مزنی کے برتاؤ سے اسے کافی گہری چوٹ پہنچی تھی۔گھر کے باقی افراد کا برتاؤ بھی لیا دیا سا ہی تھا۔وہ اپنی ہی سوچوں میں گم تھی کہ رشیدہ بوا اسے کھانے پر بلانے چلی آئی۔اس گھر کے سبھی مکینوں کے ساتھ ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھانا کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ان سبھی کےلئے وہ اجنبی تھی اور اجنبیوں کے ساتھ کھانا کھانے کا تجربہ اسے نہیں تھا۔ اسے لگتا تھا کہ وہ ایک پر اعتماد لڑکی ہںے اسے اجنبیوں سے ڈیل کرنا آتا تھا مگر اس گھر میں آکر اس کا سارا اعتماد جھاگ کے مانند بیٹھ گیا تھا۔اجنبیوں کے ساتھ چند باتیں کر لینا آسان تھا مگران کے ساتھ چوبیس گھنٹے گزارنا کیا ہوتا ہے اس کا احساس اسے یہاں آکر ہوا تھا۔اس کی آنکھیں ایک بار پھر سے برسنے کو بے تاب ہںونے لگی۔دل پر منو بوجھ لئیے وہ ڈائنیگ ہال میں آئی تھی۔حسب معمول گھر کے سبھی افراد اپنی اپنی نشست پر براجمان تھے تاہم شاہ زر کی موجو دگی غیر متوقع تھی۔ غالباً یہ راشد صاحب سمیت سبھی کو منانے کی کوشش تھی۔عالیہ بیگم اور تینوں تائیاں سب کو باری باری کھانا سرو کرنے میں مصروف تھیں۔ان میں سے کوئی بھی شاہ زر کے نزدیک نہیں آیا تھا۔اسے قصداً نظر انداز کر دیا گیا۔اس نے خود کو بے بسی کی انتہاؤں پر محسوس کیا تبھی زرمین نے باؤل اٹھایا اور اسے کھانا سرو کرنا شروع کیا۔شاہ زر نے نفرت سے اپنی نگاہیں دوسری سمت کرلی۔
“مزنی پانی کا جگ پاس کرنا پلیز۔”
شاہ زر مزنی سے مخاطب ہںوا۔چاہے ساری دنیا اس سے خفا ہںوجائے اسے یقین تھا کہ مزنی اس سے خفا نہیں رہ سکتی تھی۔مزنی ہنوز کھانے میں مشغول تھی گویا اس کی بات ہی نہ سنی ہںو۔ڈائنیگ ٹیبل پر موجود باقی افراد کا برتاؤ بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ذلت و بے بسی کے احساس سے اس کا چہرہ سرخ ہںوگیا۔گردن میں گلٹی سی ابھر کر معدوم ہوئی تھی۔اس نے اپنی پلیٹ پرے دھکیلی اور اٹھ کھڑا ہوا۔لاشعوری طور پر سبھی کی نگاہیں اس کی طرف اٹھی تھیں۔مگر اس کی نظر زرمین کے چہرے پر مرکوز تھی۔ایک قہر آلود نگاہ اس پر ڈالتا وہ باہر نکل گیا۔شاہ زر کے جاتے ہی عالیہ بیگم اپنی نشست چھوڑ کر کھڑی ہوگئی۔اور ان کے بعد ان کی تقلید کرتے ہوئے سبھی کھانا چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔سب سے آخر میں راشد صاحب اپنا کھانا ختم کر اپنی نشست سے اٹھے تھے۔گویا یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ انھیں شاہ زر کے بھوکا رہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ضبط کی طنابیں اس کی ہاتھوں سے سرکتی جارہی تھی۔آنسوؤں کا گولا حلق میں اٹکنے لگا۔آج کا کھانا ادھورا رہ جانے کی وجہ صرف وہ تھی۔نہ جانے مستقبل میں اور کتنے کھانے ادھورے رہ جانے والے تھے۔وہ شاہ زر کو سبق سکھانا چاہتی تھی،اس کی زندگی خراب کرنا چاہتی تھی،اسے دکھ دینا چاہتی تھی مگر بلاواسطہ وہ اس گھر کے مکینوں کو دکھ دے رہی تھی۔وہ خود کو ان کا مجرم محسوس کر رہی تھی ۔وہ بے چینی سے ہال کے چکر کاٹ رہی تھی۔لاکھ کوشش کے باوجود وہ اپنے اور شاہ زر کے مشترکہ کمرے میں جانے کی ہمت نہیں جٹا پا رہی تھی۔جتنے غصے میں وہ کھانا چھوڑ کر گیا تھا عین ممکن تھا کہ اس کو سامنے پاتے ہی اس کا گلا گھونٹ دے گا۔اسی اثناء میں رشیدہ بوا اس کے قریب آئی اور عجلت میں اس کے ہاتھ میں موبائل تھما کر کچن میں روپوش ہںوگئی۔اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھ پاتی SMS کی بیپ نے اس کا دھیان اپنی طرف کرلیا۔اس نے پڑھنا شروع کیا۔
