی ہے۔‘‘
نا سائیں نا۔۔۔ اس علاقے پر سے آپ کی حکومت کبھی ختم نہیں ہو سکتی، کس میں اتنا دم خم ہے اور آپ کے مرید ہی اتنے ہیں کہ آپ پر کوئی آنچ آنے سے پہلے وہ اپنی جان دے دیں گے۔ وہ تو شہری لڑکے کی وجہ سے یہاں آ گئے۔ ظاہر ہے آپ کی اجازت کے بغیر۔۔۔‘‘
’’نہیں پیراں دتہ نہیں۔۔۔ اس پولیس آفیسر کی آنکھ کو تم نے نہیں دیکھا، میں نے دیکھا ہے۔ ا س کے لہجے میں آگے کی تپش تھی اور یہ آگ یونہی نہیں تھی اسے جلانے والا کوئی اور ہے۔ خان محمد یونہی سر نہیں اٹھا رہا۔۔۔ ‘‘ یہ کہتے ہوئے خاموش ہو گیا۔ پھر سر اٹھا کر بولا۔
’’خیر۔۔۔ جتنا بڑا طوفان بھی آ جائے ہم میں اتنی طاقت ہے کہ اسے روک سکیں۔ مگر تم علاقے پر اب گہری نگاہ رکھو۔۔۔ کون کیا کر رہا ہے، یہ معلوم ہونا بہت ضروری ہے۔‘‘ سیدن شاہ نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’جی سائیں۔۔۔جیسے حکم سائیں کا۔‘‘ پیراں دتہ نے تقریباً جھکتے ہوئے کہا۔ ’’آپ سے زیادہ کس کی نظر ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔۔۔ اب تم جاؤ۔۔۔ اور مجھے تنہا چھوڑ دو۔‘‘ سیدن شاہ نے کہا اور نیم دراز سا ہو کر سوچنے لگا۔
پیراں دتہ جا چکا تھا۔ اس کمرے میں گہری خاموشی تھی اور اس خاموشی میں سیدن شاہ سوچ رہا تھا کہ ایک طویل عرصے بعد اسے کسی مزاحمت کا سامنا ہو جانے کے آبار دکھائی دے رہے تھے۔ ورنہ جب سے وہ گدی نشین ہوا تھا۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اگر چہ وہ یہیں پلا بڑھا تھا لیکن جیسے ہی وہ سکول جانے کے قابل ہوا، اسے بہاول پور شہر میں نوکروں کے ساتھ بھیج دیا گیا۔ اس کا تعلیمی سفر چلتا رہا اور یہاں تک کہ وہ برطانیہ پڑھنے کے لئے چلا گیا۔ ان دنوں وہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد برطانیہ میں ہی رہائش رکھنے کا سوچ رہا تھا کہ اچانک اسے وہاں سے واپس آنا پڑا۔ وہ تمام وعدے جو وہ اپنی محبت سے کر چکا تھا وہیں اس محبت کے ساتھ ہی رہ گئے۔ جدائی کی کسک اور اپنی محبت سے ڈھیر سارے وعدے کر کے وہ اپنے آبائی علاقے میں آ گیا۔ یہاں آتے ہی اسے پتہ چلا کہ اس کا باپ شدید علیل ہے، چند دنوں میں چل چلاؤ ہے اور انہی چند دنوں میں نہ صرف خاندان میں اس کی شادی کر دینے کی کوشش کی گئی لیکن وقت نے اجازت نہیں دی۔ اس کے باپ نے اپنی زندگی میں ہی اسے اپنی گدی پر بٹھا دیا۔ برطانیہ کا تعلیم یافتہ شخص، اپنی خاندانی روایات اور جائیداد کے لئے سب کچھ من و عن مانتا چلا گیا۔ کچھ ہی ہفتوں میں اس کا باپ اگلے جہاں سیدھار گیا تو تمام تر اختیارات اس کے پاس آ گئے۔ تب اسے پتہ چلا کہ جہاں وہ اس علاقے پر حکومت کا اختیار رکھتا ہے۔ ایک روحانی پیشوا کی حیثیت سے اس کا وجود تسلیم کر لیا ہے۔ وہاں وہ اپنی روایات اور خاندانی معاملات میں جکڑ کر رہ گیا ہے۔ لیکن محبت کی کسک اس کے دل میں رہی اور وہ واپس برطانیہ چلا گیا۔ اس کی محبت اس کے انتظار میں تھی۔ اس نے تمام تر معاملہ اس کے سامنے رکھا۔ وہ وہیں مقیم رہنے اور اس سے شادی کرنے پر رضا مند ہو گی۔ یوں سلسلہ چلتا رہا۔ سال میں فقط دو ماہ برطانیہ اور باقی یہیں گزارتا ہوا وہ زندگی کی راہ پر چلتا رہا۔ برطانیہ میں ان کے دو بچے جن میں ایک لڑکی اور دوسرا لڑکا تھا پرورش پاتے رہے۔ وہ اپنی ازدواجی زندگی سے مطمئن رہا لیکن طاقت نے اسے اپنی راہ پر چلایا۔ طاقت وہ جادوہے جو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ ایک روحانی پیشوا کی حیثیت سے جو عزت ، مرتبہ اور مقام اسے مل رہا تھا۔ وہ اسے دنیا کے کسی کونے میں بھی نصیب نہیں ہو سکتا تھا۔ ابرو کے اشارے پر حکم کی تعمیل ، لوگوں کی زندگیوں کے فیصلے اور من مرضی جس کے آگے کوئی بولنے والا نہیں تھا۔ اسی طاقت کے احساس نے اسے یہیں رہنے پر مجبور کر دیا۔ روحانی پیشوا، جاگیر دار اور سیاست دان کی تکون نے اس کی شخصیت میں جہاں سختی پیدا کر دی تھی، وہاں طاقت کے حصول کی ہوس مزید بڑھ گئی تھی۔ وہ کسی ایسے عنصر کو برداشت ہی نہیں کرتا تھا جس کے بارے میں اسے معمولی سا بھی شک ہو کہ وہ اس کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس نے زندگی میں بے شمار غلطیاں کی تھیں لیکن مزاحمت نہ ہونے کے باعث وہ ہمیشہ سے یہ ایک خاص ڈکر پر چلتا چلاآ رہا تھا۔
وہ مسلسل اس معمولی سے واقعے پر سوچ رہا تھا، جس کے پیچھے اسے خطرے کی بو محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اس الجھن میں پھنسا ہوا تھا کہ اس خطرے کو پنپنے سے پہلے ہی ختم کر دے یا پھر اسے آخری حد تک جانے دے تاکہ اسے معلوم تو ہو کہ یہ سب کہاں سے اور کیسے ہو رہا ہے۔ یا پھر سرے سے اس کی اہمیت ہی نہیں ہے؟ وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ تھکے ہوئے اعصاب نے اس کا د ماغ ماؤف کر کے رکھ دیا تھا۔ اس لئے یہی سوچیں دھندلی ہوتی چلی گئی اور وہ خوابوں میں ڈوبا چلا گیا۔ نجانے کب اسے نیند آ گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
تپتی ہوئی دوپہر میں، صحن کے درمیان لگے درخت کے نیچے جھلنگا سی چارپائی پر بیٹھی اماں فیضاں مسلسل سوچتی چلی جا رہی تھی۔ اسے ایک فیصلہ کرنا تھا جو اس کی زندگی کا مشکل ترین مرحلہ تھا۔ ایک طرف اس کا وہ بیٹا تھا جو اب اس دنیا میں نہیں رہا تھا اور دوسری جانب وہ بیٹا جو ابھی لڑکا تھا، جس نے ابھی دنیا دیکھنا تھی اور وہی اس کا واحد سہارا تھا۔
