میں مانتی ہوں اس بات کو لیکن مجھے ڈر لگتا ہے وہ کہیں مجھ سے میری اکلوتی دوست نہ چھین لے۔
پری یہ تم میں شاہ بھائی کی روح کب سے آگی ہے۔
ماہم کی بات پہ پری نے ناسمجھی سے دیکھا ہاں نہ وہ بھی تو ایسے ہی پوزیسو ہیں تمکو لے کر
بدتمیز پری نے ماہم کی بات پہ اسے گھورا
شاہ بھائی کی بات کی میڈم کا غصہ غائب۔
اور میری جان حوصلہ رکھ کبھی بھی کوئی ہمارے درمیان نی آئے گا ۔
ایک ریکسوٹ ہے میری خاطر ہی صحیع ازلان سے اچھے سے بات کر لیا کر اور تمہاری اس درخواست پہ شاہ جوتمہارا حشر کریں گے وہ سوچاہے تم نے پری نے مسکراتے ہوئے کہا۔
تم نہ شاہ کی چمچی بن گی ہو ماہم غصے سے واک آوٹ کر گی
رک پری ماہم کے پیچھے بھاگی وہ اپنی اکلوتی دوست کو ناراض بھی تو نی کر سکتی تھی۔
پھر ماہم نے پری کی خاطرالان سے سوری بولا
ازلان نے پری کی جانب دیکھتے ہوئے ہاتھ بڑھایا جسے پری نے جھجھکتے ہوئے تھام لیا۔
ازلان اپنی اس جیت پر مسکرا دیا بہت جلد تم صرف میری ہوگی شاہ کچھ نی کر سکے گا میں تم کو پل پل تڑپاوں گا اور تمہاری تڑپ پہ شاہ کی حالت یکھنے والی ہوگی
میں اچھے سے جانتا ہوں تم شاہ کی کمزوری ہواور ماہم تمہاری بس اسی کا فائدہ اٹھاوں گا
شاہ سے اپنا بد لا لینے کے لیے میں ہر حد پار کرنے سے گریز نی کروں گا۔ ازلان اس بات سے بے خبر تھا جسے وہ اپنا بنانا چاہ رہا یے وہ توکب کی شاہ کی ہو چکی۔ ——–
شاہ سر وہ مسٹر ہمدانی آئے ہیں احمد نے ازمیر شاہ کو اطلاع دی
اس وقت احمد یہ وقت کیوں دیا ہے تم کو پتہ ہے نہ مجھے پری کو پک کرنے جانا ہے کچھ ہی دیر میں شاہ غصے سے بولا
جی جی سر بٹ وہ بغیر انفارم کیے آگئے ہیں وہ کہہ رہے اس دفع ان کو جو آرڈر گیا ہے اس میں گڑبڑ ہے
ایسا کیسے ہو سکتا ہے کون تھا آن ڈیوٹی جب آرڈر اوکے ہوا تھا سر وہ وہ میں کام سے گیا تھا تو مجھے بھی معلوم نی ہے۔
احمد تم سے حماقت کی امید نی تھی مجھے ۔خیر غلطی ہماری ہے مجھے مل کے ان کی بات سننی ہو گی ۔
پری کیا ہوا ابھی تک شاہ بھائی نی آئے۔ہاں پہلے تو کبھی لیٹ نی ہوئے لیکن آج پتہ نی کیا ہو گیا
مجھے ازلان ڈراپ کر رہا ہے تم بھی ساتھ ہی چلو یہاں اکیلے کھڑے ہونے سے بہتر ہے
ماہم شاہ غصہ ہوں گے ۔
ارے نی ہوتے ویسے بھی کب تک ویٹ کرو گی چلو زیادہ نہ سوچو
ازلان کیا تم پری کو بھی ڈراپ کر دو گے
ماہم یہ بھی کوئی پوچھنے والی بات ہے آف کورس کر دوں گا
شاہ میٹنگ روم سے نکلا اوہ اتنا ٹائم ہوگیا پری ویٹ کر رہی ہوں گی۔شاہ ریش ڈرائیو کرتے ہوئے یونی پہنچا
پریسہ ازمیر شاہ کو بلا دیں گارڈ سے بولا جلدی میں شاہ اپنا موبائل آفس ہی چھوڈ آیا۔