Dear zarmeen,
میں جانتی ہںوں کہ تمہیں میرے برتاؤ سے ٹھیس پہنچی ہںوگی۔میں مجبور ہںوں۔میں اپنے بھائی سے بہت محبت کرتی ہںوں۔وہ میرے لیئے بہت اہم ہیں۔مگر اس کا قطعی یہ مطلب نہیں ہے کہ میں تم سے خفا ہوں یا تمھارے لئیے میری محبت میں کمی آگئی ہے۔ مجھے تم پر ناز ہںے تم نے وہی کیا جو میں چاہتی تھی۔تم نے میری باتوں کا مان رکھا۔میرے اور شاہ زر کے رشتے کی حقیقت جاننے کے باوجود تم نے اپنے حوصلوں کو ٹوٹنے نہیں دیا ۔تم بااعتماد اور بلند حوصلہ زرمین فاروقی بن گئ ۔ہںو بالکل پہلے والی زرمین۔ میں تمھارے لیے بہت خوش ہوں۔مگر اس لڑائی میں میں تمھارا ساتھ دینے سے قاصر ہوں۔ میں شاہ زر اور تم دونوں ہی سے محبت کرتی ہوں۔میں تم دونوں کے درمیان کسی ایک کا انتخاب نہیں کر پاونگی۔نہ ہی کسی ایک کا ساتھ دے پاونگی۔تم اپنے حق کے لیے لڑتی رہنا۔ وہی کرنا جو تمہیں مناسب لگے۔کیونکہ میں جانتی ہںوں کہ تم کبھی کچھ غلط نہیں کرسکتی۔اس گھر میں ہمیں اجنبیوں کی طرح پیش آنا ہوگا۔یہ ظاہر کرنا ہوگا کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتی۔اسی میں ہم دونوں کی بہتری ہے۔خود کو تنہا محسوس نہ کرنا ۔اس گھر سے باہر نکلتے ہی تم جب چاہو مہر سے مل سکتی ہو ۔میں تمھارے لیے مہر ہی رہونگی ہمیشہ۔take care
”
اس کے ہاتھوں میں مقید موبائل اس کے آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا۔وہ کسی تھکے مسافر کے مانند صوفے پر ڈھے گئی ۔اسے اپنا آپ بہت ہلکا محسوس ہںورہاتھا۔ اسنے اپنا گیلا چہرا ڈوپٹہ سے خشک کیا اور کمرے کی طرف قدم بڑھا دیے۔اس کمرے میں داخل ہونے کے لیے درکار ہمت اس میں آگئ تھی۔
***
وہ جوں ہی کمرے میں داخل ہوئی اس کی چھٹی حس نے آنے والے خطرے کا احساس کرایا تھا۔
ٹیبل لیمپ اوندھا پڑا تھا۔کھڑکی کے پردے فرش پر آرہے تھے۔ڈریسنگ ٹیبل کا سامان جا بجا بکھرا ہوا تھا۔بیٹ شیٹ بیڈ کہ بجائے فرش پر بچھی اپنی قسمت کو رو رہی تھی۔کمرے کی حالت اس کے غصے کی عکاسی کر رہی تھی۔اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔باتھ روم سے شاور کی آواز آرہی تھی۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہوئی بیڈ کے قریب آئی فرش سے بیڈ شیٹ اٹھا کر بیڈ پر بچھانے لگی تبھی واش روم کا دروازہ کھلا اور باہر نکلا۔وہ بے ساختہ پلٹی تھی۔وہائٹ ٹی شرٹ اور بلاک جینس پانی سے تر بتر تھیں۔بھورے سلکی بال پیشانی پر بکھرے ہوئے تھے جن سے ٹپکتی پانی کی بوندیں یہ صاف ظاہر کر رہی تھی کہ وہ کپڑوں سمیت شاور کے نیچے کھڑا ہوگیا تھا۔
“آگئ تم ،بیوی”۔
اس نے لفظ بیوی پر زور دیتے ہوئے اسے مخاطب کیا تھا۔
شاہزر کی سرخ ہورہیں آنکھیں اور طنزیہ طرزتخاطب نے اس کی گھبراہٹ کو دو چند کر دیا۔
“میں تمھاری بیوی نہیں ہوں سمجھ آئی تمھیں ۔آئندہ مجھے اسطرح مت پکارنا'”۔
بمشکل اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے وہ بولی۔
“اچھا تو تم میری بیوی نہیں ہو۔ حال ہی میں میرا نکاح جس لڑکی کے ساتھ ہوا ہے کیا وہ تم نہیں ہو۔”