شاید وہ سانول کی موت کو تقدیر کا لکھا ہوا سمجھ کر صبر کر لیتی، لیکن پرسکون ہوتی ہوئی جھیل میں خان محمد نے پتھر آن مارا تھا۔ وہ بھیرے کے ساتھ ریوڑ چراتے ہوئے ببول کے ایک درخت کے نیچے بیٹھی سستا رہی تھی کہ اس کے پاس خان محمد کی بڑی ساری جیپ آن رکی اور اس میں سے وہ نکلا تو اماں فیضاں اسے پہچان پائی، اس کے گارڈ کافی دور کھڑے رہے جبکہ وہ اماں فیضاں کے پاس وہیں زمین پر آن بیٹھا تھا۔ کچھ دیر حال احوال لینے کے لئے اس نے کہا۔
’’اماں۔۔۔ یہ نہیں پوچھے گی کہ میں تمہارے پاس کیوں آیا ہوں؟‘‘
اس کے یوں کہنے پر اماں نے قدرے حیرت سے کہا۔
’’خان محمد کیا تو میرے پاس آیا ہے۔ میں تو سمجھی تھی کہ ادھر سے گزر رہے تھے اور۔۔۔‘‘
’’اماں۔۔۔ میں سخت شرمندہ ہوں کہ میں سانول کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکا۔ اس کی بہت وجوہات تھیں۔ کیا تھیں،میں اس بحث میں نہیں پڑتا لیکن جو رب نواز نے سانول پر، تم اور بھیرے پر ظلم کیا ہے، وہ میرے ضمیر پر ایک بوجھ کی صورت بنتا چلا جا رہا ہے۔‘‘
’’میں سمجھی نہیں تم کیا کہنا چاہتے ہو۔‘‘ اماں نے پوچھا۔
’’میں کہنا یہ چاہتا ہوں اماں کہ رب نواز نے یہ جو ظلم کیا ہے اس کی سزا اسے ملنی چاہیے۔‘‘ خان محمد نے جذباتی انداز میں کہاتو اماں ایک دم سے گھرا گئی۔
’’یہ کیا کہہ رہے ہو تم ، کیا تمہیں نہیں پتہ کہ وہ اس وقت سیدن شاہ کے پاس ہے، اس کی پناہ میں ہے؟‘‘
’’پتہ ہے، جانتا ہوں میں، لیکن کیا پیرسیدن اس علاقے کا ان داتاہے، اماں کیا تم نہیں چاہتی ہو کہ سانول کے خون کا بدلہ لیا جائے۔ اور وہ قاتل پورے علاقے میں دندناتا پھرے۔۔۔ کیسی ماں ہو تم۔۔۔ اپنے جگر کے ٹکڑے کے قاتل کو اپنی نگاہوں کے سامنے پھرتا ہوا دیکھتی رہو گی۔‘‘ خان محمد نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا۔
’’میں ماں ہوں خان محمد۔۔۔ کوئی نہیں دیکھ سکتا کہ میرے سینے میں کیسی آگ بھڑک رہی ہے یہ تو ایک ماں ہی اندازہ لگا سکتی ہے کہ وہ جس بیٹے کے سر پر سہرا سجانے جا رہی ہے، اسی کو کفن پہنانے پر مجبور ہو جائے۔ میرا تو یہ جی چاہتا ہے ہے کہ میں اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں۔‘‘ اماں فیضاں کے اندر کی آگ اچانک بھڑک اٹھی تو بگولوں کی صورت لفظ اس کے منہ سے نکلتے چلے گئے۔
’’میں سمجھتا ہوں اماں کہ تم ایسا کیوں نہیں کر پا رہی ہو۔ مت ڈرو، میں دوں گا تمہارا ساتھ۔‘‘
’’لیکن خان محمد۔۔۔ جب تک سیدن شاہ کا سایہ اس پر قائم ہے، کوئی بھی اس کاکچھ نہیں بگاڑ سکتا، تو پھر خواہ مخواہ دشمنی لینے کا فائدہ۔ وہ میرے معصوم بھیرے کوبھی زندہ نہیں چھوڑے گا۔‘‘ اماں فیضاں نے ڈرتے ہوئے کہا۔
’’اماں۔۔۔اب حالات وہ نہیں رہے ، بس تمہاری ہاں چاہیے، میں دیکھ لوں گا سب کو، وہ چاہے رب نواز ہے یا پھر سیدن شاہ۔‘‘ خان محمد نے غراتے ہوئے کہا جیسے ان دونوں میں سے کوئی بھی اس کے سامنے ہوا تو وہ اسے چیرپھاڑ کر کھا جائے گا۔ اس پر اماں نے شاکی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔
’’کیاکرنا ہے مجھے ، میری ہاں کے بارے میں معلوم نہیں ہے تمہیں؟‘‘ اس کے لہجے میں بلا کا درد تھا۔ ایک لمحہ توقف کے بعد بولی۔‘‘ خان محمد تم ہی بتاؤ، میں مجبور لاچار عورت کیا کر سکتی تھی۔‘‘
’’اماں۔۔۔ جہاں تک ڈر خوف کی بات ہے، تو میرے پاس چل۔ کسی کی جرأت نہیں کہ تیری طرف آنکھ اٹھا کربھی دیکھے۔ تم مجبور نہیں ہو۔ تمہارے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ تم صرف پولیس کے سامنے جا کر ایک بار بیان دے دو۔ پرچہ کٹ جائے گا۔ پھر میں جانوں اور میرا کام۔۔۔‘‘ خان محمد نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ تب اماں سوچ میں پڑ گئی اور کچھ ہی لمحوں میں وہ پوری جان سے لرز گئی۔ جیسے تصور میں اس نے نجانے کیا تباہی دیکھ لی ہو۔ اسکا رنگ زرد پڑ گیا۔ خان محمد نے اس کی بدلتی ہوئی کیفیت کو دیکھا اور اسے حوصلے دیتے ہوئے بولا۔
’’اماں۔۔۔ تمہیں کچھ نہیں ہو گا۔ یہ فقط تیرے سانول کا ہی بدلہ نہیں ہو گا اور پتہ نہیں کتنوں کی زندگیوں سے کھیل چکے ہیں اور نجانے کب تک یہ ظلم کرتے رہیں گے۔ ان کے بارے میں سوچو۔ آئندہ یہ۔۔۔‘‘
’’بس پتر خان محمد بس۔۔۔ میری سوچ جواب دے گئی ہے۔‘‘
’’مجھے پتہ تھا اماں کہ تم فوراً فیصلہ نہیں کر سکتی ہو۔ سوچ لو، اچھی طرح سوچ لو، پھر جو تمہارا فیصلہ ہو گا مجھے بتا دینا۔‘‘ خان محمد نے کہا اور اٹھ گیا۔ اماں اسے جاتے ہوئے خالی خالی نگاہوں سے دیکھتی رہی۔ ایک لفظ بھی نہیں کہہ سکی۔ وہ چلا گیا
اگلے دن اس کی ہمت ہی نہیں پڑی کہ وہ ریوڑ کے ساتھ جا سکے۔ وہ ساری رات نہیں سو سکی تھی۔ صبح نور کے تڑکے ہی اس نے کھانا بنا کر بھیرے کو دے دیا اور وہ ریوڑ لے کر نکل گیا۔ تب سے وہ اکیلی بیٹھی یہی سوچے چلی جا رہی تھی کہ وہ کیا فیصلہ کرے۔ اسے کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا۔