صاحب جی اس بچی نے کافی انتظار کیا پھر وہ چلی گی
کیا بکواص ہے۔ وہ اکیلی کبھی نی گی یہ ہے آپکی سیکیورٹی اگر کچھ ہوا اسے چھوڈوں گا نی تم لوگوں کو۔
غصے میں گارڈ سے پوچھا بھی نی کس کے ساتھ گی ہے۔
اف اللہ پری یار کہاں ہو آپ شاہ بالوں پہ ہاتھ پھیرتا گاڑی بیٹھا۔
وہ ڈرائیونگ کے ساتھ ساتھ اردگرد بھی دیکھ رہا تھا شاید پری نظر آجائے
شاہ گھر میں داخل ہوا
حمدہ خالہ شاہ کی آواز پہ دوڑی آئی جی صاحب جی
پری آگی ہیں گھر ؟
ہاں جی وہ تو سو رہی ہیں ۔شاہ نے پرسکون سانس لی نڈھال سا صوفے پہ بیٹھ گیا
تب سے اس کی جان پہ بنی ہوئی تھی اگر پری گھر نہ پہنچی ہوئی تو لیکن اب وہ ٹھیک ہے اس بات کی تسلی ہوتےہی جیسے کسی نے اس کے بے جان وجود میں جان ڈال دی ہو۔
شاہ کمرے میں داخل ہوا تو سامنے ہی وہ دنیا ومافیا سے بے نیاز سوتی ہو ئی نظر آئی۔
جان شاہ کسی دن آپکی یہ لاپرواہیاں آپ کے شاہ کی جان ہی لے لیں گی۔وہ اس سے دل میں مخاطب ہوا
وراڈروب سے اپنے کمرے لیے فرش ہونے چل دیا فی الحال اس کا واپس آفس جانے کا ارادہ نی تھا۔
شور کی آواز پہ پری کی آنکھ کھل گی واش روم سے پانی گرنے کی آواز آرہی تھی اوہ شاہ آگے شاید شاور لے رہے ہیں ۔پری خود کو شاہ کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے تیار کرنے لگی۔
شاہ باہر آیا پری کو جاگتے دیکھ اسے اگنور کرتا ڈریسنگ کی طرف بڑھا
پری کو حیرت کا جھٹکا لگا شاہ نے اسے اگنور کیا ایسا تو کبھی نی ہوا لیکن جو آج پری نے کیا وہ بھی تو پہلے نی ہوا تھا پر پری کو کون بتاتا یہ
شاہ میری بات سنیں۔
پری پلیز میں نی چاہتا غصے میں میں کچھ غلط بول دوں آپکو اس لیے ابھی کوئی بات نی کرنا چاہتا۔
شاہ بات تو سنیں نہ میں انتظار کیا تھاآپکا لیکن جب آپ
پری کی بات پوری ہونے سے پہلےشاہ چلا یا پری میں لیٹ ہوا تھا مرنی گیا تھا جوآپ ایسے چل دیں آپ اس تکلیف کا اندازہ بھی نی کر سکتی جس سے میں گزرا جب مجھے پتہ چلا آپ وہاں نی ہیں
پری کی سو سو کی آواز پہ شاہ نے اس کی طرف دیکھا جو سر جھکائے آنسو بہا رہی تھی
شاہ کا غصہ پل میں غائب ہوا۔پری یار کیا ہو گیا ہے اسی لیے منع کر رہا تھا بات کرنے سے لیکن آپ بھی نہ۔
اچھا رونا تو بند کریں ۔
شاہ آپ نے غلط بات بو لی ہے پتہ ہے ہمیں کتنی تکلیف ہوئی ہے۔
شاہ پری کی اس بات پہ نہال ہی ہو گیا یعنی کہ وہ پری کے لیے اہمیت رکھتا تھا ۔پری انجانے میں ہی اپنے پیار کا اظہا ر کر گی تھی جسکا اسے خود بھی اندازہ نی تھا۔
جان شاہ رو تو نی اب اچھا سوری نہ دوبارہ کبھی ایسے نی بولوں گا
لیکن آپ بھی وعدہ کرو دوبارہ اکیلے نی آئیں گی