وہ اس کے عین مقابل آکھڑا ہوا۔
وہ بدک کر پیچھے ہٹی تھی۔
” ت …..ت تمھیں شرط یاد نہیں ہے ۔6 قدموں کی دور پر رہ کر جو کہنا ہے کہو ۔دور ہٹو۔”
اس نے اپنی گھبراہٹ کو چھپانے کی سعی مگر لہجے نے اس کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
“کیوں آئی ہو تم یہاں ۔اتنا تو میں جانتا ہوں کہ تم کوئی مظلوم بےچاری قسم کی لڑکی نہیں ہو ۔یقینا کسی پلاننگ کے ساتھ تم یہاں آئ ہو۔بولو کیا چاہتی ہو تم؟کیوں گھس آئ ہو میرے گھر میں میری زندگی میں؟تمھاری پرابلم کیا ہے؟”
وہ ایک قدم آگے بڑھا تھا اسے خود سے اتنے قریب پاکر وہ بدک کر پیچھے ہٹی نتیجتاً دیوار سے جا لگی۔اس نے مڑ کر دیوار کو اور پھر شاہ زر کو دیکھا۔اس شخص نے اس کی شرط کو کوئ اہمیت نہیں دی تھی الٹا اسی پر رعب جما رہا تھا۔اس کا دماغ کھول اٹھا ۔
“تم ہو میری پرابلم ۔میں تم سے نفرت کرتی ہوں۔تمھاری بربادی چاہتی ہوں۔بلکل ٹھیک اندازہ لگایا تم نے میں کوئی مظلوم بےچاری قسم کی لڑکی نہیں ہوں جو خاموشی کے ساتھ ظلم برداشت کرتی جاؤں۔ میں وہی جرنلسٹ ہوں جس نے تمھیں جیل بھیجوایا تھا ۔ تم نے میرے ساتھ زیادتی کی ہے۔ ظلم کیا ہے۔ میں نے تمھیں موقع دیا تھا کہ میری جان لے لو مگر تم نے مجھے زندہ چھوڑ دیا ۔اب تم اپنی بربادی اپنی آنکھوں سے دیکھوگے۔مجھے تمھاری دکھتی رگ کا پتہ چل گیا ہے دنیا والے تمھارے متعلق جو کچھ سوچے تمھارے متعلق جیسی بھی خبریں پڑھیں تمھیں فرق نہیں پڑتا تمھیں محض اس بات سے فرق پڑتا ہے کہ تمھاری فیمیلی تمھارے بارے میں کیا سوچتی ہے ۔اسی فیمیلی کے سامنے میں تمھیں ذلیل کرونگی ۔ وہیں چوٹ کرونگی جہاں سب سے زیادہ ردر ہوگا تمھیں ۔
تمھیں اس قدر مجبور کرونگی کہ تم گھٹنوں پر بیٹھ کر مجھ سے معافی مانگوگے۔”
اس نے شاہ زر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔اس کا تنفس تیز تیز چل رہا تھا۔
” تم مجھے تباہ کروگی ۔مجھے ذلیل کروگی۔تم ہو کون ایک کمزور لڑکی۔تمھیں کیا لگتا ہے کہ تم میرے ہی فیمیلی کو میرے خلاف کر دوگی۔میرے ہی گھر کی چھت کے نیچے کھڑی ہوکر تم مجھ کو چیلنج کر رہی ہو۔تو جاؤ کر لو جتنی کوشیشیں کرنی ہیں۔لیکن یہ امید قطعی نہ رکھنا کہ میرے گھر والے تمھارے “مشن بربادی”
میں تمھاری مدد کرینگے۔یہ لوگ میری فیملی ہیں۔ چند روز میں وہ سب نارمل ہو جائینگے۔کیونکہ یہ سب مجھ سے محبت کرتے ہیں اور جن سے محبت کرتے ہیں نا ان سے زیادہ دیر تک ناراض نہیں رہا جاسکتا ۔میں یہ سب تم سے کیوں کہہ رہا ہوں۔تمھیں کیا خبر کے فیمیلی کیا ہوتی۔تم تو اپنی دائی ماں کے ساتھ رہتی ہو نا۔تم جیسی لڑکیوں کی اپنی کوئی فیمیلی ہوتی نہیں ہے اس لیے دوسروں کے ہنستے کھیلتے گھروں میں آگ لگانے چلی آتی ہیں ۔تم سے دوسروں کی خوشیاں برداشت نہیں ہوتیں ہے نا اپنی محرومیوں کا بدلہ تم دوسروں سے لینا چاہتی ہو ہے نا”۔
شاہزر نے اس کے نازک دودھیا بازو کو اپنی ہاتھ کی آہنی گرفت میں دبوچ لیا تھا۔ اس کی گرم گرم سانسیں اس کے چہرے کو جھلسا رہی تھیں۔زرمین کا ہر ایک لفظ اس کی مردانہ انا پر چابک کے مانند لگا تھا اس نے بھی حساب برابر کرنا ضروری سمجھا تھا۔درد کے مارے وہ کراہ اٹھی باوجود ضبط کے ایک آنسو پلکوں سے ٹوٹ کر گرا تھا۔۔
“چھوڑو مجھے۔”
