اگلے پندرہ منٹ میں وہ ایک ہاسپٹل میں تھا جہاں اسے فرسٹ ایڈ دی گئی۔ وہ اس سے اس کے گھر کا پتا پوچھ رہے تھے مگر اس کا گلا بند تھا۔ وہ انہیں کچھ بھی بتانے کے قابل نہیں تھا۔ سوجے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ اس نے ایک کاغذ پر اپنے گھر کا فون نمبر اور ایڈریس گھسیٹ دیا۔
“ابھی اور کتنی دیر اسے یہاں رکھنا پڑے گا؟”
“زیادہ دیر نہیں، جیسے ہی ہوش آتا ہے ہم دوبارہ چیک اپ کریں گے، پھر ڈسچارج کر دیں گے زیادہ شدید قسم کی انجریز نہیں ہیں۔ بس گھر میں کچھ دنوں تک مکمل طور پر ریسٹ کرنا پڑے گا۔
اس کا ذہن لاشعور سے شعور کا سفر طے کر رہا تھا۔ پہلے جو صرف بے معنی آوازیں تھیں اب وہ انہیں مفہوم پہنا رہا تھا۔ آوازوں کو پہچان رہا تھا ان میں سے ایک آواز سکندر عثمان کی تھی۔ دوسری یقیناً کسی ڈاکٹر کی۔سالار نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھیں یک دم چندھیا گئی تھیں۔کمرے میں بہت تیز روشنی تھی یا کم از کم اسے ایسا ہی لگا تھا۔ وہ ان کے فیملی ڈاکٹر کا پرائیویٹ کلینک تھا۔ وہ ایک بار پہلے بھی یہاں ایسے ہی ایک کمرے میں رہ چکا تھا اور یہ پہچاننے کے لئے ایک نظر ہی کافی تھی اس کا ذہن بالکل صحیح کام کر رہا تھا۔
جسم کے مختلف حصوں میں ہونے والے درد کا احساس اسے پھر ہونے لگا تھا۔ اس کے باوجود کہ اب وہ ایک بہت نرم اور آرام دہ بستر میں تھا۔
اس کے جسم پر وہ لباس نہیں تھا جو اس نے اس سرکاری ہسپتال میں پہنا تھا، جہاں سے لے جایا گیا تھا۔ وہ ایک اور لباس میں ملبوس تھا اور یقیناً اس کے جسم کو پانی کی مدد سے صاف بھی کیا گیا تھا کیونکہ اسے آدھے بازوؤں والی شرٹ سے جھانکتے اپنے بازوؤں پر کہیں بھی مٹی یا گرد نظر نہیں آ رہی تھی۔ اس کی کلائیوں کے گرد پٹیاں بندھی ہوئی تھیں اور اس کے بازوؤں پر چھوٹے چھوٹے بہت سے نشانات تھے۔ بازو اور ہاتھ سوجے ہوئے تھے۔ وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ ایسے ہی بہت سے نشانات اس کے چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر بھی ہوں گے۔ اسے اپنی ایک آنکھ بھی سوجی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور اس کے جبڑے بھی دکھ رہے تھے مگر اس سے بھی زیادہ برا حال گلے کا تھا۔ اس کے بازو میں ایک ڈرپ لگی ہوئی تھی جو اب تقریباً ختم ہونے والی تھی۔
پہلی بار اس کو ہوش میں ڈاکٹر نے ہی دیکھا تھا۔ وہ ان کا فیملی ڈاکٹر نہیں تھا۔ شاید اس کے ساتھ کام کرنے والا کوئی اور فزیشن تھا۔ اس نے سکندر کو اس کی طرف متوجہ کیا۔
“ہوش آ گیا ہے؟” سالار نے ایک صوفے پر بیٹھی طیبہ کو اپنی طرف بڑھتے دیکھا مگر سکندر آگے نہیں آئے تھے۔ڈاکٹر اب اس کے پاس آ کر اس کی نبض چیک کر رہا تھا۔
“اب تم کیسا محسوس کر رہے ہو؟”
سالار جواب میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر اس کے حلق سے آواز نہیں نکل سکی۔ وہ صرف منہ کھول کر رہ گیا۔ ڈاکٹر نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا ، سالار نے تکیے پر رکھا ہوا اپنا سر نفی میں ہلایا۔” بولنے کی کوشش کرو۔” ڈاکٹر شاید پہلے ہی اس کے گلے کے پرابلم کے بارے میں جانتا تھا۔ سالار نے ایک بار پھر نفی میں سر ہلا دیا۔ ڈاکٹر نے نرس کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی ٹرے سے ایک ٹارچ نما آلہ اٹھایا۔
“منہ کھولیں۔” سالار نے دیکھتے جبڑوں کے ساتھ اپنا منہ کھول دیا۔ ڈاکٹر کچھ دیر اس کے حلق کا معائنہ کرتا رہا پھر اس نے ٹارچ بند کر دی۔
“گلے کا تفصیلی چیک اپ کرنا پڑے گا۔”اس نے مڑ کر سکندر عثمان کو بتایا پھر اس نے ایک رائٹنگ پیڈ اور پین سالار کی طرف بڑھایا۔ نرس تب تک اس کے بازو میں لگی ڈرپ اتار چکی تھی۔
“اٹھ کر بیٹھو اور بتاؤ کیا ہوا ہے۔ گلے کو۔” اسے اٹھ کر بیٹھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔ نرس نے تکیہ اس کے پیچھے رکھ دیا تھا اور وہ رائٹنگ پیڈ ہاتھ میں لئے سوچتا رہا۔
“کیا ہوا تھا؟ گلے کو، جسم کو، دماغ کو۔” وہ کچھ بھی لکھنے کے قابل نہیں تھا۔ سوجی ہوئی انگلیوں میں پکڑے پین کو وہ دیکھتا رہا۔ اسے یاد تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اسے اپنی وہ چیخیں یاد آ رہی تھیں جنہوں نے اب اسے بولنے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔ کیا لکھا جائے یہ کہ مجھے ایک پہاڑ پر ساری چیزیں چھین کر باندھ دیا گیا تھا یا پھر یہ کہ مجھے چند گھنٹوں کے لئے زندہ قبر میں اتار دیا گیا تھا تاکہ مجھے سوالوں کا جواب مل جائے۔
“What is next to ecstasy?”
وہ سفید صاف کاغذکو دیکھتا رہا پھر اس نے مختصر سی تحریر میں اپنے ساتھ ہونے والا واقعہ تحریر کر دیا۔ ڈاکٹر نے رائٹنگ پیڈ پکڑ کر ایک نظر ان سات آٹھ جملوں پر ڈالی اور پھر اسے سکندر عثمان کی طرف بڑھا دیا۔
“آپ کو چاہئیے کہ فوری طور پر پولیس سے رابطہ کریں، تاکہ کار برآمد کی جا سکے، پہلے ہی کافی دیر ہو گئی ہے۔ پتا نہیں وہ گاڑی کہاں سے کہاں لے جا چکے ہوں گے۔” ڈاکٹر نے ہمدردانہ انداز میں سکندر کو مشورہ دیا۔ سکندر نے رائٹنگ پیڈ پر ایک نظر ڈالی۔
“ہاں، میں پولیس سے کانٹیکٹ کرتا ہوں۔” پھر کچھ دیر ان دونوں کے درمیان اس کے گلے کے چیک اپ کے سلسلے میں بات ہوتی رہی پھر ڈاکٹر نرس کے ہمراہ باہر نکل گیا۔ اس کے باہر نکلتے ہی سکندر عثمان نے ہاتھ میں پکڑا ہوا رائٹنگ پیڈ سالار کے سینے پر دے مارا۔
“یہ جھوٹ کا پلندہ اپنے پاس رکھو۔۔۔۔۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ اب میں تمہاری کسی بات پر اعتبار کروں گا۔ نہیں کبھی نہیں۔”
سکندر بے حد مشتعل تھے۔
“یہ بھی تمہارا کوئی نیا ایڈونچر ہو گا۔ خود کشی کی کوئی نئی کوشش۔”
وہ کہنا چاہتا تھا۔”فارگاڈسیک۔۔۔۔ ایسا نہیں ہے۔”مگر وہ گونگوں کی طرح ان کا چہرہ دیکھتا رہا۔
“میں کیا کہوں ڈاکٹر سے کہ اس کو عادت ہے ایسے تماشوں اور ایسی حرکتوں کی، یہ پیدا ہی ان کاموں کے لئے ہوا ہے۔”
سالار نے سکندر عثمان کو کبھی اس حد تک مشتعل نہیں دیکھا تھا، اشید وہ واقعی اب اس سے تنگ آ چکے تھے۔ طیبہ خاموشی سے پاس کھڑی تھیں۔
“ہر سال ایک نیا تماشا، ایک نئی مصیبت، آخر تمہیں پیدا کر کے کیا گناہ کر بیٹھے ہیں ہم۔”
سکندر عثمان کو یقین تھا یہ بھی اس کے کسی نئے ایڈونچر کا حصہ تھا۔ جو لڑکا چار بار خود کو مارنے کی کوشش کر سکتا تھا اس کے ہاتھ پاؤں پر موجود ان زخموں کو کوئی ڈکیتی قرار نہیں دے سکتا تھا وہ بھی اس صورت میں جب اس واقعے کاکوئی گواہ نہیں تھا۔
سالار کو”شیر آیا، شیر آیا” والی کہانی یاد آئی۔ بعض کہانیاں واقعی سچی ہوتی ہیں۔ وہ بار بار جھوٹ بول کر اب اپنا اعتبار گنوا چکا تھا۔ شاید وہ سب کچھ ہی گنوا چکا تھا۔ اپنی عزت، خوداعتمادی، غرور، فخر ، ہر چیز وہ کسی پاتال میں پہنچ گیا تھا۔
