“انکل مجھے تو اس بات میں کوئی برائی نظر نہیں آتی آج نہیں تو کل آپ نے ہادیہ کی شادی کرنی ہی ہے ,تو آج کیوں نہیں اور احمد بچپن سے آپ جانتے ہیں اسے آپ کے سامنے ہی پلا بڑھا ہے وہ ,انکل بلال اور آنٹی بھی راضی ہیں اس رشتے پہ ……… ہادیہ کے آگے پوری زندگی پڑی ہے ایک قابل اعتماد ساتھی کی ضرورت ہے اسے اور میرا خیال ہے احمد جیسا لڑکا ہی ہے جس کے ساتھ وہ خوش رہ سکتی ہے “۔ حیدر , سارا , یوسف صاحب اور زارا کمرے میں جمع تھے اور زائر بھرپور انداز میں احمد کا کیس لڑ رہا تھا۔
“مگر بیٹا وہ بیوہ ہے اور احمد ……. “۔ سب کے لیے ہی یہ بات بہت خوشی کی تھی کہ ہادیہ کے لیے احمد مگر یوسف صاحب جھجھک رہے تھے ابھی بھی وہ آدھی بات کہہ کر خاموش ہو گئے زائر ان کی بات سمجھ گیا تھا وہ اٹھ کر ان کے پاس بیٹھا اور ان کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیے۔
“انکل ہم آپ کے بچے ہیں ہمارا ایک ایک پل آپ کے سامنے گزرا ہے , ہادیہ میری بہن ہے میری ذمہ داری اور اپنی بہن کے لیے میں احمد جیسے لڑکے کو ہی چنوں گا , اسے یا اس کے گھر والوں کو اس بات سے فرق نہیں پڑتا اور یہ رشتہ احمد کی مرضی سے ہی طے ہو رہا ہے آپ سب تحفظات سائیڈ پہ رکھ دیں اور کل انکل آنٹی کو مثبت جواب دینا ہے اگر آپ کو کوئی بھی بےیقینی ہے تو میں ذمہ داری لیتا ہوں “۔ سب خاموشی سے ان دونوں کو دیکھ رہے تھے۔ حیدر صاحب , سارا اور زارا نے پہلے ہی اس رشتے کو قبول کر لیا تھا ان کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ ہی نہیں تھا ۔
“کیسی باتیں کر رہے ہو بیٹا مجھے تم دونوں پر خود سے بھی زیادہ یقین ہے , ٹھیک ہے مجھے یہ رشتہ منظور ہے اور کل بلال آئے گا تو ہم تاریخ طے کر لیں گے “۔ یوسف صاحب کی بات پر سب کے مرجھائے چہرے کھل اٹھے تھے ۔ زائر ان کے گلے گیا ۔
“تھینک یو سو مچ انکل “. انہوں نے جواباً زائر کی پشت تھپتھپائی۔
“آنٹی کیا ہوا ؟؟”۔ زارا کے چہرے کو دیکھ کر زائر بولا جو پریشان بیٹھی ہوئی تھی۔
“میں سوچ رہی تھی کہ ہادیہ سے بھی تو پوچھنا ہے نا تو …….”۔
“آپ بات کر لیجیے گا ہادیہ سے کل بلال آئے گا ہم اس رشتے کو منظور کر لیں گے تیاری رکھے وہ بھی اور آپ بھی جو تیاری کرنی ہے کر لیجیے گا”۔ یوسف صاحب کہہ کر کمرے سے نکل گئے جبکہ زارا گہری سوچ میں تھی۔
**********
“امی ….”۔ وہ بےیقینی سے چیخی تھی۔ آنسو بےاختیار اس کی آنکھوں سے بہنا شروع ہو گئے تھے۔
“امی آپ …….. آپ نے یہ سوچا بھی کیسے میں ……. میں شادی کروں گی ؟؟؟ ,احمد کے ساتھ ؟؟ آہ امی ……. اور امی آپ بھی ؟؟ وہ سارا کی طرف مڑتے ہوئے بولی۔ کیسے سوچ لیا آپ لوگوں نے یہ …….. میں مرسلین کی جگہ کسی کو نہیں دے سکتی سن لیں آپ اور پلیز رحم کریں مجھ پر مجھے اب شادی نہیں کرنی کبھی بھی نہیں “۔ وہ اسی طرح روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
“بیٹا ہم ساری زندگی تو تمہیں گھر پہ نہیں بیٹھا سکتے , ہر لڑکی کی شادی ہوتی ہے اور احمد بہت اچھا لڑکا ہے تمہارے ابو اور چاچو بھی بہت پسند ہے کل وہ لوگ آ رہے ہیں “۔ زارا نے پیار سے اس کے بال سہلائے۔
“میری شادی ہو چکی ہے اور مجھے کسی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ اچھا ہو گا بہت اچھا ہو گا,مگر مجھے پھر بھی شادی نہیں کرنی آپ کیوں نہیں سمجھ رہی میں مرسلین کے علاوہ کسی اور کے بارے سوچ بھی نہیں سکتی اگر میں بوجھ ہوں آپ پر تو بتا دیں میں نوکری کر لوں گی آپ پر بوجھ نہیں ڈالوں گی “۔
“ہم تمہاری بہتری کے لیے ہی کہہ رہے ہیں ہادیہ ہم کب تک زندہ رہے گے , مومل بھی اپنے گھر کی ہونے والی ہے فضا بھی ہو جائے گی اور فہد اس کا ابھی بہت وقت ہے تمہیں ہم ایسے کیسے چھوڑ دیں اکیلا , تمہارے ابو نے تو رشتہ تک منظور کر لیا ہے کل تاریخ طے ہو گی ……. میں جانتی ہوں تمہارے لیے بہت مشکل ہے مگر کرنا پڑے گا بیٹا یہی دنیا کا دستور ہے ہم سب کے لیے مرسلین کو بھلانا مشکل ہے اس کی یادیں تو ہر وقت ہمارے ساتھ رہتی ہیں مجھے تو آج بھی ایسے لگتا میرا بیٹا میرے پاس ہے …… تم فکر مت کرو سب ٹھیک ہو جائے گا “۔ سارا نے پیار سے اسے گلے لگا کر کہا وہ خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی۔
