کبھی کبھی کوئی نام ذہن سے نکل جاتا ہے اور ہم سوچتے رہ جاتے ہیں بہت کوفت ہوتی ہے۔ ۔ ۔ مگر نام یاد نہیں آتا۔ ان کا نام نہ تو ذہن سے نکلا ہے اور نہ بھول سکتی ہوں۔ زندگی میں کچھ ایسے لوگ آتے ہیں جن کی ذات ہمیں اونچائیوں کی طرف لے جاتے ہے نئے پنکھ مل جاتے ہیں، نئی پرواز عطا ہو جاتی ہے۔ ۔ محض ان لوگوں کی بدولت کئی دریچہ کھل جاتے ہیں۔ اور وہ ہمیں اپنی شخصیت سےاس طرح متاثر کر دیتے ہیں کہ ہم چاہیں بھی تو انھیں تمام عمر فراموش نہیں کر سکتے۔ ۔ ۔ سو۔ ۔ وہ ایسی ہی شخصیت تھے، ایک عظیم انسان، ایک بے مثال مصنف، باکمال اردو داں۔ اور وہ لوگوں کے دلوں کو تسخیر کرنے کے فن سے بھی واقف تھے۔ ۔ وہ ایک عظیم فنکار تھے اور جب پہلی ملاقات ہوئی ان سے۔ ۔ ۔ وہ نہ جانے قبولیت کی کون سی گھڑی تھی۔ میری ہر تحریر کے لئے اللہ کا انعام تھے وہ۔ ۔ ۔
میں ٹوٹے ہوئے وقت کے کانچ کو جوڑنے کا جتن کر رہی ہوں اور بیتے ہوئے شب و روز اپنی بھیگی آنکھوں سے دیکھ رہی ہوں۔ وہ شام۔ ۔ نہ بھولی ہوں اور نہ بھولنا چاہتی ہوں جب ایک محفل ’’شام افسانہ‘‘ سجی ہوئی تھی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تعلیمی سال کے خاتمہ پر ہر ہوسٹل میں ’’ہال ویک‘‘ کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ یہ روایت اب بھی قائم ہے لیکن اب تو ہر روایت کا چہرہ۔ بدل گیا ہے۔ بہر حال یہ بات تو ہر جگہ، ہر تعلیمی ادارے کے لئیے کہی جا سکتی ہے۔ گو کہ یہ عمل اچانک نہیں ہوا اس عمل کے ظہور پذیر ہونے میں کئی برسوں کا عرصہ لگا ہے لیکنیہ تو ابھی کی بات لگتی ہے کہ جب مشاعروں میں کمنٹس بھی دئے جاتے تو تہذیب کے دائرے میں دھ کر، شاعروں کو ان کمینٹس کا انتظار ہوتا تھا۔ طلباء ہوٹنگ بھی کرتے تو وہ بھی لطیف انداز میں مناسب اور پر مزاح انداز میں بھی ہیں مگر کرتے تو، جو انداز گفتگو بدلا ہے، اس کا کوئی تدارک نہیں صرف ہمارے آپ کے دل دکھتے ہیں آنکھیں نم ہوتی ہیں۔ ۔ ۔
اس ہال ویکس کے پروگرام میں وہ باکمال شخصیت موجود تھی۔ کچھ لڑکیوں اور لڑکوں نے آگے بڑھ کر ان سے آٹو گراف کی فرمائش کی۔ وہ سر جھکائے ہاتھ بڑھا کر مسکرا کر۔ ۔ آٹو گراف بک لیتے اپنا دستخط کرتے اور واپس کر دیتے۔ جب میں نے اپنی نوٹ بک بڑھائی تو کہا۔ ’’ آپ اسپر اپنی ناول کا کوئی جملہ لکھ دیجئیے ‘‘ انھوں نے ایک دم سر اٹھا کر میری جانب دیکھا اور مسکرا کر بولے۔ ’’آپ نے میری کون سی کتاب پڑھی ہے۔ ۔ ؟‘‘ ’’میں نے آپکی ساری کتابیں پڑھی ہیں۔ ۔ ‘‘ میرا اعتماد بحال ہو چکا تھا۔ ’’چلئیے پھر آپ کا امتحان لے لیتے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ’’انھوں نے میرے ہاتھ سے نوٹ بک لی اور اس میں ایک جملہ لکھ دیا۔ مسکرا کر بولے۔ ’’بتائیے یہ کس ناول میں ہے ؟؟‘‘ اور میں نے تو جیسے ان کی ساری کتابیں حفظ کر رکھّی تھیں۔ فوراً بتا دیا۔ پھر تو وہ ایک گیم کی طرح اپنی ناولوں کے جملے پوچھتے گئے اور میں نام بتاتی گئی۔ وہ کچھ حیرت اور مسرّت سے مجھے دیکھتے رہے۔ ۔ ۔ ان کی وہ نظر آج بھی مجھے یاد ہے۔ کسی قدر ہنس مکھ انسان تھے سیکڑوں لطائف ازبر تھے انھیں۔ جب بھی محفل سجتی ان کے ساتھ ادبی گفتگو ہوتی اور قہقہوں کا دریا بہتا رہتا۔ دعوتیں کرنے کا بھی خاص شوق تھا ان کو شام کو اکثر نشست جمتی۔ ہم لڑکیوں کو تو ہو سٹل سے اجازت نہ ملتی مگر کلاس کے لڑکے جو ان کے پسندیدہ اسٹوڈنٹ تھے وہ ضرور مدعو ہوتے۔ دوسرے دن کلاس میں یہی باتیں ہوتیں کہ آج فلاں افسانہ سنا آج چائے اور پیسٹری کی دعوت اڑائی۔ ۔ آج یہ آج وہ۔ ۔ ۔ کبھی پائے کبھی بریانی۔ ۔ ان سے نہ مل سکنے کی بڑی کوفت ہوتی مگر جب ان کا نیا افسانہ ہاتھ میں آ جاتا تو ساری کوفت دور ہو جاتی۔ ایک ایک کر کے سارے افسانے اور ناول جمع ہو گئے۔ تعلیمی مدارج ختم ہوئے۔ ۔ اور پھر زندگی کے تقاضے۔ ۔ دنیا کافی بدل گئی۔ سنا انھوں نے اپنی پہلی بیوی کو چھوڑ کر دوسری شادی کر لی کافی ہنگامہ رہا افسوس بھی ہوا۔ مگر جو عزّت دلوں میں تھی وہ برقرار رہی۔ ابھی کچھ دنوں پہلے یہ طے ہوا کہ ان کا انٹرویو ٹی۔ وی۔ پر آنا چاہئیے۔ انھیں اردو اکاڈمی کی طرف سے بلند پایہ ایوارڈ سے نواز گیا تھا۔ ۔ ۔ ماس کمیونی کیشن اور جرنلزم میں ایم۔ اے کرنے کے بعد میں نے کئی شاعروں اور ادیبوں سے انٹرویو لئے تھے۔ ۔ ۔ مگر آج دل کسی اور ہی انداز میں دھڑک رہا تھا۔ ۔ ۔
ہم اپنی ٹیم لے کر ان کے دروازے پر کھڑے تھے۔ کافی دیر ڈور بیل بجانے کے باوجود کوئی دروازے پر نہیں آیا۔ ہم مایوس ہو گئے تھے تبھی ایک خاتون نے دروازہ کھول دیا۔ وہ کافی جھنجھلائی ہوئی تھیں۔ دروازہ کھل گیا تھا مگر ہم باہر کھڑے حیرت سے ان صاحبہ کو رہے تھے جو مشکل سے 22 یا 23 برس کی خاتون تھیں اور چہرے پر کرختگی نمایاں تھی۔ ’’کیا بات ہے۔ ۔ ۔ ؟ کیوں پریشان کرتے ہیں بے وقت۔ ۔ جب دیکھو گھنٹی بج رہی ہے۔ ۔ کوئی نہ کوئی شاعر ادیب دروازے پر موجود۔ ۔ آپ لوگوں کو اپنے گھر پہ قرار نہیں ہے۔ ۔ ۔ ؟‘‘ ’’محترمہ۔ ۔ ۔ محترمہ۔ ۔ ‘‘ میں نے کچھ بولنے کی کوشش کی مگر وہ کچھ سننے پر تیّار کہاں تھیں۔ ’’کس کی سنوں۔ ۔ کس کس کی سنوں۔ ۔ کیا ہے ؟ انھوں نے اندر چہرہ گھما کر ڈانٹ کر کسی سے کچھ کہا۔ پٹختی غصّے میں دروازہ کھلا چھوڑ کر اندر چلی گئیں۔ ۔ ۔ ہم شرمندہ سے کھڑے رہے۔ ۔ وہ پھر پلٹیں۔ ۔ ’’اب کیا سواری بھیجوں آپ لوگوں کو اندر آنے کے لئیے ؟؟؟؟ ہم پانچ لوگ تھے آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ ایک داخلی دروازہ اور اس کے برابر ایک چھوٹا کمرہ۔ ۔ ۔ ایک کونے میں لکڑی کی میز اور کرسی، میز پر کتابوں اور کاغذوں کا انبار۔ ۔ ایک دیوار میں کھلی الماری، جہاں دھول میں اٹی بے شمار ان ہی کی تخلیقات۔ ۔ ایک کنارے کی دیوار سے لگا ہوا پتلا سا پلنگ۔ ۔ ۔ اس پر نحیف و نزار سا وجود۔ ۔ ۔ ان پر پڑی ہوئی میلی سی رضائی اپنا حال خود بیان کر رہی تھی۔ ۔ ۔ ۔ ہلکی ہلکی سانسوں کی ڈوبتی ابھرتی آواز۔ ۔ ۔ میں بیقرار ہو کر آگے بڑھی۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ بستر پر وہی تھے۔ بے حد نحیف۔ ۔ کمزور ان کی خوبصورت انگلیاں کپکپا کر ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کر رہی تھیں۔ ۔ ۔ پاس پڑی میلی میلی کرسیوں پر اہم ان کی خاطر بیٹھ گئے۔ باقی لوگ میز سے ٹک کر کھڑے رہے۔ ۔ ۔ کیمرہ میں نے کیمرہ فٹ کیا۔ مجھے ان سے سوالات کرنے تھے مگر آنسوؤں سے آواز رندھ رہی تھی، ہاتھ اٹھا کر کیمرے کو چند لمحے رکنے کو کہا اور اٹھ کر سرہانے گئی۔ ۔ ۔ بڑی بڑی ذہین آنکھیں حلقوں میں ڈوب رہی تھیں۔ ۔ سرخ رہنے والے ہونٹ سفید تھے اور ان پر بھوری پیڑیاں جم رہی تھیں دونوں ہاتھوں کی سفید انگلیاں اضطراری حالت میں کپکپا رہی تھیں۔ انھوں نے کچھ کہا تھا میں نے جھک کر سننے کی کوشش کی مگر وہ شاید ملازمہ سے کہہ رہے تھے جو دروازے پر استادہ تھی۔ میں نے اسے اندر بلا لیا اس نے ان کی بات سنی اور ’’اُونہہ۔ ۔ ۔ ‘‘ کہہ کر اندر چلی گئی۔ اندر سے آوازیں آ رہی تھیں۔ ’’اب یہ جو پیسے ملے ہیں انھیں جب تک اڑا نہیں لیں گے چین تھوڑا ہی آئے گا۔ ۔ ۔ اسی طرح کے آنے جانے والوں پر خرچ کر دیں گے۔ ۔ ۔ ‘‘ آواز دھیرے دھیرے دور ہوتی جا رہی تھی۔ غالباً یہ ان کی بیگم کی آواز تھی۔ یہ آوازیں ہماری سماعتوں میں زہر پھیلا رہی تھیں۔ ان کی معصوم آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے وہ کتنے بے بس اور مجبور نظر آ رہے تھے اتنی عمدہ زندگی گزارنے والے شخص کی یہ حالت۔ ۔ ۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ’’ہم ابھی ابھی چائے پی کر آئے ہیں ’’میں جھک کر ان سے یہ کہا۔ ۔ تو میرے آنسو ان کی پیشانی بھگو گئے، شاید وہ اُٹھنا چاہتے تھے اپنے مہمانوں کی خاطر کرنا چاہتے تھے چائے پلانا چاہتے تھے۔ ان کا وجود زلزلوں کیزد میں تھا۔ معذوری اور مجبوری کا احساس ان کی آنکھوں میں صاف دکھائی دے رہا تھا۔ غم کا ایکا تھا سمندر تھا جو ان کے وجود میں ہچکولے کھا رہا تھا۔ پتہ نہیں وہ کیا کہنا اور کیا سنانا چاہتے تھے۔ ہم ان کی خاموش آواز سن رہے تھے، سمجھ رہے تھے۔ لیکن جواب دینے سے قاصر تھے۔
٭٭٭
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...