“کوئی نیا ڈرامہ کئے بڑے دن گزر گئے تھے تمہیں تو تم نے سوچا ماں باپ کو محروم کیوں رکھوں، انہیں خوار اور ذلیل کئے بڑا عرصہ ہو گیا ہے۔ اب نئی تکلیف دینی چاہئیے۔”
“ہو سکتا ہے سکندر! یہ ٹھیک کہہ رہا ہو۔ آپ پولیس کو گاڑی کے بارے میں اطلاع تو دیں۔”
اب طیبہ رائٹنگ پیڈ پر لکھی ہوئی تحریر پڑھنے کے بعد سکندر سے کہہ رہی تھیں۔
“یہ ٹھیک کہہ رہا ہے؟ کبھی آج تک ٹھیک کہا ہے اس نے، مجھے اس بکواس کے ایک لفظ پر بھی یقین نہیں ہے۔”
تمہارا یہ بیٹا کسی دن مجھے اپنی کسی حرکت کی وجہ سے پھانسی پر چڑھا دے گا اور تم کہہ رہی ہو پولیس کو اطلاع دوں، اپنا مذاق بنواؤں ۔ کار کے ساتھ بھی کچھ نہ کچھ کیا ہو گا اس نے، بیچ دی ہو گی کسی کو یا کہیں پھینک آیا ہو گا۔”
وہ اب اسے واقعی گالیاں دے رہے تھے۔ اس نے کبھی انہیں گالیاں دیتے ہوئے نہیں سنا تھا۔ وہ صرف ڈانٹا کرتے تھے اور وہ ان کی ڈانٹ پر بھی مشتعل ہو جایا کرتا تھا۔ چاروں بھائیوں میں وہ واحد تھا جو ماں باپ کی ڈانٹ سننے کا بھی روادار نہیں تھا اور اس سے بات کرتے ہوئے سکندر بہت محتاط ہوا کرتے تھے کیونکہ وہ کسی بھی بات پر مشتعل ہو جایا کرتا تھا، مگر آج پہلی دفعہ سالار کو ان کی گالیوں پر بھی غصہ نہیں آیا تھا۔
وہ اندازہ کر سکتا تھا کہ اس نے انہیں کس حد تک زچ کر دیا ہے۔ وہ پہلی بار اس بیڈ پر بیٹھے اپنے ماں باپ کی حالت کو سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ کای چیز تھی جو انہوں نے اسے نہیں دی تھی۔ اس کے منہ سے نکلنے سے پہلے وہ اس کی فرمائش پوری کر دینے کے عادی تھے اور وہ اس کے بدلے میں انہیں کیا دیتا رہا تھا۔ کیا دے رہا تھا،ذہنی اذیت، پریشانی، تکلیف، اس کے علاوہ اس کے بہن بھائیوں میں سے کسی نے ان کے لئے کوئی پریشانی نہیں کھڑی کی تھی۔ صرف ایک وہ تھا جو۔۔۔۔۔
“کسی دن تمہاری وجہ سے ہم دونوں کو خودکشی کرنی پڑے گی۔ تمہیں تب ہی سکون ملے گا،صرف تب ہی چین آئے گا تمہیں۔”
پچھلی رات اس پہاڑ پر اس طرح بندھے ہوئے اسے پہلی بار ان کی یاد آئی تھی۔ پہلی بار اسے پتا چلا تھا کہ اسے ان کی کتنی ضرورت تھی، وہ ان کے بغیر کیا کرے گا، اس کے لئے ان کے علاوہ کون پریشان ہو گا۔
اسے سکندر کے لفظوں سے زندگی میں پہلی بار کوئی بے عزتی محسوس نہیں ہو رہی تھی وہ ہمیشہ سے سکندر کے زیادہ قریب رہا تھا اور اس کے سب سے زیادہ جھگڑے بھی ان ہی کے ساتھ ہوتے رہتے تھے۔
“میرا دل چاہ رہا ہے کہ میں دوبارہ کبھی تمہاری شکل تک نہ دیکھوں۔ تمہیں دوبارہ وہیں پھنکوا دوں جس جگہ کے بارے میں تم جھوٹ بول رہے ہو۔”
“اب بس کرو سکندر۔” طیبہ نے ان کو ٹوکا۔
“میں بس کروں۔۔۔۔۔ یہ کیوں بس نہیں کرتا، کبھی تو ترس کھا لے یہ ہم لوگوں پر اور اپنی حرکتیں چھوڑ دے۔ کیا اس پر یہ فرض کر کے اسے زمین پر اتارا گیا تھا کہ یہ ہماری زندگی عذاب بنا دے۔”
سکندر طیبہ کی بات پر مزید مشتعل ہو گئے۔
“ابھی وہ پولیس والے بیان لینے آ جائیں گے۔ جنھوں نے اسے سڑک پر پکڑا تھا۔ یہ بکواس پیش کریں گے ان کے سامنے کہ اس بیچارے کو کسی نے لوٹ لیا ہے۔ اچھا تو یہ ہوتا کہ اس بار واقعی کوئی اسے لوٹتا اور اسے پہاڑ پر سے نیچے پھینکتا تاکہ میری جان چھوٹ جاتی۔”
سالار بے اختیار سسکنے لگا۔ سکندر اور طیبہ بھونچکا رہ گئے، وہ اپنے دونوں ہاتھ جوڑے رو رہا تھا۔ وہ زندگی میں پہلی بار اسے روتا دیکھ رہے تھے اور وہ بھی ہاتھ جوڑے، وہ کیا کر رہا تھا؟کیا چاہ رہا تھا؟ کیا بتا رہا تھا؟ سکندر عثمان بالکل ساکت تھے، طیبہ اس کے قریب بیڈ پر بیٹھ گئیں، انہوں نے سالار کو اپنے ساتھ لگاتے ہوئے تھپکنے کی کوشش کی۔ وہ بچوں کی طرح ان سے لپٹ گیا۔
اس کی پائینتی کی طرف کھڑے سکندر عثمان کو اچانک احساس ہوا کہ شاید اس بار وہ چھوٹ نہیں بول رہا۔ شاید اس کے ساتھ واقعی کوئی حادثہ ہوا تھا۔ وہ طیبہ کے ساتھ لپٹا ننھے بچوں کی طرح ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ طیبہ اسے چپ کراتے کراتے خود بھی رونے لگیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تو کیا بڑی بڑی باتوں پر بھی رونے کا عادی نہیں تھا، پھر آج کیا ہوا تھا کہ اس کے آنسو نہیں رک رہے تھے۔
اس سے دور کھڑے سکندر عثمان کے دل کو کچھ ہونے لگا۔
“اگر یہ ساری رات واقعی وہاں بندھا رہا تھا تو۔۔۔۔۔؟”
وہ ساری رات اس کے انتظار میں جاگتے رہے تھے اور بگڑتے رہے تھے۔ ان کا خیال تھاکہ وہ گاڑی لے کر پھر کہیں لاہور یا کہیں اور آوارہ گردی کے لئے چلا گیا ہو گا۔ انہیں تشویش ہو رہی تھی مگر وہ سالار کی حرکتوں سے واقف تھے۔ اس لئے تشویش سے زیادہ غصہ تھا اور ڈھائی تین بجے کے قریب وہ سونے کے لئے چلے گئے تھے جب انہیں فون پر پولیس کی طرف سے یہ اطلاع ملی۔
وہ ہاسپٹل پہنچے تھے اور انہوں نے اسے وہاں بہت ابتر حالت میں دیکھا تھا مگر وہ یہ یقین کرنے پر تیار نہیں تھے کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ ہوا تھا۔ وہ جانتے تھے وہ خود کو اذیت پہنچاتا رہا تھا جو شخص اپنی کلائی کاٹ لے، ون وے کو توڑتے ہوئے ٹریفک کی بھیڑ میں اپنی بائیک دے مارے، سلیپنگ پلز لے لے، اپنے آپ کو باندھ کر پانی میں الٹا کود جائے۔ اس کے لئے ایک بار پھر اپنی یہ حالت کرنا کیا مشکل تھا۔
اس کا جسم کیڑوں کے کاٹنے کے نشانات سے جگہ جگہ بھرا ہوا تھا۔ بعض جگہوں پر نیلاہٹ تھی۔ اس کے پیر بھی بری طرح سے زخمی تھے۔ ہاتھوں کی کلائیوں، گردن اور پشت کا بھی یہی حال تھا اور اس کے جبڑوں پر بھی خراشیں پڑی ہوئی تھیں۔ اس کے باوجود سکندر عثمان کو یقین تھا کہ یہ سب کچھ اس کی اپنی کارستانی ہی ہو گی۔
شاید اس وقت وہ بولنے کے قابل ہوتا اور وضاحتیں پیش کرتا تو وہ کبھی بھی اس پر یقین نہ کرتے مگر اسے اس طرح ہچکیوں کے ساتھ روتے دیکھ کر انہیں یقین آنے لگا تھا کہ وہ سچ کہہ رہا تھا۔
وہ کمرے سے باہر نکل گئے اور انہوں نےموبائل پر پولیس سے رابطہ کیا۔ ایک گھنٹے کے بعد انہیں پتا چل گیا کہ سرخ رنگ کی ایک سپورٹس کار پہلے ہی پکڑی جا چکی ہے اور اس کے ساتھ دو لڑکے بھی۔ پولیس نے انہیں ایک معمول کی چیکنگ کے دوران لائسنس اور گاڑی کے کاغذات نہ ہونے پر گھبرا جانے پر پکڑا تھا۔ انہوں نے ابھی تک یہ نہیں بتایا تھا کہ انہوں نے گاڑی کہیں سے چھینی تھی، وہ صرف یہی کہتے رہے کہ وہ گاڑی انہیں کہیں ملی تھی اور وہ صرف شوق اور تجسس سے مجبور ہو کر چلانے لگے چونکہ پولیس کے پاس ابھی تک کسی گاڑی کی ایف آئی آر بھی درج نہیں کرائی گئی تھی اس لئے ان کے بیان کی تصدیق مشکل ہو گئی تھی۔
مگر سکندر عثمان کی ایف آئی آر کے کچھ دیر بعد ہی انہیں کار کے بارے میں پتا چل گیا تھا۔ اب وہ صحیح معنوں میں سالار کے بارے میں تشویش کا شکار ہوئے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