“میں یہ شادی نہیں کر سکتی امی مجھے زندہ درگور تو مت کریں , میں مرسلین کی جگہ کسی کو نہیں دوں گی امی , دنیا کا کوئی مرد میرے لیے مرسلین نہیں ہو سکتا میں اس کی یادوں کے سہارے زندہ رہ لوں گی مگر مجھ سے یہ حق تو نہ چھینے کہ میں اسے یاد بھی نا کر سکوں “۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی ۔
“کوئی تم سے کچھ نہیں چھین رہا بیٹا احمد نے خود عندیا دیا ہے اس رشتے کا اس کے گھر والے بھی راضی ہیں “۔ اس نے چونک کر زارا کی شکل دیکھی احمد کی مرضی سے یہ رشتہ آیا ہے , امی کو غلطی لگی ہو گی ۔ اس نے دل میں سوچا ۔ اور آنسو صاف کر کے پر اعتماد لہجے میں بولی۔
“آپ ابو سے کہہ دیجیے گا مجھے شادی نہیں کرنی نا احمد سے نا ایکس وائے زیڈ سے ……. “۔ وہ کہہ کر کمرے سے نکل گئی سارا کی پرسوچ نظروں نے اس کا پیچھا کیا تھا ۔
**********
سب گھر والے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے ۔
“ہمارے لیے تو یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہادیہ بیٹی ہماری بہو بنے , آپ یقین کریں احمد کے اس فیصلے پر ہم بہت خوش ہیں اور آپ بھی بےفکر ہوں جائیں ہماری بیٹی بہت خوش رہے گی وہاں “۔ بلال صاحب مسکراتے ہوئے بولے۔
یوسف صاحب نے مسکرا کر انہیں دیکھا اور دل میں انشااللّٰہ بولے۔
“مجھے آپ پر پورا یقین ہے کہ میری بیٹی وہاں بہت خوش رہے گی مرسلین کے جانے کے بعد تو ہم سب کو ان دونوں نے ہی سنبھالا تھا ,اللّٰہ زندگی دے دونوں بچوں کو …….. انہوں نے زائر کی جانب اشارہ کیا جو حیدر کے ساتھ باتوں میں مصروف تھا۔
میری بیٹی کل بھی آپ کی تھی آج بھی آپ کی ہی ہے جب چاہے لے جائیں “۔ زارا نے کچھ کہنا چاہا پھر کچھ سوچ کر خاموش رہی ۔ ان کے فیصلے پر سب ہی خوش تھے ۔
“مرسلین کے جانے کا تو زخم بہت گہرا ہے آہستہ آہستہ ہی ٹھیک ہو گا , میرے لیے تو وہ احمد سے بھی بڑھ کر تھا “۔ ماحول جیسے ایک دم ہی افسردہ ہو گیا تھا , خاموش , سب اپنی سوچوں میں گم !!!
جبکہ دوسرے کمرے میں اس کے بلکل متضاد ماحول تھا ہادیہ روئے جا رہی تھی جبکہ مریم اسے چپ کروانے میں لگی ہوئی تھی ۔
“ہادیہ چپ ہو جاؤ تمہاری طبیعت خراب ہو جائے گی “۔مریم مسلسل اسے چپ کروا رہی تھی۔
“اب تو میں مر بھی جاؤں تو کوئی دکھ نہیں ہے …… اگر خودکشی حرام نا ہوتی تو اب تک میں ….. “۔
“پاگل مت بنو کوئی تم سے پوچھے بغیر کچھ نہیں کرے گا اور جہاں تک انکل یوسف کی بات ہے تو وہ تمہارے بڑے ہیں تمہارا اچھا برا سوچنا ان کا فرض ہے ان کا اقدام مثبت ہے ہاں مگر جلدی کر دی انہوں نے !!”۔ ہادیہ نے شکوہ کنا نظروں سے اسے دیکھا مریم نے نظریں چرا لیں ۔
“مجھے امی کی سمجھ نہیں آ رہی اپنی بہو کے لیے کیسے وہ کسی کا رشتہ قبول کر سکتی ہیں , اپنے بیٹے کو وہ کیسے اتنی جلدی بھلا سکتی ہیں کیسے اس کی جگہ کسی اور کو دے سکتی ہیں ؟؟”۔ وہ ایک بار پھر ہاتھوں میں چہرہ چھپا کر رو دی ۔ مریم نے بےبسی سے اسے دیکھا۔
“ہادیہ یہی زندگی ہے اسے جتنا جلدی سمجھ لو تمہارے لیے بہتر ہے اور سارا آنٹی جذباتی نہیں ہو رہی نا انہوں نے حقیقت سے نظریں نہیں چرائی ……. تم کیوں نہیں مان لیتی اس بات کو ,”۔
“مجھے نہیں سمجھنا کچھ بھی اور نا ہی میں اس گھر جاؤں گی “۔ مریم نے بےبسی سے اسے دیکھا جو خاموشی سے آنسو بہا رہی تھی۔
مریم نے ایک نظر اس پر ڈالی اور ایک نظر صدف کو دیکھا جو سارا کے ساتھ اندر آئی تھی۔
“کیسی ہے میری بیٹی ؟؟”۔ صدف نے پیار سے ہادیہ کو گلے لگایا اس کے آنسو پھر سے بہہ نکلے تھے ۔
“ٹھیک ہوں “۔وہ آہستگی سے بولی۔
“آج سے ہادیہ ہماری بیٹی ہے سارا اور جتنے دن یہ یہاں اسے بہت خوش رکھنا ہے آپ نے ڈانٹنا تو بلکل بھی نہیں اوکے “۔ وہ اس کے آنسو پونچھتے ہوئے بولی۔
“میری پیاری بیٹی “۔ ہادیہ نے بےبسی سے مریم کی طرف دیکھا جو دانستہ ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔
“آنٹی یہ مت کریں پلیز “۔صدف کے کنگن پہنانے پر وہ بےبسی سے بولی۔
“بیٹا ہمارے گھر کی بہو کے پہلے کنگن یہی ہوتے ہیں میری ساس نے مجھے پہنائے تھے اور میں نے تمہیں یہ روایت ہے بیٹا , اور تم سنبھالو خود کو میں جانتی ہوں تمہارے لیے بہت مشکل ہے یہ مگر اس بات کا یقین رکھو میں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں عورت کے اندر بہت برداشت ہے بیٹا , بہت صبر ہے انشااللّٰہ سب ٹھیک ہو جائے گا , تم میری بیٹی بن کر آؤ گی احمد بہت اچھا ہے تمہیں بہت خوش رکھے گا ,ساری پریشانیاں بھول جاؤ اور خوش رہا کرو “۔ احمد کے نام پر اس کا حلق تک کڑوا ہو گیا۔
