(Last Updated On: )
سامنے کوہساروں پہ چڑھتی صف بہ صف کھیتیاں
ندیوں کے کمر بند باندھے ہوئے
آسمانوں کی جانب قدم بہ قدم چڑھ رہی ہیں
یہ سیڈار کے نیل گوں سبز پیڑوں کے جھرمٹ
اٹھائے ہوئے اپنے پر، اڑنے والے ہیں
تازہ ہوا قریہ قریہ کسانوں کی محنت کی خوشبو سمیٹے ہوئے بانٹتی پھر رہی ہیں
زمیں منہ پہ فصلوں کا گھونٹ گرائے ہوئے
کھردرے ہاتھ کے لمس کی آنچ سے
لذتوں میں شرابور ہے
اور سورج پہاڑوں کی مستک پہ ٹھوڑی کو ٹیکے ہوئے
تک رہا ہے مجھے
میں یہاں اپنے پاتال میں ڈھونڈتا ہوں کہ میں ہوں کہاں
اور سب ہیں کہاں
اس بکھرنے کی تحریک میں
کونسی لالچوں
کونسے فلسفوں کی کمندوں نے پھینکا مجھے
میں کہ کھوئی ہوئی نسل کا آخری فرد ہوں
آخری ذات ہوں
میں کہ تردید ہوں اور اثبات ہوں
٭٭٭