سکندر اور طیبہ سالار کو اس رات واپس نہیں لے کر آئے، وہ اس رات ہاسپٹل میں ہی رہا اگلے دن اس کے جسم کا درد اور سوجن میں کافی کمی واقع ہو چکی تھی۔ وہ دونوں گیارہ بجے کے قریب اسے گھر لے آئے۔ اس سے پہلے پولیس کے دو اہلکاروں نے اس سے ایک لمبا چوڑا تحریری بیان لیا تھا۔
سکندر اور طیبہ کے ساتھ اپنے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے پہلی بار اس نے اپنی کھڑکیوں پر لگی ہوئی مختلف ماڈلز کی ان نیوڈ تصویروں کو دیکھا اسے بے اختیار شرم آئی۔ طیبہ اور سکندر بہت بار اس کے کمرے میں آتے رہے تھے اور وہ تصویریں ان کے لئے کوئی نئی یا قابل اعتراض چیز نہیں تھیں۔
“تم اب آرام کرو۔ میں نے تمہارے فریج میں پھل اور جوس رکھوا دیا ہے۔ بھول لگے تو نکال کر کھا لینا یا پھر ملازم کو بلوا لینا، وہ نکال دے گا۔”
طیبہ نے اس سے کہا۔ وہ اپنے بیڈ پر لیٹا ہوا تھا۔ وہ دونوں کچھ دیر تک اس کے پاس رہے پھر کھڑکی کے پردے برابر کر کے اسے سونے کی تاکید کرتے ہوئے چلے گئے، وہ ان کے باہر نکلتے ہی اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس نے کمرے کے دروازے کو اندر سے لاک کیا۔ کھڑکیوں کے پردے ہٹا کر اس نے بہت تیزی سے ان پر لگی ہوئی تمام تصویروں کو اتارنا شروع کر دیا۔ پوسٹر، تصویریں، کٹ آؤٹ۔ اس نے چند منٹ میں پورا کمرہ صاف کر دیا تھا، واش روم میں جا کر اس نے باتھ ٹب میں انہیں پھینک دیا۔
واش روم کی لائٹ جلانے پر اس کی نظر اپنے چہرے پر پڑی تھی۔ وہ بری طرح سوجا ہوا اور نیلا ہو رہا تھا وہ ایسے ہی چہرے کی توقع کر رہا تھا۔ وہ ایک بار پھر واش روم سے نکل آیا۔ اس کے کمرے میں پورنوگرافی کے بہت سے میگزین بھی پڑے تھے۔ وہ انہیں اٹھا لایا۔ اس نے انہیں بھی باتھ ٹب میں پھینک دیا، پھر وہ باری باری اپنے ریک میں پڑی ہوئی گندی ویڈیوز اٹھا کر اس میں سے ٹیپ نکالنے لگا۔ آدھے گھنٹے کے اندر اس کا کارپٹ ٹیپ کے ڈھیر سے بھرا ہوا تھا۔
اس نے وہاں موجود تمام ویڈیوز کو ضائع کر دیا اور ٹیپ کے اس ڈھیر کو اٹھا کر باتھ ٹب میں پھینک دیا اور لائٹر کے ساتھ اس نے انہیں آگ لگا دی۔ ایک چنگاری بھڑکی تھی اور تصویروں اور ٹیپ کا وہ ڈھیر جلنے لگا تھا اس نے ایگزاسٹ آن کر دیا تھا۔ باتھ روم کی کھڑکیاں کھول دیں وہ اس ڈھیر کو اس لئے جلا رہا تھا کیونکہ وہ اس آگ سے بچنا چاہتا تھا جو دوزخ میں اسے اپنی لپیٹوں میں لے لیتی۔
آگ کی لپیٹیں تصویروں اور ٹیپ کے اس ڈھیر کو کھا رہی تھیں۔ یوں جیسے وہ صرف آگ کے لئے ہی بنائی گئی تھیں۔
وہ پلکیں جھپکے بغیر باتھ ٹب میں آگ کے اس ڈھیر کو دیکھ رہا تھا یوں جیسے وہ اس وقت کسی دوزخ کے کنارے کھڑا تھا۔ ایک رات پہلے اس پہاڑی پر اس حالت میں اسلام آباد کی روشنیوں کو دیکھتے ہوئے اس نے سوچا تھا کہ وہ اس کی زندگی کی آخری رات تھی اور وہ اس کے بعد دوبارہ کبھی ان روشنیوں کونہیں دیکھ سکے گا۔
اس نے ہذیانی حالت میں گلا پھاڑ کر چیختے ہوئے بار بار کہا تھا۔”ایک بار، صرف ایک بار، مجھے ایک موقع دیں۔ صرف ایک موقع، میں دوبارہ گناہ کے پاس تک نہیں جاؤں گا۔ میں کبھی گناہ کے پاس نہیں جاؤں گا۔” اسے یہ موقع دے دیا گیا تھا اب اس وعدے کو پورا کرنے کا وقت تھا۔ آگ نے ان سب کاغذوں کو راکھ بنا دیا تھا جب آگ بجھ گئی تو اس نے پانی کھول کر پائپ کے ساتھ اس راکھ کو بہانا شروع کر دیا۔
سالار پلٹ کر دوبارہ واش بیسن کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اس کے گلے میں موجود سونے کی چین کو وہ لوگ اتار کر لے گئے تھے مگر اس کے کان کی لو میں موجود ڈائمنڈ ٹاپس وہیں تھا۔ وہ پلاٹینم میں جڑا ہوا تھا اور ان لوگوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ شاید ان کا خیال ہو گا کہ وہ کوئی معمولی پتھر یا پھر زرقون ہو گا یا پھر شاید اس کے لمبے کھلے بالوں کی وجہ سے اس کے کان کی لو چھپی رہی ہو گی۔
وہ کچھ دیر آئینے میں خود کو دیکھتا رہا پھر اس نے کان کی لو میں موجود ٹاپس اٹھا کر واش بیسن کے پاس رکھ دیا شیونگ کٹ میں موجود کلپر اس نے نکالا اور اپنے بال کاٹنے لگا۔ بڑی بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ۔ واش بیسن میں بہتا ہوا پانی ان بالوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جا رہا تھا۔
ریزر نکال کر اس نے شیو کرنی شروع کر دی۔ وہ جیسے اپنی تمام نشانیوں سے پیچھا چھڑا رہا تھا۔ شیو کرنے کے بعد اس نے اپنے کپڑے نکالے اپنے ہاتھوں پر بندھی پٹیاں کھولیں اور شاور کے نیچے جا کر کھڑا ہو گیا۔ وہ پورا ایک گھنٹہ اپنے پورے جسم کے ایک ایک حصے کو کلمہ پڑھ پڑھ کر صاف کرتا رہا۔ یوں جیسے وہ آج پہلی بار اسلام سے متعارف ہوا ہو۔ پہلی بار مسلمان ہوا ہو۔
واش روم سے باہر آ کر اس نے فریج میں رکھے سیب کے چند ٹکڑے کھائے اور پھر سونے کے لئے لیٹ گیا۔ دوبارہ اس کی آنکھ الارم سے کھلی جسے اس نے سونے سے پہلے لگایا تھا۔ دو بج رہے تھے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
“مائی گاڈ سالار! یہ اپنے بالوں کو کیا کیا ہے تم نے؟” طیبہ اسے دیکھتے ہی کچھ دیر کے لئے بھول گئیں کہ وہ بولنے کے قابل نہیں تھا۔ سالار نے اپنی جیب سے ایک کاغذ نکال کر ان کے سامنے کر دیا۔
“میں مارکیٹ جانا چاہتا ہوں۔” اس پر لکھا ہوا تھا۔
“کس لئے؟” طیبہ نے اسے حیرانی سے دیکھا۔
“تم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے ہو۔ کچھ گھنٹے ہوئے ہی تمہیں ہاسپٹل سے آئے اور تم ایک بار پھر آوارہ گردی کے لئے نکلنا چاہتے ہو۔” طیبہ نے اسے قدرے نرم آواز میں جھڑکا۔
“ممی! میں کچھ کتابیں خریدنا چاہتا ہوں۔” سالار نے ایک بار پھر کاغذ پر لکھا۔” میں آوارہ گردی کرنے کے لئے نہیں جا رہا۔”
طیبہ کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔” تم ڈرائیور کے ساتھ چلے جاؤ۔” سالار نے سر ہلا دیا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
وہ جس وقت مارکیٹ کی پارکنگ میں گاڑی سے اترا شام ہو چکی تھی۔ مارکیٹ کی روشنیاں وہاں جیسے رنگ و نور کا ایک سیلاب لے آئی تھیں۔ وہ جگہ جگہ پھرتے لڑکے لڑکیوں کو دیکھ سکتا تھا۔ مغربی ملبوسات میں ملبوس بے فکری اور لاپرواہی سےقہقہے لگاتے ہوئے اسے زندگی میں پہلی بار اس جگہ سے وحشت ہوئی تھی، وہی وحشت جو وہ اڑتالیس گھنٹے پہلے مارگلہ کی ان پہاڑیوں پر محسوس کرتا رہا تھا۔ وہ ان ہی لڑکوں میں سے ایک تھا لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے والا۔ بلند و بانگ قہقہے لگانے والا، فضول اور بے ہودہ باتیں کرنے والا، اپنا سر نیچے کئے وہ کسی بھی چیز پر دھیان دئیے بغیر سامنے نظر آنے والی بک شاپ میں چلا آیا۔
اپنی جیب سے کاغذ نکال کر اس نے دوکاندار کو اپنی مطلوبہ کتابو ں کے بارے میں بتایا۔ وہ قرآن پاک کا ایک ترجمہ اور نماز کے بارے میں کچھ دوسری کتابیں خریدنا چاہتا تھا۔ دوکاندار نے اسے حیرانی سے دیکھا، وہ سالار کو اچھی طرح جانتا تھا۔ وہ وہاں سے پورنوگرافی کے غیر ملکی میگزینز اورسڈنی شیلڈن اور ہیرلڈ روبنز سمیت چند دوسرے انگلش ناولز لکھنے والوں کے ہر نئے ناول کو خریدنے کا عادی تھا۔