بدقت تمام زرمین نے یہ الفاظ ادا کیے تھے۔اس کی لہجے کی لرزش واضح تھی ۔پلکوں سے گرا آنسو چہرے کا سفر کرتا شاہزر کی کلائی پر گرا تھا ۔وہ بے ساختہ زرمین کے بازو کو اپنی گرفت سے آزاد کرتے پیچھے ہٹا ۔
“مسٹر شاہ زر آفریدی میں آخری دفعہ کہہ رہی ہوں تم سے ۔مجھ سے دور رہو۔آئندہ تم نے مجھے تکلیف پہنچانے کی تو میں وہ کرونگی جس کا تصور بھی تم نے نہ کیا ہوگا۔بہت زعم ہے نا تمھیں تمھاری مردانگی پر ایک کمزور لڑکی کیا کچھ کرسکتی ہے اس کا اندازہ عنقریب تمھیں ہو جائے گا۔”
اپنی بات ختم کرکے وہ بھاگنے کے انداز میں باتھ روم کی سمت بڑھی اور دروازہ بند کرتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
“تمھیں کیا خبر فیمیلی کیا ہوتی ہے۔۔۔۔۔ تم جیسی لڑکیوں کی اپنی تو کوئی فیمیلی ہوتی نہیں ہے۔۔۔ ۔اسلیے دوسروں کے ہنستے کھیلتے گھروں میں آگ لگانے چلی آتی ہیں۔۔۔
شاہ زر کے زہریلے الفاظ تیر کی طرح اس کے دل میں چبھے تھے۔وہ اگر اسے تکلیف پہنچانے کا ارادہ رکھتا تھا تو یقیناً کامیاب ہوا تھا۔ اس کی آج کی یہ رات اسی تکلیف کے نام ہو جانی تھی۔
****
وہ دیر رات تک روتی رہی تھی۔فجر کی اذان کے ساتھ ہی اس کی آنکھ کھل گئی وہ نماز پڑھنے کے ارادے سے اٹھ بیٹھی بے ساختہ اس کی نظریں بیڈ کے دائیں طرف صوفے پر سو ئے شاہ زر پر ٹھہر گئی۔اس کا قد 6 فٹ سے ایک دو انچ زیادہ ہی تھا۔اس کا آدھا جسم صوفے پر تھا دونوں پیر صوفے کے حدود سے باہر لٹک رہے تھے۔
جسم بھی کثرتی تھا لہذا اس کی لمبائی اور چوڑائی دونوں ہی لحاظ سے صوفے پر سو پانا اس کے لئے نا ممکن تھا۔ بھورے بال ماتھے پر بکھرے ہوئے تھے۔ہر وقت انگارے اگلتی ہوئی آنکھیں بند تھی۔سوتے ہںوئے بالکل بچے کی طرح معصوم لگ رہا تھا۔یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی شخص ہے جس کی بدولت وہ یہ حال کو پہنچی ہے۔جس کی زبان کل رات الفاظ نہیں زہر اگل رہی تھی۔اس کا زہر خند لہجہ اس کے کٹیلے الفاظ کانوں میں گونج اٹھے۔
اس شخص کی بے آرامی پر اسے ذرا بھی ترس نہیں آیا۔اسے اس حالت میں دیکھ طمانیت و سکون کا احساس اس کی رگوں میں اتر گیا۔ فوراً سے پیشتر اس کے چہرے سے نگاہ ہٹا کر وہ نماز کے لئے اٹھ کھڑی ہںوئی۔
وہ صبح ساڑھے سات بجے کا الارم لگا کر سویا تھا یہ بر وقت ناشتے کی ٹیبل پر پہنچنے کی کوشش تھی۔الارم کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔فریش ہںو کر وہ کمرے سے باہر نکلنے ہی والا تھا کہ وہ کمرے کے داخلی دروازے سے برآمد ہںوئی۔
“میرا لاکٹ مجھے واپس کرو۔”
اس کے عین مقابل کھڑی اس نے اپنا مخروطی ہاتھ اس کے سامنے پھیلایا۔
“کون سا لاکٹ؟میں تمہاری کسی بھی چیز کے متعلق کوئی معلومات نہیں رکھتا۔”
کمال بے نیازی سے جواب دیا تھا۔
“انجان بننے کی کوشش مت کرو۔میں جانتی ہںوں وہ تمھارے پاس ہںے۔میری چیز مجھے واپس کرو۔وہ میرے لئے بہت important ہںے۔”
غصہ ضبط کرتے ہںوئے بولی تھی۔
“اوہ! اچھا یاد آیا۔ وہی لاکٹ جو اس روز جھینا جھپٹی میں میری جیکٹ میں پھنس گیا تھا۔اسے تو میں نے پھینک دیااسی روز۔تمھارا کیا خیال تھا میں تمھاری چیز کو اتنے دنوں تک سینے سے لگا کر رکھتا۔اب ہٹو میرا راستہ چھوڑو۔”
اسے ایک طرف ہٹاتے ہوئے طنزیہ ہنسی ہنستا آگے نکل گیا۔
وہ بے بسی کی مورت بنی اس کی پشت کو دیکھ کر رہ گئ۔
