میں ایک نازک لڑکی سہی
پر کیا تم نے سیپ میں موتی دیکھا ہے؟
وہ بھی تو نازک ہوتا ہے
مگر اس پہ ایک خول ہوتا ہے
جو اس کا اصل چھپاتا ہے
اور وہی دکھاتا ہے جو اسے نظر آتا ہے
مجھ پہ بھی خول چڑھ چکا ہے
محبت کا،نگہبانی کا،نگرانی کا!
ایلاف اس وقت لاہور کے مشہور ترین اسپتال کی بلڈنگ میں داخل ہو رہی تھی۔
رسیپشن سے اس نے اپنے مریض۔۔۔اس لفظ پہ ہی ایلاف ہل گئی تھی کے بارے میں پوچھا تھا مگر یہ تو آغاز امتحان تھا۔
چھوٹے مگر مضبوط قدم اٹھاتی وہ اس وقت ICU کے سامنے کھڑی تھی داد شاہ اسے دیکھ کے حیران ہوا تھا۔
کہاں فون پہ اس کی آواز نہیں نکل رہی تھی اور کہاں اب وہ اسپتال پہنچ چکی تھی۔
” داد شاہ مجھے اذلان کے ڈاکٹر سے ملنا ہے۔کس ڈاکٹر نے انہیں اٹینڈ کیا ہے؟”ایلاف کے لہجے میں کوئی کمزوری نہ تھی۔
” آئیں میں آپ کو لے چلتا ہوں۔”
ایلاف نے چاہا کہ پہلے وہ اذلان کو دیکھ لے مگر پھر سر جھٹک کے آگے بڑھ گئی تھی۔
“ہم پیر اذلان شاہ کی بیوی ہیں۔ہمیں ان کی کنڈیشن معلوم کرنی ہے۔ ” ایلاف ڈاکٹر کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی۔
یہ ڈاکٹر انجم علوی تھے اس اسپتال کے سینئر موسٹ ڈاکٹر۔
“اذلان شاہ کے سر پہ زیادہ چوٹیں لگیں ہیں۔اس لئے وہ کومے میں ہیں۔” ڈاکٹر صاحب نے تمہید باندھی تھی۔
“ہم یہ جانتے ہیں آپ بتائیں ریکوری میں کتنا وقت لگے گا،وہ کب ہوش میں آئیں گے؟”
ڈاکٹر انجم کیلئے یہ سوال روایتی تھا۔دن میں کتنی بار انہیں اس سوال کا جواب دینا پڑتا تھا۔
“کچھ معلوم نہیں۔گاڈ نوز بیٹر،یہ ان کی ول پاور پہ بھی ڈیپینڈ کرتا ہے۔ہوسکتا ہے وہ کل ہوش میں آجائیں,یہ بھی کہ کچھ دن،کچھ ہفتوں یا کچھ مہینوں بعداور خدا نہ کرے کہ ہوسکتا ہے کہ کبھی۔۔۔۔۔” ابھی بات ادھوری ہی تھی کہ ایلاف نے انہیں ٹوک دیا تھا۔
” انہیں ہوش میں آنا پڑے گا۔آج نہیں تو کل،کل نہیں تو پرسوں،انہیں لوٹنا ہوگا اس اندھیرے سے ۔وہ روشنی کے مسافر ہیں،ان کا اختتام یہ نہیں ہوسکتا ہے۔اس لئے دوبارہ آپ یہ بات نہیں کریں گے۔ ” ایلاف کا لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی کانپا تھا۔
ڈاکٹر انجم نے چشمے کے اوٹ سے اس لڑکی کو دیکھا۔انہیں دن میں روز جذباتی باتیں سننے کو ملتی تھیں مگر یہ لڑکی۔۔۔انہوں نے اس لڑکی کو غور سے دیکھا تھا۔
نقاب سے جھانکتی اس کی سبز آنکھوں میں سرد مہری تھی۔
لہجے میں بیگانگی تھی مگر اس شخص کیلئے پروا ہی پروا تھی۔
فکر ہی فکر تھی!