سالار اس کی نظروں کے استعجاب کو سمجھتا تھا۔ وہ اس سے نظریں ملانے کے بجائے صرف کاونٹر کو دیکھتا رہا۔ وہ آدمی کسی سیلز مین کو ہدایات دیتا رہا پھر اس نے سالار سے کہا۔
“آپ بڑے دن بعد آئے۔ کہیں گئے ہوئے تھے؟”
“اسٹڈیز کے لئے باہر۔” اس نے سر ہلاتے ہوئے سامنے پڑے ہوئے کاغذ پر لکھا۔
“اور یہ گلے کو کیا ہو؟”
“بس ٹھیک نہیں ہے۔” اس نے لکھا۔
سیلز مین قرآن پاک کا ترجمہ اور اور دوسری مطلوبہ کتابیں لے آیا۔
“ہاں! یہ اسلامی کتابوں کا آج کل بڑا ٹرینڈ چلا ہوا ہے۔ لوگ بہت پڑھنے لگے ہیں، بڑی اچھی بات ہے۔ خاص طور پر باہر جا کر تو ضرور پڑھنا چاہئیے۔” دوکاندار نے بڑے کاروباری انداز میں مسکراتے ہوئے کہا۔ سالار نے کچھ نہیں کہا۔ وہ اپنے سامنے پڑی کتابوں پر ایک نظر دوڑانے لگا۔
چند لمحوں کے بعد ا س نے دائیں ہاتھ قرآن پاک کے ترجمے کے ساتھ کاونٹر پر خالی جگہ پر شاپ کیپر نے اس کے سامنے پورنوگرافی کے کچھ نئے میگزینز رکھ دئیے۔ کتابوں کو دیکھتے دیکھتے اس نے چونک کر سر اٹھایا۔
“یہ نئے آئے ہیں ، میں نے سوچا آپ کو دکھا دوں۔ ہو سکتا ہے آپ خریدنا پسند کریں۔”
سالار نے ایک نظر قرآن پاک کے ترجمے کو دیکھا دوسری نظر چند انچ دور پڑے ان میگزینز کو دیکھا، غصے کی ایک لہر سی اس کے اندر اٹھی تھی۔”کیوں؟ وہ نہیں جانتا تھا۔ اپنے بائیں ہاتھ سے ان میگزینز کو اٹھا کر وہ جتنی دور اس شاپ کے اندر پھینک سکتا تھا اس نے پھینک دئیے۔ چند لمحوں کے لئے پوری شاپ میں خاموشی چھا گئی۔
سیلز مین ہکا بکا کھڑا تھا۔”بل” سالار نے کاغذ پر گھسیٹا اور سرخ چہرے کے ساتھ اس سیلز مین کی نکھوں کے سامنے اس کاغذ کو کیا۔ سیلز مین نے کچھ بھی کہے بغیر اپنے سامنے پڑے کمپیوٹر پر ان کتابوں کا بل بنانا شروع کر دیا جو اس کے سامنے رکھی تھیں۔
چند منٹوں میں سالار نے بل ادا کیا اور کتابیں اٹھا کر دروزے کی طرف بڑھ گیا۔
“ایڈیٹ۔۔۔۔۔ دوکان سے باہر نکلتے ہوئے اس نے کاونٹر کے پاس کھڑی ایک لڑکی کا تبصرہ سنا، مخاطب کون تھا اس نے مڑ کر دیکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ وہ جانتا تھا وہ تبصرہ اسی پر کیا گیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
دو ہفتے بعد اس کی آواز بحال ہو گئی تھی۔ اگرچہ ابھی اس کی آواز بالکل بیٹھی ہوئی تھی، مگر وہ بولنے کے قابل ہو گیا تھا اور ان دو ہفتوں میں وہ روح کی دریافت میں مصروف رہا۔ وہ زندگی میں پہلی بار یہ کام کر رہا تھا۔ شاید زندگی میں پہلی بار اسے یہ احساس ہوا تھا کہ روح بھی کوئی وجود رکھتی تھی اور اگر روح کے ساتھ کوئی مسئلہ ہو جائے تو وہ زندگی میں پہلی بار خاموشی کے ایک لمبے فیز میں داخل ہوا تھا۔ بولنا نہیں سننا۔۔۔۔۔ صرف سننا بھی بعض دفعہ بہت اہم ہوتا ہے اس کا ادراک اسے پہلی بار ہو رہا تھا۔
اسے زندگی میں کبھی رات سے خوف نہیں آیا تھا۔ اس واقعے کے بعد اسے رات سے بے تحاشا خوف آنے لگا تھا۔ وہ کمرے کی لائٹ آن کر کے سوتا تھا۔ اس نے پولیس کسٹڈی میں ان دونوں لڑکوں کو پہچان لیا تھا، مگر وہ پولیس کے ساتھ اس جگہ پر جانے کے لئے تیار نہیں ہوا تھا جہاں اس شام وہ اسے باندھ کر چھوڑ گئے تھے۔ وہ دوبارہ کسی ذہنی پراگندگی کا شکار ہونا نہیں چاہتا تھا، اس نے زندگی میں اس سے پہلے کبھی اتنی بے خواب راتیں نہیں گزاری تھیں مگر اب یہ ہو رہا تھا کہ وہ سلیپنگ پلز لئے بغیر سونے میں کامیاب نہیں ہوتا تھا اور بعض دفعہ جب وہ سلیپنگ پلز نہیں نہ لیتا تو وہ ساری رات جاگتے ہوئے گزار دیتا، اس نے نیو ہیون میں بھی ایسے ہی چند ہفتے گزارے تھے۔ اتنے ہی تکلیف دہ اور اذیت ناک مگر تب صرف الجھن اور اضطراب تھا یا شاید کسی حد تک پچھتاوا۔
مگر اب وہ ایک تیسری کیفیت سے گزر رہا تھا خوف سے، وہ اندازہ نہیں کر پا رہا تھا کہ اس رات اسے کس چیز سے زیادہ خوف آیا تھا۔ موت سے، قبر سےیا پھر دوزخ سے۔
امامہ نے کہا تھا ecstasyکے بعدpain ہوتی ہے۔ موت pain تھی۔
اس نے کہا تھا painکے بعد nothingness ہو گی۔
قبر nothingness تھی۔
امامہ نے کہا تھا nothingness کے بعد hell آ جائے گا۔
وہ وہاں تک پہنچنا نہیں چاہتا تھا۔ وہ اس ecstasyسے بچنا چاہتا تھا، جو اسے pain سے hellکا سفر کرنے پر مجبور کر دیتی۔
“اگر مجھے ان سب چیزوں کا پتا نہیں تھا تو امامہ کو کیسے پتا تھا۔ وہ میری ہی عمر کی ہے۔ وہ میرے جیسے خاندان سے تعلق رکھتی ہے، پھر اس کے پاس ان سوالوں کے جواب کیسے آ گئے؟” وہ حیران ہوتے ہوئے سوچنے لگتا۔ آسائشیں تو اس کے پاس بھی ویسی ہی تھیں جیسی میرے پاس تھیں پھر اس میں اور مجھ میں کیا فرق تھا وہ جس مکتبہ ءفکر سے تھی وہ کون ہوتے ہیں اور وہ کیوں اس مکتبہ ءفکر سے منسلک رہنا نہیں چاہتی تھی۔ اس نے پہلی بار اس کے بارے میں تفصیلی طور پر پڑھا۔ اس کی الجھنوں میں اضافہ ہوا، ختم نبوت پر اختلاف کیا اتنا اہم ایشو ہے کہ ایک لڑکی اس طرح اپنا گھر چھوڑ کر چلی جائے۔
“میں نے اسجد سے اس لئے شادی نہیں کی کیونکہ وہ ختم نبوت ﷺ پر یقین نہیں رکھتا۔ تم سمجھتے ہو میں تمہارے جیسے انسان کے ساتھ زندگی گزارنے پر تیار ہو جاؤں گی۔ ایک ایسے شخص کے ساتھ جو ختم نبوت ﷺ پر یقین رکھتا ہے اور پھر بھی گناہ کرتا ہے جو ہر وہ کام کرتا ہے جس سے میرے پیغمبر ﷺ نے منع فرمایا۔ اگر میں حضرت محمدﷺ پر یقین نہ رکھنے والے سے شادی نہیں کروں گی تو میں آپ ﷺ کی نافرمانی کرنے والے کے ساتھ بھی زندگی نہیں گزاروں گی۔”
اسے امامہ ہاشم کا ہر لفظ یاد تھا۔ وہ مفہوم پر پہلی بار غور کر رہا تھا۔
“تم یہ بات نہیں سمجھو گے۔”
اس نے بہت بار سالار سے یہ جملہ کہا تھا۔ اتنی بار کہ وہ اس جملے سے چڑنے لگا تھا۔ آخر وہ یہ بات کہہ کر اس پر کیا جتانا چاہتی تھی یہ کہ وہ کوئی بہت بڑی اسکالر یا پارسا تھی اور وہ اس سے کمتر۔۔۔۔۔
اب وہ سوچ رہا تھا، وہ بالکل ٹھیک کہتی تھی۔ وہ واقعی تب کچھ بھی سمجھنے کے قابل نہیں تھا۔ کیچڑ میں رہنے والا کیڑا یہ کیسے جان سکتا تھا کہ وہ کس گندگی میں رہتا ہے، اسے اپنے بجائے دوسرے گندگی میں لپٹے اور گندگی میں رہتے نظر آتے ہیں۔ وہ تب بھی گندگی میں ہی تھا۔
“مجھے تمہاری آنکھوں سے، تمہارے کھلے گریبان سے گھن آتی ہے۔” اسے پہلی بار اب ان دونوں چیزوں سے گھن آئی۔” آئینے کے سامنے رکھے ہونے پر یہ جملہ کسی بزورڈ (buz word)کی طرح کئی ماہ تک اس کے کانوں میں گونجتا رہا۔ وہ ہر بار اسے ذہن سے جھٹکتا کچھ مشتعل ہو جاتا، اپنے کام میں مصروف ہو جاتا مگر اب پہلی بار اس نے محسوس کیا تھا کہ اسے خود بھی اپنے آپ سے گھن آنے لگی تھی۔ وہ اپنا گریبان بند رکھنے لگا تھا۔ اپنی آنکھوں کو جھکانے لگا۔ وہ آئینے میں بھی خود اپنی آنکھوں میں دیکھنے سے کترانے لگا تھا۔