مختلف سوچیں اس کے ذہن سے چمٹی ہوئی تھی ۔
**********
“امی وہ خوش نہیں ہے پتا نہیں کیوں اس سے زبردستی کر رہے ہیں ,مجھے تو بلکل بھی اچھا نہیں لگ رہا کیا ضرورت تھی بھلا ابھی بات کرنے کی سب یہی ہیں کچھ مہینوں بعد بات کر لیتے وہ سنبھل تو جاتی تب تک !!”۔ مریم بھرائی آواز میں بولی۔
“بیٹا لڑکی کی ذمہ داری بہت بھاری ہوتی ہے کچھ مہینوں بعد بھی کرنی تھی نا اچھا ہے ابھی کر دیں گے اور جہاں تک بات نا خوش ہونے کی ہے تو بیٹا ہر لڑکی ہر ماحول میں ڈھل جاتی ہے ,اللّٰہ نے اتنی برداشت دی ہے عورت کو ……. دکھ تو بہت بڑا ہے اس کا مگر سنبھل جائے گی آہستہ آہستہ انشااللّٰہ !!”۔
“کب تک کا کہہ رہے ہیں ؟؟”۔
“اگلے جمعے کا کہا ہے انہوں نے یوسف انکل اور آنٹی نے عمرہ پر جانا ہے تو کہہ رہے تھے پتا نہیں وہاں کتنا عرصہ رکنا پڑے تو جانے سے پہلے ہی کر لیتے ہیں یہ کام “۔
“اللّٰہ خوش رکھے بچی کو بہت بڑا دکھ دیکھا ہے اس نے “۔فاطمہ آبدیدہ سی اٹھ گئی۔
“کیا باتیں ہو رہی تھی ساس بہو میں ؟؟”۔ زائر کام میں مصروف بولا۔
“آپ جلتے ہی رہا کریں ہم ساس بہو سے “۔ وہ جل کر بولی زائر نے حیرت سے اسے دیکھا۔
“میں کب جل رہا ہوں یار تجسس ہو رہا تھا کہ کیا باتیں ہو رہی تھی , میں ساس بہو کی روایتی لڑائی نہیں دیکھی نا تو اس لیے میرا تو خیال تھا ابھی اونچی آوازیں سنائی دیں گی “۔ وہ شرارت سے بولا۔
“چچ چچ زائر کتنا کو کوئی پھاپھاکٹنی والے خیال ہیں آپ کے , ہماری لڑائی کروا کے بڑے خوش ہوں گے نا آپ حد ہے , آپ کے ساتھ تو لڑ سکتی ہوں مگر امی کے ساتھ نہیں آفٹر آل وہ میری خالہ بھی ہیں اور آپ بس جلا کریں “۔ مریم کی بات پر زائر نے قہقہہ لگایا۔
“میرے ساتھ تو تم لڑتی رہتی ہو “۔
“میں نہیں لڑتی اچھا آپ ہی لڑتے ہیں ہمیشہ , میری قدر کیا کریں میرے جیسی لڑکی بہت مشکل سے ملتی ہے “۔ وہ فخر سے بولی۔
زائر نے مسکراتی نظروں سے اسے دیکھا اور لیپ ٹاپ سائیڈ پر رکھ کر اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے ۔
“بہت قدر کرتا ہوں میں تمہاری , تمہارے ملنے پر تو نوافل بھی پڑھے تھے میں نے آخر اتنی اچھی لڑکی جو ملی تھی , اور بہت مشکلوں کے بعد ملی تھی پہلے تو خونخوار بلی بنی رہتی تھی “۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
“اور ہاں جیسے آپ تو بہت پیار سے بات کرتے تھے نا ایسے اکڑتے ہوئے تو بات کرتے تھے بہت برے لگتے تھے تب مجھے “۔ وہ ناک چڑھا کر بولی۔
“اور اب کیسا لگتا ہوں ؟؟” وہ مسکراتی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔
“آں !! سوچنا پڑے گا “۔ وہ سوچنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے بولی۔
“تو سوچو اور بتاؤ “۔
“ہاں اچھے ہیں اب “۔
“بس اچھا ؟؟”۔ زائر نے اسے گھورا۔
“جی بس اچھے ابھی آپ بہت اچھے والے لیول پر نہیں آئے , اس چڑیل کی وجہ سے کیسے بات کی تھی کچھ یاد آیا ؟؟”۔ اس کے انداز پر زائر ہنس دیا۔
“اوکے میڈیم آئندہ جو آپ کہیں گی ہم وہی کریں گے اب خوش “۔
“اور کسی کی وجہ سے مجھے ڈانٹے گے بھی نہیں ؟؟”۔
“کبھی بھی نہیں “۔ وہ مسکراہٹ دبائے سر نفی میں ہلا کر بولا۔
“اور ہفتے میں تین دفعہ امی سے ملوا کر بھی لائے گے “۔
“ضرور “۔
“آں ….. ہاں اور میرے کہے بغیر شاپنگ بھی کروایں گے “۔
“اوکے میم “۔
“اب تک کے لیے اتنا کافی ہے باقی جب یاد آئے گا تب بتاؤ گی اور اپنی بات سے مکرنا مت اوکے “۔
“کبھی بھی نہیں یار “۔
“اب آپ بہت اچھے ہیں ایسے ہی رہا کریں “۔ وہ ہنستے ہوئے بولی اس کی بات پر زائر ہنس دیا ۔
“شکریہ اس اعزاز کا محترمہ “۔
“اور ہمیشہ آپ سے ہی محبت کروں گا “۔ وہ مسکراہٹ دبائے بولا۔
“میں جانتی ہوں میرے جیسی لڑکی اور کہاں ملے گی بھلا “۔
“دبئی میں “۔ وہ برجستہ بولا ۔ مریم نے اپنے ہاتھ چھروا کر اس کے بازو پہ تھپڑ مارا اور زائر کو گھورا جو ہنس رہا تھا۔
“میں ….. “۔
“مذاق کر رہا ہوں یار “۔
“مجھے ایسے مذاق نہیں پسند اتنے بیہودہ مذاق !!”۔ وہ برا سا منہ بنا کر بولی۔
“آج کافی نہیں پلانی “۔ زائر کا دھیان بٹایا۔
“دبئی سے جا کر پی لیں “۔زائر نے خشمگیں نظروں سے اسے گھورا۔
“میں کافی لاتی ہوں “. وہ ہنستے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔
**********
رات کے دس بج رہے تھے احمد آفس کا کام کر رہا تھا جب اس کا موبائل بجا اس نے مصروف سے انداز میں ہیلو کہا.