وعدہ۔ لیکن ہم آج بھی اکیلے نی آئے ماہم تھی ساتھ ازلان کا بتا کہ وہ مزید بات بگاڑنا نی چاہتی تھی۔
پری ایک بات اپنے اس دماغ میں بٹھا لیں آپ کے معاملے میں میں کسی پر بھروسہ نی کرسکتا۔خود آپ پر بھی نی۔ سو بی کیر فل نیکسٹ ٹائمز
شاہ ماہم میری بیسٹ فرینڈ ہے
واٹ ایور ۔شاہ کے جواب پہ پری افسوس سے سر ہلا گی جیسے کہنا چاہ رہی ہو آپکا کچھ نی ہو سکتا۔
———
ملک عباد ازلان کو واپس بھیجنا چاہ رہے تھے جب سے انھیں ازلان کے ارادوں کا پتہ چلا تھا لیکن وہ بھی اپنی ہی ضد پہ اڑ گیا تھا کہ بدلہ لیے بغیر نی جائے گا۔
ازلان تمہاری ماں صحیح کہتی ہے میرے لاڈ پیار نے تمھیں بگاڑ دیا ہے ۔
تم سمجھ کیوں نی رے ازمیر شاہ کوئی عام انسان نی ہے
پاپا آپ اس سب سے دور رہے ہیں میں اچھے سے جانتا ہوں میں کیا کر رہا ہوں۔ ازلان تم ہماری اکلوتی اولاد ہو ہم کھونا نی چاہتے تم کو۔
ڈیڈ کچھ نی ہو گا ۔
——
ماہم تم کو پتہ ٹرپ جا رہا ہے مری
پری تم خوش تو ایسے ہو رہی ہو جیسے شاہ بھائی تم کو جانے دیں گے۔
انکی تم فکر ہی نہ کرو منا لوں گی میں
اوئے یہ تم ہی ہو نہ کہاں شاہ بھائی کے نام پر سانس رک جاتی کہاں یہ انداز ۔
ماہم کی بچی سدھر جا ۔ تیاری کر ہم بھی جائیں گے۔
شاہ بھائی نی مانیں لہزا دماغ سے یہ فتور نکال دے
میں منا لوں گی ماہم پہلے کی بات اور تھی اب شاہ میری ہر بات مان لیتے ہیں
چلو دیکھتے ہیں اوکے
———-
پری نے آج شاہ کی فیورٹ فراک پہنی شاہ یہ فراک اس کے لیے لایا تھا
لیکن پری نے شاہ کے کئی دفعہ کہنے کے باوجود بھی نی پہنی تھی۔
پرپل کلر کا فراک جس کے دامن پہ سفید کام ہوا تھا۔ اسکے ساتھ لائٹ سا میک اپ کر کے لمبے سلیکی بال کمر پر آبشار کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔
شاہ اجلت میں روم میں داخل ہوا ۔
لیکن پری کودیکھ کے ٹھٹھک گیا ۔
شاہ کو مبہوت دیکھ پری نے سلام کیا۔
پری آج تو واقعے میں پریوں کو بھی مات دے رہی ہیں
شاہ کی بات پر پری بلش کر گی۔
ویسے پری یار مجھے آپ سے شکایت ہے شاہ نے اسکو عقب سے اپنے حصار میں لیتے ہوئے کہا
وہ کیا؟
پری یار آپ نے آج میرا فیورٹ ڈریس پہنا جبکہ مجھے آج ہی میٹنگ کے لیے لندن جانا ہے ۔
واٹ شاہ آپ اب بتا رہے ہیں
یار خفا کیوں ہورہی ہیں ایکچولی میں جانا نی تھا لیکن چھوٹے پاپا کی طبیعت خراب ہوگی تو انکی جگہ جارہا ہوں
کیا ہوا پاپا کو۔ چھوڈیے شاہ ہم دیکھ کر آئے پاپا کو
جان شاہ پریشان نہ ہوں وہ بالکلٹھیک ہیں اب ۔ بس اب یہ وقت میرا ہے ۔میں بس کچھ دیر میں نکلوں گا اس کے بعد ملتے رہنا پلیز
شاہ نے پری کو سا تھ بٹھایا