اس نے کبھی کسی سے یہ نہیں سنا تھا کہ کسی کو اس کی آنکھوں اس کی نظروں سے گھن آتی تھی۔ خاص طور پر کسی لڑکی کو۔
یہ اس کی آنکھیں نہیں ان آنکھوں میں جھانکنے والا تاثر تھا، جس سے امامہ ہاشم کو گھن آئی تھی۔ اور امامہ ہاشم سے پہلے کسی لڑکی نے اس تاثر کو شناخت نہیں کیا تھا۔
وہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے والی لڑکیوں کی کمپنی میں رہتا تھا اور وہ ایسی ہی لڑکیوں کو پسند کرتا تھا۔ امامہ ہاشم نے کبھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کی تھی وہ اس کے چہرے کو دیکھتی اور اسے اپنی طرف دیکھتے پا کر نظر ہٹا لیتی یا کسی اور چیز کو دیکھنے لگتی۔ سالار کو خوش فہمی تھی کہ وہ اس سے نظریں اس لئے چرا رہی تھی کیونکہ اس کی آنکھیں بہت پرکشش تھیں۔
اسے پہلی بار اس کے منہ سے فون پر یہ سن کر شاک لگا تھا کہ اسے اس کی آنکھوں سے گھن آتی تھی۔
“آنکھیں روح کی کھڑکیاں ہوتی ہیں۔” اس نے کہیں پڑھا تھا تو کیا میری آنکھیں میرے اندر چھپی گندگی کو دکھانا شروع ہو گئی تھیں۔ اسے تعجب نہیں ہوا۔ ایسا ہی تھا مگر اس گندگی کو دیکھنے کے لئے سامنے والے کا پاک ہونا ضروری تھا اور امامہ ہاشم پاک تھی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
آپ اب مجھے کچھ بھی نہ سمجھائیں۔ آپ کو اب مجھ سے کوئی شکایت نہیں ہو گی۔”
سالار نے سکندر سے آنکھیں ملائے بغیر کہا۔
وہ دوبارہ Yale جا رہا تھا اور جانے سے پہلے سکندر نے ہمیشہ کی طرح اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ وہی پرانی نصیحتیں کسی موہوم سی آس اور امید میں ایک بار پھر اس کے کانوں میں ٹھونسنے کی کوشش کی تھی مگر اس بار ان کے بات شروع کرتے ہی سالار نے انہیں شاید زندگی میں پہلی دفعہ یقین دہائی کروائی تھی اور زندگی میں پہلی بار سکندر عثمان کو اس کے الفاظ پر یقین آیا تھا۔
وہ اس حادثے کے بعد اس میں آنے والی تبدیلیوں کو واضح طور پر دیکھ رہے تھے۔ وہ پہلے والا سالار نہیں رہا تھا، اس کی زندگی ہی تبدیل ہو چکی تھی۔ اس کا حلیہ، اس کا انداز، سب کچھ۔۔۔۔۔ اس کے اندر کے شعلے کو جیسے کسی نے پھونک مار کر بجھا دیا تھا۔ صحیح ہوا تھا یا غلط، یہ تبدیلیاں اچھی تھیں یا بری۔ خود سکندر عثمان بھی اس پر کوئی رائے دینے کے قابل نہیں ہوئے تھے مگر انہیں یہ ضرور معلوم ہو گیا تھا کہ اس میں کوئی بہت بڑی تبدیلی آئی تھی۔ انہیں یہ اندازہ نہیں ہوا تھا کہ اس نے زندگی میں پہلی بار چوٹ کھائی تھی اور زندگی میں پہلی بار پڑنے والی چوٹ، بڑے بڑوں کو رلا دیتی ہے وہ تو پھر اکیس بائیس سال کا لڑکا تھا۔
زندگی میں بعض دفعہ ہمیں پتا نہیں چلتا کہ ہم تاریکی سے باہر آئے ہیں یا تاریکی میں داخل ہوئے ہیں۔ اندھیرے میں سمت کا پتا نہیں چلتا مگر آسمان اور زمین کا پتا ضرور چل جاتا ہے بلکہ ہر حال میں چلتا ہے۔ سر اٹھانے پر آسمان ہی ہوتا ہے، سر جھکانے پر زمین ہی ہوتی ہے۔ دکھائی دے نہ دے مگر زندگی میں سفر کرنے کے لئے صرف چار سمتوں ہی کی ضرورت پڑتی ہے۔ دائیں ،بائیں ، آگے ، پیچھے۔ پانچویں سمت پیروں کے نیچے ہوتی ہے۔ وہاں زمین نہ ہو تو پاتال آ جاتا ہے۔ پاتال میں پہنچنے کے بعد کسی سمت کی ضرورت نہیں رہتی۔
چھٹی سمت سر سے اوپر ہوتی ہے۔ وہاں جایا ہی نہیں جا سکتا۔ وہاں اللہ ہوتا ہے۔ آنکھوں سے نظر نہ آنے والا مگر دل کی ہر دھڑکن، خون کی ہر گردش، ہر آنے جانے والے سانس، حلق سے اترنے والے ہر نوالے کے ساتھ محسوس ہونے والا۔ وہ فوٹوگرافک میموری، وہ 150+ آئی کیو لیول اسے اب عذاب لگ رہا تھا۔وہ سب کچھ بھولنا چاہتا تھا۔وہ سب جو وہ کرتا رہا ، وہ کچھ بھی بھلانے کے قابل نہیں تھا۔کوئی اس سے اس کی تکلیف پوچھتا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
نیو ہیون واپس آنے کے بعد اس نے زندگی کے ایک نئے سفر کو شروع کیا تھا۔
اس رات اس جنگل کے ہولناک اندھیرے اور تنہائی میں اس درخت کے ساتھ بندھے بلکتے ہوئے کئے گئے تمام وعدے اسے یاد تھے۔
وہ سب سے بالکل الگ تھلگ رہنے لگا تھا۔معمولی سے رابطے اور تعلق کے بھی بغیر۔
“مجھے تم سے نہیں ملنا۔”
وہ صاف گو تو ہمیشہ سے ہی تھا مگر اس حد تک ہو جائے گا اس کے ساتھیوں میں سے کسی کو بھی اس کی توقع نہیں تھی۔چند ہفتے اس کے بارے میں اس کا گروپ چہ میگوئیاں کرتا رہا پھر یہ چہ میگوئیاں اعتراضات اور تبصروں میں تبدیل ہو گئیں اور اس کے بعد طنزیہ جملوں اور ناپسندیدگی میں پھر سب اپنی اپنی زندگی میں مصروف ہو گئے۔سالار سکندر کسی کی زندگی کا مرکز اور محور نہیں تھا نہ دوسرا کوئی اس کی زندگی کا۔
اس نے نیو ہیون پہنچنے کے بعد جو چند کام کیے تھے اس میں جلال انصر سے ملاقات کی کوشش بھی کی تھی۔وہ پاکستان سے واپس آتے ہوئے اس کے گھر سے امریکہ میں اس کا ایڈریس لے آیا تھا۔یہ ایک اتفاق ہی تھا کہ اس کا ایک کزن بھی اسی ہاسپٹل میں کام کر رہا تھا۔باقی کا کام بہت آسان ثابت ہوا۔ضرورت سے زیادہ آسان۔
وہ اس سے ایک بار مل کر اس سے معذرت کرنا چاہتا تھا۔اسے ان تمام جھوٹوں کے بارے میں بتا دینا چاہتا تھا جو وہ اس سے امامہ کے بارے میں اور امامہ کو اس کے بارے میں بولتا رہا تھا۔وہ ان دونوں کے تعلق میں اپنے رول کے لئے شرمندہ تھا۔وہ اس کی تلافی کرنا چاہتا تھا۔وہ جلال انصر تک پہنچ چکا تھا اور وہ امامہ ہاشم تک پہنچنا چاہتا تھا۔
وہ جلال انصر کے ساتھ ہاسپٹل کے کیفے ٹیریا میں بیٹھا ہوا تھا۔جلال انصر کے چہرے پر بےحد سنجیدگی تھی اور اس کے ماتھے پر پڑے ہوئے بل اس کی ناراضی کو ظاہر کر رہے تھے۔
سالار کچھ دیر پہلے ہی وہاں پہنچا تھا اور جلال انصر اسے وہاں دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا تھا۔اس نے جلال سے چند منٹ مانگے تھے۔وہ دو گھنٹے انتظار کروانے کے بعد بالآخر کیفے ٹیریا میں آ گیا تھا۔
“سب سے پہلے تو میں یہ جاننا چاہوں گا کہ تم نے مجھے ڈھونڈا کیسے؟”اس نے آپ جناب کے تمام تکلفات کو برطرف رکھتے ہوئے ٹیبل پر بیٹھتے ہی سالار سے کہا۔
“یہ اہم نہیں ہے۔”
“یہ بہت اہم ہے۔اگر تم واقعی یہ چاہتے ہو کہ میں کچھ دیر تمہارے ساتھ یہاں گزاروں تو مجھے پتا ہونا چاہئیے کہ تم نے مجھے کیسے ڈھونڈا؟”
“میں نے اپنے کزن سے مدد لی ہے۔وہ ایک ڈاکٹر ہے اور اس شہر میں بہت عرصے سے کام کر رہا ہے۔میں یہ نہیں جانتا اس نے آپ کو کیسے ڈھونڈا ہے۔میں نے اسے صرف آپ کا نام اور کچھ دوسری معلومات دی تھیں۔”سالار نے کہا۔
“لنچ۔۔۔۔۔؟”جلال نے بڑے رسمی انداز میں کہا ، وہ ٹیبل پر آتے ہوئے اپنی لنچ ٹرے ساتھ لے کر آیا تھا۔
“نہیں ، میں نہیں کھاؤں گا۔”سالار نے شکریہ کے ساتھ معذرت کر لی۔
جلال نے کندھے اچکائے اور کھانا شروع کر دیا۔
“کس معاملے میں بات کرنا چاہتے تھے تم مجھ سے؟”
“میں آپ کو چند حقائق سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔”
جلال نے اپنی بھنویں اچکائیں۔”حقائق؟”