وہ تیز تیز قدم اٹھاتا ڈائنیگ ہال میں داخل ہںوا۔سبھی افراد اپنی اپنی نشست پر براجمان تھے۔زرمین اس کے پیچھے آئی تھی۔وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ زرمین نے اس کے سامنے مینگو جوس سے بھرا گلاس اور ٹوسٹ کی پلیٹ رکھی۔اسے یکسر نظر انداز کرتا وہ ناشتے کی پلیٹ پر جھک گیا۔پہلے ہی نوالے کے ساتھ اس نے بڑی طرح کھانسنا شروع کردیا۔ایک ہی ساتھ کئی پانی کے گلاس تھامے ہںوئے ہاتھ اس کی طرف بڑھے تھے۔کوئی اور موقع ہںوتا تو وہ خوشی کے مارے اچھل پڑتا۔مگر فی الحال اس کی حالت ابتر تھی لہٰذا خاموشی کے ساتھ ایک گلاس تھام کر لبوں سے لگا لیا۔
کچھ افاقہ ہںونے پر ٹیبل پر موجود دوسرے افراد کی طرف نظر کی تھی۔سبھی اپنی پلیٹ پر یوں جھکے ہوئے تھے گویا انھیں اس کی حالت سے کوئی سروکار نہیں۔
“یہ کونسا نیا ڈرامہ ہںے برخوردار۔کیا ڈنر کی طرح بریک فاسٹ بھی کسی ہںوٹل میں کرنے کا ارادہ رکھتے ہںو۔جہاں جانا ہںے بخوشی جاؤ اس کے لئے تمہیں تماشہ کرنے کی اور مفت میں سب کی ہمدردیاں بٹورنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔”
بڑی ہی سفاکی سے راشد صاحب نے اس کی اصلی والی کھانسی کو ڈرامے کا نام دے دیا تھا۔اس نے کچھ نہ کہنے میں ہی عافیت جانی اور اپنی پلیٹ پر جھک گیا۔ناشتہ کا ہر ایک لقمہ عذاب بن گیا تھا۔یوں محسوس ہںو رہا تھا جیسے ٹوسٹ میں بہت ساری مرچی گر گئی ہںو۔اس کی زبان پر شدید جلن ہںو رہی تھی۔حلق میں کانٹے سے اگ آئے تھے۔اس نے سرعت سے جوس کا گلاس لبوں سے لگا لیا۔پہلا گھونٹ حلق سے نیچے اترتے ہی اسے آج کی تاریخ میں حیرت کا دوسرا جھٹکا لگا۔جوس ضرورت سے زیادہ میٹھا تھا۔وہ جوس کم چینی کا گھول زیادہ معلوم ہو رہا تھا۔ایک گھونٹ پیتے ہی اسے لگا کھایا پیاسب باہر آجائے گا۔ اس کا سر چکرانے لگا۔وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ یہ سب کیا ہںورہا ہںے۔
عین ممکن تھا کہ اس کے ٹوسٹ میں مرچی گر گئی ہںو مگر جوس کے جگ مشترکہ تھے اگر اس کے جوس میں اس قدر مٹھاس گھلی ہوئی تھی تو باقی افراد کے جوس کا ذائقہ بھی ایسا ہی ہںونا چاہیئے تھا۔لیکن ٹیبل پر موجود سبھی افراد بالکل نارمل انداز میں جوس پیتے ہںوئے ناشتے کے ساتھ انصاف کررہے تھے۔اسے یقین تھا کہ فی الحال وہ جو کچھ کہے گا کسی کو اس پر اعتبار نہیں آئے گا۔ بلکہ راشد صاحب کو اس کی بے عزتی کرنے کا سنہرا موقع مل جائے گا۔اس نے جیسے تیسے ٹوسٹ کو حلق سے نیچے اتارا اور کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑا ہںوا۔
سبھی کی نظریں اس کی طرف اٹھی تھیں مگر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا اپنے کمرے میں چلا آیا۔کمرے میں داخل ہوتے ہی اس نے بیڈ کی دائیں طرف میز پر رکھے پانی سے بھرے جگ کو لبوں سے لگا لیا ۔پانی کو گلاس میں انڈیلنے تک کی برداشت نہیں تھی اس میں۔
بوکھلاہٹ میں جگ کو منہ سے لگانے کے باعث اس کی شرٹ گردن سے لیکر سینے تک بھیگ چکی تھی۔وہ ڈریسنگ ٹیبل کا سہارا لیے اپنی سانسیں بحال کر رہا تھا تبھی دروازہ کھلا اور وہ اندر داخل ہوئ۔
” کیسا لگا ناشتہ پسند آیا یا نہیں”۔
وہ مسکرا کر گویا ہوئی۔
سیکنڈ سے بھی کم وقفہ لگا تھا شاہزر کو سمجھنے میں کہ یہ سب اس لڑکی کے خرافاتی دماغ کا کمال تھا۔
” تمھاری ہمت کیسے ہوئی میرے ساتھ یہ گھٹیا کھیل کھیلنے کی۔how dare you.”