بات یہ نہیں تھی کہ اسے خان محمد پر بھروسہ نہیں تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ سیدن شاہ کے مقابلے میں کھڑا ہو سکتا ہے لیکن اسے اتنا ہی یقین تھا کہ وہ زیادہ دیر تک اس کے مقابلے میں کھڑا نہیں رہ پائے گا۔ اماں فیضاں چاہے کچی بستی کی اجد اور ان پڑھ عورت تھی مگر یہ جانتی تھی کہ سیدن شاہ ہی نہیں اس کے بڑے بھی یہاں حکومت کرتے رہے ہیں۔ اتنی زندگی میں اس نے بہت کچھ دیکھ لیا تھا۔ ایک طرف یہی خوف تھا کہ اگر اس نے خان محمد کے کہنے پر سر اٹھا لیا تو نہ صرف وہ نہیں رہے گی بلکہ اس کا بیٹا بھیرا بھی اس کے ظلم کا شکار ہو جائے گا۔ تب سانول کا چہرہ اس کے سامنے آ جاتا۔ وہی سانول جو شادی سے بار بار انکار کر رہا تھا اور وہ زور دے کر اسے منا رہی تھی۔ اسے سب سے بڑا دیکھ یہی تھا کہ اس بستی کے لوگ جو سانول کی شادی پر تو خوشیوں میں شریک تھے لیکن اس کے جنازے میں فقط سیدن شاہ کے خوف سے شامل نہیں ہوئے۔ کیا سانول کا ان پر اتنا بھی حق نہیں تھا؟ جب یہ سوچتی تو بدلے کی آگ اور بھڑک اٹھتی۔ وہ اس قدر بے حال ہو جاتی کہ صبر و تحمل کا دامن اپنے ہاتھ سے چھوٹتا ہوا محسوس ہوتا۔ اس کا دل چاہتا کہ ہر ایک کا گریبان پکڑ کر پوچھے کیا تم مرنے والوں کو بھی معاف نہیں کر سکتے، سانول نے اتنا کیا ظلم کر دیا تھا کہ تم اس کی لاش تک سے اپنا بدلہ لیتے رہے۔ دوپہر بھی ڈھل گئی تھی اور اماں یونہی سوچوں میں کھوئی رہی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔ اس وقت میاں جی نے مسجد سے اذان کی صدا بلند کی تو اسے ہوش آیا۔ وہ اٹھی اور نماز کے لئے تیاری کرنے لگی۔
اس رات جب بھیرا اپنی ماں کے پہلو میں پڑی چارپائی پر آ کر لیٹا تو اماں فیضاں نے اس سے پوچھا۔
’’آج تو بہت تھک گیا ہو نا نا؟‘‘
’’نہیں اماں۔۔۔ مجھے کوئی تھکن نہیں ہوئی۔‘‘ بھیرے نے کچھ اس انداز سے کہا کہ ماں کا کلیجہ پھٹ گیا، کس قدر مجبوری تھی اس بات میں۔ تب اس نے انتہائی لاڈ سے پوچھا۔
’’کیوں بھیرا، کیوں نہیں ہوئی تھکن؟‘‘
’’اماں۔۔۔! مجھے پتہ ہے کہ اب یہ کام میں نے اکیلے ہی کرنا ہے تو پھر کیسی تھکن۔‘‘ بھیرے نے کہا تو اماں کے دل کو جیسے کسی نے پکڑ لیا ہو۔ کتنی ہی دیر تک وہ کچھ نہ بول سکی۔ تب بھیرے نے کہا۔ ’’اماں۔۔۔ آج مجھے بھولا سانول بہت یاد آیا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ اماں نے حیرت سے پوچھا۔
’’وہ آج رب نواز آیا تھا میرے پاس اور پوچھ رہا تھا کہ خان محمد کیا کرنے آیا تھا۔ میں نے جب کچھ نہیں بتایا تو اماں اس نے مجھے بڑی گالیاں دیں۔ ممکن ہے وہ مجھے مارتا لیکن اس کے ساتھ پیراں دتہ بھی تھا، اس نے روک دیا۔‘‘ وہ اپنی رو میں کہتا چلا گیا۔ تب اماں نے حیرت اور خوف کے ملے جلے لہجے میں کہا۔
’’اتنی بڑی بات ہو گئی اور تو مجھے اب بتا رہا ہے۔‘‘
’’تم کیا کر لیتی اماں۔۔۔ اگر میں تمہیں پہلے بتا دیتا۔ مجھے پتہ ہے کہ تمہیں دکھ ہوا ہو گا لیکن اگر نہ بتاتا تو شاید تمہیں اس سے بھی زیادہ دکھ ہوتا۔‘‘ بھیرے نے کہا تو اماں خاموش ہو گئی جیسے اس کے پاس کہنے کے لئے کچھ بھی نہ ہو۔ تب اس نے کہا۔ ’’اماں۔۔۔ بھالا علی ہمارے پاس تھا نا تو ایسی کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔ کیا اب وہ کبھی نہیں آئے گا۔‘‘
’’پتہ نہیں پتر۔۔۔ آئے گا بھی کہ نہیں۔ وہ ہم سے ناراض ہے، ہم نے ہی تو اسے یہاں سے بھیجا ہے۔ وہ کون سا جا رہا تھا۔‘‘
’’اماں۔۔۔ کہیں اسے بھیج کر ہم نے غلطی تو نہیں کی۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ وہاں شہر میں اس کا سب کچھ ہے۔ میں کسی ماں کے لعل کو اپنے پاس کیوں رکھوں، صرف اپنی مجبوریوں کے لئے، نہیں۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے بھیرے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دھیمے سے لہجے میں کہا۔ ’’تو فکر نہ کر میرا پتر۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے۔‘‘ اماں نے ایک عزم سے کہا تھا اور دھیرے دھیرے اسے تھپکنے لگی۔ سارے دن کا تھکا ہوا بھیرا جلد ہی سو گیا لیکن اماں کی آنکھوں میں نیند کا شائبہ تک نہیں تھا۔
اگلے دن جب بھیرے نے ریوڑ نکالا تو اماں فیضاں بھی اس کے ساتھ تھی۔ کچی بستی سے نکلنے کے بعد اماں ریوڑ کو ایسے راستے پر لے آئی جو خان محمد کی بستی کی طرف جاتا تھا۔ ایک خاص جگہ پر پہنچ کر اماں نے بھیرے سے کہا۔
’’تم یہاں ریوڑ چراؤ۔۔۔ میں ابھی آتی ہوں۔‘‘
’’کہاں جا رہی ہو اماں۔۔۔؟‘‘ بھیرے نے حیرت سے پوچھا۔
’’دیکھ کسی سے کہنا مت۔۔۔ میں خان محمد کے پاس جا رہی ہوں۔ اس سے وہی کچھ کہنے جو وہ ہمیں کہنے آیا تھا۔ بس مجھے آنے اور جانے میں وقت لگے گا۔ میں نے وہاں ٹھہرنا نہیں ہے۔‘‘ اماں نے کہا اور ایک اونٹ پکڑ کر بٹھانے لگی۔ پھر اس پر سوار ہو کر اس کا رخ خان محمد کی بستی کی طرف کر دیا۔ بھیرا مطمئن سا ہو گیا۔ وہ اپنی ماں کو اس وقت تک جاتا ہوا دیکھتا رہا جب تک وہ نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو گئی۔ وہ اس قدر اطمینان سے ریوڑ چرانے لگا جیسے اماں کے فیصلے میں اس کی بھی خوشی ہو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
سیدن شاہ اپنے اس کمرے میں موجود مسند پر بڑے کروفر سے بیٹھا ہوا تھا جہاں وہ اپنے مریدین سے ملا کرتا تھا۔ لیکن اس وقت اس کے سامنے کوئی مرید نہیں بلکہ ڈی ایس پی رفاقت باجوہ بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر اطمینان تھا جیسے کوئی فتح کے قریب ہونے کا یقین رکھتا ہو۔ سیدن شاہ کے چہرے پر فطری سختی تھی۔ وہ خاموش تھا اور انتظار کر رہا تھا کہ رفاقت باجوہ اپنی بات کہے۔