“میں آپ کو یہ بتانا چاہتا تھا کہ میں نے آپ سے جھوٹ بولا تھا۔میں امامہ کا دوست نہیں تھا۔وہ میرے دوست کی بہن تھی۔صرف میری نیکسٹ ڈور neighbour ۔۔۔۔۔۔”جلال نے کھانا جاری رکھا۔
“میری اس سے معمولی جان پہچان تھی۔وہ مجھے پسند نہیں کرتی تھی خود میں بھی اسے پسند نہیں کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ میں نے آپ پر یوں ظاہر کیا جیسے وہ میری بہت گہری دوست تھی۔میں آپ دونوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتا تھا۔”
جلال سنجیدگی سے اس کی بات سنتے ہوئے کھانا کھاتا رہا۔
“اس کے بعد جب امامہ گھر سے نکل کر آپ کے پاس آنا چاہتی تھی تو میں نے اس سے جھوٹ بولا۔آپ کی شادی کے بارے میں۔”
اس بار جلال کھانا کھاتے کھاتے رک گیا۔”میں نے اس سے کہا کہ آپ شادی کر چکے ہیں۔وہ آپ کے پاس اسی لئے نہیں آئی تھی۔مجھے بعد میں احساس ہوا کہ میں نے بہت نا مناسب حرکت کی ہے مگر اس وقت تک دیر ہو چکی تھی۔امامہ سے میرا کوئی رابطہ نہیں تھا مگر یہ ایک اتفاق ہے کہ آپ سے میرا رابطہ ہو گیا۔میں آپ سے ایکسکیوز کرنا چاہتا ہوں۔”
“میں تمہاری معذرت قبول کرتا ہوں مگر میں نہیں سمجھتا کہ تمہاری وجہ سے میرے اور امامہ کے درمیان کوئی غلط فہمی پیدا ہوئی ، میں پہلے ہی اس سے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا۔”جلال نے بڑی صاف گوئی سے کہا۔
“وہ آپ سے بہت محبت کرتی تھی۔”سالار نے دھیمی آواز میں کہا۔
“ہاں میں جانتا ہوں مگر شادی وغیرہ میں صرف محبت تو نہیں دیکھی جاتی اور بھی بہت کچھ دیکھا جاتا ہے۔”جلال بہت حقیقت پسندانہ انداز میں کہہ رہا تھا۔
“جلال! کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ اس سے شادی کر لیں۔”
“پہلی بات یہ کہ میرا اس کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ میرا اس کے ساتھ رابطہ ہوتا بھی تب بھی میں اس کے ساتھ شادی نہیں کر سکتا۔”
“اس کو آپ کے سہارے کی ضرورت ہے۔”سالار نے کہا۔
“میں نہیں سمجھتا کہ اسے میرے سہارے کی ضرورت ہے۔اب تو بہت عرصہ گزر چکا ہے اب تک وہ کوئی نہ کوئی سہارا تلاش کر چکی ہو گی۔”جلال نے اطمینان سے کہا۔
“ہو سکتا ہے اس نے ایسا نہ کیا ہو۔وہ ابھی بھی آپ کا انتظار کر رہی ہو۔”
“میں اس طرح کے امکانات پر غور کرنے کا عادی نہیں ہوں۔میں نے تمہیں بتایا ہے کہ میرے لئے اپنے کیرئیر کی اس اسٹیج پر شادی ممکن ہی نہیں ہے۔وہ بھی اس سے۔”
“کیوں۔۔۔۔۔؟”
“اس کیوں کا جواب میں تمہیں کیوں دوں۔تمہارا اس سارے معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔میں اس سے کیوں شادی نہیں کرنا چاہتا۔میں تب ہی اسے بتا چکا ہوں اور اتنے عرصے کے بعد تم دوبارہ آ کر پھر وہی پینڈورا باکس کھولنے کی کوشش کر رہے ہو۔”جلال نے قدرے ناراضی سے کہا۔
“میں صرف اس نقصان کی تلافی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں ، جو میری وجہ سے آپ دونوں کا ہوا۔”سالار نے نرمی سے کہا۔
“میرا کوئی نقصان نہیں ہوا اور امامہ کا بھی نہیں ہوا ہو گا۔تم ضرورت سے زیادہ حساس ہو رہے ہو۔”
جلال نے سلاد کے چند ٹکڑے منہ میں ڈالتے ہوئے اطمینان سے کہا۔سالار اسے دیکھتا رہا۔وہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ وہ اسے اپنی بات کیسے سمجھائے۔
“میں اس کو ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں۔اس نے کچھ دیر بعد کہا۔”مگر میں اسے ڈھونڈنا نہیں چاہتا۔شادی مجھے اس سے نہیں کرنی پھر ڈھونڈنے کا فائدہ۔”
سالار نے ایک گہرا سانس لیا۔”آپ جانتے ہیں اس نے کس لئے گھر چھوڑا تھا؟”
“میرے لئے بہرحال نہیں چھوڑا تھا۔”جلال نے بات کاٹی۔
“آپ کے لئے نہیں چھوڑا تھا ، مگر جن وجوہات کی بنا پر چھوڑا تھا کیا ایک مسلمان کے طور پر آپ کو اس کی مدد نہیں کرنی چاہئیے جب کہ آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ لڑکی آپ سے بہت محبت کرتی ہے۔آپ سے بہت انسپائرڈ ہے۔”
“میں دنیا میں کوئی واحد مسلمان نہیں ہوں اور نہ ہی مجھ پر یہ فرض کر دیا گیا ہے کہ میں اس کی مدد ضرور کروں۔میری ایک ہی زندگی ہے اور میں اسے کسی دوسرے کی وجہ سے تو خراب نہیں کر سکتا اور پھر تم بھی مسلمان ہو ، تم کیوں نہیں شادی کرتے اس سے؟میں نے تو تب بھی تم سے کہا تھا کہ تم اس سے شادی کر لو۔تم ویسے بھی اس کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہو۔”
جلال انصر نے قدرے چبھتے ہوئے انداز میں کہا۔سالار اسے خاموشی سے دیکھتا رہا۔وہ اسے بتا نہیں سکتا تھا کہ وہ اس سے شادی کر چکا ہے۔
“شادی۔۔۔۔۔؟وہ مجھے پسند نہیں کرتی۔”اس نے کہا۔
“میں اس سلسلے میں اسے سمجھا سکتا ہوں۔تم میرا اس سے رابطہ کروا دو تو میں اسے تم سے شادی پر تیار کر لوں گا۔اچھے آدمی ہو تم۔۔۔۔۔اور خاندان وغیرہ بھی ٹھیک ہی ہو گا تمہارا۔کار تو ڈیڑھ سال پہلے بھی بڑی شاندار رکھی ہوئی تھی تم نے۔اس کا مطلب ہر روپیہ وغیرہ ہو گا تمہارے پاس۔ویسے یہاں کس لئے ہو؟”
“ایم بی اے کر رہا ہوں۔”
“پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔جاب تمہیں مل جائے گی۔روپیہ ویسے بھی تمہارے پاس ہے۔لڑکیوں کو اور کیا چاہئیے۔امامہ تو ویسے بھی تمہیں جانتی ہے۔”جلال نے چٹکی بجاتے مسئلہ حل کیا تھا۔
“سارا مسئلہ تو اسی “جاننے” نے ہی پیدا کیا ہے۔وہ مجھے ضرورت سے زیادہ جانتی ہے۔”سالار نے جلال کو دیکھتے ہوئے سوچا۔
“وہ آپ سے محبت کرتی ہے۔”سالار نے جیسے اسے یاد دلایا۔
“اب اس میں میرا تو کوئی قصور نہیں ہے۔لڑکیاں کچھ زیادہ جذباتی ہوتی ہیں اس معاملے میں۔”جلال نے قدرے بیزاری سے کہا۔
“یہ ون سائیڈ لو افئیر تو نہیں ہو گا۔آپ کسی نہ کسی حد تک اس میں انوالو تو ضرور ہوں گے۔”سالار نے قدرے سنجیدگی سے کہا۔
“ہاں تھوڑا بہت انوالو تھا ، مگر وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ ترجیحات بھی بدلتی رہتی ہیں انسان کی۔”
“اگر آپ کو وقت اور حالات کے ساتھ اپنی ترجیحات بدلنی تھیں تو آپ کو اس کے بارے میں امامہ کو انوالو ہوتے ہوئے ہی بتا دینا چاہئیے تھا۔کم از کم اس سے یہ ہوتا کہ وہ آپ سے مدد کی توقع رکھتی نہ ہی آپ پر اس قدر انحصار کرتی۔میں اُمید کرتا ہوں آپ یہ تو نہیں کہیں گے کہ آپ نے اس سے شادی کے حوالے سے کبھی کوئی بات یا وعدہ کیا ہی نہیں تھا۔”
جلال کچھ کہنے کی بجائے خشمگیں نظروں سے اسے دیکھتا رہا۔
“تم مجھے کیا جتانے اور بتانے کی کوشش کر رہے ہو؟”اس نے چند لمحوں کے بعد اکھڑے ہوئے انداز میں کہا۔
“اس نے جب مجھ سے پہلی بار رابطہ کیا تھا تو آپ کا فون نمبر اور ایڈریس دے کر اس نے مجھ سے کہا تھا کہ میں آپ سے پوچھوں آپ نے اپنے پیرنٹس سے شادی کی بات کر لی ہے۔میں نے اسے اپنا فون دیا تھا کہ وہ آپ سے یہ بات خود پوچھ لے۔یقیناً اسلام آباد آنے سے پہلے آپ نے اس سے یہ کہا ہو گا کہ آپ اس سے شادی کے لئے اپنے پیرنٹس سے بات کریں گے۔آپ نے یقیناً پہلے محبت وغیرہ کے اظہار کے بعد اسے پروپوز کیا ہو گا۔”