“اسلام علیکم!!”۔ ہادیہ کی آواز سن کر لمحہ بھر کے لیے اس کے ہاتھ رکے۔
“وعلیکم اسلام کہیے کیسے فون کیا؟؟”۔ وہ معمول کے انداز میں بولا۔دوسری طرف کچھ دیر کے لیے خاموشی چھا گئی۔
“وہ …… کل آنٹی اور انکل آئے تھے ؟؟”. اس نے محتاط انداز میں بات شروع کی۔
“جانتا ہوں اور میرے ہی کہنے پر آئے تھے مثبت جواب ملا ہے انہیں تو کیا مبارک دینے کے لیے فون کیا ہے ؟؟”۔ وہ مسکراتے لہجے میں بولا۔
ہادیہ کے اعصاب ٹھٹھر گئے وہ لمحہ بھر کے لیے خاموش رہی۔
“میں نے کسی ایسے فضول کام کے لیے فون نہیں کیا اور بہتر ہے آپ بھی یہ بات بھول جائیں , آپ باخوبی جانتے ہیں کہ میں شادی شدہ خاتون ہوں “۔
“شادی شدہ خاتون تھیں محترمہ “۔احمد اس کی بات کاٹ کر بولا۔
“وٹ ایور !! اور جہاں لڑکی کی شادی ہوتی ہے اسی گھر سے اس کا جنازہ اٹھتا ہے یہ تو جانتے ہوں گے آپ “۔
“خاصی پرانی بات کر رہیں آپ , بہر حال مجھے اس بات سے یا کسی اور فضول سی بات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے آپ بتائیے کس کام سے فون کیا تھا “۔ وہ اس کی بات کو سِرے سے نظر انداز کر کے بولا۔
“مجھے یہ شادی نہیں کرنی اور یہ میرا آخری فیصلہ ہے “۔ اس کی بات پر احمد کچھ دیر خاموش رہا۔
“وجہ …. اس فیصلے کی وجہ بتانا پسند کریں گی آپ ؟؟”۔وہ سرد آواز میں بولا۔
“بلکل بھی نہیں , آپ کے سامنے میں اپنے فیصلے کی جواب دہ نہیں ہوں امید ہے آپ میری بات سمجھ چکے ہوں گے اور اپنے گھر والوں کو بھی سمجھا دیجیے گا تاکہ وہ اپنے دیئے ہوئے کنگن واپس لے جائیں اور آپ کی بیوی کے لیے سنبھال کر رکھیں , خدا حافظ !!”۔
احمد نے گہری سانس لے کر بند موبائل کو دیکھا اس کی پرسوچ نظریں موبائل پر جمی تھی اور ذہن میں ابھی تک ہادیہ کی باتیں گردش کر رہی تھی۔
“تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ہادیہ ؟؟ اتنے پیار سے وہ لوگ رشتہ لائے تھے اور اگر انکار ہو گیا تو وہ لوگ وجہ کیا بتائیں گے ؟؟ یہی نا کہ ہادیہ یہ شادی نہیں کرنا چاہتی اس کی مرضی پر ہی انکار کیا ہے “۔ مومل نے افسوس سے اسے دیکھا ۔
“وہ خود ہی کوئی بہانہ بنا لے گا میرا نام نہیں آئے گا اتنا تو جانتی ہوں میں اسے ” ۔ مومل نے اسے شرم دلانے والی نظروں سے دیکھا ۔
“مومل تم نہیں جانتی میرے لیے یہ فیصلہ آگ پر چلنے کے برابر ہے میں مرسلین کی جگہ کسی کو نہیں دے سکتی اور نا ہی اس کا نام اپنے نام کے آگے سے ہٹا سکتی ہوں “۔ وہ ناخن چباتے ہوئے بولی۔
“وہ تو کب کا ہٹ چکا ہے ہادیہ تمہارے ماننے نا ماننے سے کیا ہو گا “۔ مومل نے سوچا مگر اسے کہا نہیں ۔
ہادیہ مضطرب سی اٹھ کھڑی ہوئی اور کمرے سے باہر چلی گئی۔مومل گہرا سانس لے کر رہ گئی۔
**********
مومل سارا اور زارا کے ساتھ بازار گئی تھی ,فضا اور فہد یونیورسٹی جبکہ حیدر اور یوسف صاحب آفس میں تھے ۔ سارا نے ہادیہ کو بھی جانے کے لیے کہا تھا مگر اس نے انکار کر دیا۔
احمد یہ ساری رپورٹ مومل نے پہنچائی تھی ۔ گیارہ بجے احمد گھر آ گیا تھا ہادیہ اپنے کمرے میں مصروف تھی جب ملازم نے اس کے کمرے میں دستک دے کر اسے مہمان کے آنے کا بتایا تھا۔ وہ حیران ہوتے ہوئے اور مہمان کے بارے میں سوچتے ہوئے ڈرائنگ روم تک آئی تھی ۔
مگر سامنے کا منظر دیکھ کر اسے آگ ہی لگ گئی تھی ۔
وہ پرسکون انداز میں صوفے پر بیٹھا ہوا تھا سگریٹ سلگا کر اس نے ایک نظر ہادیہ کو دیکھا جو سلگتی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی۔ احمد نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سر کو خم کیا…. جیسے خوش آمدید کہہ رہا ہو!!
“کیسی ہیں آپ ؟؟”۔ وہ مسکرا کر بولا۔
“کام کی بات پہ آئیں جس کے لیے آپ جہاں موجود ہیں “۔ وہ بینچے لہجے میں بولی۔
“میں نے سنا ہے آپ انکار کر رہی اس رشتے سے وجہ جاننے آیا ہوں “۔ وہ دھویں کے مرغولے اڑاتے ہوئے بولا۔
“میں وجہ بتانے کی پابند نہیں ہوں کل بھی یہی بتایا تھا آپ کو “۔
“اور میں وجہ جاننے تک یہاں سے جاؤں گا نہیں بہتر ہے بتائیے کیوں سب کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے آپ نے ……. “۔
“شرم تو نہیں آئی آپ کو اپنے دوست کی بیوی کے لیے رشتہ بیجھتے ہوئے ……. اگر مرسلین ہوتا تو …….” وہ بھرائی آواز میں بول رہی تھی۔
“میڈیم مرسلین ہوتا تو یہ سب ہونا ہی نہیں تھا اور آپ مرسلین کی بیوہ ہیں , یہ میرا حق تھا جو میں نے استعمال کیا ہے شرافت سے رشتہ بھیجا ہے اور انکار کی وجہ جاننے کا بھی حق ہے مجھے ……. “۔ وہ بمشکل خود کو کمپوز کر کے بولا.