وہ دہاڑا۔
” تم اس قدر ناراض کیوں ہو رہے ہو میں تو بس تمھیں اس احساس سے دوچار کرانا چاہتی تھی کہ شدید پیاس لگنے کی تکلیف کیا ہوتی ہے ۔حلق میں کانٹے اگ آنا کسے کہتے ہیں۔تمھیں تو یاد نہیں ہوگا مگر میں یہ کبھی نہیں بھولونگی کہ تمھاری بدولت اس روز میں نجانے کتنے گھنٹوں تک بھوکی پیاسی اپنی قسمت کو رو رہی تھی۔صبح سے شام ہوگئی تھی مگر میری حلق سے پانی کی بوند تک نیچے نہیں اتری تھی۔ میں چاہتی تھی کہ تمھیں بھی اندازہ ہوکہ شدید بھوک اور پیاس سے گزرنا کیسا ہوتا ہے۔کئ گھنٹوں کے لیے تمھیں بھوکا پیاسا رکھ پانا ناممکن ہے نواب زادے جو ہو ۔پیاس لگنے پر فلٹر
واٹر دستیاب نہ ہوا تو منرل واٹر خرید کر پی لیتے ہیں تم جیسے رئیس زادے۔
لہذا میں نے یہ طریقہ اپنایا تاکہ کچھ دیر کے لئے ہی سہی تمھیں اس تکلیف کا مزا چکھلینے دیا جائے ۔تکلیف تو تکلیف ہوتی ہے پھر چاہے وہ منٹوں کے لیے ہو یا گھنٹوں کے لیے”۔
اپنی بات ختم کرکے وہ گردن اکڑاتی کمرے سے باہر نکل گئ ۔ ضبط کی آخری حدوں کو چھوتے شاہ زر نے زور دار مکا دیوار پر دے مارا۔
***
وہ سارا دن بے چین پھرتی رہی تھی۔شاہزر کے کمرے کا ہر ایک کونا کھنگال لینے کے باوجود اس کا لاکٹ نہیں ملا تھا۔
یہ تصور ہی اسے ڈرا رہا تھا کہ اگر شاہزر نے حقیقتاً اس کا لاکٹ کہیں پھینک دیا ہو تو وہ کیا کرے گی۔
بچپن سے لیکر جوانی تک اس کے مرحوم والدین کی واحد نشانی کو اس نے سینے سے لگا کر رکھا تھا۔
مگر آج وہ واحد نشانی کو بھی وہ کھو چکی تھی ۔اسے پوری شدت کے ساتھ شاہ زر سے نفرت محسوس ہوئی تھی۔وہ بے بسی کی انتہاؤں پر تھی ۔لابی سے گزرتے ہوئے اس کی نگاہ مزنی کے کمرے کے کھلے دروازے پر پڑی ۔وہ فون پر محو گفتگو تھی ۔وہ بھاگتے ہوئے اس کے کمرے کی چوکھٹ کو عبور کر اس سےلپٹ گئ۔اسے بھول گیا تھا کہ وہ دونوں اجنبی تھیں۔اس گھر میں وہ دونوں ایک دوسرے کو نہیں جانتی تھیں۔ وہ مزنی کی ساری ہدایات کو فراموش کر بیٹھی مزنی کو دیکھ اس کا ضبط جواب دے گیا ۔وہ جو فون پر محو گفتگو تھی اس اچانک افتاد پر چونک پڑی۔اس نے فوراً سے پیشتر کمرے کا دروازہ مقفل کیا اور زرمین کو بیڈ پر بیٹھا کر اس مقابل گھٹنوں پر بیٹھ گئ۔
“کیا ہوا تم رو کیوں رہی ہو؟کسی نے کچھ کہا ہے، کیا بھائی سے لڑائی ہوئی ہے؟
Come on just tell me کیا ہوا ہے؟”
اسے پانی کا گلاس تھماتے ہوئ مزنی نے سوالات کی جھڑی لگا دی
“مہر میں بہادر لڑکی نہیں ہوں۔میں ایک کمزور لڑکی ہوں ۔مجھ سے کچھ نہیں ہو پائے گا ۔مجھے کسی کو سبق نہیں سکھانا کوئی انتقام نہیں لینا۔میں بس یہاں سے کہیں دور چلی جانا چاہتی ہوں۔سب کی نظروں سے اوجھل ہونا چاہتی ہوں۔تم نے جیسا کہا تھا یہ سب کچھ اتنا آسان نہیں ہے اس دنیا میں دو صورت حال بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں۔اول اس شخص کے بغیر زندگی گزارنا جس سے آپ بے پناہ محبت کرتے ہیں دوم کسے اس شخص کے ساتھ زندگی گزارنا جس سے آپ کو شدید نفرت ہے۔اور آج میں ان دونوں صورتوں سے گزر رہی ہوں صرف اور صرف تمھارے بھائی کی بدولت۔
آج میری دائی ماں میرے ساتھ نہیں ہیں یہ تکلیف کیا کم تھی جو میں تمھارے بھائی کے ساتھ رہ کراس تکلیف کو اور بڑھا رہی ہوں۔میں اس سے نفرت کرتی ہوں اس کے ساتھ ایک منٹ بھی گزارنا مجھے گوارا نہیں ہے۔میں یہاں سے بھاگ جانا چاہتی ہوں مہر میری مدد کرو۔”
مزنی کے کاندھے پر سر رکھے وہ بلک بلک کر رو دی۔اس کے آنسو مزنی کے سنہرے بالوں میں جذب ہوتے جارہے تھے۔