پری نے اپنا سر شاہ کی گود میں رکھا
شاہ اسکی اس حرکت پہ حیران ہوا شادی کے بعد پہلی دفعہ خود پیش قدمی کی تھی شاہ کو خوشی ہوئی۔
شاہ اسکے بالوں میں ہاتھ پھیرنے لگا تو کیسا گزرا میری پری کا دن۔
شاہ آپکو پتہ ہمارا ٹرپ جارہا ہے مری۔
شاہ کا ہاتھ ایک دم رکا اسے اب پری کی تیاری کی وجہ سمجھ یعنی کے یہ سب وہ شاہ کو مانانے کے لیے کر رہی تھی کہ وہ اسے جانے دے
شاہ بیٹا نکل لے اس سے پہلے پری کی ضد کے آگے ہارنا پڑ جائے ۔
پری مجھے دیر ہو رہی میں نکلتا ہوں
شاہ آپ جان بوجھ کہ ایسا ایکٹ کر رہے ہیں جیسے آپ نے میری بات سنی نی
لیکن میں بتا رہی ہوں میں جاٶں گی
پری یار بس کچھ دن میں خود لے جاوں گا آپکو
بالکل نی ہمیں یونی گروپ کے ساتھجانا ہے
پری ضد نی پلیز آپ جانتی ہیں میں آپکو اکیلے نی بھیج سکتا میری مجبوری سمجھ لیں
کیوں ہم اکیلے نی ہوں گے۔
پری مجھے دیر ہو رہی ہے۔پلیز جان
پری نے خفگی سے رخ موڑ لیا۔
شاہ تڑپ ہی تو گیا جان شاہ دوبارہ ایسا کبھی نہ کیجے گا میں برداشت نی کر پاوں گا اسکا رخ اپنی طرف موڑا اسکے چہرے کو اپنے ہاتھوں کے ہالے میں لیا
پری شاہ کی اس قدر جزباتیت پر حیران ہوئی پھر کچھ سوچ کر مسکرا دی۔
اوکے شاہ پری کے مان جانے پر حیران ہوا
جان شاہ اگر کچھ الٹا سیدھا کیا تو بتا رہا ہوں میں آپکو معاف نی کروں گا۔
اچھا بابا کچھ نی کرتے
اپنا بہت خیال رکھنا ۔ کو شش کرنا آپگھر ہی رہو مجھے بھی تسلی رہے گی اگر باہر جاو تو گارڈ کو لے کر جانا۔
اوکے سب خیال رہے گا آپ بھی اپنا خیال رکھنا اور جلدی آنا
حکم کریں غلام جاتا ہی نی ہے۔
شاہ آپ۔۔۔
کیا آپ شاہ نے اسکی بات کاٹی
کچھ نی جائیں
پری جانے کیوں آپ کو چھوڈ کے جاتے ہوئے اس دفعہ عجیب سا ڈر لگ رہا ہے۔شاہ دل میں پری سے مخاطب ہوا جو اس سے انجان اپنے پلان بن بنارہی تھی۔——–
ماہم سے پری نے جھوٹ بولا کے شاہ نے اسے اجازت دے دی ہے ۔
ماہم تو شاک میں ہی چلی گی یہی حلت آغا جان اور
پری کے بابا کی بھی ہوئی تھی لیکن نے پری نے جھوٹ بول کے انکوبھی مطمن کر دیا تھا پھر ماہم کیا چیز تھی۔
وہ شاہ خود لندن ہیں اسلیے مجھے آنے دیا۔
شاہ نے پری کے نمبر پہ کال کی جو اس نے ریسو نی کی اسنے آغا جان کا نمبر ملایا
السلام علیکم۔
وعلیکم السلام کہو برخودار کیسے ہو۔
آغا جان پری سے بات کروا دیں اگر وہ آپکے پاس ہے
کیا مطلب شاہ پری کو تو آپ نے خود مری جانے کی اجازت دی ہے
واٹ ۔۔ اب شاہ کی سمجھ میں پری کا مان جانا سمجھ آیا یعنی وہ اسکی غیر موجودگی میں جھوٹ بول کر نکلنے کا پلان بنا چکی تھی۔