جلال نے کچھ برہمی سے اس کی بات کاٹی۔”میں اسے پروپوز نہیں کیا تھا۔اس نے مجھے پروپوز کیا تھا۔”
“مان لیتا ہوں اس نے پروپوز کیا۔آپ نے کیا کیا؟انکار کر دیا؟”وہ چیلنج کرنے والے انداز میں پوچھ رہا تھا۔
“انکار نہیں کیا ہو گا۔”سالار عجیب سے انداز میں مسکرایا۔
“اس نے مجھے بتایا تھا کہ آپ نعت بڑی اچھی پڑھتے ہیں۔اور آپ کو حضرت محمد ﷺ سے بھی بہت محبت ہے۔ آپ کو بھی بتایا ہو گا اس نے کہ وہ آپ سے محبت کیوں کرتی تھی مگر آپ سے مل کر اور آپ کو جان کر مجھے بہت مایوسی ہوئی۔آپ نعت بہت اچھی پڑھتے ہوں گے مگر جہاں تک حضرت محمد ﷺ سے محبت کا تعلق ہے میں نہیں سمجھتا وہ آپ کو ہے۔میں خود کوئی بہت اچھا آدمی نہیں ہوں اور محبت کے بارے میں زیادہ بات نہیں کر سکتا۔خاص طور پر اللہ اور حضرت محمد ﷺ سے محبت کے بارے میں مگر اتنا میں ضرور جانتا ہوں کہ جو شخص اللہ یا اس کے پیغمبر ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتا ہے یا لوگوں کو یہ امپریشن دیتا پھرتا ہے وہ مدد کے لئے پھیلے ہوئے ہاتھ کو نہیں جھٹک سکتا نہ ہی وہ کسی کو دھوکا اور فریب دے گا۔”سالار اٹھ کر کھڑا ہو گیا۔
“اور میں تو آپ سے ریکویسٹ کر رہا ہوں اس کی مدد کے لئے۔ہو سکتا ہے اس نے بھی ڈیڑھ سال پہلے کی ہو پھر بھی اگر آپ انکار پر مصر ہیں تو۔۔۔۔۔میں یا کوئی آپ کو مجبور تو نہیں کر سکتا مگر آپ سے مل کر اور آپ سے بات کر کے مجھے بہت مایوسی ہوئی۔”
اس نے الوداعی مصافحہ کے لئے جلال کی طرف ہاتھ بڑھایا۔جلال نے اپنا ہاتھ نہیں بڑھایا ، وہ تنفر بھرے انداز میں ماتھے پر بل لئے اسے دیکھتا رہا۔
“خدا حافظ ۔”سالار نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔جلال اسی حالت میں اسے جاتا دیکھتا رہا اور پھر اس نے خود کلامی کی۔”It’s really an idiot’s world out there. ”
وہ دوبارہ لنچ ٹرے کی طرف متوجہ ہو گیا۔اس کا موڈ بےحد آف ہو رہا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
جلال انصر سے ملاقات کے بعد وہ اپنے احساسات کو کوئی نام دینے میں ناکام ہو رہا تھا۔کیا اسے اپنے پچھتاوے سے آزاد ہو جانا چاہئیے؟کیوں کہ جلال نے یہ کہا تھا کہ سالار بیچ میں نہ آتا تو بھی ، وہ امامہ سے شادی نہیں کرتا اور جلال انصر سے بات کرنے کے بعد اسے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ امامہ کے لئے اس کے احساسات میں کوئی گہرائی نہیں تھی مگر یہ شاید اس کے لئے بہت سے نئے سوالات پیدا کر رہا تھا۔وہ جلال سے آج ملا تھا۔ڈیڑھ سال پہلے اس نے جلال کے ساتھ اس طرح بات کی ہوتی تو شاید اس پر ہونے والا اثر مختلف ہوتا۔تب امامہ کے لئے اس کے احساسات کا پیمانہ مختلف ہوتا اور شاید ڈیڑھ سال پہلے وہ امامہ کے بارے میں اس بےحسی کا مظاہرہ نہ کرتا جس کا مظاہرہ اس نے آج کیا تھا وہ ایک ذہنی رو میں اپنے کندھوں سے بوجھ ہٹا ہوا محسوس کرتا اور اگلی ذہنی رو اسے پھر اُلجھن کا شکار کر دیتی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ایم بی اے کا دوسرا سال بہت پُر سکون گزرا تھا۔پڑھائی کے علاوہ اس کی زندگی میں اور کوئی سرگرمی نہیں رہی تھی۔وہ گیمز پر صرف ڈسکشنز میں ہی اپنے کلاس فیلوز کے ساتھ گفتگو کرتا یا پھر گروپ پروجیکٹس کے سلسلے میں اس کے ساتھ وقت گزارتا۔باقی کا سارا وقت وہ لائبریری میں گزار دیتا۔ویک اینڈ پر اس کی واحد سرگرمی اسلامک سینٹر جانا تھا جہاں وہ ایک عرب سے قرآن پاک تلاوت کرنا سیکھا کرتا تھا پھر وہ قرآن پاک کے ان اسباق کو دہرایا کرتا پھر اسی عرب سے اس نے عربی زبان سیکھنا شروع کر دی۔
خالد عبدالرحمان نامی وہ عرب بنیادی طور پر ایک میڈیکل ٹیکٹیشن تھا اور ایک ہاسپٹل سے وابستہ تھا۔وہ ویک اینڈ پر وہاں آ کر عربی زبان اور قرآن پاک کی کلاسز لیا کرتا تھا۔وہ اس کام کا کوئی معاوضہ نہیں لیا کرتا تھا بلکہ اسلامک سینٹر کی لائبریری میں موجود کتابوں کی ایک بڑی تعداد بھی اسی کے دوستوں اور رشتے داروں کی طرف سے عطیہ کی گئی تھی۔
قرآن پاک کی ان ہی کلاسز کے دوران ایک دن اس نے سالار سے کہا۔
“تم قرآن پاک حفظ کیوں نہیں کرتے؟”سالار اس کے اس تجویز نما سوال پر کچھ دیر حیرانی سے اس کا منہ دیکھنے لگا۔
“میں۔۔۔۔۔میں کیسے کر سکتا ہوں؟”
“کیوں۔۔۔۔۔تم کیوں نہیں کر سکتے؟”خالد نے جواباً اس سے پوچھا۔
“یہ بہت مشکل ہے اور پھر میرے جیسا آدمی ، نہیں میں نہیں کر سکتا۔”سالار نے چند لمحوں کے بعد کہا۔
“تمہارا ذہن بہت اچھا ہے بلکہ میں اگر یہ کہوں کہ میں نے اپنی آج تک کی زندگی میں تم سے زیادہ ذہین آدمی نہیں دیکھا جتنی تیز رفتاری سے تم نے اتنے مختصر عرصہ میں اتنی چھوٹی بڑی سورتیں یاد کی ہیں کوئی اور نہیں کر سکا اور جتنی تیز رفتاری سے تم عربی سیکھ رہے ہو میں اس پر بھی حیران ہوں۔جب ذہن اس قدر زرخیز ہو اور دنیا کی ہر چیز سیکھ لینے اور یاد رکھنے کی خواہش ہو تو قرآن پاک کیوں نہیں۔تمہارے ذہن پر اللہ تعالیٰ کا بھی حق ہے۔”خالد نے کہا۔
“آپ میری بات نہیں سمجھے۔مجھے سیکھنے پر کوئی اعتراض نہیں مگر یہ بہت مشکل ہے۔میں اس عمر میں یہ نہیں سیکھ سکتا۔”سالار نے وضاحت کی۔
“جب کہ میرا خیال ہے کہ تمہیں قرآن پاک حفظ کرنے میں بہت آسانی ہو گی۔تم ایک بار اسے حفظ کرنا شروع کرو ، میں کسی اور کے بارے میں تو یہ دعویٰ نہ کرتا مگر تمہارے بارے میں ، میں دعوے سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ تم نہ صرف بہت آسانی سے اسے حفظ کر لو گے بلکہ بہت کم عرصے میں۔۔۔۔۔”
سالار نے اس دن اس موضوع کے بارے میں مزید کوئی بات نہیں کی۔
مگر اس رات اپنے اپارٹمنٹ پر واپس آنے کے بعد وہ خالد عبدالرحمان کی باتوں کے بارے میں ہی سوچتا رہا۔اس کا خیال تھا کہ خالد عبدالرحمان دوبارہ اس کے بارے میں اس سے بات نہیں کرے گا۔مگر اگلے ہفتے خالد عبدالرحمان نے ایک بار پھر اس سے یہی سوال کیا۔
سالار بہت دیر چپ چاپ اسے دیکھتا رہا پھر اس نے مدھم آواز میں خالد سے کہا۔
“مجھے خوف آتا ہے۔”
“کس چیز سے؟”
“قرآن پاک حفظ کرنے سے۔”خالد نے قدرے حیرانی سے پوچھا۔
سالار نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
“کیوں۔۔۔۔۔؟”وہ بہت دیر خاموش رہا پھر کارپٹ پر اپنی انگلی سے لکیریں کھینچتے اور انہیں دیکھتے ہوئے اس نے خالد سے کہا۔
“میں بہت گناہ کر چکا ہوں ، اتنے گناہ کہ مجھے انہیں گننا بھی مشکل ہو جائے گا۔صغیرہ ، کبیرہ ہر گناہ جو انسان سوچ سکتا ہے یا کر سکتا ہے۔میں اس کتاب کو اپنے سینے یا ذہن میں محفوظ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔میرا سینہ اور ذہن پاک تو نہیں ہے۔میرے جیسے لوگ اسے۔۔۔۔۔اسے حفظ کرنے کے لائق نہیں ہوتے۔میں تو ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔”اس کی آواز بھرا گئی۔