’’شاہ جی۔۔۔ معذرت خواہ ہوں کہ مجھے دوبارہ آپ کو زحمت دینا پڑی۔ لیکن مجبوری تھی، مجھے امید ہے کہ آپ میرے ساتھ تعاون کریں گے۔‘‘
’’مجھے اب تک سمجھ نہیں آ سکی تم کہنا کیا چاہتے ہو۔‘‘ سیدن شاہ نے انتہائی طنز سے کہا جسے برداشت کرتے ہوئے باجوہ بولا۔
’’رب نواز پر سانول کے قتل کا الزام ہے۔ ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔ ابتدائی تفتیش سے یہی معلوم ہوا ہے کہ ملازم رب نواز آپ کی پناہ میں ہے، لہٰذا آپ۔۔۔‘‘
’’تم ہوش میں تو ہو ڈی ایس پی، تمہیں معلوم ہے کہ تم کیا کہہ رہے ہو؟‘‘ سیدن شاہ نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں۔۔۔ میں پورے حواس میں ہوں۔ دراصل شاہ جی جب ہم نے ملزم کے گھر پر چھاپہ مارا تو اس کے والدین نے ہی ہمیں بتایا ہے کہ رب نواز آپ کے پاس ہے۔ اگر یقین نہیں آتا تو اس کے والدین باہر کھڑے ہیں، میں انہیں بلواتا ہوں۔ آپ ان سے پوچھ لیں۔‘‘ باجوہ کے لہجے میں نہ چاہتے ہوئے بھی طنز ابھرا جس پر سیدن شاہ تلملا کر رہ گیا۔ اس کا غصہ عروج پر پہنچ گیا تھا مگر کمال برداشت سے اس نے تحمل سے کہا۔
’’دیکھو ڈی ایس پی۔۔۔ وہ ہمارے مرید ہیں۔ ظاہر ہے وہ ہمیں اپنی پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔ تم نے یہ بڑی غلطی کی ہے کہ ان کے گھر پر چھاپہ مار کر انہیں یہاں لے آئے ہو۔ یہاں سے تمہیں کچھ بھی نہیں ملے گا۔ جب تک میں کچھ نہیں چاہوں گا۔‘‘
’’میرا مدعا بھی یہی ہے شاہ جی کہ اگر ملزم آپ کے پاس ہے تو دے دیں۔ ورنہ پولیس کی بھی اپنی مجبوریاں ہیں۔ ہم بھی بہت دباؤ ہے۔ ہم ملزم کے والدین کو اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ پھر آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔‘‘ ڈی ایس پی نے سوالیہ انداز میں سیدن شاہ کی جانب دیکھتے ہوئے کہا تو وہ چونک گیا۔
’’کس کا دباؤ ہے تم پر؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’جو اس معاملے میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔‘‘ رفاقت نے عام سے لہجے میں کہا جیسے وہ اس کی بات کو اہمیت نہ دینا چاہتا ہو۔
’’تمہیں معلوم ہے کہ جتنا دباؤ ہم ڈال سکتے ہیں، تم تصور بھی نہیں کر سکتے، تمہارا تبادلہ تو معمولی سی بات ہے۔ میں تمہارے ساتھ اور بہت کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘ سیدن شاہ کے لہجے میں کھلی دھمکی تھی۔
’’شاہ جی میں پولیس کا ملازم ہوں، مجھے جہاں ڈیوٹی کرنے کے لئے کہا جائے گا میں وہیں چلا جاؤں گا لیکن آپ کہاں جائیں گے؟‘‘
’’تم مجھے دھمکی دے رے ہو، تیرے جیسے کئی ڈی ایس پی میری جیب میں پڑے ہیں۔ جاؤ چلے جاؤ، میں دیکھوں گا کہ تم کس طرح رب نواز کو یہاں سے لے جا سکتے ہو۔ انہیں بھی یہیں چھوڑ جاؤ ورنہ تم پچھتاؤ گے۔‘‘ سیدن شاہ اچانک غصے میں بپھرے ہوئے بولا تو ڈی ایس پی کھڑا ہو گیا اور انتہائی تحمل سے بولا۔
’’میں اگر یہاں تک آیا ہوں تو کچھ سوچ کر ہی آیا ہوں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ واپس مڑ گیا۔ تبھی پیراں دتہ تیر کی سی تیزی سے اس کے پیچھے گیا۔ اس وقت تک باجوہ کمرے سے باہر چلا گیا تھا۔
’’باجوہ صاحب۔۔۔ بات سنیں۔‘‘ پیراں دتہ نے کہا تو باجوہ نے مڑ کر دیکھا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے خاموش رہا۔ تب وہ بولا۔ ’’باجوہ صاحب۔۔۔ شاہ جی بڑی ضدی طبیعت کے مالک ہیں۔ وہ اپنے مریدین کے بارے میں کوئی برداشت نہیں کر سکتے لہٰذا آپ میری بات سنیں، معاملہ کسی اور طرح بھی حل ہو سکتا ہے۔‘‘
’’کیسے؟‘‘ باجوہ نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا۔
’’دیکھیں، کرنا آپ ہی کو ہے سب کچھ، لیکن میری ایک رائے ہے، اگر آپ کو پسند آ جائے تو۔۔۔‘‘
’’بولو۔۔۔‘‘ باجوہ نے غصے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
’’آپ کا مقصد اس کیس کو حل کرنا ہے۔ ہم بھی یہ جانتے ہیں کہ آپ اپنا فرض نبھا رہے ہیں لیکن آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ پرکھوں سے یہاں کے معاملات شاہ صاحب ہی حل کرتے آئے ہیں۔ اس طرح ہم یہ معاملہ حل کر سکتے ہیں اگر آپ ہمیں تھوڑا سا وقت دیں تو۔۔۔‘‘ پیراں دتہ نے انتہائی تحمل سے اپنی بات کہی۔
’’تم کہنا کیا چاہتے ہو۔‘‘ باجوہ نے وضاحت چاہی۔
’’یہ معاملہ اگر صلح صفائی کے ساتھ ختم ہو جائے تو اچھا نہیں ہے؟‘‘ اس نے ڈرامائی انداز میں کہا۔
’’یہ تو فریقین کی رضامندی پر ہے نا۔‘‘
’’اس لئے میں عرض کر رہا ہوں کہ ہم فریقین کو بلا کر بات کرتے ہیں۔ اگر اس میں راضی نامہ ہو گیا تو ٹھیک ہم آپ کو آگاہ کر دیں گے۔ اور اگر راضی نامہ نہ ہوا تو میرا آپ سے یہ وعدہ ہے، ہم رب نواز آپ کو دے دیں گے۔ اس میں زیادہ دن نہیں محض دو دن آپ ہمیں دیں۔‘‘ پیراں دتہ نے پوری طرح معاملہ سنبھالتے ہوئے کہا تو رفاقت باجوہ ایک دم سے نرم پڑ گیا۔
’’ٹھیک ہے، اگر تمہاری اس بات کی تائید شاہ جی کر دیں تو میں دو دن کیا، چار دن دینے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتا۔‘‘
’’باجوہ صاحب۔۔۔ میں جو بات کر رہا ہوں تو شاہ جی کی تائید ہی سے کر رہا ہوں۔ کل شام تک صلح نامہ آپ تک پہنچ جائے گا یا پھر رب نواز کو پیش کر دیں گے۔‘‘ پیراں دتہ نے حتمی لہجے میں کہا تو رفاقت باجوہ نے ایک لمحے کو سوچا اور پھر سر ہلاتے ہوئے بولا۔