آغاجان آپکو لگتا ہے میں انکو اکیلے جانے دیتا خاص کر جب میں خود وہاں نہ ہوں وہ جھوٹ بول کر گئی ہیں
حد ہے کسی نے مجھ سے کنفرم بھی نی کیا
شاہ وہ جھوٹ بولتی نی
وہ جھوٹ بو ل چکی ہیں ۔ آرہا ہوں واپس پھر دیکھتا ہوں انکو شاہ نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
شاہ نے غصے سے فون بند کیا۔——-
————-
ماہم چلو نہ باہر snow fall
ہورہی ہے ۔
پری نی مجھے سونا ابھی تو آئے ہیں ریسٹ کر لو پھر سب کے ساتھ چلیں گے۔
پری ماہم کو چھوڈ کر خود باہر نکل آئی
ازلان نے پری کو جاتے ہوئے دیکھا تو خود بھی باہر نکل آیا۔
پری نے اپنے پیچھے آہٹ محسوس کی اس سے پہلے کے وہ پلٹتی کسی نے اس کے ناک پر رومال رکھا وہ بے ہوش ہو گی۔
———-
پری نے آنکھ کھولی تو خو د کو ایک تاریک کمرے میں پایا ۔
سارا واقع اس کے زہن میں چلنے لگا ساتھ ہی آنکھ سے آنسو ٹپکا ۔
شاہ پلیز ہمیں بچا لیں آئندہ ہم کبھی جھوٹ نی بولیں گے آپ کی ہر بات مان لیں گے۔ ماہم نے پری کی گمشدگی کی اطلاع جب سے شاہ کو دی تھی وہ پاگلوں کی طرح اس کو ڈھونڈ رہا تھا۔
شاہ صاحب آپ صبح سے تھک گے ہوں گے آرام کریں ہم میڈم کے ملتے ہی آپکو اطلاع کر دیں گے۔ایس ۔ایچ ۔او نے کہا
اگلے ہی پل شاہ نے اسکا گریبان پکڑ لیا بغیرت آدمی میری پری نی مل رہء اور توں مجھے آرام کے مشورے دے رہا ہے۔
آغاجان نے شاہ کو پیچھے دکھیلا۔
کوئی بات نی سر میں انکی حالت سمجھ سکتا ہوں ۔ ازمیر شاہ غصے سے چلا گیا ۔
گاڑی بیٹھا جب ایک انجان نمبر سے اسے ایک ویڈیوآئی۔——–
ازلان کو دیکھ پری کو حیرت ہوئی ۔ تم نے کیوں کیا ایسا۔
ازلان نے پری کو ماضی میں واقعہ یاد کروایا۔
ازلان پلیز مجھے جانے دو۔
نی ابھی تو کھیل شروع ہوا ہے کہتے ہی موبائل کیمرہ اون کیا۔
شاہ کو یہاں بلاو ۔
پری نے نفی میں سر ہلایا وہ جان گی تھی ازلان کی دشمنی شاہ سے ہے اور وہ اسے یہاں صرف شاہ کی کمزوری کی وجہ سے لایا ۔
اگلے ہی پل ازلان نے پری کے چہرے پہ تھپڑ مارا۔
ازلان نے شاہ کو وہ ویڈیو سینڈ کی۔————-
شاہ جیسے جیسے ویڈیودیکھ رہاتھا ویسے اسکے چہرے کی رنگت بدلتی گی۔
ازلان پری پہ ہاتھ اٹھا کہ بہت غلط کیا ۔پہلے تو صرف زخم دیے تھے نہ اب یہ ہاتھ ہی اکھاڑ دوں گا بس ایک دفعہ پری مل جائے مجھے۔
یااللد اس گنہگار کی لاج رکھنا میری پری کی حفاظت کرنا ۔تبھی شاہ کے سیل پر اسی نمبر سے کال آئی۔
شاہ نے فون اٹھاتے گالی دی ازلان مرد ہے تو مجھ سے مقابلہ کر ۔
نہ نہ شاہ اتنا غصہ ٹھیک نی ۔ پری کو دیکھنا چاہو گے ساتھ ہی ازلان نے ویڈیو کال کی۔
شاہ کی بیقرار نظریں پری کی طرف اٹھیں شاہ کو لگا جیسے اسکا دل مٹھی بیھنچ دیا گیا ہو۔ بکھرے بال دوپٹہ ندارد۔ گا ل پہ انگلیاں کے نشان