یہ کچھ انوکھا تھا
یہ جذبات نہیں یقین بول رہا تھا
اعتبار بول رہا تھا،مان بول رہا تھا
اور بھلا جذباتی لوگ اتنے مضبوط ہوتے ہیں بھلا!
اس کی سبز آنکھوں میں لالی اس بات کی گواہ ہے کہ یہ جذباتی کیفیت سے گزر چکی ہے اور اب حقیقت کہ فیز میں داخل ہوچکی ہے۔
” ہوں!” ڈاکٹر انجم نے اس پہ ہی اکتفا کیا تھا
” ان کی ڈیلی پروگریس ہمیں چاہئے اینڈ ون تھنگ مور ڈاکٹر صاحب کسی قسم کی کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔اسے ہمبل ریکویسٹ سمجھیں یا آرڈر۔” ایلاف اٹھتے ہوئے بولی۔
” کوما ایک طویل بیماری کا نام ہے۔ایک طویل نیند جو کبھی بھی ختم ہوسکتی ہے۔ہم اس کا آغاز تو جان سکتے ہیں مگر انجام نہیں۔” ڈاکٹر انجام نے اسے تفصیل بتائی تھی۔
” آپ کی میڈیکل سائنس معجزوں کو نہیں مانتی مگر ہم مانتے ہیں اذلان شاہ بہت جلد صحت یاب ہوجائیں گے۔”ایلاف نے بات ہی ختم کردی تھی۔
” اذیت راس ہے سائیں”
“جی بھر کے ستایا جائے”
وہ اس وقت اذلان شاہ کے پٹیوں میں جکڑے وجود کے پاس کھڑی تھی۔
” یہ کیا’کیا پیر سائیں ناراض تو ہمیں ہونا تھا۔روٹھنے کا حق ہمارا تھا،منانا تو آپ کو تھالیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی آپ آگے نکلے۔خود سے بھی روٹھ گئےہماری طرف تو دیکھنے کے تو آپ ویسے بھی روادار نہیں تھے۔” ایلاف اذلان شاہ کے پاس کھڑی اس سے مخاطب تھی۔
یہ جانتے ہوئے بھیکہ وہ اس کا شکوہ سن نہیں سکتا۔
اس کے آنسو دیکھ نہیں سکتا۔
اس کا دکھ محسوس نہیں کرسکتا مگر ایلاف بھی کیا کرتی اسے عادت ہوگئی تھی۔
اپنا دکھ اس سے ہی کہنے کی،اپنے آنسو اسے دکھانے کی۔
اپنے دکھ اسے ہی محسوس کروانے کی۔
ایلاف نے اس کی چادر سے اپنے آنسو رگڑ ڈالے تھے۔
وہی ہمیشہ والی عادت!