“دیکھو زری میں تمھیں یہ صلاح ہرگز نہیں دونگی کہ تم یہاں سے چلی جاؤ۔کیونکہ میں ایسا نہیں چاہتی اگر تم نے یہ قدم اٹھایا تو تمھارا وہ سارا حوصلہ تمھارا وہ اعتماد جسے تم نے بڑی محنت سے پوری طرح ٹوٹ جانے کے باوجود واپس حاصل کیا تھا اسے ایک بار پھر کھو دوگی۔
تم ایک گلٹ ایک ناکامی کے احساس کے بوجھ تلے دب جاؤگی۔
تم زرمین فاروقی نہیں زرمین آفریدی ہو جب جی میں آئے تم اس گھر سے نکل کر نہیں جاسکتی۔ تم اس گھر کی عزت ہو بھلے ہی تم اور بھائی اس رشتے کو نہیں مانتے مگر اس گھر کے دوسرے افراد کی نظر میں تم دونوں ہسبنڈ وائف ہو۔اگر تم یہاں سے جانا چاہتی ہو تو لیگل طریقے سے ڈایئورس لیکر جانا ہوگا ۔
مگر میں نہیں چاہتی کے یہاں تک بات پہنچے۔تم جو کرنا چاہتی ہو اس گھر میں رہ کر کرو بھائی سے ان کا گناہ قبول کروانا چاہتی ہو انہی ذلیل کرنا چاہتی ہو شوق سے کرو ۔میں تم دونوں کے درمیان کچھ نہیں بول سکتی ۔مگر میری ایک بات ذہن نشین کر لو زرمین کہ اس حادثہ کے متعلق تو میں زیادہ نہیں جانتی کیونکہ اس وقت میں ملک سے باہر تھی اور اس گھر کا کوئی بھی فرد مجھے کچھ بتانے پر آمادہ نہیں ہے ۔میں نہیں جانتی کے اس حادثہ میں بھائی قصوروار تھے یا نہیں
میں بس اتنا جانتی ہوں کہ بھائ شراب نہیں پیتے اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہوں گی میں ان کی طرف سے صفائ نہیں دینا چاہتی انھیں چاہیے کہ وہ خود اپنے حق میں صفائ دیں ثابت کریں وہ بے قصور ہیں ۔تم انھیں عیاش رئیس زادہ سمجھتی ہو مگر یقین جانو وہ ایسے نہیں ہیں تم دونوں ایک دوسرے کے حوالے سے غلط فہمی کا شکار ہو ۔
بچپن سے لیکر جوانی تک بھائی نے محبت اور توجہ ہی پائی تھی ۔اسکول ہو کالج ہو وہ ہر جگہ مشہور و مقبول رہے ۔ساری زندگی انہوں نے محبت پائی اور محبت ہی لٹائی ہے نفرت سے انکا دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا ۔پھر ایک دن اچانک تم انکی زندگی میں آئی۔ایک ایسی لڑکی جسے ان میں کچھ بھی خاص نظر نہیں آیا تھا۔دوسری لڑکیوں کے لیے جو ان کی خوبیاں تھیں تمھاری نظر میں وہ خامیاں تھیں ۔تمھاری نظر میں وہ بس ایک عیاش رئیس زادے تھے۔تم نے ان کے متعلق خبریں شائع کروا دیں ۔اور ایک دن تم نے انھیں جیل بھجوا دیا۔اس حادثہ نے انھیں ہلا کر رکھ زندگی میں پہلی مرتبہ راشد انکل کی اس قدر تذلیل ہوئ ہوگی اور اسکی وجہ وہ تمھیں سمجھتے رہے ان کی نظر میں قصوروار تم تھی ۔اپنے والد کی تذلیل کا انتقام لینے کے لیے انہوں نے وہ کردیا جو انہیں نہیں کرنا چاہیے تھا۔وہ تم سے انتقام لینا چاہتے تھے ۔وہ یہ سب کچھ غصے میں کرتے چلے گئے میرا یقین کرو وہ تم سے نفرت نہیں کرتے۔
تم ان سے چاہے جتنی نفرت کا اظہار کر لو وہ تم سے نفرت نہیں کر پائنگے۔کیونکہ انہوں نے کبھی کسی نفرت نہیں کی ۔ایک ایسا شخص جس سے کسی اجنبی کے بھی آنسو برداشت نہیں ہوتے اس قدر نرم دل رکھنے والا شخص اپنے دل میں کسی کے لیے نفرت کا جذبہ کیسے رکھ سکتا ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ ایک حادثہ کے ان کے دل میں گلٹ کا جذبہ پیدا ہوا ہو وہ تم سے معافی مانگنے کا ارادہ رکھتے ہوں مگراس سے پہلے تم ان کی زندگی میں آگئی۔اوراب تم ان کی ضد بن گئی ہو۔ایک لڑکی ہوتے ہوئے تم انہیں برباد کرنے کی دھمکی دیتی ہو یہ بات ان کی مردانہ انا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔تم ان کے سامنے ناقابل تسخیر چٹان کی مانند کھڑی ہو جسے وہ تسخیر کرنا چاہتے ہیں۔ میرا خیال ہے ایک وقت ہوگا جب وہ تم سے معافی مانگنے کا ارادہ رکھتے ہونگے مگر فی الحال وہ تمھارے حوصلوں کو توڑنا چاہتے ہیں۔ان کے گلٹ کی جگہ غصے نے لے لی ہے۔ آخر میں وہ ایک مرد جو ہیں۔