خالد کچھ دیر خاموش رہا پھر اس نے کہا۔”ابھی بھی گناہ کرتے ہو؟”سالار نے نفی میں سر ہلا دیا۔
“تو پھر کس چیز کا خوف ہے تم اگر قرآن پاک کی تلاوت کر سکتے ہو ، اپنے ان سارے گناہوں کے باوجود تو پھر اسے حفظ بھی کر سکتے ہو اور پھر تم نے گناہ کئے مگر تم اب گناہ نہیں کرتے۔یہ کافی ہے۔اگر اللہ تعالیٰ یہ نہیں چاہے گا کہ تم اسے حفظ کرو تو تم اسے حفظ نہیں کر سکو گے چاہے تم لاکھ کوشش کر لو اور اگر تم خوش قسمت ہوئے تو تم اسے حفظ کر لو گے۔”خالد نے چٹکی بجاتے ہوئے جیسے یہ مسئلہ حل کر دیا تھا۔
سالار اس رات جاگتا رہا ، آدھی رات کے بعد اس نے پہلا پارہ کھول کر کانپتے ہاتھوں اور زبان کے ساتھ حفظ کرنا شروع کیا۔اسے حفظ کرتے ہوئے اسے احساس ہونے لگا کہ خالد عبدالرحمان ٹھیک کہتا تھا۔اسے قرآن پاک کا بہت سا حصہ پہلے ہی یاد تھا۔خوف کی وہ کیفیت جو اس نے قرآن پاک حفظ کرنا شروع کرتے ہوئے محسوس کی تھی وہ زیادہ دیر نہیں رہی تھی۔اس کے دل کو کہیں سے استقامت مل رہی تھی۔کہاں سے؟کوئی اس کی زبان کی لڑکھڑاہٹ دور کر رہا تھا ، کون۔۔۔۔۔؟کوئی اس کے ہاتھوں کی کپکپاہٹ ختم کر رہا تھا کیوں؟”
فجر کی نماز سے کچھ دیر پہلے وہ اس وقت بےتحاشا رویا جب اس نے پچھلے پانچ گھنٹے میں یاد کئے ہوئے سبق کو پہلی بار مکمل طور پر دہرایا۔وہ کہیں نہیں اٹکا تھا۔وہ کچھ نہیں بھولا تھا۔زیر زبر کی کوئی غلطی نہیں ، آخری چند جملوں پر اس کی زبان پہلی بار کپکپانے لگی تھی۔آخری چند جملے ادا کرتے ہوئے اسے بڑی دقت ہوئی تھی کیونکہ وہ اس وقت آنسوؤں سے رو رہا تھا۔
“اگر اللہ یہ چاہے گا اور تم خوش قسمت ہو گے تو تم قرآن پاک حفظ کر لو گے ورنہ کچھ بھی کر لو ، نہیں کر پاؤ گے۔”اسے خالد عبدالرحمان کی بات یاد آ رہی تھی۔
فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد اس نے کیسٹ پر اپنی زندگی کے اس پہلے سبق کو ریکارڈ کیا تھا۔ایک بار پھر اسے کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔اس کی آواز میں پہلے سے زیادہ روانی اور لہجے میں پہلے سے زیادہ فصاحت تھی۔
اس کی زندگی میں ایک نئی چیز شامل ہو گئی تھی۔اس پر ایک اور احسان کر دیا گیا تھا مگر اس کا ڈپریشن ختم نہیں ہوا تھا۔وہ رات کو سلیپنگ پلز کے بغیر نیند کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا اور سلیپنگ پلز لینے کے باوجود وہ کبھی اپنے کمرے کی لائٹس آف نہیں کر سکا تھا۔وہ تاریکی سے خوف کھاتا تھا۔
یہ پھر خالد عبد الرحمان ہی تھا جس نے ایک دن اس سے کہا تھا۔وہ اسے قرآن پاک کا سبق زبانی سنا رہا تھا اور اسے احساس ہو رہا تھا کہ خالد عبدالرحمان مسلسل اس کے چہرے پر نظریں جمائے ہوئے تھا جب اس نے اپنا سبق ختم کیا اور پانی کا گلاس اٹھا کر اپنے ہونٹوں سے لگایا تو اس نے خالد کو کہتے سنا۔
“میں نے کل رات تمہیں خواب میں حج کرتے دیکھا ہے۔”
سالار مُنہ میں لے جانے والا پانی حلق سے اُتار نہیں سکا۔گلاس نیچے رکھتے ہوئے خالد کو دیکھنے لگا۔
“اس سال تمہارا ایم بی اے ہو جائے گا۔اگلے سال تم حج کر لو۔”
خالد کا لہجہ بہت رسمی تھا۔سالار نے منہ میں موجود پانی غیر محسوس انداز میں حلق سے نیچے اتار لیا۔وہ اس دن اس سے کوئی سوال جواب نہیں کر سکا تھا۔اس کے پاس کوئی سوال تھا ہی نہیں۔
ایم بی اے کے فائنل سمسٹر سے دو ہفتے پہلے اس نے قرآن پاک پہلی بار حفظ کر لیا تھا۔فائنل سمسٹر کے چار ہفتے کے بعد ساڑھے تئیس سال کی عمر میں اس نے اپنی زندگی کا پہلا حج کیا تھا۔وہاں جاتے ہوئے وہاں سے آتے ہوئے اس کے دل و دماغ میں کچھ بھی نہیں تھا۔کوئی تکبر ، کوئی تفخر ، کوئی رشک کچھ بھی نہیں۔اس کے ساتھ پاکستانی کیمپ میں ساتھ جانے والے شاید وہ لوگ ہوں گے جو خوش قسمت ہوں گے۔انہیں ان کی نیکیوں کے عوض وہاں بلایا گیا تھا۔وہ قرآن پاک حفظ نہ کر رہا ہوتا تو حج کرنے کا سوچتا بھی نہیں ، جو شخص حرم شریف سے دور اللہ کا سامنا کرنے کی ہمت نہ رکھتا ہو اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ کعبہ کے سامنے پہنچ کر اللہ کا سامنا کر لے گا وہ ہر جگہ جانے کو تیار ہو جاتا ، مگر خانہ کعبہ جانے کی جرات نہیں کر سکتا تھا۔
مگر خالد عبدالرحمان کے ایک بار کہنے پر اس نے جیسے گھٹنے ٹیکتے ہوئے حج پر جانے کے لئے پیپرز جمع کروا دئیے تھے۔
لوگوں کو حج پر جانے کا موقع تب ملتا تھا جب ان کے پاس گناہ نہیں ہوتے۔نیکیوں کا ہی انبار ہوتا ہے۔سالار سکندر کو یہ موقع تب ملا تھا جب اس کے پاس گناہوں کے علاوہ بھی کچھ بھی نہیں تھا۔
“ہاں ٹھیک ہے ، اگر میں گناہ کرنے سے خوف نہیں کھاتا رہا تو پھر اب مجھے اللہ کے سامنے جانے اور معذرت کرنے سے بھی خوف نہیں کھانا چاہئیے۔صرف یہی ہے نا کہ میں وہاں سر نہیں اٹھا سکوں گا۔نظریں اوپر نہیں کر سکوں گا۔منہ سے معافی کے علاوہ اور کوئی لفظ نہیں نکال سکوں گا تو ٹھیک ہے مجھے یہ سزا بھی ملنی چاہئیے۔میں تو اس سے زیادہ شرمندگی اور بےعزتی کا مستحق ہوں۔ہر بار حج پر کوئی نہ کوئی شخص ایسا آتا ہو گا ، جس کے پاس گناہوں کے علاوہ اور کچھ ہو گا ہی نہیں۔اس بار وہ شخص میں سہی ، سالار سکندر ہی سہی۔”اس نے سوچا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
گناہ کا بوجھ کیا ہوتا ہے اور آدمی اپنے گناہ کے بوجھ کو کس طرح قیامت کے دن اپنی پُشت سے اتار پھینکنا چاہے گا کس طرح اس سے دور بھاگنا چاہے گا کس طرح اسے دوسرے کے کندھے پر ڈال دینا چاہے گا۔یہ اس کی سمجھ میں حرم شریف میں پہنچ کر ہی آیا تھا۔وہاں کھڑے ہو کر وہ اپنے پاس موجود اور آنے والی ساری زندگی کی دولت کے عوض بھی کسی کو وہ گناہ بیچنا چاہتا تو کوئی یہ تجارت نہ کرتا۔کاش آدمی کسی مال کے عوض اپنے گناہ بیچ سکتا۔کسی اجرت کے طور پر دوسروں کی نیکیاں مانگنے کا حق رکھتا۔
لاکھوں لوگوں کے اس ہجوم میں دو سفید چادریں اوڑھے کون جانتا تھا سالار کون تھا؟اس کا آئی کیو لیول کیا تھا ، کسے پرواہ تھی۔اس کے پاس کون سی اور کہاں کی ڈگری تھی ، کسے ہوش تھا۔اس نے زندگی کے میدان میں کتنے تعلیمی ریکارڈ توڑے اور بنائے تھے ، کسے خبر تھی وہ اپنے ذہن سے کون سے میدان تسخیر کرنے والا تھا، کون رشک کرنے والا تھا۔
وہ وہاں اس ہجوم میں ٹھوکر کھا کر گرتا۔بھگدڑ میں روندا جاتا۔اس کے اوپر سے گزرنے والی خلقت میں سے کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ انہوں نے کیسے دماغ کو کھو دیا تھا۔کس آئی کیو لیول کے نایاب آدمی کو کس طرح ختم کر دیا تھا۔
اسے دنیا میں اپنی اوقات ، اپنی اہمیت کا پتا چل گیا تھا۔اگر کچھ مغالطہ رہ بھی گیا تھا تو اب ختم ہو گیا تھا۔اگر کچھ شبہ باقی تھا تو اب دور ہو گیا تھا۔
فخر ، تکبر ، رشک ، انا ، خود پسندی ، خود ستائشی کے ہر بچے ہوئے ٹکڑے کو نچوڑ کر اس کے اندر سے پھینک دیا گیا تھا۔وہ ان ہی آلائشوں کو دور کروانے کے لئے وہاں آیا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