” ہم صبح آئیں گے۔روز آئیں گے،تب تک آئیں گے۔جب تک آپ مان نہ جائیں۔ “ایلاف نے اذلان کے کان پاس سرگوشی کی تھی۔
اور باہر آگئی تھی۔
دوسری طرف ایک جامد خاموشی تھی۔
______________________________
” داد شاہ! ” ایلاف نے اسے پکارا تھا۔
” تمہارے علاوہ سائیں کس پہ آنکھ بند کر کے اعتبار کرتے ہیں؟” ایلاف کا سوال اس کیلئے حیران کن تھا۔
” یہ سجاول خان۔” انگلی سے اس نے ایک تنومند بندے کی طرف اشارہ کیا۔
” سجاول خان!تین دن آپ اور تین دن داد شاہ جاگیر میں اور اسپتال میں،وہاں کے ہر لمحے کی خبر چاہئے اور جو یہاں ہوگاوہ ہمیں یہاں کے جو بھی مسئلے ہیں۔ہمیں ان کی اطلاع ہونی چاہئے۔سجاول خان روانہ ہوجائیں آپ آج ہی۔” ایلاف نے اپنی ذمہ داری آج سے ہی نبھانی شروع کردی تھی۔
“جی بہتر!” سجاول خان سلام کرتا ہوا جا چکا تھا۔
” داد شاہ!وہ گاڑی کہاں ہے؟” ایلاف نے اب اسے مخاطب کیا تھا۔
” بی بی سائیں وہ تو ابھی پولیس کسٹڈی میں ہے مگر آپ کیوں پوچھ رہی ہیں؟” داد شاہ نے حیرت سے پوچھا تھا۔
” ہمیں اس گاڑی کی فرانزک رپورٹ چاہئے۔ہمیں اس حادثے کی وجہ جاننی ہے۔وہ گاڑی دو دن پہلے جاگیر سے آئی تھی۔ہم اس معاملے کو یونہی جانے نہیں دے سکتے۔” ایلاف کا دماغ اس بات پہ بھی الجھا ہوا تھا۔
” اور یہ ڈرائیور کہاں تھا جب اذلان نکلے تھے گھر سے گاڑی لے کے؟” ایلاف نے یہ بھی پوچھا تھا۔
” اسے پیر سائیں نے خود ہی روکا تھا،وہ وہیں دفتر میں ہی تھا۔” داد شاہ کو آج ایلاف پہ بہت حیرت ہو رہی تھی۔
وہ کسی ماہر تفتیشی افسر کی طرح ایک ایک نکتہ کو کرید رہی تھی۔
” تم فرانزک ٹیم کیلئے جلد از جلد کہو اور اس کی رپورٹ بنواؤ۔پیر سائیں کا موبائل ہمیں دو اور ہمارا نمبر اپنے پاس رکھو،ہم اب صبح آئیں گے۔” ایلاف نے اس سے اذلان شاہ کا موبائل مانگ لیا تھا۔
اس کا دماغ بہت کچھ ایک ساتھ سوچ رہا تھا اور سن سا ہو رہا تھا۔
گھر لوٹی تو امیراں اسی کی ہی منتظر تھی۔
” اماں سائیں سو گئیں کیا؟” ایلاف نے اماں کی غیر موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے پوچھا تھا۔
” وہ جی بلڈ پریشر کی دوا کھا کے سو گئی ہیں۔ان کا بھی برا حال ہے،آپ کھانا کھا لیں۔تھک گئی ہوں گی۔” امیراں ہمدردی سے بولی۔
“اتنی نازک سی تو ہیں بی بی۔”
ایلاف نے منع کرنا چاہا پھر خاموشی سے سر ہلادیا۔
” اتنے محاذوں پہ لڑنا ہے کچھ تو توانائی ملے۔” دل نہیں کر رہا تھا مگر دل کی سنے کون۔
معدے کو کھانا چاہئے اور دماغ کو توانائی چاہئے تھی۔وہ چپ چاپ میز پہ آ کے بیٹھ گئی تھی۔
امیراں نے شام میں کچھ نہیں بنایا تھا،ظاہر ہے دوپہر کا بھی کسی نے نہیں کھایا تھا۔
ایلاف نے کھانا دیکھا۔اس کے ہاتھ کی پکی ہوئی مچھلی اور پلاؤ۔یہ اہتمام جس کیلئے تھا، اس نے تو نگاہ بھر کے بھی نہیں دیکھا تھا اور نگاہیں پھیر لی تھیں۔
ایلاف کا دل ہی خراب ہوگیا تھا،اس سے کھایا ہی نہیں گیا۔
“مجھے دودھ دے دو امیراں،اٹھا لو یہ سب۔ ” ایلاف اٹھ گئی تھی۔
“اس کھانے کے نصیب میں ہی نہیں کسی کے منہ لگنا۔” امیراں کا بھی موڈ خراب ہوگیا تھا۔
“ایلاف جائے نماز بچھا کے کھڑی ہوگئی تھی۔
وہ اندر سے ٹوٹ رہی تھی،آنسو ابلنے کو بیتاب تھے۔
اس کے دل پہ برچھیاں چل رہی تھیں۔اس کا سائبان خطرے کے طوفان کی زد میں آکے اکھڑ رہا تھا۔
لیکن!