’’ٹھیک ہے۔ میں انتظار کروں گا۔‘‘ یہ کہا وہ چند قدم آگے بڑھ گیا۔ حویلی سے باہر آ کر اس نے ایک نگاہ رب نواز کے والدین پر ڈالی جو حواس باختہ سے زمین پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اس نے ایک نگاہ ان پر ڈالی اور قریب کھڑے حوالدار سے کہا۔
’’انہیں جانے دو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنی جیپ میں آ بیٹھا۔ حوالدار نے جنداں اور گامن کو چھوڑ دیا۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد نفری حویلی سے دور ہوتی ہوئی چلی گئی۔ نگاہوں سے اوجھل ہونے کے بعد پیراں دتہ حویلی میں چلا گیا اور ساری بات سیدن شاہ سے کہہ دی وہ اس وقت تک سوچ چکا تھا کہ معاملہ ویسا نہیں ہے جس طرح وہ محسوس کر رہا ہے۔ اس کا سارا دھیان اس شہری لڑکے علی کی طرف جا رہا تھا جو کچھ دیر اس کے قید خانے میں رہا تھا۔ وہی شہر گیا اور ایسا سب کچھ ہو رہا ہے۔
’’پیراں دتہ۔۔۔! ابھی سب کو میرے سامنے لاؤ۔‘‘ سیدن شاہ نے حکم دیا۔
’’جیسے حکم سائیں کا۔‘‘ پیراں دتہ نے تقریباً جھکتے ہوئے کہا اور باہر کی طرف چلا گیا۔ اسے حکم کی تعمیل کرنا تھی۔ جبکہ سیدن شاہ سوچنے لگا کہ اس معاملے کو کس طرح حل کرنا ہے۔
پیراں دتہ نے دوپہر بھی نہیں ڈھلنے دی تھی۔ اس نے اماں فیضاں کو بھیرے سمیت حویلی میں اس کمرے میں لا کھڑا کیا جو مریدین سے ملاقات کے لئے مخصوص تھا۔ گامن اور جنداں تو پہلے ہی وہیں پر تھے۔ اماں فیضاں تو ویسے ہی اس زبردستی کے بلاوے پر حواس باختہ تھی۔ اس پر جب اس نے گامن اور جنداں کو دیکھا تو ایک لمحے کے لئے وہ حوصلہ ہار گئی۔ ضرور اس کے یا بھیرے کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے ورنہ وہ یوں زبردستی اسے لے کر یہاں نہ آتے۔ اسے خوف نے گھیر لیا تھا۔ جو سیدن شاہ کے انتظار کے ساتھ ساتھ لمحہ بہ لمحہ بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ وہ کبھی کبھی سر اٹھا کر دیکھ لیتی، اس کی نگاہ جب بھی گامن اور جنداں پر پڑی انہوں نے سر جھکا لیا۔ کتنا ہی وقت یونہی گزر گیاا۔ تب کہیں جا کر سیدن شاہ اس کمرے میں آیا۔ وہ اپنی مسند خاص پر بیٹھا اور چند لمحوں تک ان سب کو دیکھتا رہا۔ پھر انتہائی غضب ناک انداز میں بولا۔
’’او مائی فیضاں۔۔۔ کیا تمہیں ہمارے انصاف پر کوئی شک ہو گیا تھا جو تو میرے پاس نہیں آئی، منہ اٹھا کے تھانے چلی گئی۔‘‘ اس کے یوں کہنے پر اماں فیضاں کے جیسے دل میں تیر پیوست ہو گیا۔ تبھی وہ تیزی سے بولی۔
’’سائیں۔۔۔ میں کیا کرتی، میرا بیٹا قتل ہوا ہے، شاید میں صبر کر لیتی لیکن میرے ساتھ تو کسی نے بھی انصاف نہیں کیا۔ میں سوال کرتی ہوں، میرے پتر کا جنازہ پڑھنے آپ کیوں نہیں آئے۔‘‘ یہ ماں کی فریاد نہیں بلکہ ایک چیخ تھی جس سے سیدن شاہ کے کان تک پھٹ گئے۔ وہ بلبلا اٹھا اور تیزی سے بولا۔
’’وہ تھا ہی اس قابل۔۔۔ جسے کسی کی عزت اور غیرت کا کوئی پاس نہ ہو اس کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ تم کیا سمجھتی ہو کہ اس طرح تھانے جا کر، ایف آئی آر لکھوا کر تم اپنے بیٹے کے لئے انصاف لے لو گی۔ یہ تمہاری بھول ہے۔ انصاف ہم دیں گے تمہیں، ورنہ جاؤ دھکے کھاتی پھرو۔۔۔‘‘
’’سائیں۔۔۔ میں آپ سے کیا انصاف مانگوں، آپ نے تو میرے بیٹے کے قاتل کو پناہ دے رکھی ہے اور رہی میرے سانول کی بات۔۔۔ اس نے کوئی غلط نہیں کیا۔ اس نے مہرو سے شادی کرنا چاہی اسے عزت سے رکھا۔‘‘
’’اپنی بکواس بند کرو۔ اور سنو، ہو گا وہی جو میں چاہوں گا۔ میری بات مانتی ہے یا پھر اپنے بیٹے کے ساتھ دوسرے بیٹے کی قبر بھی تیار کروانی ہے۔۔۔ بولو جواب دو‘‘
’’یہ ظلم ہے سائیں۔۔۔‘‘ اماں فیضاں پوری جان سے لرز گئی۔ اسے جس بات کا خوف تھا وہی سیدن شاہ نے دھمکی کی صورت میں کہہ دیا تھا۔ اس لمححے وہ پچھتانے لگی تھی کہ کیوں اس نے خان محمد کی بات مانی اور اگر اس نے بات مان ہی لی تھی تو اب تک اسے اسی کی بستی میں چلے جانا چاہئے تھا لیکن کیا وہاں جا کر بھی وہ محفوظ رہتی؟ کیا وہاں جا کر بھیرا ان کے ظلم کا شکار نہیں ہو سکتا تھا؟
’’کیا سوچنے لگی ہو فیضاں۔۔۔ جواب دو۔‘‘ سیدن شاہ کی گرجتی ہوئی آواز کسی کوڑے کی مانند اس پر پڑی وہ پھر سے لرز گئی۔ اس سے کچھ بھی نہیں کہا جا رہا تھا۔ وہ خاموش رہی تو سیدن شاہ نے کہا۔ ’’سنو۔۔۔ یہ کل تیرے گھر قرآن کا میلہ لے کر آئیں گے اور تم رب نواز کو اپنے بیٹے کا قتل بخش دو گی۔‘‘
سیدن شاہ کے یوں کہنے پر اماں فیضاں کو یوں لگا جیسے قاتل رب نواز نہیں وہ خود ہے۔ اسے اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کرنا تھا۔ اسے دو جہانوں کے بادشاہ، کلام الٰہی کا پاس رکھنا تھا۔ پتہ نہیں یہ رسم کس نے بنائی تھی کہ بڑے سے بڑا جرم ہو جانے پر بھی زور آور قرآن پاک کا واسطہ دے کر اپنے جرم معاف کروا لیا کرتے تھے اور بے چارہ مظلوم یہ جرم بخشنے پر مجبور ہو جاتا تھا۔ صرف کلام الٰہی کی لاج رکھنے کے لیے وہ سب کچھ بھول جانے پر مجبور ہوتا تھا۔ قرآن میلے کے نام پر سیدن شاہ نے اماں فیضاں کے تو جیسے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم دے دیا تھا۔ اب وہ چاہتے ہوئے بھی تھانے نہیں جا سکتی تھی اور نہ ہی اپنے مقدمے کی پیروی کر سکتی تھی۔ اس کے سامنے صرف کلام الٰہی تھا جس کی لاج کے لئے اس نے معاف کرنا ہی تھا چاہے اس کے من میں انتقام کی جتنی بڑی آگ بھڑک رہی ہو۔ وہ بے بس سی ہو کر فرش پر گر گئی۔