“مجھے شادی نہیں کرنی تو نہیں کرنی بس ضروری نہیں ہے کوئی وجہ ہی ہو “. وہ سرپھرے انداز میں بولی۔
“اوکے تو اس جمعے کو تیار رہیے گا نکاح ہے آپ کا “. وہ پرسکون انداز میں بولا۔
“میں مر جاؤں گی پھر میری لاش سے کر لینا نکاح “۔ وہ چٹخ کر گویا ہوئی۔
“بصد شوق یہ بھی کر کے دیکھ لیجیے پھر نتائج کی ذمہ دار بھی آپ ہی ہوں گی “۔ اس کا پرسکون لہجہ ہادیہ آگ ہی تو لگا گیا تھا۔
“بیوہ سے شادی کرنے کا اتنا ہی شوق ہے تو میرے علاوہ بھی دنیا میں بہت ساری بیوہ ہیں انہیں ڈھونڈیے اور ان سے نکاح کر لیجیے برائے مہربانی میری جان چھوڑ دیجیے آپ کو میں ہی ملی تھی تماشہ بنانے کے لیے آپ کی دلچسپی کے لیے اس دنیا میں بہت کچھ موجود ہے “۔ وہ روہانسی ہو کر بولی۔
“تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے “۔ وہ آہستگی سے بڑبڑایا۔ ہادیہ نے اس کی طرف دیکھ جو اسے ہی دیکھ رہا تھا اس نے فوراً نظریں جھکا لی۔
“میری ریکویسٹ ہے آپ سے آپ پلیز انکار کر دیں میرے لیے بہت مشکل ہے یہ سب “۔ وہ روتے ہوئے بولی۔
“آپ کی مشکلات ہی کم کرنے آیا ہوں ایک بات تو طے ہے کہ میں انکار نہیں کروں گا اور نا ہی آپ کریں گی اگلے ہفتے کی بجائے نکاح اس ہفتے ہو گا ,اور بات یاد رکھیے گا ہادیہ اپنے ساتھ کچھ بھی غلط کرنے کی کوشش مت کیجیے گا ورنہ بہت برا ہوگا باقی باتیں جب آپ میرے گھر پر ہوں گی تب ہوں گی آمنے سامنے , اور ہاں آپ کے آنسو اس لیے صاف نہیں کر رہا کہ میرے پاس اختیار نہیں ہے اور جب اختیار ہو گا تو آپ کی آنکھوں میں آنسو نہیں آئیں گے وعدہ ہے میرا “۔ اس کے مسکراتے لہجے پر ہادیہ نے فوراً آنسو پونچھے , احمد یک دم ہنس دیا۔
“ساری خطر ناک , بری سوچیں دماغ سے نکال دیجیے اور آرام کریں انشااللّٰہ جمعے کو ملاقات ہو گی پراپر طریقے سے ,اپنا خیال رکھیے گا خدا حافظ !!”۔ ہادیہ اسے جاتا ہوا دیکھ رہی تھی دو آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرے اور گم ہو گئے ۔ خطرناک سوچیں بار بار اس کے دماغ میں دستک دے رہی تھی ۔مرسلین کا چہرہ بار بار اس کی آنکھوں کے آگے آ رہا تھا ۔ وہ آنے والے حالات کے بارے میں سوچ رہی تھی ,
“اب کس سے کہے کیسے انکار کرے ؟؟؟”۔ وہ مسلسل یہی سوچ رہی تھی ۔ اس نے گہری سانس لے کر سر جھٹکا۔
احمد کے کلون کی مہک ابھی تک ڈرائنگ روم میں پھیلی ہوئی تھی ۔
“تم زبردستی مت کرو اُس کے ساتھ اسے کچھ وقت دو سوچنے کے لیے ,اس طرح تو وہ تم سے ناراض ہو جائے گی بہتر ہے اسے کچھ وقت دو سنبھلنے کے لیے پھر انشااللّٰہ دھوم دھام سے شادی کریں گے “۔ زائر اس کے سامنے کافی کا کپ رکھتے ہوئے بولا۔ وہ دونوں اس وقت زائر کے آفس میں بیٹھے تھے۔
“راضی ہی کب ہے وہ مجھ سے جو ناراض ہو جائے گی “۔احمد نے اس کی بات پر سر جھٹکا۔
“تم کچھ دیر انتظار کر لو ہو سکتا ……”۔
“آٹھ سال چار مہینے پندرہ دن سے انتظار ہی تو کر رہا ہوں …….. اور کتنا انتظار کروں ؟؟؟ میں اسے جتنا وقت دوں گا اس کے دل میں یہ بات پختہ ہو جائے گی کہ اس نے یہ شادی نہیں کرنی , میں جانتا ہوں اسے “۔ زائر لاجواب ہوا وہ واقعی ٹھیک کہہ رہا تھا۔
“دس سال سے احمد “۔ زائر نے کرسی سے ٹیک لگاتے ہوئے تصیح کی ۔ احمد ہلکا سا مسکرایا۔
“دو سال تو اسے سوچا بھی نہیں یار وہ مرسلین کی امانت تھی , مرسلین چاہتا تھا نا کہ ہادیہ خوش رہے میں نے خود سے وعدہ کیا ہے دنیا کی ہر خوشی اس کے آگے ڈھیر کر دوں گا , مرسلین کے سامنے سرخرو ہوں گا میں …… مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ مجھ سے نفرت کرتی ہے یا محبت , اس کا جو دل چاہے وہ کرے مجھے خوشی اس بات کی ہے میں تو محبت کرتا ہوں نا اس سے ……. “۔ وہ جیسے کسی ان دیکھے حصار میں قید تھا۔
زائر نے بےساختہ اس کی پیشانی چوم لی ۔
“بہت بہت خوش ہوں میں احمد , تم نے واقعی بہت اچھا فیصلہ کیا ہے …… مرسلین تو واپس نہیں آ سکتا مگر اس سے جڑے لوگوں کو ہم کسی اور حادثے کی نظر نہیں ہونے دیں گے …… میرے ذہن میں ایک بات آ رہی تھی ؟؟”۔
احمد نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