وہ اب آنسو کسی کے سامنے نہ بہانے کا تہیہ کر چکی تھی سوائے اس ایک ذات کے جو دلوں کی حالت جانتا ہے۔
وہ روتے ہوؤں کا سب سے بڑا غمگسار ہے۔
ہمدرد ہے!
اس نے سات سمندر پیدا کئے ہیں مگر
محبت وہ صرف ایک اشک سے کرتا
جو اس کے سجدے میں بہائے جائیں۔
ایلاف کا یقین بھی وہی تھا اور بھروسہ بھی وہی تھا۔
اور جن کی طاقت رب کا یقین ہو
وہ کبھی مار نہیں کھاتے
ہمت نہیں ہارتے
_____________________________
ایلاف کے شب و روز نہایت مصروف ہوچلے تھے۔صبح وہ حسب معمول شاہ بی بی کے ساتھ اسپتال جاتی تھی
پھر داد شاہ کی رہنمائی میں آفس
اس کے بعد اسے لینگویج سینٹر جانا ہوتا تھا۔
شام میں ایک بار پھر اسپتال کا چکر لگانے کے بعد وہ گھر آئے مہمانوں سے بھی نپٹتی تھی۔وہ کسی کو تاثر نہیں دینا چاہتی تھی کہ وہ کچھ برا یا غلط سوچیں مگر سوچنے والے تو سوچ لیتے ہیں،چاہے ہم دودھ کے ہی کیوں نہ دھلے ہوں۔
اس دن بھی خاندان کی کچھ بزرگ خواتین کے ساتھ تانیہ شاہ بھی شہر آئی تھی ساتھ میں اس کی ماں بھی تھیں۔کمال شاہ اور احمد شاہ بھی چکر لگاتے رہتے تھے۔
بنین شاہ شاہ بی بی کی وجہ سے رکی ہوئی تھی مگر فون وہ روز کرتی تھی۔
” ہائے!1 آپ لوگوں نے دیکھا کہ کتنی کوئی سبز قدم نکلی،پیر سائیں کی بیوی۔ارے دن رات جیٹھ جی کا پیر گاڑی میں ہوتا تھا کبھی انہیں کھرونچ نہ آئی اور اب دیکھیں کیسے ہٹا کٹا بندہ موت کے منہ میں پہنچ گیا۔نری نحوست! ” تانیہ کی زبان فراٹے سے شاہ بی بی کی غیر موجودگی میں ایلاف کی شان میں قصیدہ گھڑ رہی تھی جو اندر آتی ایلاف اور شاہ بی بی نے بہ خوبی سنی تھی۔
” اوہ دیودانی جی!آپ کیوں خفا ہوتیں ہیں،کسی زمانے میں آپ کو بھی یہ لقب مل چکا ہے نا تو اب آپ ہم پہ بھی اس کا لیبل لگائیں گی۔” ایلاف کا لہجہ بہت سرد تھا۔
بالکل ٹھنڈا برف جیسا!