’’اور سنو۔۔۔ مہرو کو تیرا بیٹا بھگا کر لے گیا تھا، اس نے اسے داغ دارکر دیا۔ اب مہرو کی شادی تیرے بیٹے بھیرے سے ہو گی۔ جاؤ اور جا کر اس کی شادی کی تیاری کرو۔‘‘ یہ کہہ کر وہ ایک لمحے کے لئے رکا اور پھر روئے سخن گامن کی طرف کر کے بولا۔ ’’بول گامن، تجھے میرا فیصلہ منظور ہے کہ نہیں؟‘‘
’’سائیں۔۔۔ کیسے قبول نہیں ہے۔ آپ تو ہمارے مائی باپ ہیں۔ ہمارے لئے جو بھی کریں گے۔ میں اپنی بیٹی، بھیرے کو دینے پر تیار ہوں۔‘‘
’’یہ ظلم ہے سائیں، یہ ظلم ہے۔۔۔‘‘ اماں فیضاں نے دھاڑیں مار کر روتے ہوئے چیخ چیخ کر کہا تو سیدن شاہ نے گرجتے ہوئے کہا۔
’’خاموش۔۔۔ فیصلہ ہو چکا، مان لے گی تو اچھا ہو گا۔ اپنے بیٹے کے سر پر سہرے دیکھے گی ورنہ۔۔۔ تو جانتی ہے تیرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ شکر کر میں نے تجھے تیری گستاخی کی سزا نہیں دی۔‘‘ سیدن کے لہجے میں غرور اور نخوت تھی۔
اب مزید کچھ کہنا سننا فضول تھا۔ فیضاں کو پوری طرح احساس تھا کہ سیدن شاہ نے یہ حکم کیوں سنایا ہے۔ اس کی صرف اور صرف یہی غلطی تھی کہ اس نے تھانے جا کر ایف آئی آر درج کیوں کروائی تھی۔ اب خان محمد بھی اس کی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ سیدن شاہ کو جہاں یہ معلوم تھا کہ وہ تھانے گئی ہے تو اسے یہ بھی خبر ضرور ہو گی کہ وہ کس کے ساتھ گئی تھی۔ یہ سب کچھ جان کر ہی اس نے حکم سنایا تھا اور اب اسے یہ حکم ماننا ہی تھا۔
سیدن شاہ اٹھ کر اندر چلا گیا تو پیراں دتہ نے انہیں اس کمرے سے چلے جانے کا حکم دے دیا۔ اماں فیضاں روتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
*۔۔۔*۔۔۔*
مہرو کے لئے وہ صبح انتہائی دردناک تھی۔ اسے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ آخر اس کے ساتھ ہی یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ وہ تو پہلے ہی پورے علاقے میں رسوا ہو چکی تھی اور اب سیدن شاہ کا یہ حکم کہ اس کی شادی بھیرے سے کر دی جائے۔ اس پر ظلم یہ تھا کہ اس کے والدین بھی راضی ہو گئے تھے۔ ایسا صرف اور صرف رب نواز کو بچانے کے لئے ہو رہا تھا۔ ورنہ عام حالات میں ایسا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ لڑکا جس کی ابھی مسیں بھی نہیں بھیگی تھیں، اس کے ساتھ شادی کا تصور بہت بھیانک تھا۔ گزری ہوئی کل میں جب اس کے والدین نے آ کر سیدن شاہ کا فیصلہ سنایا تو اس کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ وہ دم بخود ہو گئی۔ اس نے احتجاج کرتے ہوئے اپنی ماں سے کہا تھا۔
’’یہ کیسا فیصلہ ہے اماں۔۔۔ تو نے میری زندگی کا بھی خیال نہیں کیا۔ اور پھر اس سے جس کے بھائی کو تیرے بیٹے نے قتل کر دیا تھا۔ وہ کیا ساری زندگی۔۔۔‘‘
’’خاموش ہو جاؤ اور ایک لفظ بھی مت کہنا مہرو، یہ پیر سائیں کا حکم ہے۔‘‘ اماں نے اس کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے حتمی لہجے میں کہا تو اس نے اونچی آواز میں کہا۔
’’میں ایسے حکم کو نہیں مانتی جو کسی کی زندگی تباہ کر دے۔‘‘ مہرو کے لہجے میں سے آگ چھلک اٹھی تھی۔
’’تو پھر برباد ہو جائے گی۔ نہ تم رہو گی اور نہ تیرا بھائی۔‘‘ اماں نے کہا پھر جیسے اسے کچھ یاد آ گیا۔ ’’اگر اس کے بھائی کو تیرے بھائی نے قتل کیا تھا تو کس کے لئے، تیرے لیے ہی نا۔ سارا قصور سانول کا ہی نہیں تھا، یہ تو شکر کر تیرے بھائی نے اسے قتل کر کے تیری عزت بچا لی۔‘‘
’’اماں یہ تو کہہ رہی ہے؟‘‘ مہرو نے حیرت سے کہا۔ تو۔۔۔ تو مجھے قصور وار سمجھتی ہے، تیرے خیال میں اسے میں نے کہا تھا کہ وہ مجھے بھگا کر لے جائے۔‘‘
’’بس بس زیادہ باتیں نہ کر، اور سن، تیرا باپ آ جائے نا تو اس کے سامنے ایسی بکواس لے کر نہ بیٹھ جانا۔‘‘ اس کی ماں نے سمجھاتے ہوئے کہا تھا۔
’’کیوں نہ کہوں، میری زندگی برباد ہو رہی ہے اور میں۔۔۔‘‘ مہرو نے کہنا چاہا تو اماں بول اٹھی۔
’’تجھے کہا ہے نا بس کر۔ اگر تو اب سننا ہی چاہتی ہے تو سن۔۔۔ تیری جیسی کئی بیٹیاں میں اپنے بیٹے پر وار کر دوں۔ اب میں تیری کوئی بات نہیں سننے والی۔‘‘ جنداں نے کہا اور اٹھ گئی۔ مہرو حیرت سے اپنی ماں کو دیکھنے لگی جو اسے خود ساری زندگی سسکنے پر مجبور کر رہی تھی۔ ماں سے کہنا سننا ہی فضول ہے۔ یہ وہ سوچ کر اس نے اپنے باپ کا انتظار کرنا شروع کر دیا۔ مہرو کو اگر تھوڑی بہت امید تھی تو فقط اس سے۔ وہ تو اس کی لاڈلی بیٹی تھی۔ وہ اسے کسی طور پر اس آگ میں پھینکنے کی اجازت نہیں دے گا مگر مہرو کی اس امید پر بھی پانی پھر گیا۔ اس نے جب اپنے باپ کے سامنے اپنی فریاد رکھی تو وہ چند لمحے اسے دیکھتا رہا پھر انتہائی مایوسانہ لہجے میں بولا۔
’’میری دھی۔۔۔ اب تیرے باپ کی عزت اور تیرے بھائی کی زندگی، بس تیرے ہاتھ میں ہے۔ اب تو چاہے، فیصلہ تم پر چھوڑا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ جیسے نڈھال سا ہو کر چارپائی پر گر گیا۔ مہرو سرتاپا لرز گئی۔