بغیرت آدمی توں بہت پچھتائے گا
میری چھوڈو پہلے تم اپنی دیکھو فی الحال تو تم پچھتا ریے ہو۔
ازلان نے کہتے ساتھ پری کے جبڑے کو زور سے دوبوچا شاہ کے صبر کی انتہا ہوئی ازلان ہاتھ ہٹا اپنا مجھ سے بات کرو
شاہ ہمیں بچا لیں
پری میری جان کچھ نی ہو گا ۔
ایک شرط ہے میں اسے کچھ نی کروں گا
بولوں میں ہر شرط پوری کروں گا شاہ کو اپنی نی پری کی فکر تھی۔
ایسا ہے کے اپنے ہاتھ ویسے ہی زخمی کرو جیسے میرے کیے تھے ۔
شاہ نے فون کو سٹینڈ میں لگا یا اور گاڑی سے ڈھونڈنے پر اسے بلیڈ ملگیا
شاہ نے کٹ لگایا پری تڑپ کر چلائی شاہ آپ اسکی نی مانیں ۔ازلان نے ایک تھپڑ پری کو لگایا۔
شاہ چلایا اب تم پری کو ہاتھ نی لگاو گے ۔ اوکے ویسے بھی تم نے میری بات مانی ہے اس لیے اگلے چوبیس گھنٹوں تک پری کو کچھ نی کہوں گا۔
ساتھ ہی کال کاٹ دی۔ شاہ نے نمبر ٹریپ کروا کے جگہ کا پتہ چلایا۔
پری بس کچھ دیر میں آرہا ہوں۔
————
شاہ اپنے آدمیوں کے ساتھ مطلوبہ جگہ پہنچا۔
مجھے وہ ازلان زندہ چاہیے کوئی گولی نیچلائے گا کچھ بھی ہو جائے۔
شاہ اور اس کے آدمی اس پرانی فیکٹری میں پھیل گے۔
شاہ کو ایک کمرے سے پری کے کراہنے کی آواز آئی
شاہ نے دروازہ توڑا ۔
سامنے کا منظر دیکھ شاہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا ازلان پری کے چہرے کو ہاتھوں میں لیے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کر رہا تھا اورشاہ اسے مارنے لگا
ازلان مار کھاتے کھاتے ادھا موھا ہوگیا۔
ازلان بھی جوابی کاروائی کر رہا تھالیکن وہ شاہ کا مقابلہ نی کر پارہا تھا۔
شاہ نے اسے چھوڈ
پری کی طرف بڑھا پری میری جان ٹھیک ہو آپ۔
شاہ مجھے معاف کر دیں ۔
شاہ نے اردگرد دیکھا اسے بائیں طرف پری کا دوپٹہ نظر آیا۔ دوپٹہ پری کو اڑھایا۔ احمد کو کال کر کے اندر بلایا
احمد تم پر بھروسہ کر کے اپنی جان تمہارے حوالے کر رہا ہوں پری کو گھر پہچانا تمہاری زمہداری ہے
ہمیشہ مسکرانے والا احمد بھی آج بلا کا سنجیدہ تھا
سر احمد اپنی جان کیبازی لگاکر بھی اپنی بہن کو صحیح سلامت گھر بھی پہنچائے گا۔
او
شاہ نے تشکر بھری نظروں سے احمد کو دیکھا پھر اسے جانے کا اشادہ کیا ۔
شاہ آپ۔
پری آج کوئی ضد نی احمد کے ساتھ گھر جائیں۔
شاہ پھر اپنے آدمیوں کی طرف متوجہ ہوا چھوڑوں اسے
ازلان کے سامنے بیٹھا۔
ہاں کو نسا ہاتھ پری پر اٹھایا تھا شاید دایاں۔ ساتھ شاہ نے اسکا ہاتھ توڑ دیا۔
ازلان کی دلدوز چیخ پر پری کے پاوں تھمے سسٹر چلیں سر غصہ ہوں گے
احمد وہ شاہ۔
انھیں کچھ نی ہو گا ۔