” کیا مطلب؟بہو!” وہ خاتون شاید اس قصے سے بے خبر تھیں۔
” آپ کو نہیں پتا!تانیہ کی شادی کے دوسرے دن ہی احمد شاہ کو گولی لگی تھی اور ان کی حالت بہت سیریس تھی۔وہ تو اوپر والے نے کرم کیا۔اس حساب سے تو تانیہ شاہ آپ ہی ہوئیں اس سبز قدم کی داغ بیل ڈالنے والی۔”ایلاف پتھر پھوڑ رہی تھی
” مجھ پہ بات کرنا اتنا آسان نہیں تانیہ شاہ۔ ” ایلاف کو یہ قصہ بنین نے ہی سنایا تھا گو کہ اس کا مقصد ایلاف کو حوصلہ دینا تھا مگر یہ بات آج ایلاف کے بہت کام آئی تھی۔
اہانت سے تانیہ کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔
” اسے کس نے بتایا؟ ” اس سے پنگا لینا ہمیشہ مہنگا پڑتا تھا۔
” ہیں تانیہ!تم نے بتایا ہی نہیں کبھی۔” وہ خاتون واقعی بے خبر تھیں۔
“امیراں مہمانوں کا دھیان رکھنا،خاص طور سے ہماری دیورانی کا۔” ایلاف کہہ کے اٹھ چکی تھی۔
شاہ بی بی نے آج واپس جانا تھا،بقول ایلاف کے:-
” اماں سائیں!وہاں آپ کی زیادہ ضرورت ہے۔آپ دعا وہاں بیٹھ کے بھی کرسکتی ہیں۔میں ابھی اس میدان میں نئی ہوں۔ہمیں آسرا تو دیں وہاں کے حالات کچھ تو بہتر ہوں گے۔” ایلاف کو سجاول خان سے ڈیلی رپورٹ ملتی تھی۔
کچھ اڑتی اڑتی خبریں اس نے سنی تھیں۔وہ شاہ بی بی کو پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی اس لئے مناسب لفظوں میں انہیں جانے کو کہا تھا جاگیر۔
ایلاف کو اسپتال سے دیر ہورہی تھی اس لئے وہ جلدی سے باہر نکل گئی تھی۔
______________________________
” بڑے امتحانوں میں ڈال دیا ہے اذلان شاہ آپ نے ہمیں،ہم سے تو یہ جاگیر سنبھالی نہیں جاتی،آپ جلدی سے ٹھیک ہوجائیں پلیز۔” ایلاف کو عادت سی ہوچلی تھی۔
وہ اسپتال آ کے گھنٹوں کے حساب سے اذلان شاہ سے بے تکان باتیں کرتی۔
” کبھی تو وہ کوئی اظہار کرے گا۔ ” ڈاکٹرز کہتے تھے کہ ہماری باتیں اگر کومے میں موجود شخص کو سنائی دے رہی ہیں تو وہ لازمی رسپانس کرتا ہے۔
آنسوؤں کی صورت ہی سہی!
اور ایلاف اس سے اس لئے ہی باتیں کرتی تھی مگر وہ یہ کبھی نہیں چاہتی کہ اگر یہ پہاڑ جیسا شخص اگر بے بس ہوا ہے تو وہ ضروری نہیں رو کے اظہار کرے کہ وہ ایلاف کو سن رہا ہے۔
اذلان شاہ کو مہینہ ہوچلا تھا،اس کے زخم بھر رہے تھےمگر اس کے کومے کا تسلسل بر قرار تھا۔
ایلاف اس کے سرہانے بیٹھ کے تلاوت کرتی تھی پھر اس سے باتیں کرتی،کتابیں یوں پڑھ کے سناتی تھی جیسے وہ سن رہا ہو۔
آج حسب معمول تلاوت ختم ہونے کے بعد اس نے اذلان شاہ پہ پڑھ کے پھونک ماری تھی۔
“اللّه آپ کو صحت دے۔ ” ہمیشہ والی دعا اس نے آج بھی مانگی تھیپھر نیل کٹر لے کے وہ اذلان کے پاس کرسی کھینچ کے بیٹھ گئی اور نرمی سے اس کے ناخن کاٹنے لگی۔
“ایک بات کہوں آپ سے۔” ایلاف نے جیسے اجازت چاہی اور تھوڑی دیر کیلئے چپ ہو گئی۔
پھر کچھ دیر بعد بولی جیسے اجازت مل گئی ہو۔
سنو اے ہم نشین میرے
راز دار میرے
تم لاکھ روٹھ جاؤ
ہم سے ہار جاؤ گے
ہم تم کو منا ہی لیں گے
اپنا اور تمہارا ساتھ نبھا ہی لیں گے
کہہ کے اس نے اذلان کا چہرہ کھوجا کوئی تو احساس ہوگا۔
مگر نہیں وہاں وہی سمنرروں کیگہرائی میں موجود جامد سکوت تھا۔
برف جیسا سرد احساس!