ساری رات اسی سوچ بچار میں گزر گئی۔ مہرو کے لیے وہ سیاہ رات تھی جس کی صبح کبھی بھی نہیں ہونے والی تھی۔ اسے اپنا آپ قربان کرنا تھا اور باپ کی لاج رکھنا تھی۔ اسے فقط یہی دکھ تھا کہ ایک بار ہی اسے مار دیا جائے لیکن زندگی بھر کی اذیت تو نہ دی جائے۔ اسے سب سے بڑا دکھ تو یہ تھا کہ اس کی زندگی کا فیصلہ دوسرے کر رہے تھے۔ اور اسے اتنی حیثیت بھی نہیں دی کہ اس سے پوچھ ہی لیا جائے۔ وہ اپنے ماضی کو ٹٹولتی رہی لیکن کہیں بھی اتنا بڑا گناہ اس نے نہیں کیا تھا جس کی اتنی بھیانک سزا اسے مل رہی تھی۔ ایک ایک چہرہ اس کی نگاہوں میں پھر گیا، کوئی بھی اس کا اپنا نہیں رہا تھا۔
پوہ پھٹتے ہی اس کی ماں نے حکم صادر کر دیا تھا کہ وہ نہا دھو کر وضو کر لے، اسے قرآن لے کر سانول کے گھر جانا ہے۔ ان کی یہی روایت تھی کہ گھر کی لڑکیاں ہاتھ پر قرآن اٹھائے اس کا واسطہ لے کر جاتی ہیں۔ جنداں نے اپنے قریبی رشتے داروں کی لڑکیاں بھی بلوا لی ہوئی تھیں کہ بیٹیاں جا کر معافی مانگیں۔ مہرو مسلسل سوچ رہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ لیکن وہ تو کوئی فیصلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کے بار ے میں جو بھی فیصلہ ہونا تھا وہ سیدن شاہ نے کر دیا تھا اور اس کے والدین نے ہی قبول کر لیا تھا۔ اب عافیت کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اس نے روشن ہوتے ہوئے آسمان کی طرف دیکھا اور انتہائی مایوسی کے عالم میں اپنے رب سے کہا۔ ’’اے اللہ سائیں۔۔۔ میں تو اپنے باپ کی مان رہی ہوں، اس کے سوا میرے پاس کوئی اور چارہ بھی نہیں ہے۔ تو وہی کر جو میرے حق میں بہتر ہے۔‘‘ جیسے ہی اس نے دل ہی دل میں یہ کہا اسے قدرے سکون محسوس ہوا جیسے اس کے ذہن سے بہت سارا بوجھ اتر گیا ہو۔ اس نے سنا تھا کہ جب سارے در بند ہو جائیں تو فقط ایک ہی در کھلا ہوتا ہے جہاں سے بندے پر رحم ہو جاتا ہے۔ وہ در صرف اور صرف رب عظیم کا در ہے۔
سورج سر پر چڑھ آیا تھا۔ دھیرے دھیرے چلنے والی ہوا نے تپش کا احساس زائل کر دیا تھا۔ چند لڑکیوں کے پیچھے رب نواز اور اس کے والدین تھے۔ سب سے آگے مہرو تھی، جس کے ہاتھ میں قرآن پاک پکڑا ہوا تھا۔ جس پر لڑکیوں نے سبز چادر کا سایہ کیا ہوا تھا۔ یہ سب دھیرے دھیرے کچی بستی کی ایک گلی سے گزر رہے تھے اور ان کا رخ فیضاں مائی کے گھر کی جانب تھا۔ پورا گاؤں انہیں بڑے شوق سے دیکھ رہا تھا، کسی کی نگاہ میں احترام تھا اور کسی کی نظر میں طنز، وہ سب سے بے نیاز معافی مانگنے کے لئے قرآن کا واسطہ دینے جا رہے تھے۔ مہرو کے دل میں نجانے کیا کچھ اٹھ رہا تھا۔ اس نے سب کی سنی تھی، ہر طرف سے مایوس ہو کر اس نے اللہ پر یقین رکھ لیا تھا۔ اس کے اپنوں نے جو اس پر ظلم کرنا تھا وہ کر چکے تھے۔ یوں دھیرے دھیرے چلتے ہوئے وہ اماں فیضاں کے گھر میں داخل ہو گئے۔ اسے معلوم ہو چکا تھا کہ اس کے دروازے پر وہ لوگ قرآن کا میلہ لے کر آ رہے ہیں۔ وہ بھی مجبور تھی کسی طرف نہیں جا سکتی تھی۔ ان دیکھی آہنی زنجیروں کے ساتھ اسے باندھ دیا گیا تھا۔ اس نے انہیں معاف کرنا ہی تھا کہ یہ سیدن شاہ کا حکم تھا ورنہ وہ اپنے دوسرے بیٹے سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی۔ جب سے سیدن شاہ نے اسے یہ حکم دیا تھا وہ خود کو ہی سمجھانے پر مجبور تھی کہ اس کے بھیرے کو پھانسی کے تختے سے اتار کر عمر قید کی سزا بدل دی گئی ہے۔ وہ بھیرا جس نے کوئی جرم نہیں کیا تھا۔ وہ لوگ اس کے دروازے پر آ چکے تھے۔ اس لئے مجبوراً اسے اٹھ کر ان کا استقبال کرنا تھا، اسے ان لوگوں کی نہیں دو جہانوں کے بادشاہ کی عزت کرنا تھی۔ اس کے واسطے ہی اس نے انہیں معاف کرنا تھا ورنہ کوئی ماں اپنے بیٹے کے قاتل کو کس طرح بخش سکتی ہے۔ اماں فیضاں اٹھ کھڑی ہوئی اور صحن کے درمیان آ گئی۔ وہ سب دروازہ پار کر کے صحن میں آ گئے۔ ان سب کی نگاہیں اماں فیضاں پر تھیں، جس کا چہرہ آنسوؤں سے بھیگ چکا تھا۔ چند لمحوں تک ان کے درمیان خاموشی چھائی رہی، پھر گامن نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے ہاتھ جوڑ کر کہا۔
’’بہن فیضاں۔۔۔ ہمیں معاف کر دے۔ ہم سب سے بہت بڑی غلطی ہو چکی ہے۔ میرے بیٹے کی زندگی اب تیرے ہاتھ میں ہے، تو اسے معاف کر دے۔‘‘
اماں فیضاں بت بنی کھڑی رہی تو جنداں بولی۔
بہن۔۔۔ ہم اپنی بیٹیوں کے ساتھ تیرے در پر آئے ہیں۔ ہمارا واسطہ یہ دو جہان کا بادشاہ ہے۔ ہمیں معاف کر دے۔‘‘
اماں فیضاں یوں ساکت کھڑی رہی جیسے اس کے بدن میں جان ہی نہ ہو۔ تبھی رب نواز آگے بڑھا اور اماں فیضاں کے قدموں میں جا گرا اور بہت ہی گریہ زاری کرتے ہوئے بولا۔
’’اماں۔۔۔ تو ایک بار مجھے معاف کر دے۔ میں تجھے تیرا سانول بن کے دکھاؤں گا۔ مجھے معاف کر دے اماں۔۔۔ تجھے قرآن کا واسطہ۔۔۔‘‘
تبھی اماں فیضاں کے ہاتھوں میں حرکت ہوئی، اس نے رب نواز کو پرے کیا اور قرآن پاک کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ مہرو نے قرآن اس کی طرف بڑھا دیا۔ اس دوران دونوں کی نگاہیں ملیں، دونوں کی آنکھوں میں مجبوریاں جھلک رہی تھیں۔ دونوں کی نگاہوں میں ناکردہ گناہ کی سزا کاٹنے کے جرم کا شکوہ مچل رہا تھا۔ اماں فیضاں نے قرآن پاک پکڑا، اسے چوما اور پھر اندر کمرے میں اونچے طاق پر رکھ دیا۔ اماں نے انہیں معاف کر دیا تھا۔ وہ لوگ صحن میں یونہی کھڑے تھے۔ گامن نے ایک کاغذ ماں کی طرف بڑھایا تاکہ وہ صلح نامے پر انگوٹھے لگا دے۔ اس میں یہی درج تھا کہ اماں فیضاں نے رب نواز کو اپنے بیٹے کا قتل معاف کیا، جس کے بدلے میں مہرو کی شادی، بھیرے سے کر دی جائے گی۔ اماں فیضاں نے یوں انگوٹھا لگا دیا جیسے اپنی قسمت پر مہر لگا دی ہو۔