اوہ مجھے لگتا بایاں ہاتھ تھا ساتھ ہی شاہ نے اسکا بایاں ہاتھ بھی توڑ دیا۔
ازلان درد سے تڑپ رہا تھا شاہ اپنے آدمیوں سے بولا اٹھاو اور ملک عباد تک پہنچا دو اسے کہنا شکر کرے کے اسکی زندگی بخش دی ۔———پندرہ دن بعد
ماہم شاہ مجھ سے بات ہی نی کرتے میں کیا کروں ۔ یار تم شاہ سے معافی مانگ لو ۔ماہم کی بات پر پری نے اثبات میں سر ہلایا۔
ماہم کے دل میں ازلان کے لیے محبت آج بھی تھی اسکے اتنا برا کرنے کرنے کے بعد بھی وہ اسے نفرت نی ہوئی اس سے۔ پری پیار کھو دینے کا درد میں جانتی ہوئی میں نی چاہتی تم بھی اس تکلیف سے گزدو ایک آنسو ماہم کی آنکھ سے نکلا۔
ماہم تم کیوں رو رہی ہو کچھ نی۔
ماہم نے یہ راز ہمیش کے لیے ہ اپنے دل میں دفن کر لیا۔
عباد ملکے اپنی فیملی کے ساتھ لندن شفٹ ہوگے تھے——-
شاہ آپ معاف کر دیں ہیں پری جس درد اور تکلیف سے میں گزرا ہوں آپکو اندازہ بھی ہے ۔
اگر آپکو کچھ ہو جاتا تو میں جیتے جی مر جاتا۔
یقین کریں کوئی کسی کے لیے نی مرتا لیکن پری کے لیے شاہ مر جائے گا۔
پری نے روتے ہوئے شاہ کے سامنے ہاتھجوڑ دیے۔
بس شاہ بھلا کب ایسا چاہ سکتا تھا شاہ نے فوراً پری کے ہاتھ تھامے
پری آپ وہ انسان ہیں جس کو میرا خون بھی معاف ہے۔
اچھا تو اتنے دن ہم سے بات کیوں نی کی ۔
وہ اسلیے میں غصے میں تھا اور میں نی چاہتا تھا غصے میں آپکو خچھ غلط بول دوں۔
پری کو اپنے قریب کرتے ہوئے بولا
اور اب بھی ناراض ہیں۔
بالکل نی آپ سے مزید ناراضگی میں افورڈ نی کر سکتا ۔
وہ کیوں پری نے پوچھا۔
ایک آغاجان جو میری جان لینے کے در پہ ہیں کیوں کہ میری وجہ سے انکی پوتی اداس ہے اور دوسری شاہ نے پری کے کان کے قریب سرگوشی کی آپ سے مزید دوری میں برداشت نی کر سکتا ۔ آپ کے پاس ہوتے ہوئے بھی جزبات پہ قابو پانا بہت مشکل ہے یار۔
شاہ کی بات پہ پری کا چہرہ شرم سے لال ہو گیا۔
پری جانے لگی شاہ نے دوبارہ سے اسے اپنے قریب کیا اور ہاں ہم کل گاوں جائیں گے۔
احمد کی شادی ہے ۔
واہ آپ اب بتا رہے ہیں ۔
بتا تو دیا ہے یار۔
اللد احمد بھائی کو خوش رکھے شاہ نے آمین بولا۔
پری ایک وش پوری کریں گی
جی آج آپ شادی والا جوڑا پہن لیں میں اپنی زندگی کے ساتھ ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتا ہوں ۔ پری نے اثبات میں سر ہلایا وہ اب مزید اس انسان کو کوئی تکلیف دینا نی چاہیتی تھی جس کے لیے اپنی زات سے پہلے پری کی زات تھی۔
دونوں نے کمرے کیطرف قدم بڑھائے۔
ایک خوشگوار زندگی انکی منتظر تھی
here is the beingning of another beautiful journey .
ختم شد۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...