اس نے آج بھی اسے نہیں سنا تھا۔
______________________________
ایلاف گھر لوٹی تو خاموشی نے اس کا استقبال کیا تھا۔
” سب چلے گئے۔” ایلاف نے اپنے انتظار میں جاگتی امیراں سے پوچھا۔
آج وہ اذلان شاہ کے شیلٹر ہوم بھی گئی تھی۔جہاں بے آسرا عورتوں کو پناہ دی جاتی تھی۔اس لئے اسے دیر ہوگئی تھی۔
” جی سب چلے گئے ہیں۔ وہ تانیہ بی بی کا موڈ بہت خراب تھا۔شاہ بی بی نے انہیں بہت ڈانٹا تھا۔” امیراں نے اسے بتایا تھا۔
” علاج ہے اس کا!” ایلاف نے اذلان زیادہ تبصرہ نہیں کیا تھا۔
دو دن بعد جب وہ اذلان شاہ کے پاس بیٹھی اس سے چھوٹی چھوٹی باتیں کر رہی تھی۔جب داد شاہ دروازے پہ دستک دے کے اندر آیا تھا۔
” کیا بات ہے داد شاہ؟”
” بی بی سائیں!سجاول خان کا فون آیا ہے۔” داد شاہ نے جو خبر اسے دی تھی۔ایلاف کا دماغ گھوم گیا تھا۔
” تو تانیہ شاہ تم نے اپنا رنگ دکھا ہی دیا اور احمد شاہ تم واقعی جورو کے غلام نکلے۔پیروں کے خاندان میں کیا کر رہے ہو۔” ایلاف غصے سے اٹھ چکی تھی۔
” ہمارے ساتھ آؤ داد شاہ۔” ایلاف ایک نتیجہ پہ پہنچ چکی تھی۔
داد شاہ اس کی شکل دیکھ کے رہ گیا تھا۔
______________________________
اور بہت دور کہیں سات سمندد پار ایک پیغام پہنچا تھا۔
اور اس کے بعد ایک فون بھی!
______________________________
” احمد!” تانیہ نے اپنے بیٹے کو تھپکتے ہوئے شوہر کو مخاطب کیا۔
” ہوں!” احمد نے آنکھیں موندیں ہی کہا تھا۔
” کیا فائدہ اتنی محنت ک،وہ بھایا اذلان شاہ اسپتال میں زندہ لاش بن کے لیٹے ہیں اور کمال شاہ کو کمشنری سے ہی فرصت نہیں ہے۔سارا کام آپ کرتے ہیں اور مزے وہ دونوں کرتے ہیں۔” تانیہ اس سے ہمدردی جتاتے ہوئے بول رہی تھی
اور اس نے اپنا پہلا پتہ بھی کھیلا تھا۔
“کیا کریں حالات ایسے ہیں،کرنا ہی پڑے گا۔” احمد شاہ تھکی تھکی آواز میں بولا تھا۔
” آپ کچھ نہ کریں بس بیٹھ کے سڑتے رہیں اور ادھر وہ اذلان شاہ کی نام نہاد بیوی سب لے کے چلتی بنے گی ہر چیز کی اسے خبر ہے،مخبر لگا رکھے ہیں۔ آئے دن داد شاہ اور سجاول خان یہاں نظر آتے ہیں۔وہ باہر کی عورت سب پہ سانپ بن کے بیٹھ گئی ہے۔” تانیہ کو آگ لگی ہوئی تھی ایلاف کے مالکانہ انداز دیکھ کے۔
” تم سے کس نے کہا یہ سب؟” احمد شاہ سیدھا ہوتے ہوئے بولا۔
” اندھی نہیں ہوں سب خبر رکھتی ہوں آخر کو مجھے آپ کا احساس کرنا ہے،کچھ کریں احمد۔” تانیہ آگ لگا چکی تھی اب ہوا دے رہی تھی۔
” کیا کریں؟”