“مومل کے رشتے آ رہے ہیں بہت اور ماں جی سنجیدگی سے سوچ رہی ہیں اب اس کی شادی کر دینی چاہیے میں سوچ رہا تھا ہم عمر کی بات کریں مومل کے لیے , اگر فضا چھوٹی نہیں ہوتی تو ہم اسے بھی مانگ لیتے دوسرا صائم کی کمٹمنٹ ہے کسی کے ساتھ تم کیا کہتے ہو ؟؟”۔
“ونڈرفل آئیڈیا یار , بہت اچھا سوچا ہے تم نے میں تو کہتا ہوں آج ہی بات کرو ماں جی سے “۔
“آج امی کو لے کر جاؤں گا ان کی طرف تم بھی آ جانا “۔ زائر کی آفر پر اس نے نفی میں سر ہلایا۔
“اونہہ!! میرا ہونے والا سسرال ہے تین دن میں میری شادی ہے اور میں جاتا اچھا لگوں گا “۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
زائر نے قہقہہ لگایا ۔
“اتنی شرم تو تمہیں کبھی نہیں آئی ؟؟”۔
“کریڈیٹ گوز ٹو ہادیہ یوسف !!” احمد شرارت سے بولا ۔
“ہاں بلکل جس نے تم جیسے بےشرم انسان کو شرم و حیا والا بنا دیا “۔ زائر ہنستے ہوئے بولا ۔ اس کی بات پر احمد بھی ہنس دیا۔
“ایسے موقعوں پر مرسلین بہت یاد آتا ہے , آہ کتنی تھوڑی عمر لکھوا کر لایا تھا “۔
“اس کو بھول کون سکتا ہے یار ,اتنا پیارا انسان تھا کاش اس رات وہ گھر سے ہی نا جاتا پتا نہیں موت کب سے اس کے تعاقب میں تھی “۔ ماحول ایک دم ہی سوگوار ہو گیا تھا۔
“ایک بات کی خوشی ہے اس کے قاتل کو تو سزا ملی کچھ تو آگ ٹھنڈی ہوئی سینے کی !!”۔
“ہونہہ سزا عمر قید !! پھانسی تو لگنی ہی چاہیے تھی اسے “۔ احمد سر جھٹک کر بولا۔
“فیصل کی طرف چلو گے مجھے اس سے فائل لینی ہے “۔
“ہاں چلو “۔ احمد بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
وہ دونوں آگے پیچھے چلتے آفس سے نکل گئے۔
**********
زائر فاطمہ اور مریم تینوں ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے فاطمہ جب ان سے بات کی تو سارا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
“یہ تو خوشی کے آنسو ہیں میں تو سوچا بھی نہیں تھا کہ میری بیٹی کو اتنے اچھے لوگ ملے گے ہمارے لیے یہ خوش نصیبی کی بات ہے فاطمہ !!”۔ فاطمہ نے پیار سے ان کے آنسو صاف کیے ۔
“اب باتیں چھوڑیں اور شادی کی تیاریاں کریں ہم جلدی ہی اپنی بیٹی کو لیں جائیں گے “۔
“ہادیہ کا تین دن بعد یعنی جمعے کو نکاح ہے , بلال کا فون آیا تھا کہ کہہ رہا تھا ان لوگوں نے اتوار کو جانا ہے دبئی ,صدف کا بھائی بیمار ہے اس لیے ہم نے تو کہا تھا کہ واپسی پہ کر لیں گے مگر کہنے لگا پھر عمرے کے لیے جانا ہے تو یہ کام ہو ہی جائے اسی دن منگنی کر لیتے ہیں بچوں کی , ٹھیک ہے نا حیدر ؟؟”۔
“جی بھائی صاحب جیسے آپ کہیں !!”۔
“بہت بہت مبارک ہو آپ لوگوں کو “۔ زارا نے فاطمہ کو اور پھر مریم کو گلے لگایا۔
زائر مسکراتے ہوئے ان لوگوں کو دیکھ رہا تھا۔
مریم باہر نکل آئی ہادیہ کی تلاش میں وہ کمرے میں آئی , ہادیہ سینے پر بازو باندھے کھڑکی کے پاس کھڑی تھی ۔
“کیا کر رہی ہو لڑکی یہاں تم آئی ہی نہیں نیچے میں تمہارا انتظار کر رہی تھی “۔ مریم کے کہنے پر وہ ہلکا سا مسکرائی ۔
“کچھ نہیں ویسے ہی کھڑی سوچ رہی تھی کہ زندگی کیا سے کیا ہو جاتی ہے نا ؟؟ ہم کیا سوچتے ہیں , کیا چاہتے ہیں اور کیا ہو جاتا ہے , انسان اتنی لمبی پلاننگ کرتا ہے مگر ہوتا وہی ہے جو قسمت میں لکھا ہوتا ہے “۔ وہ پھیکی سی مسکراہٹ لیے بولی۔
“تم نے مان لیا ہے کہ یہی تمہاری قسمت ہے ؟؟”۔
“ہاں , کتنے منصوبے بنائے تھے کیا کیا نہیں کیا تھا مگر کیا ہوا ؟؟ مجھے اس بات کا یقین آ گیا ہے کہ اللّٰہ جو کرتا ہے بہتر کرتا ہے “۔ وہ گہرا سانس لے کر بولی۔
“تم بیٹھو تھک جاؤ گی ؟؟”۔ ہادیہ مریم سے بولی جو اس کے پاس کھڑی تھی ۔
“اونہہ میں ٹھیک ہوں “۔
“کل شاپنگ پہ چلو گی میرے ساتھ ؟؟”۔ ہادیہ اپنے ہاتھوں کو بغور دیکھتے ہوئے بولی۔
“تم ہمارے ساتھ ہی چلنا کل میں اور امی جا رہے ہیں شاپنگ پر “۔ ہادیہ نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
“کھانا لگ گیا ہے آ جائیں آپ دونوں !!”۔ ان دونوں کو کہہ کر مومل صوفے پر بیٹھ گئی۔
“تم نہیں جاؤ گی ؟؟”۔مریم کے پوچھنے پر اس نے سر نفی میں ہلایا.