*۔۔۔*۔۔۔*
اس شام سردار امین خان گہری سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ اپنے بنگلے کے پائیں باغ میں تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر اللہ بخش موجود تھا۔ دونوں میں کافی دیر سے خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ اللہ بخش کے آنے سے پہلے سردار امین خان کا موڈ بہت خوشگوار تھا، اسی لئے وہ اپنی شام اس پائیں باغ میں گزارنا چاہتا تھا۔ اس کی تنہائی کو اللہ بخش نے توڑا اور بہت بری خبر سنائی تھی کہ اماں فیضاں نے رب نواز کو معاف کر دیا ہے۔ اس خبر نے سردار امین خان کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ وہ نجانے کیا کچھ اور کتنا آگے تک سوچ چکا تھا۔ اسی قتل کو وہ سیدن شاہ کے روحانی حصار کو توڑنے کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ یہی بنیاد تھی جس پر اس نے بہت کچھ کرنا تھا اور وہی بنیاد ختم ہو کر رہ گئی تھی۔ سردار امین خان کو زبردست دھچکا لگا تھا جس سے وہ اتنی دیر تک سنبھل ہی نہیں پایا تھا۔ کافی دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور کہا۔
’’اس کا مطلب یہ ہے کہ ساری محنت ضائع گئی۔ نہ رفاقت باجوہ اب کچھ کر سکتا ہے اور نہ ہی خان محمد۔۔۔‘‘
’’جی سائیں۔۔۔ انہوں نے معاہدہ پیش کر دیا ہے۔‘‘
’’معاہدہ۔۔۔کیا مطلب؟‘‘ امین خان نے چونکتے ہوئے کہا۔
’’وہ صلح ایک معاہدہ ہی ہے، رب نواز کا قتل اس شرط پر معاف کیا گیا ہے کہ اس کی بہن کی شادی مقتول کے بھائی کے ساتھ کر دی جائے۔ سب کو باندھ کر رکھ دیا ہے انہوں نے۔‘‘ اللہ بخش نے تفصیل بتائی تو وہ پھر سوچنے لگا۔ پھر بڑبڑاتے ہوئے بولا۔
’’اس کا مطلب ہے سیدن شاہ ہماری چال سمجھ گیا ہے۔‘‘ پھر ایک دو لمحے توقف کے بعد بولا۔ ’’لیکن کیسے سمجھا وہ۔۔۔؟ کہاں غلطی ہوئی ہم سے۔‘‘
’’کہیں بھی غلطی نہیں ہوئی سائیں، بس یہ قسمت کی بات تھی۔‘‘ اس نے کہا تو امین خان تیزی سے بولا۔
’’قسمت نہیں اللہ بخش، قسمت نہیں، ضرور کچھ ایسا ہوا ہے اور پھر تم نے اس قدر مایوسی کی بات کیوں کی ہے۔ کیا ہم اپنی کوشش ترک کر دیں گے۔ نہیں ایسا نہیں ہو گا اللہ بخش، ایک ناکامی سے ہمارا حوصلہ پشت نہیں ہو گا۔ ہم اس وقت تک کوشش کرتے رہیں گے جب تک سیدن شاہ کو الیکشن سے باہر نہیں کر دیتے۔‘‘
’’تو سائیں۔۔۔ پھر اس کے لئے کچھ اور کرنا پڑے گا۔ یہ معاملہ تو ختم سمجھیں۔‘‘ اس نے اپنی رائے دی۔
’’ٹھیک ہے۔ اگر یہ معاملہ ختم ہو گیا ہے۔۔۔‘‘ یہ کہتے کہتے وہ چونکا۔۔۔ ’’مگر کیسے ختم ہو گیا۔ ایف آئی آر تو ہے نا، اسے ختم نہیں ہونا چاہیے۔ صلح ایک معاہدہ ہی ہے نا، تو معاہدہ ٹوٹ بھی سکتا ہے۔ کیا اس کی کوئی حد مقرر ہے کہ مقتول کے بھائی کے ساتھ کب تک شادی ہو گی؟‘‘
’’اس کے بارے میں تو معلوم نہیں۔‘‘ اللہ بخش نے صاف گوئی سے کہا۔
’’تو پھر پتہ کرو۔۔۔ پوری بات پتہ کرو اور باجوہ سے کہو کہ کاغذات میں یہ معاملہ ختم نہیں ہونا چاہیے۔ کسی نہ کسی طرح اسے عدالت میں لے جائے۔ تھوڑا وقت تو ان سے، ممکن ہے ان دنوں میں حالات ہمارے حق میں ہو جائیں اور ہم۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ سوچ میں گم ہو کر خاموش ہو گیا جیسے کوئی نیا نکتہ اس کے ذہن میں آ گیا ہو۔ اللہ بخش اس کی طرف منتظر نگاہوں سے دیکھتا رہا کہ وہ کچھ کہے گا۔ کافی دیر تک جب اس نے کحھ نہیں کہا تو اجازت چاہی۔
’’سائیں۔۔۔ مجھے اجازت ہے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ وہ۔۔۔ پتہ کرو اس لڑکے کا جو وہاں پھر گیا تھا۔ اس سے میری ملاقات کراؤ۔‘‘
’’سائیں۔۔۔ آپ کا اشارہ بی بی سائیں کے کلاس فیلو کی طرف ہے جو روہی میں۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں۔۔۔ وہی۔۔۔ وہ ہمارے بہت کام آ سکتا ہے۔ اب تو اس کے امتحان بھی ہو چکے ہوں گے۔‘‘
’’سائیں۔۔۔ وہ لڑکا ہمارے کام تو آ سکتا ہے لیکن اصل مسئلہ تو یہ ہو گا نا کہ وہ ہمارے کام آنے کی حامی بھرے گا یا نہیں۔‘‘
’’اللہ بخش تمہارا دماغ خراب ہے کیا۔ دولت کیا کچھ نہیں کر سکتی، میں نے سنا ہے کہ وہ ایک غریب سرکاری ملازم کا بیٹا ہے۔ اسے بھی نوکری کی ضرورت ہو گی۔ ہم اسے اس کی اوقات سے زیادہ نواز دیں گے۔ بس تم اس کی میری ساتھ ملاقات کا بندو بست کراؤ۔‘‘
’’ٹھیک ہے سائیں۔۔۔ جیسے آپ کی مرضی۔ میں ایک دو دن میں ہی اسے آپ کے ساتھ ملادوں گا اور باجوہ کو بھی سمجھا دوں گا۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ بس اب تم جاؤ، جتنی جلدی یہ کام ہو سکے اتنا ہی اچھا ہے۔‘‘ سردار امین خان نے کہا اور پھر اپنی سوچوں میں کھو گیا۔
اس نے تو یہی سمجھا تھا کہ اسے ایک مضبوط بنیاد مل گئی ہے اور علاقے میں خان محمد جیسا آدمی اسے میسر آ گیا ہے۔ اب اتنازیادہ مسئلہ نہیں ہو گا کہ جو وہ چاہے گا وہی ہو گا۔ مگر ہوا اس کی سوچ کے برعکس۔ اسی وقت اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس معاملے پر بھر پور توجہ دے گا۔
*۔۔۔*۔۔۔*
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...