” اذلان شاہ کی زندگی کا کچھ پتہ نہیں ہےاور تائی اماں بیٹے کی محبت میں پاگل حالانکہ انہیں فیصلہ کرنا چاہئیے اس گدی کا،جاگیر کے بھی سو مسئلے ہیں جنہیں حل کرنا ہے۔آخر کب تک پیر اذلان شاہ کے ہوش میں آنے کاانتظار کریں۔وہ ساری زندگی ہوش میں نہ آیا تو۔۔۔سب بیٹھیں رہیں گے کیا۔” تانیہ شاہ اپنی بھڑاس نکال رہی تھی۔
” گدی کا فیصلہ تمہیں معلوم ہے رواج کے مطابق ہم چھوٹوں میں سے گدی پہ کوئی نہیں بیٹھ سکتا اور سفیان کی ہم میں سے کسی کو خبر نہیں ہے۔اذلان شاہ نے اسے خبر بھی نہیں کی ہے ہمارے رواجوں کی۔” احمد شاہ نے اپنی الجھن بیان کی۔
اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ تانیہ کے نزدیک کون گدی کا اہل ہے اب۔
“پیر خرم شاہ ہے نا۔گھر کے بچوں میں بڑا،خیر سے جوان ہورہا ہے۔” تانیہ نے بلی تھیلے سے نکال ہی دی تھی۔
” کیا!تم گدی کا رخ چھوٹی حویلی کی طرف کرنا چاہتی ہو۔ایسا کبھی ہوا ہے بھلا۔” احمد شاہ کچھ خفا ہوا تھا۔
“آپ ٹھنڈے دل سے سوچیں اس میں ہمارا ہی فائدہ ہے۔آخر کو ہماری بیٹی نے کل اس گھر ہی جانا ہے تو اس کا مطلب ہے گدی ادھر جائے اس کا مطلب ہے وہ ہمارے گھر ہی آئے گی۔ ” تانیہ شاہ اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کے معنی خیز لہجے میں بولی تھی۔اس کی بیٹی پیر خرم شاہ کی منگ تھی۔
” ہوں! ” احمد شاہ کا انداز پرسوچ تھا۔
” تم نے باہر کی عورت ہمارے سر پہ بٹھا کے اچھا نہیں کیا۔اذلان شاہ!جب تم ہوش میں آؤگے تو کیاسماں ہوگا جس گدی پہ تم اتنا اکڑتے تھے وہ ہی نہیں رہے گی تو کون پوچھے گا تمہیں اور کیا کر پائے گی تمہاری بیوی۔” تانیہ نے کڑوے دماغ سے سوچا تھا۔
اور!
اذلان شاہ کی بیوی ان کا کیا حال کرنے والی تھی۔
تانیہ شاہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔
______________________________
” ہم اذلان شاہ کی بیوی ہیں،ایلاف اذلان شاہ۔پیر سفیان شاہ کی سر پرست،کائنڈلی انہیں وطن واپس بھیجا جائے۔ ” ایلاف گزارش نہیں حکم دے رہی تھی۔جسے ماننا ہی تھا اسکول کی انتظامیہ کو۔
” دیکھتی ہوں تانیہ شاہ تمہیں اچھی طرح،گدی پہ بیٹھنا تو دور اس کا نام بھی بھول جاؤ گی۔ہم نے اذلان شاہ کی نگہبانی کی قسم کھائی ہے۔ہم ان کی گدی کے رکھوالے ہیں۔ہمیں معمولی سمجھ کے تم نے بہت بڑی غلطی کی ہے۔”
ایلاف کا دماغ تیزی سے بہت سے حساب کتاب اکٹھے کر رہا تھا۔
_____________________________