میں بھی کون سی باتیں لیکر بیٹھ گئی۔ہم ایسا کرتے ہیں تمھاری دائ ماں کے پاس چلتے ہیں تم زرا فرسٹریشن کا شکار ہو گئی ہو۔انھیں دیکھوگی تو بہتر فیل کروگی ۔
آج شام میں تمھیں ان کے پاس لے چلونگی۔”
اس کے بال سہلا کر مزنی واش روم کی سمت بڑھ گئ اور وہ اپنے آنسو پونچھ کر کمرے سے باہر نکل آئ۔دائ ماں کو دیکھ پانے کی خوشی نے اس کا دھیان اپنی طرف کر لیا تھا۔
******
قریبا پندرہ منٹ بعد مزنی نے اپنی کار روکی تھی۔اپنے عین مقابل اونچی کشادہ عمارت کو دیکھ کر وہ ٹھٹک گئی۔وہ کسی بھی لحاظ سے سرکاری ہسپتال نہیں لگ رہا تھا۔
اس نے حیرانی سے مزنی کی طرف دیکھا۔اس سے قبل کہ وہ کچھ پوچھتی مزنی خود ہی بول پڑی۔
“یہ وقار انکل کا ہاسپیٹل ہںے۔راشد انکل نے تمہاری دائی ماں کو یہاں شفٹ کروالیا ہںے۔یہاں انھیں بہتر ٹریٹمنٹ ملی گی۔
راشد انکل کے علاوہ گھر میں کسی بھی فرد کو دائی ماں کے متعلق کچھ علم نہیں ہے۔راشد انکل تم سے بہت شرمندہ تھے اسی لیے تمھیں ٹرانفسر کے تعلق سے وہ کچھ نہیں بتا پائے جلد یا بدیر وہ تمھیں انفارم کردیتے کہ دائی ماں یہاں ایڈمیٹ ہیں ۔وہ یہ بھی نہیں جانتے کہ میں ساری حقیقت سے واقف ہوں لہذا میں تمھارے ساتھ اندر نہیں چل سکتی ۔ ڈاکٹر ہمدانی نے خدانخواستہ مجھے دیکھ لیا تو فوراً سے پیشتر گھر کے بڑوں کو خبر کردینگے میں نہیں چاہتی کے گھر میں کسی کو بھی دائی ماں کی حالت کے متعلق خبر ہو سب پریشان ہو جائینگے۔ مجھے یقین ہے تم بھی یہی چاہوگی”۔
مزنی کی بات سنکر وہ سمجھداری سے سر ہلاتی ہوئی آگے بڑھ گئی۔جوں ہی وہ انفارمیشن کاونٹر کے پاس پہنچی اس کے کچھ پوچھنے سے قبل نرس کا لباس زیب تن کیے ایک لڑکی اس کے قریب آئی تھی۔
“مس کیا آپ ہی زرمین فاروقی ہیں”۔
اس نے اثبات میں گردن ہلائی۔
“آپ میرے ساتھ آئیے۔ جس پیشنٹ کو آپ دیکھنا چاہتی ہیں وہ I.C.Uمیں ہیں ان سے ملنے کے لیے آپ کویہ لباس زیب تن کرنا ہوگا”۔
یہاں خصوصی مراعات ملنے پر اسے حیرانی نہیں ہوئی تھی۔ یہ ہسپتال آفریدیس کی ملکیت تھا اور وہ انہی کے توسط سے آئی تھی
اس نے فوراً سے پہلے نیلے رنگ کا لباس تھام کر نرس کے پیچھے قدم بڑھادئے۔اسے icu میں چھوڑ وہ نرس چلی گئی تھی۔آکسیجن ماسک کے نیچے دائی ماں کا شفیق چہرہ دیکھ اس کا دل پکے پھوڑے کہ مانند دکھنے لگا ۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ان کے بیڈ کے نزدیک آئی تھی۔ ان کی آنکھیں بند تھیں ۔ان کا جھریوں زدہ ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیکر اسنے لبوں سے لگا لیا۔
“دائ ماں
آپ کب آنکھیں کھولینگی میں خود کو بہت تنہا محسوس کرتی ہوں ۔بہت تھک گئ ہوں میں أپکے بغیر جیتے ہوئے۔اٹھیں دیکھیں آپ کی چڑیا آگئی۔آپ میرا انتظار کر رہی تھیں نا۔یہ سب کچھ میری بدولت ہوا ہے ۔اپکی اس حالت کی ذمہ دار میں بھی ہوں ۔میں نے سب کچھہ بگاڑا ہے۔آپ فکر نہ کریں میں سب کچھ ٹھیک کردونگی۔ہمیں کوئی طعنہ نہیں دیگا۔ہم پھر سے ہمارے محلے میں ہمارے گھر میں رہینگے۔سب ٹھیک ہوجائےگا۔پہلے آپ ٹھیک ہو جائیں۔آپ کے بغیر میں کچھ نہیں کر پاؤنگی۔”
اس پر رقت طاری ہوچکی تھی۔وہ اپنے حواس کھو رہی تھی۔نرس دروازے سے اندر آئی تھی۔اسے اس حالت میں دیکھ بڑی مشکل سے دائی ماں سے الگ کیا تھا۔
مزنی کار میں اس کی منتظر تھی۔وہ دھیرے دھیرے قدم اٹھاتی ہاسپٹل کی عمارت سے باہر آئی۔وہ زاروقطار روئے جارہی تھی۔کار کا دروازہ کھول کر وہ فرنٹ سیٹ پر بیٹھ ہوگئ۔ ی پہلی مرتبہ تھا جب مزنی نے اسے آنسو بہانے سے نہیں روکا تھا۔
**