“آپ لوگ جاؤ “۔
“شرما رہی ہو ؟؟”۔ مریم نے ہنستے ہوئے پوچھا۔
“نہیں جی !!”۔
“اچھا ہمارا کھانا بھی یہی لے آؤ تینوں مل کر کھاتے ہیں “۔مریم کے کہنے پر ہادیہ نے اسے ممنون نظروں سے دیکھا وہ واقعی باہر نہیں جانا چاہتی تھی۔
مومل مسکراتے ہوئے جلدی سے اٹھ گئی۔
**********
آج صبح سے پورے گھر میں شور سا مچا ہوا تھا ہر طرف ہنسی ,قہقہے , لڑکیاں اپنی اپنی تیاریوں میں مصروف تھی , عمر کے کمرے کا دروازہ دس دفعہ پیٹا جا چکا تھا مگر کسی کو کامیابی نہیں ہوئی , ہر دفعہ کھٹکھٹانے پہ اس کی آواز آتی !!
“میرا آج بہت سپیشل دن ہے مجھے ڈسٹرب مت کرو اور سکون سے تیار ہونے دو منگنی ہو رہی ہے میری کوئی چھوٹی بات نہیں ہے “۔
“عمر تمہارے زیور تو میرے پاس ہیں دروازہ کھولو اور وہ بھی لے لو “۔ اس کا کزن جل کر بولا۔
عمر کر قہقہہ بےساختہ تھا جس پر وہ سب جل کر راکھ ہو گئے۔
“میرے جوتے سنبھال کر رکھو میں باہر آ کر پہنوں گا “۔
“جوتے تمہاری راہ دیکھ جلدی آؤ باہر اب تو وہ بھی تھک گئے ہیں “۔ صائم دانت پیس کر بولا۔
“جلنے کی بو آ رہی ہے “۔ وہ مسکراتی آواز میں بولا۔
“کھولتے ہو کہ زائر بھائی کو بلاؤں ؟؟”۔ صائم کی دھمکی کام کر گئی تھی عمر نے دروازہ کھول کر اسے گھورا۔
بلیک پینٹ کوٹ پہنے, بال سیٹ کیے , براؤن آنکھیں جو صائم کو گھور رہی تھی , وہ آج واقعی بہت اچھا لگ رہا تھا۔
“سب جا رہے ہیں اب آپ بھی تشریف لیں آئیں جناب !!”۔ اس کا کزن جل کر بولا۔
“چلیے ہم تو ریڈی ہیں راستہ دیجیے “۔ وہ شاہانہ انداز میں آگے بڑھ گیا اس کے کزن نے پیچھے اسے گھورا۔
“منگنی نا ہو گئی پرائم منسٹر کا عہدہ ہو گیا جو اسے مل رہا ہے ہونہہ “۔
فاطمہ نے اس کی پیشانی چوم کر اس کی نظر اتاری۔
سب چلے گئے جبکہ زائر نے احمد کے ساتھ آنا تھا۔
**********
وہ آج بھی اسی طرح تیار ہوئی تھی ,وہ اُتنی ہی خوبصورت لگ رہی تھی مگر آج ایک چیز کی کمی تھی وہ خاموش تھی , وہ سارا کی ہدایت پر عمل کرتی جا رہی تھی , تیار ہوتے وقت بھی وہ کچھ نہیں بولی …….
سب نے ہی سکون کا سانس لیا تھا کہ اس نے کوئی احتجاج نہیں کیا…….
اس نے سارے آنسو اندر اتار لیے تھے , اس کا ذہن اس وقت کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں تھا , سب کے لیے اس کی خاموشی غنیمت تھی مگر مریم کو اس کی خاموشی سے خوف آ رہا تھا وہ دل ہی دل میں دعا کر رہی تھی کہ سب ٹھیک طرح سے ہو جائے ,,,,,,
نکاح بہت سادگی سے ہوا تھا , نکاح کے وقت وہ خالی خالی نظروں سے سب کو دیکھ رہی تھی , سارا نے روتے ہوئے اسے گلے سے لگا لیا تھا وہ بولتی جا رہی تھی مگر ہادیہ کا ذہن ان کی باتیں سمجھنے کے قابل نہیں تھا وہ بس خالی نظروں سے سب کو دیکھ رہی تھی ۔
نکاح کے کچھ دیر بعد عمر اور مومل کی منگنی کی رسم ہوئی تھی ۔ صائم کے ٹہوکے بھی عمر کی مسکراہٹ کو نہیں چھپا سکے تھے ۔
وہ مسکراتے ہوئے سب سے مل رہا تھا , احمد کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی وہ یوسف صاحب کی بات سن رہا تھا , اس نے ان کا ہاتھ دبا کر جیسے انہیں تسلی دی۔
کھانے کے بعد رخصتی کا شور اٹھا , سب سے ملتے ہوئے بھی وہ خاموش تھی , نا آنسو بہا تھا نا ہی اس کی خاموشی ٹوٹی تھی ۔
احمد نے گہری نظروں سے اسے دیکھا اور سر جھکا کر زارا کی بات سننے لگا۔
احمد حیدر صاحب سے ملنے کے بعد گاڑی میں بیٹھ گیا گاڑی زائر چلا رہا تھا ۔ وہ دونوں آہستہ آواز میں باتیں کر رہے تھے ۔ ان لوگوں کو چھوڑنے کے بعد زائر واپس جانے لگا جب احمد نے اسے روک لیا۔
“کیوں جا رہے ہو رہو آج یہاں ہی ؟؟”۔
“امی لوگوں کو پک کرنا ہے وہ انتظار کر رہی ہوں گی صبح ملاقات ہو گی “۔ زائر کے جانے کے بعد وہ کافی دیر وہاں کھڑا رہا پھر گہری سانس لے کر اپنے کمرے کی طرف آیا۔
اس نے آہستگی سے کمرے کا دروازہ کھولا وہ حیرت سے کچھ دیر کے لیے وہی کھڑا رہا۔
اس نے بہت اچھا استقبال نہیں سوچا تھا مگر اس نے ایسا بھی نہیں سوچا تھا ……. اسے ہادیہ سے کسی قسم کی امید نہیں تھی , یہ اس کی اپنی چوائس تھی اب اسے خود ہی بھگتنا تھا ……. وہ گہری سانس لے کر اپنا کوٹ اتارنے لگا۔
ہادیہ منہ سر لپیٹے پڑی تھی ایک تکیہ صوفے پر پڑا تھا جس کا مطلب تھا احمد کی جگہ وہاں ہے !!
چینج کرنے کے بعد وہ صوفے پر بیٹھ گیا سگریٹ سلگا کر اس کی پرتپش نظریں ہادیہ پر جمی تھی۔
“اس طرح کر کے کیا ظاہر کرنا چاہتی ہیں آپ ؟؟”۔ اس کی سرد آواز پر ہادیہ کا دل تیز تیز ڈھرکنے لگا مگر وہ خاموشی سے لیٹی رہی ۔
اس کی خاموشی احمد کو سلگا گئی تھی۔
وہ تیزی سے اٹھا اور چادر کا کونا کھینچ کر اس پر سے ہٹایا۔
“میں آپ سے مخاطب ہوں محترمہ دیواروں سے بات کرنے کی عادت نہیں مجھے !!”۔
“میں نے سنا نہیں اور یہ کیا بدتمیزی ہے مجھے مجبور مت کریں کہ میں کمرہ چھوڑ کر چلی جاؤں “۔ اس کی بات نے تو سہی معنوں میں اسے آگ لگا دی تھی۔
اس نے ایک جھٹکے سے اس کا پکڑ کر اسے کھینچ کر اٹھایا اس کے دونوں ہاتھ احمد کے ہاتھ میں تھے ہادیہ نے اسے گھورا اور اپنے ہاتھ کھینچنے لگی ۔
“بیکار کی کوشش مت کریں میں تو نہیں چھوڑنے والا جب تک اپنی بتا نا سنا دوں اور آپ ذرا وضاحت کریں گی اپنی بات کی ؟؟”۔ وہ مسکراتی آواز میں بولا۔
ہادیہ نے غصے سے اسے گھورا ۔
“مجھے کچھ نہیں سننا سمجھے آپ اور اگر آپ نے بدتمیزی کی تو میں امی کو بلا لوں گی “۔ احمد نے بغور اس کا ضدی انداز دیکھا ۔
“خیر ایسی کوئی پیار بھری باتیں تو نہیں سنانے والا میں آپ کو , بس یہی کہنا تھا مجھے صوفے پر سونے کی عادت نہیں ہے ذرا سائیڈ پر ہو جائیں تاکہ میں ریسٹ کر لوں “۔ ہادیہ نے نم آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور پھر سے اپنے ہاتھ چھڑوانے لگی ۔
“کیوں محنت کر رہی ہو جب میرا دل چاہے گا میں چھوڑ دوں گا ہاتھ ……. اور ہاں یہ آپ کا تحفہ……. ” وہ ایک ہاتھ سے اس کے دونوں ہاتھ پکڑے دوسرے ہاتھ سے اس نے رنگ نکالی اور اسے پہنا دی ۔
“مجھے نیند آ رہی ہے میرا ہاتھ چھوڑیں “۔ دو آنسو ٹوٹ کر اس کی آنکھوں سے گرے ۔ احمد نے اس کے آنسو صاف کیے ۔
“آئندہ میں تمہیں روتے ہوئے نا دیکھو چھوٹی چھوٹی باتوں پر رو دیتی ہو یار بہادر بنو “۔ وہ اپنی جگہ پر لیٹتے دوستانہ انداز میں ہوئے بولا ۔
ہادیہ اس کی بات نظر انداز کر کے آنکھوں پر بازو رکھ کر سونے کی کوشش کرنے لگی۔
“اگر مرسلین تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتا تھا تو مجھ پر فرض ہے کہ میں تمہاری آنکھوں میں آنسو نا آنے دوں “۔ وہ خود سے بولا ۔
سگریٹ پینے کی خواہش دل میں دبائے وہ سونے کی کوشش کرنے لگا۔
**********
ہادیہ کی آنکھ ایک جھٹکے سے کھلی تھی احمد اس کے سر پر کھڑا تھا ہادیہ ایک جھٹکے سے اٹھی بال سمیٹ کر اس نے ناگواری سے احمد کی جانب دیکھا جو مسکراہٹ دبائے صوفے پر بیٹھ رہا تھا۔
“یہ کیا بدتمیزی تھی ؟؟”۔ وہ صبح صبح اس سے بات نہیں کرنا چاہتی تھی مگر احمد کی حرکت نے اسے جیسے آگ لگا دی تھی ۔
“کیا ؟؟”۔ وہ معصومیت سے بولا۔
ہادیہ نے بےدریغ اسے گھورا۔
احمد نے مسکراہٹ چھپائے منہ کے آگے اخبار کر لیا۔
ہادیہ نے ایک جھٹکے سے اس کے ہاتھ سے اخبار کھینچ کے دور پھینکا۔
“یار اخبار تو دے دو کیا کر رہی ہو “۔ وہ ہنستے ہوئے بولا. ہادیہ کا دل اس کا خوبصورت چہرہ نوچ لے ۔
“تم اٹھ نہیں رہی تھی مجبوراً مجھے تمہارے بال کھینچ کر تمہیں اٹھانے پڑا ……. آئی ایم سوری “۔ وہ کمر پر ہاتھ رکھے اسے گھور رہی تھی ۔
نو بج چکے تھے اور ہادیہ کے اٹھنے کے آثار اسے ابھی بھی نظر نہیں آ رہے تھے اس نے دو تین آوازیں دیں مگر بےسود , وہ اسے اٹھانے کی نیت سے آگے بڑھا ہادیہ کے لمبے بال تکیے پر بکھرے تھے اس نے بالوں کی لٹ انگلی پر لپیٹنا شروع کی اور پھر آہستگی سے کھینچا , اس کی آنکھ ایک جھٹکے سے کھل گئی پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آیا مگر جب احمد کو اپنے سر پر کھڑا دیکھا تو وہ جل کر رہ گئی۔
“ہونہہ سوری , آئندہ ایسی حرکت کی تو میں بلکل بھی معاف نہیں کروں گی “۔ وہ انگلی اٹھا کر گویا ہوئی۔
احمد نے دلچسپی سے اس کا انداز دیکھا ۔
“اس دفعہ معاف کر دیا ہے نا تو اگلی دفعہ بھی کر دو گی “۔وہ شرارت سے بولا ہادیہ نے ناگواری سے اسے دیکھا اور تیزی سے کمرے نکلنے لگی تھی جب احمد اس کے ساتھ ہو لیا۔
ہادیہ نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
“تم ایک دن کی دلہن ہو اکیلی بھاگ کر جاتے ہوئے اچھی لگو گی کیا دونوں ساتھ جاتے ہیں “۔ وہ مسکراتے ہوئے بولا۔
ہادیہ سر جھٹک کر آگے چل دی ۔
“ویسے میں جانتا ہوں تمہیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے تم بہت خوبصورت ہو مگر تھوڑا بہت میک اپ انسان کی صحت کے لیے ٹھیک ہوتا ہے “۔ ہادیہ اسے نظر انداز کیے آگے بڑھ گئی احمد کندھے اچکا کر اس کے پیچھے ہو لیا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...